Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 77
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو کسی کے نکاح میں ہوں مگر یہ کہ وہ تمہاری مِلکِ یمین بن جائیں یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا فریضہ ہے اور حلال کی گئی ہیں تمہارے لیے ان کے ماسوا عورتیں اس طرح کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے ان کے طالب بنو، قیدِ نکاح میں لانے کو نہ بدکاری کے طور پر پھر ان میں سے جن سے تم نے تمتع کیا ہے تو انھیں ان کے مہر دو فریضہ کی حیثیت سے، تم پر کوئی گناہ نہیں جس پر تم آپس میں رضا مند ہوجائو مہرمقرر کرنے کے بعد، بیشک اللہ خبردار حکمت والا ہے
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ اِلَّامَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ ج کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ج وَاُحِلَّ لَـکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِـکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ط فَمَااسْتَمْتَعْتُمْ بِِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً ط وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ م بَعْدِالْفَرِیْضَۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (اور وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو کسی کے نکاح میں ہوں مگر یہ کہ وہ تمہاری مِلکِ یمین بن جائیں یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا فریضہ ہے اور حلال کی گئی ہیں تمہارے لیے ان کے ماسوا عورتیں اس طرح کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے ان کے طالب بنو، قیدِ نکاح میں لانے کو نہ بدکاری کے طور پر پھر ان میں سے جن سے تم نے تمتع کیا ہے تو انھیں ان کے مہر دو فریضہ کی حیثیت سے، تم پر کوئی گناہ نہیں جس پر تم آپس میں رضا مند ہوجاؤ مہرمقرر کرنے کے بعد، بیشک اللہ خبردار حکمت والا ہے) (النسآء : 24) منکوحہ عورت دوسرے کے لیے حرام ہے اس سے پہلے ہم پڑھ چکے ہیں کہ چار قسم کی عورتیں ہیں جن سے نکاح کرنا مسلمانوں کے لیے حرام ہے، ان میں سے تین قسمیں تو پہلے بیان ہوچکی ہیں اب چوتھی قسم بیان کی جارہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی عورت پہلے سے کسی کے نکاح میں ہے یعنی وہ شادی شدہ ہے، اب وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کرسکتی۔ جس طرح ایک مرد ایک سے زیادہ بیویاں کرسکتا ہے اس طرح ایک عورت ایک سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی۔ ممکن ہے ذہن میں یہ خیال آئے کہ کیا کبھی کسی عورت نے یہ بھی سوچا ہے یا سوچ سکتی ہے کہ میں ایک سے زیادہ مردوں کی بیوی بن کر رہوں ؟ جس طرح مرد چار تک بیویاں کرسکتا ہے اسی طرح میں بھی ایک سے زیادہ شوہروں سے تعلق رکھوں۔ عورت کی فطرت اور اس کے خصائص کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا یقینا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ آج جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے اس سے تعجب ہی نہیں ہوتا بلکہ اقبال کی طرح اندیشہ ہائے دوردراز بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس نے کہا تھا ؎ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے جدید تعلیم کے حوالے سے اس نے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ یہ منظر دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ اب پردہ اٹھتا جارہا ہے اور وہ وہ باتیں سننے کو مل رہی ہیں جن کے تصور سے بھی پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے۔ میں لاہور کے لڑکیوں کے ایک بڑے کالج میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے گیا۔ وہاں نو عمر اور نوجوان طالبات نے جو مجھ سے سوالات کیے اور جن میں سے بعض سوالوں پر میں دیر تک پریشان رہا۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ جس طرح مرد چار عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے، اسلام میں چونکہ بہت حد تک مساوات ہے، کیا اسلام عورتوں کو بھی چار مردوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر نہیں دیتا تو کیوں ؟ اور کیا یہ عورت کے ساتھ زیادتی نہیں کہ جو حق مرد کو دیا جارہا ہے اسے اس سے محروم رکھا جارہا ہے ؟ یہاں دیکھ لیجیے ! قرآن کریم نے ایک شوہر والی عورت کو دوسرے کسی مرد کے لیے مطلقاً حرام کیا ہے۔ ایک مسلمان عورت کے لیے یہی بات کافی ہونی چاہیے کہ تحلیل وتحریم کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کے نبی بھی اپنے اختیار سے کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں ٹھہراسکتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کے لیے دوسرے شوہر کو حرام ٹھہرا یا ہے تو اس کے لیے یہ سوچنا بھی گناہ ہے کہ وہ کبھی کسی دوسرے شوہر سے تمتع کرسکتی ہے کیونکہ اللہ کے حکم نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے اسے کوئی اور قوت یا ہماری کوئی دلیل حلال نہیں کرسکتی۔ لیکن جدیدتعلیم نے جو نتائج پیدا کیے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اللہ کا حکم سن کر اپنی رائے بدل لینے کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے ہم اس کے بعد بھی دلیل کا تقاضا کرتے ہیں حالانکہ اللہ کے حکم کے بعد کسی اور دلیل کے لیے کیا گنجائش رہ جاتی ہے کیونکہ اللہ کے حکم کے بعد کسی اور دلیل کی اہمیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ دلیل کا وزن اللہ کے حکم سے زیادہ ہے اور دلیل دینے والے کی حیثیت اللہ کی حیثیت سے فائق ہے۔ حاکم مطلق صرف اللہ کی ذات نہیں بلکہ کوئی اور بھی ہے، یہ تمام تصورات اپنے اندر کفر کے اثرات رکھتے ہیں جس سے ہزار دفعہ اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ لیکن اگر اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو تاریخی لحاظ سے، عقلی طور پر، اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے کسی طرح بھی یہ بات قابل فہم دکھائی نہیں دیتی۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی اور اس نے اخلاقی اقدار کو پہچانا ہے اس وقت سے لے کر تہذیبِ مغرب کے پیدا ہونے سے پہلے تک کبھی بھی عورت کے لیے ایک سے زیادہ شوہر کا تصور بھی پیدا نہیں ہوا۔ مانی یا مزدک جیسے شہوت گزیدہ نفسیاتی مریضوں کو چھوڑ کر کسی صالح طبقہ میں دور دور تک آپ کو اس کے اثرات نہیں ملیں گے۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ یہ کہتی ہے کہ انسان بعض دوسرے تصورات کے ساتھ ساتھ اولاد کے حصول کے لیے نکاح کرتا ہے۔ اگر ایک عورت کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں تو وہ ایک شوہر سے حاملہ ہوجانے کے بعد دوسرے مرد سے تو حاملہ نہیں ہوسکتی۔ اب دوسرے شوہر کے لیے اس کے سوا کیا چارہ کار ہے کہ یا تو وہ ایک طویل وقت کے لیے انتظار کرے اور یا دوسری بیوی کا انتظام کرے اور پھر اس کا بھی کیا بھروسہ ہے کہ پہلے شوہر کے بچے کی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ ضرور ہی دوسرے شوہر کے بچے کی ماں بنے۔ ہوسکتا ہے پھر پہلے شوہر کی قسمت یاوری کرے، ایسی صورت میں اس گھر کا مستقبل کیا ہوگا ؟ جہاں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایک عورت اپنے ساتھ کچھ کمزوریاں بھی رکھتی ہے وہ ایام مخصوص میں اپنے شوہر کے قابل نہیں ہوتی اور اگر وہ حاملہ ہوجائے تو دورانِ حمل آخری مہینوں میں وہ ایک شوہر سے تعلق رکھنا بھی تکلیف کا باعث سمجھتی ہے اور بعض صورتوں میں بیماری کا سبب بھی بن سکتا ہے، تو دوسرے شوہروں کے ساتھ وہ کس طرح تعلقات رکھ سکتی ہے ؟ اور اگر دوسرے شوہر اس پر اصرار کریں تو کوئی عقلمند بتائے کہ ایسی صورت میں خاتونِ خانہ کی صحت کی ضمانت کون دے سکتا ہے ؟ جبکہ ہر سنجیدہ فکر آدمی جانتا ہے کہ عورت بعض دفعہ ایک شوہر کے حقوق ادا کرنے پر بھی پوری طرح قادر نہیں ہوتی اور ایسی ہی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے دوسری بیوی کی اجازت دی ہے۔ ورنہ کتنے ایسے صحت مند مرد ہیں جو ایسی صورتحال میں گناہ کی طرف مائل ہو کر معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتے ہیں۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نکاح کا اصل مقصد تو اولاد حاصل کرنا ہے۔ ایک سے زیادہ شوہروں کی بیوی اگر امید سے ہوتی ہے تو ہمارے پاس کون سا ذریعہ ہے جس سے معلوم کرسکیں کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟ رہی یہ بات کہ آج۔ .N.A. ٹیسٹوں کے نتیجے میں اس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے انجام پر ہم نے غور نہیں کیا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انسانی مشینیں نتیجہ دینے میں کبھی غلطی سے مبرّا نہیں ہوتیں۔ اولاد کے خواہش مند ہر باپ کے دل میں ان وسوسوں کا آنا اور بھی قرین قیاس ہے۔ ٹیسٹ جب اس کے خلاف نکلے گا تو اس کا دل و دماغ کیسا رد عمل دکھائے گا ؟ اسے صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ٹیسٹ کے نتیجے میں بننے والے باپ کو اس فیصلے سے یکسوئی نہ ہوئی تو وہ نومولود کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی کفالت کہاں تک کرے گا ؟ اس کا جواب دینا بھی آسان نہیں۔ جہاں تک اخلاقی نقطہ نگاہ کا تعلق ہے نکاح کا سب سے بڑا مقصد ایک ایسے قلعہ کی تعمیر ہے جس میں میاں بیوی کا ایمان، شرم وحیا کی قدریں اور بیوی کا شرف عفت وعصمت پوری طرح محفوظ ہو۔ کسی کو کبھی یہ جرأت نہ ہوسکے کہ وہ اس قلعہ کی دیواروں کو پھلانگ سکے یا اس میں دراڑیں ڈال سکے اور اس قلعہ میں پلنے والی اولاد اخلاقی قدروں کی امین اور ماں باپ کے جذبہ احترام سے مالا مال ہو۔ لیکن اگر ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں سے نکاح کرتی ہے اور مرد اپنے ازدواجی تعلق کے لیے باری باری اپنی بیوی سے رجوع کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ذہنی اور جسمانی طور پر بیوی پر کیا گزرتی ہے ؟ اخلاقی طور پر وہ اپنی بیوی کے بارے میں کس طرح کے احساسات رکھتے ہیں اور بیوی اپنے ہر شوہر کے بارے میں کس قدر محبت کا جذبہ رکھتی ہے اور ایک گھر میں مختلف شوہروں کی اولاد کیا ماحول پیدا کرتی ہے ؟ اور جب ان میں سے ہر ایک یہ سوچتا ہے کہ فلاں فلاں شخص جو میرا باپ نہیں لیکن میری ماں کا شوہر ہے تو اس کے اندر کی غیرت پر کیا قیامت گزرتی ہے ؟ ان باتوں پر غور کرنے کے بعد کیا اس گھر کو گھر قرار بھی دیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسے گھر اور قحبہ خانے میں کوئی فرق کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اسلامی معاشرے کو واقعی کیا ایسے ہی گھروں کی ضرورت ہے ؟ کیا ایسے ہی گھروں سے بننے والا معاشرہ اسلامی ریاست کے لیے تقویت کا باعث ہوگا ؟ فاعتبروایا اولی الابصار۔ مختصر یہ کہ شادی شدہ عورت سے نکاح اس لیے حرام کیا گیا ہے کہ فطری، عقلی اور اخلاقی طور پر کوئی اس کا جواز نہیں۔ ہاں ! دوسرے نکاح کی ایک صورت ہے کہ کسی لونڈی سے نکاح کیا جائے، بیشک وہ پہلے کسی شخص کی بیوی ہو۔ اِلاَّمَامَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ سے اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو غیر مسلم عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوں وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے۔ ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کیا جاسکتا ہے اور جس کی ملک یمین میں ہوں وہ ان سے تمتع بھی کرسکتا ہے۔ البتہ فقہاء کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ گرفتار ہوں تو ان کا کیا حکم ہے ؟ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ ان کا نکاح باقی رہے گا اور امام مالک و شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ان کا نکاح بھی باقی نہ رہے گا۔ لونڈیوں سے متعلق ضروری تفصیل لونڈیوں سے تمتع کے معاملہ میں بہت غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے : 1 جو عورتیں جنگ میں گرفتارہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کرلینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کردی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کردے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کاتبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ آجائیں اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔ 2 جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہوجائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے مباشرت ناجائز ہے۔ 3 جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں ان کا مذہب خواہ کوئی ہو جب وہ تقسیم کردی جائیں تو جن کے حصہ میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کرسکتے ہیں۔ 4 جو عورت جس شخص کے حصہ میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کرسکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولادسمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جاسکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہوجائے گی۔ 