Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 202
اُولٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمْ : ان کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
یہی لوگ ہیں جن کو ان کے کیے کا حصہ ملنا ہے اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے
اُولٰٓئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّاکَسَبُوْا ط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ (یہی لوگ ہیں جن کو ان کے کیے کا حصہ ملنا ہے اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے) (202) اس آیت کریمہ میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ جن لوگوں نے صرف دنیا مانگی، ان کے لیے پروردگار نے فرمایا کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ہم ان کو دنیا دیں گے لیکن یہ آخرت میں محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ان پسندیدہ لوگوں کا ذکر کیا جو دنیا اور آخرت دونوں مانگتے ہیں اور دونوں میں اللہ سے بھلائیوں کے طلب گار ہوتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا کہ انھوں نے اللہ کے احکام کی تعمیل میں جس طرح زندگی گزاری جیسی کچھ محنت کی، جس طرح مشکلات کا سامنا کیا۔ بہت سی محرومیوں پر صبر کیا، پھر غلبہ دین کی کوششوں کے سلسلے میں صعوبتیں اٹھائیں۔ ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جس کا انھیں آخرت میں اللہ کی طرف سے اجروثواب نہ ملے۔ ان کی ہر نیکی محفوظ ہے اور ہر نیکی وہاں اپنا اجر پائے گی۔ جس طرح مزدور کی محنت ایک دیانت دار مالک کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اسی طرح پروردگار جیسا کریم اپنے بندوں کی کسی محنت اور کسی اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ انھوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جو کوششیں کی ہیں جب انھیں ان کوششوں کا صلہ ملے گا تو حدیث میں آتا ہے کہ وہ تمنا کریں گے کہ کاش اللہ کے دین کے راستے میں ہماری کھالیں کاٹی گئی ہوتیں اور آج ہم زیادہ زیادہ اس کا اجروثواب پاتے۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ قرآن کریم میں یہ بات متعدد دفعہ دہرائی گئی ہے کہیں تنبیہ اور تہدید کے انداز میں اور کہیں تحسین اور حوصلہ افزائی کے انداز میں۔ یہاں سیاق کلام دلیل ہے کہ تسلی اور تحسین کے لیے یہ جملہ فرمایا گیا ہے۔ بتانا شاید یہ مقصود ہے کہ تمہیں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جن مصائب سے گزرنا پڑ رہا ہے اور ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں دینی زندگی گزارنے کے لیے تمہیں جس طرح صبرآزما مراحل سے واسطہ ہے دنیا میں بھی اس کا اجروثواب دور نہیں۔ مسلمانوں نے چند ہی سالوں میں صورتحال کو بدلتے دیکھا۔ ایک نئی ریاست وجود میں آئی۔ طاقت کے پیمانے بدل گئے۔ مذاق اڑانے والے عبرت بن کر رہ گئے۔ جغرافیہ تبدیل ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فتنے مٹ گئے اور اللہ کا دین غالب آگیا۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے اس میں ایک مومن جب جنت اور خدا کی رضا کی صورت میں اپنا اجر دیکھے گا تو وہ یوں محسوس کرے گا کہ عمل اور اجر میں کوئی فاصلہ نہیں۔ میرا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مجھے مزدوری دے دی گئی۔ حدیث شریف میں آتا ہے : مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُـہٗ ” جو شخص مرگیا اس کی قیامت تو آگئی۔ “ نیک آدمی دفن ہوتے ہی جنت کے مبادیات کی لذت محسوس کرنے لگتا ہے اور برا آدمی اپنی بداعمالیوں کی سزا کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ آنکھیں بند ہوتے ہی وہ کیفیات انسان پر طاری ہونے لگتی ہیں جس کی تعبیر وہ قیامت کے دن دیکھے گا۔ اس سے آپ اندازہ کیجئے کہ اس سے زیادہ سرعت حساب اور کیا ہوگی کہ زندگی کا فانوس بجھا تو عمل اور جزا کا فرق مٹ گیا۔ ادھر انسان نے زندگی کا بوجھ اتارا ادھر جزاوسزا کی دنیا اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
Top