Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اُمَّھٰتُكُمْ
: تمہاری مائیں
وَبَنٰتُكُمْ
: اور تمہاری بیٹیاں
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
وَعَمّٰتُكُمْ
: اور تمہاری پھوپھیاں
وَخٰلٰتُكُمْ
: اور تمہاری خالائیں
وَبَنٰتُ الْاَخِ
: اور بھتیجیاں
وَبَنٰتُ
: بیٹیاں
الْاُخْتِ
: بہن
وَاُمَّھٰتُكُمُ
: اور تمہاری مائیں
الّٰتِيْٓ
: وہ جنہوں نے
اَرْضَعْنَكُمْ
: تمہیں دودھ پلایا
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
مِّنَ
: سے
الرَّضَاعَةِ
: دودھ شریک
وَ
: اور
اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں کی مائیں
وَرَبَآئِبُكُمُ
: اور تمہاری بیٹیاں
الّٰتِيْ
: جو کہ
فِيْ حُجُوْرِكُمْ
: تمہاری پرورش میں
مِّنْ
: سے
نِّسَآئِكُمُ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْ
: جن سے
دَخَلْتُمْ
: تم نے صحبت کی
بِهِنَّ
: ان سے
فَاِنْ
: پس اگر
لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ
: تم نے نہیں کی صحبت
بِهِنَّ
: ان سے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَحَلَآئِلُ
: اور بیویاں
اَبْنَآئِكُمُ
: تمہارے بیٹے
الَّذِيْنَ
: جو
مِنْ
: سے
اَصْلَابِكُمْ
: تمہاری پشت
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَجْمَعُوْا
: تم جمع کرو
بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ
: دو بہنوں کو
اِلَّا مَا
: مگر جو
قَدْ سَلَفَ
: پہلے گزر چکا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
(تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں، جنھوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے، ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشوقائم ہوچکا ہو اور اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس نکاح میں اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرومگر جو پہلے ہوچکا، اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُـکُمْ وَبَنٰـتُـکُمْ وَاَخَوٰ تُـکُمْ وَعَمّٰـتُـکُمْ وَخٰلٰـتُـکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰـتُـکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَـکُمْ وَاَخَوٰ تُـکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ ز فَاِنْ لَّمْ تَـکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْـکُمْ ز وَحَلَآ ئِلُ اَبْنَـآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَ بِکُمْ لا وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَاقَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا لا (تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں، جنھوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے، ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشوقائم ہوچکا ہو اور اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس نکاح میں اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرومگر جو پہلے ہوچکا، اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے) (النسآء : 23) محرمات شرعیہ کی تفصیل باپ کی منکوحہ سے نکاح کی حرمت کو بیان کرنے کے بعد ان تمام عورتوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے جنھیں محرمات کہا جاتا ہے۔ یعنی جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ ان کی چار قسمیں ہیں۔ 1 محرمات نسبیہ یعنی وہ عورتیں جو رحمی رشتے کی قربت قریبہ کے باعث حرام ہوئی ہیں۔ یہ ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ 2 محرمات رضاعیہ وہ عورتیں جو رضاعت کی وجہ سے حرام ہوئی ہیں، انھیں محرماتِ رضاعیہ کہا جاتا ہے۔ وہ بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ 3 محرمات بالمصاہرہ وہ عورتیں جو بیوی سے تعلق کی وجہ سے حرام ہوئی ہیں، انھیں محرماتِ بالمصاہرہ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔ 4 وہ عورتیں جو کسی کے نکاح میں ہیں وہ دوسرے کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔ یہ اس وقت تک حرام ہیں جب تک دوسرے کے نکاح میں ہیں اور اگر یہ نکاح کا تعلق ختم ہوجائے تو پھر یہ حرمت ختم ہوجاتی ہے۔ محرمات نسبیہ محرمات نسبیہ میں سے جن محرمات کو بیان کیا گیا ہے انھیں ہم ایک ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔ 1 اُمَّھٰـتُـکُمْ : ” تمہاری مائیں “۔ اس کا اطلاق جس طرح سگی ماں پر ہوتا ہے اسی طرح سوتیلی ماں پر بھی ہوتا ہے۔ پھر اسی حکم میں باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی شامل ہیں اور یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ماں سے مراد ہر وہ عورت ہے جس سے باپ نے نکاح کیا ہو۔ چاہے اس سے میاں بیوی کے تعلق کی نوبت نہ آئی ہو۔ بس صرف عقد ہوجانے سے بیٹے کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر باپ نے کسی عورت سے ناجائز تعلق پیدا کیا ہو تو اس ناجائز تعلق کی وجہ سے وہ بھی بیٹے پر حرام ہے۔ اگرچہ سلف میں سے بعض بزرگوں نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ تعلق زن وشو تو بڑی بات ہے اگر باپ نے کسی عورت کو شہوت سے ہاتھ بھی لگایا ہو تو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح سلف میں اس امر پر بھی اختلاف رہا ہے کہ جس عورت سے بیٹے کا ناجائز تعلق رہ چکا ہو وہ باپ پر حرام ہے یا نہیں۔ اور جس مرد سے ماں یا بیٹی کا ناجائز تعلق رہاہویا بعد میں ہوجائے اس سے نکاح ماں اور بیٹی دونوں کے لیے حرام ہے یا نہیں ؟ اس باب میں فقیہانہ بحثیں بہت طویل ہیں۔ مگر یہ بات معمولی غور وفکر سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی شخص کے نکاح میں ایسی عورت کا ہوناجس پر اس کا باپ یا اس کا بیٹا بھی نظر رکھتاہو یا جس کی ماں یا بیٹی پر بھی اس کی نگاہ ہو ایک صالح معاشرت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہوسکتی۔ شریعتِ الٰہی کا مزاج اس معاملہ میں ان قانونی موشگافیوں کو قبول نہیں کرتا جن کی بنا پر نکاح اور غیرنکاح اور قبل نکاح اور بعد نکاح اور لمس اور نظر وغیرہ میں فرق کیا جاتا ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ خاندانی زندگی میں ایک ہی عورت کے ساتھ باپ اور بیٹے کے یا ایک ہی مرد کے ساتھ ماں اور بیٹی کے شہوانی جذبات کا وابستہ ہونا سخت مفاسد کا موجب ہے۔ اور شریعت اسے ہرگز برداشت نہیں کرسکتی۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : من نظر الی فرج امرأۃ حرمت علیہ امہا وابنتھا ” جس شخص نے کسی عورت کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالی ہو اس کی ماں اور بیٹی دونوں اس پر حرام ہیں “ اور لا ینظر اللہ الی رجل نظر الی فرج امرأۃ وابنتھا ” اللہ اس شخص کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتاجو بیک وقت ماں اور بیٹی دونوں کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالے “۔ ان روایات سے شریعت کا منشا صاف واضح ہوجاتا ہے۔ 2 وَبَنٰـتُکُمْ :” اور تمہاری بیٹیاں “ تم پر حرام کی گئی ہیں۔ جس طرح صلبی بیٹی حرام ہے، اسی طرح اس کی لڑکی اور پوتی بھی حرام ہیں۔ یعنی اس حرمت کا اطلاق بیٹی، پوتی، پڑپوتی، نواسی، پڑنواسی، پر ہوتا ہے۔ اسی طرح سوتیلی لڑکی، جو دوسرے شوہر کی ہو اور بیوی ساتھ لائی ہو۔ اس سے نکاح کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ البتہ جو لڑکا یا لڑکی صلبی نہ ہو بلکہ لے پالک ہو ان سے اور ان کی اولاد سے نکاح جائز ہے بشرطیکہ کسی دوسرے طریقہ سے حرمت نہ آئی ہو۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس نطفہ سے جو لڑکی پیداہو وہ بھی بیٹی کے حکم میں ہے اس سے بھی نکاح درست نہیں۔ 3 وَاَخَوٰ تُکُمْ :” اور تمہاری بہنیں “ بھی تم پر حرام ہیں۔ اس کا اطلاق جس طرح سگی بہن پر ہوتا اسی طرح علاتی (باپ شریک) اور اخیافی (ماں شریک) پر ہوتا ہے۔ یہ بھی بھائی پر حرام ہیں۔ 4 وَعَمّٰتُکُمْ ” اور تمہاری پھپھیاں “ بھی تم پر حرام ہیں۔ وہ چاہے باپ کی حقیقی بہنیں ہوں، علاتی ہوں یا اخیافی ہوں۔ تمام حرمت کے حکم میں داخل ہیں۔ 5 وَخٰلٰـتُکُمْ : ” اور تمہاری خالائیں “ بھی تم پر حرام ہیں۔ اس سے مراد والدہ کی بہنیں ہیں۔ چاہے وہ حقیقی ہوں، علاتی ہوں یا اخیافی ہوں۔ 6 وَبَنٰتُ الْاَخِ : ” اور بھائی کی بیٹیاں “ یعنی بھتیجیوں سے بھی چچا کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔ یہ بھتیجیاں چاہے حقیقی ہوں، علاتی ہوں یا اخیافی یعنی تینوں طرح کے بھائیوں کی بیٹیوں سے نکاح حرام ہے۔ 7 وَبَنٰتُ الْاُخْتِ : ” اور بہن کی بیٹیاں “ بھی تم پر حرام کی گئی ہیں۔ ان میں بھی وہی تعمیم ہے کہ چاہے حقیقی ہوں، علاتی ہوں یا اخیافی ہوں۔ یہ سات محرماتِ شرعیہ ہیں، جن کی حرمت ابدی ہے۔ اس حرمت کا سبب ان کا رحمی رشتہ اور قرابتِ قریبہ ہے۔ پروردگار کو یہ ہرگز منظور نہیں کہ رحمی رشتے کے تقدس کو جنسی آلودگیوں سے آلودہ کیا جائے۔ پھر اس رشتے میں جو گہرائی ہے اس کا بھی تقاضایہ ہے کہ اس پر صہری رشتوں کا سایہ نہ پڑنے دیا جائے تاکہ یہ خون کے رشتے ہر طرح کے جنسی جذباتِ سے محفوظ رہیں۔ محرمات رضاعیہ اب ہم ان محرمات کی تفصیل بیان کرتے ہیں، جو رضاعت کی وجہ سے حرام ہیں۔ برصغیر میں رضاعت کے رشتے کی وہ اہمیت نہیں جو عرب میں رہی ہے۔ لیکن اسلام نے اس رشتے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ وہ اس رشتے کو وہی اہمیت دیتا ہے جو رحمی رشتوں کو دیتا ہے۔ جو شخص کسی عورت کے سینے سے دودھ پیتا ہے وہ اگرچہ اس کی حقیقی ماں نہیں لیکن اس کی آغوش کے لمس اور اس کی چھاتیوں کی گرمی اور اس کے خون جگر نے دودھ کی صورت میں اس کے اندر اتر کر اسے ماں کا احترام اور وقار دے دیا ہے۔ جس طرح حقیقی ماں کا دودھ بچے کے رگ وپے میں دوڑتا ہے اور وہ ہر نازک موقعہ پر اپنے دودھ کے حوالے سے بات کرتی ہے کہ اگر تم نے یہ کام کیا تو میں تمہیں کبھی دودھ نہیں بخشوں گی۔ اسی طرح رضاعی ماں بھی دودھ کے اسی تقدس کے باعث اپنے رضاعی بیٹے کے احساسات کا حصہ بن جاتی ہے۔ جس طرح اس کا پیٹ اس کے دودھ سے سیراب ہوتا ہے اسی طرح اس کے جذبات اس تعلق سے متأثر ہوتے ہیں۔ اس طرح سے وہ دودھ پلانے والی عورت بچے کی ماں بن جاتی ہے اور اس کا شوہر باپ کے حکم میں شامل ہوجاتا ہے اور تمام وہ رشتے جو حقیقی ماں اور باپ کے تعلق سے حرام ہوتے ہیں رضاعی ماں اور باپ کے تعلق سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ اس حکم کا ماخذ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے : یحرم من الرضاع مایحرم من النسب ” جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہی رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں “۔ البتہ ! اس امر میں اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک جتنی مقدار سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اتنی ہی مقدار سے اگر بچہ کسی کا دودھ پی لے تو حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ مگر امام احمد کے نزدیک تین مرتبہ پینے سے اور امام شافعی کے نزدیک پانچ دفعہ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ حرمت رضاعت اسی زمانہ میں دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن میں دودھ پینے کا زمانہ ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : انما الرضاعۃ من المجاعۃ ” رضاعت سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے، وہ اسی زمانہ میں دودھ پینے سے ہوتی ہے، جس زمانہ میں دودھ پینے سے بچہ کا نشو و نما ہوتا ہے “ اگر کسی نے شیرخوارگی کی عمر کے بعد کسی خاتون کا دودھ پیا تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے اس نے پانی پی لیا۔ حضرت ام سلمہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس کی یہی رائے ہے۔ حضرت علی ( رض) سے بھی ایک روایت اسی معنی میں آئی ہے۔ زہری، حسن بصری، قتادہ، عکرمہ، اور اوزاعی بھی اسی کے قائل ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ اڑھائی سال تک اور امام مالک دو سال سے کچھ عرصہ اوپر ہونے تک احتیاطاً مدت رضاعت تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ بزرگوں کی رائے یہ ہے کہ کسی عمر میں بھی دودھ پیا جائے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ یہی رائے حضرت عائشہ ( رض) کی ہے۔ حضرت علی ( رض) سے بھی صحیح تر روایت اسی کی تائید میں منقول ہے اور فقہاء میں سے عروہ بن زبیر، عطاء لیث بن سعد اور ابن حزم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ رضاعت کے حوالے سے جو عورتیں حرام کی گئی ہیں، ان میں سب سے پہلے 1 وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَـکُمْ ” تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے “۔ چاہے ایک دفعہ پلایاہو اور چاہے متعدد دفعہ۔ 2 وَاَخَوٰ تُـکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ ” اور رضاعت کے رشتے سے تمہاری بہنیں “ ان سے بھی نکاح حرام ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب کسی لڑکی یا لڑکے نے ایام رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پی لیا، وہ عورت اس کی رضاعی والدہ بن گئی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ بن گیا۔ اس عورت کی نسبی اولاد اس کے بہن بھائی بن گئے اور اس عورت کی بہنیں ان کی خالائیں بن گئیں اور اس عورت کا جیٹھ، دیور ان بچوں کے رضاعی چچا بن گئے اور اس عورت کے شوہر کی بہنیں ان بچوں کی پھوپھیاں بن گئیں اور باہم ان سب میں حرمت رضاعت ثابت ہوگئی۔ نسب کے رشتہ سے جو نکاح آپس میں حرام ہیں رضاعت کے رشتہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : یحرم من الرضاعۃ مایحرم من الولادۃ اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے : ان اللّٰہ حرم من الرضاعۃ ما حرم من النسب۔ اس تعلق کی وسعت دکھانے کے لیے ہم معارف القرآن سے چند مسائل نقل کرتے ہیں : مسئلہ اگر ایک لڑکے اور ایک لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا تو ان دونوں کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح رضاعی بھائی اور رضاعی بہن کی لڑکی سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ رضاعی بھائی یا رضاعی بہن کی نسبی ماں سے نکاح جائز ہے۔ اور نسبی بہن کی رضاعی ماں سے بھی حلال ہے اور رضاعی بہن کی نسبی بہن سے اور نسبی بہن کی رضاعی بہن سے بھی نکاح جائز ہے۔ مسئلہ منہ یا ناک کے ذریعہ ایام رضاعت میں دودھ اندر جانے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اور اگر اور کسی راستہ سے دودھ اندر پہنچادیا جائے یا دودھ کا انجکشن دے دیا جائے تو حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ مسئلہ عورت کے دودھ کے علاوہ کسی اور دودھ ( مثلاً چوپائے کا دودھ یا کسی مرد کا) سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ مسئلہ دودھ اگر دوا میں یا بکری، گائے، بھینس کے دودھ میں ملا ہواہوتو اس سے حرمت رضاعت اس وقت ثابت ہوگی جب کہ عورت کا دودھ غالب ہو اور اگر دونوں برابر ہوں تب بھی حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے، لیکن اگر عورت کا دودھ کم ہے تو یہ حرمت ثابت نہ ہوگی۔ مسئلہ اگر مرد کے دودھ نکل آئے تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ مسئلہ اگر دودھ پینے کا شک ہو تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اگر کسی عورت نے کسی بچے کے منہ میں پستان دیا لیکن دودھ جانے کا یقین نہ ہو تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی اور نکاح کی حلت پر اس کا اثر نہ پڑے گا۔ مسئلہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا اور کسی اور عورت نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے تو اگر دونوں اس کی تصدیق کریں تو نکاح فاسد ہونے کا فیصلہ کرلیاجائے گا اور اگر یہ دونوں اس کی تکذیب کریں اور عورت دیندار خدا ترس ہو تو فسادِ نکاح کا فیصلہ نہ ہوگا، لیکن طلاق دے کے مفارقت کرلینا پھر بھی افضل ہے۔ مسئلہ حرمت رضاعت کے ثبوت کے لیے دو دیندار مردوں کی گواہی ضروری ہے ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی سے رضاعت ثابت نہ ہوگی لیکن چونکہ معاملہ حرام و حلال سے متعلق ہے اس لیے احتیاط کرنا افضل ہے۔ حتی کہ بعض فقہاء نے یہ تفصیل لکھی کہ اگر کسی عورت نے نکاح کرنا ہو اور ایک دنیدار مرد گواہی دے کہ یہ دونوں رضاعی بھائی بہن ہیں تو نکاح کرنا جائز نہیں اور اگر نکاح کے بعد ہوتواحتیاط جدا ہونے میں ہے بلکہ اگر ایک عورت بھی کہہ دے تب بھی احتیاط اسی میں ہے کہ مفارقت اختیار کرلیں۔ مسئلہ جس طرح دودیندار مردوں کی گواہی سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، اسی طرح ایک دیندار مرد اور دو دیندار عورتوں کی گواہی سے بھی اس کا ثبوت ہوجاتا ہے۔ البتہ ! احتیاط اسی میں ہے کہ اگر نصاب شہادت پور انہ ہو تب بھی شک سے بچنے کے لیے حرمت کو ترجیح دی جائے۔ محرمات صہریہ وَاُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ ( اور تمہاری عورتوں کی مائیں) تم پر حرام کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی حرمت صہری رشتے کی وجہ سے ہے۔ یعنی بیوی کے حوالے سے عائد کی گئی ہے۔ یہاں بھی امہات میں تفصیل ہے کہ بیویوں کی مائوں کا اطلاق نانیوں اور دادیوں پر بھی ہوتا ہے۔ وہ چاہے نسبی ہوں یا رضاعی ہوں۔ مزید یہ کہ جس طرح منکوحہ بیوی کی ماں حرام ہے اسی طرح اس عورت کی ماں بھی حرام ہے جس کے ساتھ شبہ میں ہم بستری کی ہو یا جس کے ساتھ زنا کیا ہو یا اس کو شہوت کے ساتھ چھوا ہو۔ البتہ ! اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے محض نکاح ہوا ہو اس کی ماں حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ، مالک، احمد اور شافعی اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ حضرت علی ( رض) کی رائے یہ ہے کہ جب تک کسی عورت سے خلوت نہ ہوئی ہو اس کی ماں حرام نہیں ہوتی۔ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ ز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ز ربائب، ربیبہ کی جمع ہے۔ بیوی کی پچھلگ لڑکی کو کہتے ہیں۔ اس کی حرمت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ شوہر نے اس کی ماں کے ساتھ زن وشو کا تعلق قائم کرلیا ہو لیکن اگر محض نکاح کیا ہے اور خلوت صحیحہ نہیں ہوئی تو پھر یہ لڑکی اپنے سوتیلے باپ کے لیے حرام نہیں ہوتی۔ بیوی سے نازک تعلق قائم ہونے کے بعد صرف بیٹی ہی حرام نہیں ہوتی، پوتی اور نواسی بھی حرام ہوجاتی ہے۔ اسی طرح نکاح کے بعد اگر شوہر نے اپنی بیوی کو شہوت کے ساتھ چھوا یا اس کے اعضاء صنفی کی طرف شہوت کی نگاہ سے دیکھا، تو یہ بھی ہم بستری کے حکم میں ہے، اس سے بھی اس عورت کی لڑکی یا پوتی یا نواسی سب حرام ہوجائیں گی۔ آیت کے اس حصے میں فِیْ حُجُوْرِکُمْکا مفہوم یہ ہے کہ تمہاری بیوی کی دوسرے شوہر سے لڑکیاں تمہارے آغوش تربیت میں پلی ہوں لیکن اس کے بارے میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا اس لڑکی کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں، اسے محض حکم کو موثر بنانے کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت قید و شرط کی نہیں، اس لیے ایک ایسی خاتون جس سے اس کا شوہر تعلق زن وشو قائم کرلیتا ہے تو اس کی دوسرے شوہر سے بیٹی اس پر حرام ہوجاتی ہے چاہے وہ اس کے آغوش شفقت میں پلی ہو اور چاہے اس نے اسے دیکھا بھی نہ ہو۔ لیکن آغوش شفقت میں پلنے کا ذکر اس جذبے کو ضرور ابھارتا ہے جو باپ اور بیٹی کے درمیان ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے نگاہوں میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ بیٹوں کی بیویاں وَحَلآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَ بِکُمْ ( اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں) بھی تم پر حرام ہیں۔ جس طرح بیٹے پر باپ کی منکوحہ حرام ہے اس طرح باپ پر بھی صلبی بیٹے کی منکوحہ حرام ہے۔ اور بیٹے کے عموم میں پوتا، نواسا بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ان کی بیویاں بھی اپنے دادا اور نانا پر حرام ہوں گی۔ مِنْ اَصْلاَ بِکُمْ کی قید سے مقصود یہ بتانا ہے کہ لے پالک بچے جنھیں متبنٰی کہا جاتا ہے وہ صلبی بیٹوں کی طرح نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کی بیویوں سے نکاح حلال ہے۔ البتہ ! رضاعی بیٹا نسبی بیٹے کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کی بیوی سے بھی نکاح کرنا حرام ہوگا۔ جمع بین الاختین اور خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کا جمع کرنا بھی حرام ہے وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ (دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا) بھی حرام ہے، چونکہ دونوں بہنوں میں رحمی رشتہ پایا جاتا ہے اور رحمی رشتوں کی بنیادرافت و رحمت پر ہے اور اگر یہ دونوں آپس میں سوکنیں بن جائیں تو پھر یہ رافت و رحمت کا جذبہ سوکنوں کے جلاپے اور رشک و رقابت کے جذبات میں بدل جائے گا اور یہ انسانی فطری رشتوں کی شکست وریخت کا سبب بنے گا۔ اس لیے دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام قراردیا گیا تاکہ ان نازک جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ جس طرح کا رحمی رشتہ اور انتہائی قرابت دو بہنوں کے درمیان ہے اسی طرح یہ رشتہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی میں بھی ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو بھی کسی ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ بہن کے لفظ میں عموم پایا جاتا ہے، جس طرح اس کا اطلاق حقیقی بہن پر ہوتا ہے اسی طرح علاتی اور اخیافی بہن پر بھی ہوتا ہے اور جس طرح اس کا اطلاق نسلی اور نسبی بہنوں پر ہوتا ہے اسی طرح اس کا اطلاق رضاعی بہنوں پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ حرمت ابدی نہیں، عارضی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا وہ وفات پاجائے تو اس کے لیے اس کی بہن سے نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ جواز عدت گزرنے کے بعد ہے عدت کے دوران نکاح جائز نہیں۔ مَاقَدْسَلَفَ کا مفہوم آخر میں فرمایا اِلَّا مَاقَدْ سَلَفَاور اس سے پہلے بھی آیت نمبر 22 میں یہ لفظ گزرچکا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حلت و حرمت کے جو احکام اب دیئے جارہے ہیں ان کا تعلق حال اور مستقبل سے ہے۔ یہ موثربہ ماضی نہیں ہوں گے۔ جاہلیت کے زمانے میں تم جو کچھ کرچکے ہو اب اس کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی۔ تم نے اس سے پہلے اپنی سوتیلی مائوں کے بارے میں جو رویہ اختیار کیے رکھا یا دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرتے رہے یا کئی کئی عورتوں کو بیک وقت نکاح میں رکھتے رہے۔ اب اس کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی۔ البتہ ! ان کی اصلاح ضروری ہے۔ ہر کام کو اسلام کے قانون کے شکنجے میں لانا ہوگا۔ البتہ ! گزشتہ معاملات کی تحقیق وتفتیش نہیں ہوگی، ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ اگر کسی حرام تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوچکی ہے، تو اسے ماں باپ سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ ہاں ! یہ ضرور ہوگا کہ ان میں سے جو چیزیں اسلامی احکام کے خلاف ہیں، انھیں اب اسلام کے مطابق کردیا جائے گا۔ کسی کے نکاح میں دو بہنیں ہیں، تو ایک کو طلاق دینا ہوگی۔ کسی نے چار سے زیادہ بیویوں سے نکاح کررکھا ہے، تو چار سے زیادہ بیویوں کو چھوڑنا ہوگا۔ البتہ ! ان معاملات پر سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ اللہ بخشنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔ اس کی بخشش کا تقاضا ہے کہ گزشتہ گناہوں پر نہ پکڑے اور اس کی رحمت کا حاصل یہ ہے کہ آئندہ اسلامی احکام کی تعمیل میں تساہل نہ ہونے پائے۔
Top