Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 66
قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا
قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو مُوْسٰي : موسیٰ هَلْ : کیا اَتَّبِعُكَ : میں تمہارے ساتھ چلوں عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ تُعَلِّمَنِ : تم سکھا دو مجھے مِمَّا : اس سے جو عُلِّمْتَ : جو تمہیں سکھایا گیا ہے رُشْدًا : بھلی راہ
حضرت ِ موسیٰ نے حضرت خضر سے کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں، اس شرط کے ساتھ کہ جو علم آپ کو عطا ہوا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھائیں۔
قَالَ لَـہٗ مُوْسٰی ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔ (الکہف : 66) (حضرت ِ موسیٰ نے حضرت خضر سے کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں، اس شرط کے ساتھ کہ جو علم آپ کو عطا ہوا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھائیں۔ ) حصولِ علم کے لیے ادب بہت ضروری ہے اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی بات جس پر توجہ دینا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جلالتِ شان کے باوجود کس قدر ادب و احترام کے ساتھ حضرت خضر (علیہ السلام) سے علم کے حصول کی درخواست کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصول علم اور استفادہ کے لیے ادب اور احترام بہت ضروری ہے۔ بالخصوص ایسا علم جس کا تعلق انسانی اصلاح سے ہو آدمی اس کی حقیقی معرفت سے کوسوں دور رہتا ہے جب تک کہ علم اور معلم کی قدر و منزلت کا حق نہ پہچانے اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کوئی ایسا کمال جو اپنا احترام رکھتا ہو وہ اگر کسی اپنے سے کم درجہ شخص کے پاس بھی ہو اس کے حصول کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یقینا حضرت خضر (علیہ السلام) سے افضل ہیں لیکن آپ ( علیہ السلام) ان سے اس علم کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ان کو عطا فرمایا ہے۔
Top