Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
(اور اے پیغمبر ! ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کیجیے ان میں سے ایک کے لیے انگوروں کے دو باغ بنائے اور ان دونوں باغوں کو کھجور کے درختوں کی باڑ سے گھیرا اور ان کے درمیان کھیتی کے قطعات بھی رکھے۔
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلاً رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِھِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰـھُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَیْنَھُمَا زَرْعًا۔ (الکہف : 32) (اور اے پیغمبر ! ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کیجیے ان میں سے ایک کے لیے انگوروں کے دو باغ بنائے اور ان دونوں باغوں کو کھجور کے درختوں کی باڑ سے گھیرا اور ان کے درمیان کھیتی کے قطعات بھی رکھے۔ ) قریش کے لیے ایک تمثیل نبی کریم ﷺ باقی انبیاء و رسل کی طرح اہل دنیا کی اصلاح کے لیے تشریف لائے تھے۔ اصلاح کا عمل چونکہ خیالات کی تبدیلی اور قلب و دماغ کی درستی سے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ حتی المقدور اپنے مخاطب لوگوں کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے غلط خیالات کو صحیح خیالات سے بدلتے ہیں، ان کے شبہات کا ازالہ کرتے ہیں اور اگر وہ سادہ انداز میں بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں تو اپنی دعوت کی تسہیل کے لیے مثالوں سے بھی کام لیتے ہیں اور ان پر جو کتاب اترتی ہے اس کے ذریعے پروردگار انھیں مختلف طریقوں سے رہنمائی دیتا ہے۔ چناچہ اسی سلسلے کی یہ آیات ہیں جن میں روئے سخن تو قریش ہی کی طرف ہے کیونکہ وہی آنحضرت ﷺ کی دعوت کے اولین اور براہ راست مخاطب تھے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے آج دنیا کا ہر فرد اس کا مخاطب ہے۔ اس میں آنحضرت ﷺ سے کہا جارہا ہے کہ اہل مکہ کو دو آدمیوں کی مثال دے کر جن میں سے ایک مومن ہے اور دوسرا کافر یہ بات سمجھایئے کہ ایک کافر دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایک مومن کس نگاہ سے۔ اس طرح ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوسکیں۔ مثال میں جن دو شخصوں کا ذکر ہے ان میں جیسے عرض کیا ایک مومن ہے اور دوسرا کافر اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ کافر کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بیشتر نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن مومن وہ اگرچہ ایمان کی دولت اور قلب کی آسودگی سے مالامال ہے لیکن دنیوی نعمتوں کے اعتبار سے تہی دامن ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس کافر شخص کو جو نعمتیں دی گئی تھیں اس کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ تمثیل اور اہل عرب میں مطابقت سرزمینِ عرب چونکہ ایک بےآب وگیاہ اور بنجر زمین تھی جس میں روئیدگی اور سبزہ کی انتہائی کمیابی تھی۔ زمین سنگلاخ اور ہوا آتش افشانی کرتی تھی اور لوئوں کی لپٹ اور باد صرصر کے طوفانوں کا وہ زور کہ الامان و الحفیظ۔ کہیں کہیں کھجوروں کے جھنڈ دکھائی دیتے تو لوگ اسے جنت سمجھتے۔ ایسے لوگوں کی نگاہوں میں باغ سب سے بڑی نعمت تھی۔ اس لیے قصداً پروردگار نے باغ کا ذکر فرمایا۔ تأثر یہ دینا مقصود ہے کہ اس شخص کو وہ نعمت دی گئی تھی جو اس ملک میں انتہائی بیش قیمت تھی اور پھر اپنی نعمت کی تکمیل کا ذکر فرماتے ہوئے یہ فرمایا کہ ہم نے اسے ایک نہیں دو باغ دیئے تھے۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص اسلوب ہے کہ جب وہ کسی نعمت کی فراوانی کا ذکر کرتا ہے تو ایک کی بجائے دو کا ذکر کرتا ہے۔ اہل جنت کو بےپایاں نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ جہاں ان کو ایک سے ایک بڑھ کر نعمت ملے گی وہیں ان کی قدرافزائی کا یہ عالم ہوگا وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتَان یعنی ان کو دو باغ بھی عطا کیے جائیں گے، حالانکہ اہل جنت کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر جنتی کو وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کرے گا، تو دو کا کیا ذکر، وہ اگر سینکڑوں باغ بھی مانگے تو وہ بھی دیئے جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو کا عدد تکمیلِ نعمت کا اظہار ہے اس سے معدود کو متعین کرنا مقصود نہیں۔ اس کے بعد ان باغوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ نقشہ وہ ہے جو کسی بھی باغ کی بہترین تصویر ہے۔ عرب جس باغ کو نمونے کا باغ سمجھتے تھے اور حقیقت میں بھی ایسا باغ نمونے ہی کا باغ ہوتا تھا اس کی انھیں خوبیوں کا ذکر کیا جاتا تھا جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان میں تین خصوصیات کا ذکر تو اس آیت کریمہ میں ہے اور ایک کا ذکر دوسری آیت میں آرہا ہے۔ پسندیدہ باغ کی خصوصیات اس باغ کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں انگوروں کی البیلی شاخیں نگاہوں کو تراوت بخشتی تھیں۔ انگور کی بیل کا گھنا سایہ تو ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے پتوں کی گہری ہریالی بجائے خود اپنے اندر غیرمعمولی حسن رکھتی ہے۔ باغ میں داخل ہونے والا اس کے اس حسن سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ اس باغ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کے اردگرد کھجور کے درختوں کی باڑ لگائی گئی تھی۔ اس کے دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ باغ باہر ہی سے انتہائی خوشنما معلوم ہوتا تھا کیونکہ قطاروں میں لگے ہوئے کھجور کے درخت خوبصورتی میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ جن لوگوں نے کھجور کے باغات دیکھے ہیں وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ کوئی درخت بھی اپنے قد و قامت، اپنے پتوں کے رنگ اور فضا میں لہراتی ہوئی شاخوں اور پھلوں کی خوش رنگی میں کھجور کے درخت کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ اور دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ عرب کے موسم گرما میں چلنے والی باد صر صر نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ حیوانوں اور درختوں کے لیے بھی انتہائی مہلک اور اذیت ناک چیز ہے۔ انسان تو اپنے کپڑوں میں لپٹ کر اور کسی اوٹ کے پیچھے بیٹھ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ زہریلی ہوا ان کے نتھنوں میں داخل ہو کر انھیں اندرونی طور پر زخمی نہ کردے، لیکن درختوں، پودوں اور بیلوں کو بچانے کے لیے وہ یہ انتظام کرتے تھے کہ ان کے گرد کھجوروں کے درختوں کی باڑ لگاتے تھے۔ یہ درخت اتنا مضبوط اور اتنی قوت مدافعت کا مالک ہے کہ نہ صرف خود باد صر صر کا مقابلہ کرتا ہے بلکہ باغ کے اندرونی حصوں کو حتی الامکان محفوظ بھی رکھتا ہے۔ تیسری خصوصیت اس باغ کی یہ تھی کہ اس باغ میں صرف انگوروں کی بیلیں ہی پھیلی ہوئی نہیں ہوتی تھیں بلکہ کچھ قطعات خالی بھی چھوڑے جاتے تھے تاکہ حسب ضرورت اس میں دوسری چیزیں کاشت کی جاسکیں۔
Top