5 جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔ 6 جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مالدار لوگ بیشمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنالیں بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔ 7 ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔ 8 حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔ 9 اسیرانِ جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حقدار نہیں رہتا۔ 0 اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھالینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انھیں فوج میں تقسیم کرے، تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (ماخوذاز تفہیم القرآن) حاصل کلام یہ کہ جن عورتوں کی آپ نے تفصیل پڑھی ہے، یہ وہ چار قسم کی عورتیں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے حرام قرار دیا ہے اور یہ اللہ کا قطعی حکم ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ البتہ ! اس کے علاوہ جتنی عورتیں ہیں وہ سب مسلمانوں کے لیے حلال ہیں، لیکن دو شرائط کی پابندی ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ جس عورت سے تم نکاح کرنا چاہو اس کا مہر ضرور مقرر کرو۔ اگر کسی نے مہر مقرر نہ کیا تو پھر اسے وہ مہر ادا کرنا ہوگا جو اس کی منکوحہ جیسی لڑکیوں کا مہر مقرر کیا جاتا ہے یعنی جو اس کے خاندان جیسے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں، ان کا مالی پس منظر اس جیسا ہو، وہ حسن و جمال میں ان سے کم نہ ہو اور وہ اپنے اخلاق کے بارے میں اسی طرح نیک شہرت کی مالک ہو۔ جتنا حق مہر عام طور پر ان کا مقرر ہوتا ہے، وہی حق مہر مقرر نہ کرنے کی صورت میں اس کا مہر ہوگا۔ اس کو مہرمثل کہتے ہیں اور یہ شوہر کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ نیت رکھے کہ مہر جتنا بھی مقرر کرلیا جائے مجھے بہرحال ادا نہیں کرنا تو نکاح کے ایجاب و قبول کے باوجود نکاح نہیں ہوگا کیونکہ ایسے شخص نے نکاح کو کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھا۔ وہ اسے محض جنسی تعیش کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ شریعت قید لگا کر اس معاملہ کو سنجیدہ بنانا چاہتی ہے تاکہ اسے لڑکوں کا کھیل نہ سمجھا جائے۔ نکاح کرنے والا اپنے دل میں یہ محسوس کرے کہ میں بظاہر ایک لڑکی سے تعلق پیدا کررہا ہوں، لیکن حقیقت میں اس کے تحفظ کے لیے شرائط آسمان سے اتری ہیں اور مزید یہ کہ ان تحفظات کو اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ نکاح سے مقصود عورت کو اپنی حمائیت و حفاظت میں لینا ہو، یعنی نکاح کرنے والا اس بات کا یقین رکھتاہو کہ نکاح دراصل ایک قلعہ تعمیر کرنا ہے۔ جس میں میں ہمیشہ اپنی بیوی کی عفت وعصمت کی حفاظت کروں گا اور اپنے بچوں کی تربیت کروں گا۔ اس سے مقصود کوئی شہوت رانی نہیں کہ ایک وقتی تلذذ اور جنسی آسودگی کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ اب میری ذمہ داریاں ختم ہوگئی ہیں بلکہ یہ زندگی بھر کا سنجوگ ہے اور ایک ایسا عہدوپیمان ہے جس کے ایفا سے ایک صالح گھر تعمیر ہوتا ہے جس میں قوم کے مستقبل کے محافظ تیا رہوتے ہیں یہی گھر مضبوط خاندان کی خشت اول بنتا ہے اور اسی سے اسلام کا سیاسی نظام وجود میں آتا ہے۔ متذکرہ احساسات کے ساتھ متعہ میل نہیں کھاتا ان احساسات اور شرائط کے ساتھ جو رشتہ وجود میں آتا ہے اس میں متعہ کا تصور کہاں راہ پاسکتا ہے۔ لیکن قرآن میں تحریف کی کوشش کرنے والوں کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے فما استمتعتم سے متعہ کا جواز ڈھونڈ نکالا ہے حالانکہ اس آیت میں استمتاعکا معنی بیوی سے ہمبستر ہونا اور وطی کرنا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ اگر ایک آدمی نکاح کرتا ہے اور بیوی سے تعلق پیدا کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے تو مہر مقرر کرنے کی صورت میں آدھا مہر ادا کرنا واجب ہوگا۔ لیکن اگر اس نے بیوی سے استمتاع کرلیا۔ یعنی اس سے خلوت صحیحہ ہوگئی تو اب پور امہر ادا کرنا ضروری ہے۔ اس میں کوتاہی کرنا شریعتِ اسلامی کے خلاف ہے۔ اندازہ فرمائیے ! جس جملے سے عورت کی عفت وعصمت اور اس کی عزت کی حفاظت کی گئی ہے اور جس کے لیے مہر کا ادا کرنا واجب ٹھہرایا گیا ہے اسی سے متعہ کا جواز کشید کرنا بڑی ذہانت کی بات ہے۔ لیکن یہ وہ ذہانت ہے جو ایمان کے مفلوج ہوجانے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ جس شریعت نے نکاح کے لیے احصان اور مہر کی شرط لگائی ہے یعنی وہ اس نکاح کو تسلیم نہیں کرتا جس میں مہر ادانہ کیا جائے اور بیوی کو اپنی حمائیت اور حفاظت میں زندگی بھر لینے کا تہیہ موجود نہ ہو۔ اور جو شریعت نکاح مؤقت کی اجازت نہ دے (یعنی نکاح بھی ہو مہر بھی ادا کیا جائے لیکن صرف ایک مقرر پیریڈ کے لیے نکاح کیا جائے تو وہ حرام ہے ) ۔ اس میں متعہ کا تصور کیسے پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ متعہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے یوں کہے کہ اتنے دن کے لیے اتنے پیسوں یا فلاں جنس کے عوض میں تم سے متعہ کرتا ہوں۔ انصاف کیجیے ! اس میں اور زنا میں کیا فرق ہے ؟ زنا میں بھی زانی قیمت دے کر منہ کالا کرتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض دفعہ یہ مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک لمبی مدت کے لیے۔ لیکن دونوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے واضح طور پر اس کی حرمت ثابت ہے۔ عن علی بن ابی طالب ان النبی ﷺ نھی عن متعۃ النساء وعن لحوم الحمرالاھیۃ زمن خیبر (حضرت علی ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا) ۔ حضرت علی ( رض) کی یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے۔ دوسری حدیث جو امام ترمذی نے نقل کی ہے وہ یہ ہے۔ عن ابن عباس قال انما کانت المتعۃ فی اول الاسلام حتی اذا نزلت الایۃ الا علے ازواجھم اوماملکت ایمانھم قال ابن عباس فکل فرج سواھما فھوحرام (حضرت ابن عباس ( رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں متعہ اسلام کے عہداول میں مشروع تھا۔ یہاں تک کہ آیت کریمہ اِلاَّ عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْمَامَلَـکَتْ اَیْمَانُھُمْ نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ شرعیہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے) مورخین لکھتے ہیں کہ مامون الرشید نے ایک دفعہ نجانے کس بہکاوے میں آکر متعہ کے حلال ہونے کا حکم دے دیا اور باقاعدہ اس کی منادی کرادی۔ چندعلماء پریشانی کی حالت میں شیخ الاسلام کے پاس پہنچے۔ انھیں سارا واقعہ سنایا کہنے لگے کہ تم دربار میں چلو میں تیارہوکر آتا ہوں۔ دربارپہنچے توچہرہ اترا ہوا اور پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے۔ خلیفہ مامون الرشید نے دیکھتے ہی پوچھا خیریت تو ہے آپ بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ اس سے بڑھ کر پریشانی کیا ہوگی کہ زنا حلال کردیا گیا ہے۔ مامون نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کس نے حلال کیا ہے ؟ شیخ الاسلام نے کہا آپ نے۔ آپ نے متعہ حلال قرار دے کر زنا کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ مامون نے کہا : متعہ تو حلال ہے۔ اس کی زنا سے کیا مشابہت ؟ شیخ الاسلام نے کہا : قرآن کریم میں سورة المومنون میں مومنوں کی صفات بیان فرماتے ہوئے پروردگار نے ارشاد فرمایا : وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّاعَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُمَلُوْمِیْنَ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ (المؤمنون : 5 تا 7) (مومن وہ لوگ ہیں جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں) ان آیات میں دیکھ لیجیے ! ایک مومن کے لیے جائز تعلق کی جگہ صرف دو ہیں۔ ایک بیوی دوسرے لونڈی۔ امیر المومنین ! میری گزارش یہ ہے کہ جس عورت سے کوئی شخص متعہ کرتا ہے کیا وہ بیوی بن جاتی ہے ؟ کیا وہ اپنے اس نام نہاد شوہر کی وارث ہوگی ؟ امیر المومنین نے کہا کہ وہ بیوی تو نہیں۔ تو شیخ الاسلام نے پوچھا : کیا وہ لونڈی ہے ؟ اس نے واقعی اسے خریدا ہے ؟ مامون نے کہا : وہ لونڈی بھی نہیں۔ تو شیخ الاسلام نے کہا : نہ وہ بیوی ہے نہ لونڈی تو پھر وہ کس حیثیت سے حلال ہے ؟ کیونکہ بیوی اور لونڈی کے علاوہ تو کوئی عورت مسلمان کے لیے حلال نہیں۔ امیر المومنین مامون الرشید نے فوراً اپنے فیصلے سے توبہ کی اور شہر میں اعلان کروادیا کہ متعہ حرام ہے۔ کوئی اس کی جرأت نہ کرے۔
Top