Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور قرابتدار پڑوسی کے ساتھ اور بےگانہ پڑوسی کے ساتھ اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور اپنے مملوک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو۔ اللہ اترانے اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا
وَاعْبُدُاللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِالْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ م وَابْنِ السَّبِیْلِ لا وَمَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُورَانِ لا (اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور قرابتدار پڑوسی کے ساتھ اور بےگانہ پڑوسی کے ساتھ اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور اپنے مملوک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو۔ اللہ اترانے اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا) (النسآء : 36) حُسنِ سلوک سے پیش آئو اسلامی زندگی اپنی اصل حقیقت اور حیثیت کے اعتبار سے دو چیزوں سے عبارت ہے۔ 1۔ حقوق اللہ 2۔ حقوق العباد حقوق العباد کی اسلام میں بہت تاکید کی گئی ہے اور انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی کسی سے مخفی نہیں۔ لیکن حقوق العباد کا تصوروجود میں نہیں آسکتا اور اگر مصنوعی طریقے سے اسے وجود دے بھی دیا جائے تو اس کی ادائیگی کی کوئی ضمانت نہیں تاوقتیکہ اللہ کے حقوق کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اللہ کا سب سے پہلا حق جو اس کے تمام حقوق کی بنیاد ہے وہ اس پر ایمان اور اس کی عبادت ہے اسی ایمان اور عبادت کی آخری شکل تقویٰ ہے۔ سب سے پہلا حق اللہ کا حق عبادت ہے چناچہ قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب بھی اپنے بندوں کو احکام سے نوازتا ہے تو سب سے پہلے انھیں بنیادی باتوں کا حوالہ دیتا ہے۔ کبھی اپنی ذات اور اپنے احسانات کا ذکر فرماتا ہے کبھی اپنی بندگی اور عبودیت کی دعوت دیتا ہے اور کبھی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر اس حقیقت پر ذرا بھی غور کرلیا جائے تو یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ انسان جس طرح اللہ کی مخلوق ہے اسی طرح ہر حیثیت سے اس کا بندہ بھی ہے۔ اس کی زندگی میں جتنی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حیثیت کو بھول جاتایانظر انداز کرتا ہے۔ وہ بجائے اپنے آپ کو بندہ سمجھنے کے جب آقائی کرنے لگتا ہے بجائے بندگی اور عبادت کرنے کے لوگوں سے بندگی کروانے لگتا ہے تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے اور وہیں سے فساد فی الارض کا آغازہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم باربار انسان کو اس کی اصل حیثیت یاد دلاتا ہے کیونکہ اصل حیثیت کا یاد نہ رہنا ہر سطح پر خرابی کا باعث بنتا ہے۔ ماتحت اپنے آپ کو افسر سمجھنے لگے، مزدور اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے، شاگرد استاد کی کرسی پر بیٹھ جائے، استاد پر نسپل کا منصب سنبھال لے، ہر چھوٹا بڑا بن جائے اور ہر بڑا اپنی بڑائی کے تقاضوں کو بھلادے تو اجتماعی زندگی کا کوئی ادارہ اپنی جگہ کام نہیں کرسکتا۔ جس گھر میں میاں بیوی اپنی اپنی حیثیت کو بھول جائیں اور اولاد خودسر ہوجائے اس گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہی حال پوری انسانی زندگی بلکہ پوری کائنات کا ہے۔ ہم جو ہر طرف فساد مچاہوا دیکھ رہے ہیں اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بندوں کو اپنے حقوق یاد ہیں۔ لیکن اللہ کے حقوق جس کے نتیجے میں بندوں کے حقوق پیدا ہوتے ہیں انھیں ہم یکسر نظرانداز کرچکے ہیں۔ چناچہ اس سورة کے آغاز میں اصلاحِ معاشرہ کی ہدایات دینے سے پہلے اللہ نے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی حدود سے تجاوز مت کرو اور ان آیات میں جب حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم دیا تو پھر سب سے پہلے اپنا حق یعنی عبادت کا ذکر فرمایا کیونکہ جو شخص اللہ کے حق عبادت اور اپنے بندہ ہونے کو تسلیم نہیں کرتا وہ اس کے حکم سے بندوں کے حقوق کیسے ادا کرے گا ؟ اللہ کی ذات وصفات اور اس کی عبادت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے۔ اس لیے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دیکھو اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو۔ جس طرح اللہ کی حیثیت کا انکار درحقیقت اپنی حقیقت اور حیثیت کا انکار ہے اسی طرح اس کی ذات وصفات اور اس کے حقوق میں کسی کو شریک کرنا ایک ایسا جرم ہے جس سے پورا نظام تکوین اور نظام تشریع تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ حقوق الوالدین اپنا حق ذکر فرمانے کے بعد سب سے پہلے والدین کے حق کا ذکر فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا خالق ومالک تو یقینا خالق کائنات ہے لیکن بظاہر انسان کے دنیا میں آنے کا سبب اس کے والدین ہیں۔ اس لیے اللہ کی صفت تخلیق اور ربوبیت کے بعد اگر کسی کے احسانات سب سے زیادہ ہیں تو وہ ہر شخص کے والدین ہیں۔ بچہ اپنی پیدائش کے بعد اس قدر بےبس ہوتا ہے کہ نہ اس کے حواس کام دیتے ہیں اور نہ اس کا جسم ساتھ دیتا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی مخلوق پیدا ہونے کے جلدی بعد اپنے ضروری معمولات انجام دینے کے قابل ہوجاتی ہے مرغی کے بچے ماں کے پیچھے چلتے پھرتے اور دانکادنکا چنتے ہیں۔ بلی کے بچے آنکھیں کھلتے ہی اپنی ماں کے پستان ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بھینس کا بچہ چند گھنٹوں کے بعد لڑکھڑاتا ہوا ماں کے نیچے پہنچ کردودھ پینے لگتا ہے۔ لیکن انسان کا بچہ مہینوں تک اپنے ماں باپ کو پہچانتا نہیں۔ اس بےبسی کی حالت میں اس کی ماں اسے سنبھالتی، کھلاتی پلاتی، موسم کی شدت سے بچاتی اور ہر طرح کے آرام اور راحت کا سامان کرتی ہے۔ غریب سے غریب باپ بھی اپنے بچے کے لیے آنکھیں بچھاتا ہے، اس کے کندھے اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے بےچین اور بےتاب ہوتے ہیں۔ اس لیے ماں باپ کے احسانات کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ سب سے پہلے ان کے حق کا ذکر کیا جائے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ وہ اپنی ساری خدمات اور تمام تراحسانات کے باوجودبچے پر یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ ان کی عبادت کرے بلکہ ان کا زیادہ سے زیادہ حق یہ ہے کہ اولاد ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ سورة بنی اسرائیل میں اس حسن سلوک کو کسی حد تک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے : وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا (اور تمہارے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف بھی نہ کہو اور ان سے جھڑک کر بات نہ کرو (یعنی خفا نہ ہو) اور ان سے ادب سے بولو اور ان کے لیے اطاعت کا بازو محبت سے جھکائے رکھو اور اللہ سے دعا کرو کہ اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرماجس طرح انھوں نے بچپن سے مجھے پالا) والدین کے تین حقوق اس آیت کے مضمون پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں۔ پہلا حق ہے حسن سلوک، دوسرا ہے اطاعت اور تیسرا ہے دعا۔ حسن سلوک چونکہ ادائے حق سے ایک بالا تر چیز ہے اس لیے اس کا تو حقیقی تعلق اولاد کی فرمانبرداری کے حسن ذوق سے ہے جتنا کسی کا ذوق اس لحاظ سے پاکیزہ اور نازک ہوگا وہ اتناہی حسن سلوک میں آگے بڑھ جائے گا۔ لیکن یہاں آیت قرآنی میں اس حسن سلوک کی طرف راہنمائی بھی کی گئی ہے۔ فرمایا گیا کہ اگر ماں باپ تمہاری زندگی میں بوڑھے ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ بڑھاپا آجانے کے بعد انسان کے اندر دو طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ 1 قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں۔ اپنی مرضی سے بعض دفعہ چلنا پھرنا تو دور کی بات ہے حرکت کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں نوکروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑدیا جائے یا ان کی طرف سے لاپرواہی نہ برتی جائے بلکہ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ امکانی حد تک خود ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کریں۔ دوسری تبدیلی ذہن اور عقل کی تبدیلی ہے۔ بڑھاپے میں بعض دفعہ آدمی ٹھیک بات کہنے اور سمجھ کر گفتگو کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اور یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ بڑھاپے میں آدمی دوبارہ بچہ بن جاتا ہے۔ جو حرکتیں بچے کرتے ہیں وہی بوڑھا آدمی کرنے لگتا ہے۔ ان دونوں تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پروردگار نے فرمایا کہ دیکھنا ایسی صورتحال میں اپنے ماں باپ کو اف تک بھی نہ کہنا۔ یعنی اظہارِ بیزاری نہ کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے منہ سے رال ٹپک رہی ہو، ناک بہہ رہی ہو، آنکھیں تلچھٹ سے بھری ہوں۔ ممکن ہے وہ رفع حاجت بھی خود نہ کرسکیں، ایسی حالت میں خدمت سے تنگ آجانا انسانی فطرت سے بعید نہیں۔ دیکھنا ایسے وقت میں بیزاری کا اظہار نہ کرنا، اف اف کرکے تنفر کا اظہا رنہ کرنا، ان سے لاتعلقی ظاہر کرکے انھیں ان کے حال پر نہ چھوڑدینا۔ اگر وہ عقل اور ذہن کے فتور کے باعث بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگیں یا بلاوجہ کسی بات کی ضد کریں۔ باربار کوئی بات پوچھیں تو دیکھنا ان کو جھڑکنا نہیں۔ ان سے ناراض نہیں ہونا بلکہ جس طرح انھوں نے نہایت محبت اور پیار سے تمہیں اس وقت پالا جب تم گوشت کے ایک لوتھڑے کی طرح تھے۔ ہر طرح کی عقل اور سمجھ سے خالی، بستر پر گندگی، نہ کھانے کا ہوش، نہ پینے کا سلیقہ لیکن اس کے باوجود ماں باپ نے کیسی محبت سے تمہیں پالا اور بڑا کیا۔ تم بھی اسی محبت کے جذبے سے ان کی دیکھ بھال کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب بوڑھے ہوگئے ایک دن گھر کے لان میں بیٹھے تھے کہ جوان بیٹا آگیا۔ جوان بیٹے کو پاس بٹھایا۔ دیوار پر ایک کوا بیٹھا تھا اس کی طرف اشارہ کرکے پوچھا بیٹا یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا ابا جان کوا ہے۔ انھوں نے پھر پوچھا یہ کیا ہے بیٹے نے پھر جواب دیا کہ یہ کوا ہے۔ جب انھوں نے تیسری بار پوچھا تو بیٹے کے لہجے میں تیزی آنے لگی حتی کہ جب پانچویں دفعہ یہی سوال کیا تو بیٹے نے جھڑک کر کہا کہ اباجان یہ کیا ایک ہی سوال آپ باربار کیے جارہے ہیں۔ میں کتنی دفعہ آپ کو جواب دے چکا ہوں یہ صاحب اٹھے اندر سے اپنی ڈائری اٹھالائے۔ ڈائری کا ایک صفحہ کھول کر بیٹے کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا کہ میرا بیٹا چھوٹا سا تھا اسی صحن میں بیٹھے ہوئے اس نے مجھ سے دیوار پر بیٹھے ہوئے کوے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے اس کو جواب دیا لیکن وہ باربار مجھ سے پوچھتا، ابا جان یہ کیا ہے ؟ میں جواب دیتا بیٹے یہ کوا ہے۔ اس نے پچیس دفعہ سوال کیا اور پچیس دفعہ ہی میں نے جواب دیا اور اتنی دفعہ جواب دینے کے بعد مجھے ناگواری نہیں ہوئی بلکہ خوشی ہوئی کہ میرا بیٹا باربار پوچھتا ہے۔ اندازہ کیجیے ! باپ پچیس دفعہ جواب دیتا ہے تو اس کی محبت اور پیار میں کوئی کمی نہیں آتی۔ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ تم بھی اسی جذبہ سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرنا اور ہر طرح کی بات برداشت کرنا۔ دوسراحق جو اس میں بیان کیا گیا ہے وہ ہے ہرحال میں اپنے ماں باپ کی اطاعت کرنا اور ہر جائز حکم کو بجالانا۔ ان کی مالی ضروریات کو پورا کرنا اور ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور پھر اس میں یہاں تک وسعت کی گئی ہے کہ تمہارے والدین اگر غیر مسلم بھی ہوں وہ تمہیں کوئی اسلام کے خلاف بات کہیں تو اسے تو ہرگز نہ ماننا لیکن ویسے ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا۔ ارشادِ خداوندی ہے : وَاِنْ جَاھَدٰاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَـیْسَ لَـکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (اور اگر تیرے والدین تجھے مجبور کریں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کر جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کرنا لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا) پھر والدین کے اس رشتے کو اسلام نے رضاعی والدین تک وسعت دے دی ہے یعنی جس خاتون کا دودھ پیا ہے وہ دودھ پینے والے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے اور اس کا شوہر رضاعی والد بن جاتا ہے اور ساتھ دودھ پینے والا دوسرا بچہ رضاعی بھائی کہلاتا ہے۔ جس طرح حضرت حلیمہ سعدیہ حضور ﷺ کی رضاعی والدہ تھیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ تشریف فرما تھے کہ آپ کی رضاعی والدہ یعنی حضرت حلیمہ سعدیہ تشریف لے آئیں۔ آپ نے اپنی چادر بچھادی کہ اس پر تشریف رکھیں۔ پھر آپ کے رضاعی والد آئے تو آپ نے اپنی چادر کا دوسرا حصہ ان کے لیے بچھادیا۔ اتنے میں آپ کے رضاعی بھائی بھی پہنچ گئے تو آپ نے ان کو ماں باپ کے درمیان بٹھایا۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں ماں باپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ نافرمانی سے منع فرمایا بلکہ نافرمانی سے روکنے کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَات (اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی کو حرام کردیا) ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا : یارسول اللہ ماحق الوالدین علی ولدھما قال ھما جنتک ونارک (اے اللہ کے رسول ! والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا وہ دونوں تمہاری جنت ہیں اور تمہاری جہنم ہیں ) یعنی اطاعت کروگے تو جنت کے مستحق ٹھہرو گے اور نافرمانی کروگے تو اس کی وجہ سے جہنم میں جانا ہوگا۔ ایک دوسری حدیث ہے : عن ابی ہریرہ قال، قال رسول اللہ رغم انفہ رغم انفہ رغم انفہ قیل من یارسول اللہ قال من ادرک والدیہ عندالـکبر احدھما اوکلا ھمائم لم یدخل الجنۃ (حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو ہے یعنی وہ ذلیل ہو۔ پوچھا گیا کون اے اللہ کے رسول ؟ فرمایا جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے باپ کی رضامندی کو اللہ کی رضا مندی ٹھہرایا باپ کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی قراردیا۔ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم رِضَی الرَّبِّ فِی رِضَی الوَالِدِ وَسَخطُ الرَّبِّ فی سخط الوالد (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ) پھر والدین کی نافرمانی کو نہ صرف اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ والدین کی نافرمانی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا میں ہی اس کی سزا نہ دے دی جائے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : کل الذنوب یغفر اللہ تعالیٰ منھا ماشاء الا عقوق الوالدین فانہ یجعل لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الممات (اللہ تعالیٰ تمام گناہوں میں سے جس کو چاہے گا معاف فرمائے گا مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ وہ نافرمان کو موت سے پہلے زندگی میں ہی سزا سے ڈالے) اولاد پر ماں باپ کا تیسرا حق دعا کرنا ہے۔ اس کا تعلق والدین کی زندگی سے بھی ہے اور والدین کی زندگی کے بعد سے بھی۔ جب تک والدین زندہ ر ہیں تو آدمی حتی المقدور ماں باپ کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے۔ رَبِّ رْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّـیَانِیْ صَغِیْرًا (اے میرے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرماجس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا) اس میں اشارہ دو باتوں کی طرف ہے۔ ایک تو یہ کہ جو آدمی اپنے والدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے اس طرح دل سے دعا مانگے گا تو یقینا اس کے دل میں اپنے ماں باپ کی خدمت بوجھ نہیں بنے گی اور پھر اس دعا سے ماں باپ کی محبت کا جذبہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہ امکانی حدتک کبھی اس خدمت سے دریغ نہیں کرے گا اور دوسرا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دنیا میں ہر آدمی کے لیے بہت سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں جن میں دوست احباب ہیں، بیوی ہے، بچے ہیں، ان کی دعائوں میں یقینا اخلاص بھی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بےلوث اور بےغرض دعا سوائے والدین کے اور کوئی نہیں مانگتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کے اٹھ جانے سے بےلوث اور بےغرض دعائیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اولاد چاہے کتنے پیار سے ہی دعامانگے لیکن کوئی نہ کوئی خواہش کہیں نہ کہیں چھپی ہوتی ہے۔ یہی حال بیوی اور دوست احباب کا بھی ہے۔ لیکن والدین جب دعا مانگتے ہیں تو اپنی ذات کی مکمل نفی کرکے دعا کرتے ہیں۔ تویہاں خدمت کے ساتھ ساتھ جو دعا کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ والدین کا حوالہ بھی ہے تو اس میں شاید اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ دیکھو ! تمہارے والدین نے جب تمہاری تربیت کی تھی اس میں جہاں ہر طرح کی دیکھ بھال، خیرخواہی، ہمدردی اور ایثار کا جذبہ کارفرما تھا وہیں اس میں تمہارے لیے بےلوث دعائیں بھی شامل تھیں۔ جن کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری سانس تک قائم رہا۔ وہ اپنے آپ کو بھول کر ہمیشہ تمہاری بھلائی اپنے رب سے مانگتے رہے۔ دیکھنا تم بھی ایسے ہی جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کرنا اور جہاں تک زندگی کے بعد دعائوں کا تعلق ہے ہے اسے بھی آنحضرت ﷺ نے ماں باپ کے بعد ازوفات حقوق میں شامل فرمایا۔ ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : عن ابی السید الساعدی قال بینمانحن عند رسول اللہ ﷺ اذجاء رجل من بنی سلمۃ فقال یارسول اللّٰہ ھل بقی من برابوی شیء ابرھما من بعد موتھما ؟ قال نعم الصلوۃ علیھما والاستغفار لھما وانفاذ عھدھما وصلۃ الرحم التی لاتوصل الا بھما واکرام صدیقھما (ابو سعید الساعدی سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے بنی سلمہ میں سے ایک شخص آیا اور اس نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے بھی حقوق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ان کے لیے خیروبرکت اور رحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا ان کے تعلق سے جو رشتے ہیں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام اور احترام کرنا۔ اس حدیث میں ماں باپ کے لیے دعا اللہ سے ان کی بخشش کی طلب بندوں میں سے کسی کے ساتھ اگر کوئی عہد معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا ماں باپ کے تعلق سے جو جو رشتے بھی ہیں ان کا لحاظ کرنا اور ان کا حق ادا کرنا اور زندگی میں ان کے جن کے ساتھ دوستی کے تعلقات تھے ان کا اکرام واحترام کرنا ) یہ وہ حقوق ہیں جو ماں باپ کی وفات کے بعد بھی اولاد پر باقی رہتے ہیں۔ تو ان میں سب سے پہلا حق ان کے لیے دعائے خیروبرکت کرنا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جب بھی موقع ملے تو آپ اپنے والدین کے لیے یہ دعا کرتے رہا کریں۔ اللھم اغفر لھما وارحمھما (اے اللہ ! میرے والدین کو بخش دے اور ان پر رحمت فرما) اس کا فائدہ اس کے والدین کو قبر میں اور آخرت میں انشاء اللہ جو ہوگا سو ہوگا خود اولاد کو بھی اس کا سب سے بڑافائدہ جو پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ نافرمان اولاد کو بھی اس دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرمانبردار اولاد میں شامل فرمادیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے۔ عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ ان العبد لی موت والداہ اواحدھما وانہ لھما لعاق فلا یزال ید عولھما ویستغفر لھما حتی یکتبہ اللہ بارا (حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے اور اولاد زندگی میں ان کی نافرمان اور رضامندی سے محروم ہوتی ہے لیکن یہ اولاد ان کے انتقال کے بعد سچے دل سے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیرورحمت کی دعامانگتی اور بخشش کی التجا کرتی رہتی ہے (اور اس طرح اپنے قصور کی تلافی کرنا چاہتی ہے) تو اللہ تعالیٰ نافرمان اولاد کو فرمانبردار قرار دے دیتا ہے اور پھر وہ ماں باپ کی نافرمانی کے وبال اور عذاب سے بچ جاتی ہے ) ذوی القربیٰ کے حقوق اس آیت کریمہ میں والدین کے حقوق کے بعد قرابت مندوں کے حقوق کا ذکر کیا ہے جو درحقیقت والدین کے تعلق اور حقوق سے پھوٹنے والی شاخیں ہیں کیونکہ خاندان کی بنیاد زوجین ہیں۔ یہی دونوں جب والدین کی شکل اختیار کرتے ہیں تو خاندان کی نمود وپراخت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اولاد خاندان کے ارتقاء کی علامت اور والدین کی آرزئوں کا پھل ہے۔ پھر والدین کے حوالے سے ننھیالی اور ددھیالی رشتے دار اس خاندان کے شجر سایہ دار کی شاخیں اور تنوں کی صورت میں خاندان کی وسعت کا سبب بنتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خاندان کے ارکان اربعہ زوجین، والدین، اولاد اور اہل قرابت ہیں۔ اگر زوجین کے نازک رشتے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو خاندان کی بنیاد ہل جاتی ہے اور اگر والدین کے احترام اور ان کی حیثیت میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو خاندان کا ارتقا اگرچہ جاری رہتا ہے لیکن یہ خاندان کے لیے تقویت کا باعث بننے کی بجائے مفاسد کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور خاندان کی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ یہ تینوں ادارے اگر اپنی جگہ ٹھیک کام کرتے ہیں تو یقینا ایک خاندان پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ گردوپیش میں بےتعلقی، خود غرضی، نفسانفسی اور انانیت کی چلنے والی تیز ہوائیں اس خاندان کے کسی حصے کو بھی نقصان پہنچادیں ضروری ہے کہ تحفظ کی دیواریں اس خاندان کے گرد کھڑی کی جائیں تاکہ یہ خاندان ایک شجر سایہ دار کی طرح اپنے زیر سایہ رہنے والوں کو حفاظت اور محبت کی ٹھنڈک مہیا کرسکے۔ حفاظت کی یہ دیواریں اصل میں قرابت کے تعلقات ہیں جو خاندان کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور خاندان کی وسعت کو مزید پھیلانے میں مدد بھی دیتے ہیں اور جب خاندان کا کوئی ایک فرد حالات کی ستم ظریفی سے زخم کھاکرگرنے لگتا ہے تو یہی اس کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ انسانی فطرت کو دیکھتے ہوئے ایک اور اہم پہلو بھی سامنے آتا ہے جس سے رشتہ و قرابت کی اہمیت افادیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ انسان فطری طور پر اجتماعیت پسند ہے۔ بڑی اجتماعیت میں شریک ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور اپنے حصے کے فرائض انجام دینے کے لیے تو ایک بڑی حوصلہ مندی کی ضرورت ہے اور زندگی کے وسیع تجربات کے بعد آدمی اس میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ایک محدود سطح پر مل جل کر رہنا، مل جل کر بہت سے کام انجام دینا یہ انسانی فطرت کا اولین تقاضا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بچہ کھیلنے کے لیے ہمجولی تلاش کرتا ہے، سکول میں بچے اپنے ہم عمر بچوں سے پیار کرتے ہیں، جماعت کا اشتراک، مضامین کا اشتراک، ان میں باہمی تعلقات کا سبب بنتا ہے۔ جب آدمی عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو خیالات کی ہم آہنگی، پیشے کی یکسانی، ہمسائیگی، ہم وطنی، ہم مذاقی، یہ جو اشتراک کی مختلف صورتیں ہیں یہ باہم مل کرچلنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں اور ایک ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ حتی کہ ایک کالج کے پڑھے ہوئے لوگ ہمیشہ کالج کے انتساب کو اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل یونیورسٹی کے انتساب کو تعلقات کی بنیاد قراردے کر اپنی یادیں محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی دنیا میں، سیاسی جماعتوں میں شرکت کی بنیاد پر تعلقات کی بنیاد وجود میں آتی ہے۔ مختصر یہ کہ محدود یاوسیع سطح پر مل کررہنا، مل کر چلنا، مشترک اعمال بجالانا، یہ یکسانی کی صورتیں ہیں جو انسانی فطرت کا تقاضا ہیں اور ان کی بنیاد پر اجتماعیت کی مختلف شکلیں وجود میں آتی ہیں اور انسان انہی کو اپنے لیے زندگی کا سہارا سمجھتا ہے۔ اسلام اشتراک کی ان تمام صورتوں اور تعلقات کی ان تمام بنیادوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ ساری بنیادیں اور سارے اشتراکات مصنوعی اور تمہارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ لیکن حقیقی اشتراک کی وہ گرہ جو اللہ نے تمہارے درمیان باندھ رکھی ہے اور جسے تم کھولنا بھی چاہو تو کھول نہیں سکتے اور پھر جو جذبات کی شدت ان سے وجود میں آسکتی ہے ظاہر ہے کوئی اور بندھن اور کوئی اور تعلق اس کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس گرہ کو مضبوط باندھنے کی کوشش کرو اور اسی تعلق کو تمام تعلقات کی بنیاد جانو اور یہ تعلق کیا ہے ؟ وہی ہے جس کو ہم قرابت کا تعلق کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خون کا رشتہ ہے جو تمام رشتوں سے افضل واعلیٰ ہے۔ عربی زبان میں اسی قرابت کے تعلق کی قدر کرنے کو اور قرابت کا حق ادا کرنے کو ” وصل رحم یا صلہ رحمی “ کہا گیا ہے۔ حق قرابت کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل چند باتوں سے ہوسکتا ہے۔ 1 قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق اور اس کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ساتھ ہی اہل قرابت کے حقوق کا ذکر ضرور کیا۔ اس سے حق قرابت کی عنداللہ اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وَاعْبُدُاللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی (اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرو) 2 قرآن کریم نے پہلی امتوں بالخصوص بنی اسرائیل کے حوالے سے کئی جگہ اس بات کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک عہدوپیماں لیا تھا اور اپنی تمام عنایات کو اس کے ساتھ مشروط ٹھہرایا تھا اور یہ کہا تھا کہ اگر تم اس عہدوپیمان کو پورا کروگے تو ہم بھی تم پر اپنی عنایات کی بارش کریں گے لیکن اگر تم نے اپنے عہدوپیمان اور میثاق کی پرواہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری پرواہ نہیں فرمائے گا۔ اس عہدوپیمان میں جہاں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہے وہیں اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر بھی ہے۔ ارشاد فرمایا : وَاِذْاَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِی اِسْرَائِ یْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ اِلَّااللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِیْ الْقُرْبٰی (اور اس وقت کو یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے میثاق لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا) 3 حقِ قرابت کی اسلام میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی اصلاح اور ان کو دعوت اسلام دیتے ہوئے جو تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھائیں اور اس راستے میں جس طرح زخم پر زخم برداشت کیے وہ امت پر ایسا احسان ہے جس کی تلافی امت کبھی نہیں کرسکتی۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس احسان و کرم کا جو ہدایت تعلیم اور اصلاح کے ذریعے اس امت پر فرمایا معاوضہ اور بدلہ اپنی امت سے اگر کوئی طلب فرمایا ہے تو صرف یہ کہ میری امت کو اپنے رشتے داروں اور قرابت مندوں کا حق ادا کرنا چاہیے اور ان سے لطف و محبت سے پیش آنا چاہیے۔ قرآن کریم میں آنحضرت سے فرمایا گیا ہے کہ آپ اپنی امت سے یہ کہئے : قل لا اسئلـکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی (کہہ اے پیغمبر ! میں تم سے اس پر بجز اس کے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا کہ ناتے اور قرابت میں محبت اور پیار کرو) 4 جیسے پہلے ذکر ہوچکا کہ عربی زبان میں قرابت کو رحم یا رحم کہتے ہیں اور قرابت کا حق ادا کرنے کو وصل رحم یا صلہ رحمی کہا جاتا ہے اس صلہ رحمی کا مقام اور اہمیت اللہ کی نگاہ میں کیا ہے ؟ اس اکا اندازہ چند احادیث سے ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : الرحم شجنۃ من الرحمان قال اللہ تعالیٰ من وصلک وصلتہ ومن قطمک قطعتہ (رحم (حقِ قرابت) مشتق ہے رحمان سے اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اس کو توڑدوں گا) یعنی انسانوں کے باہمی قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمن سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے اس کا عنوان رحم مقرر کیا گیا۔ اسی خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے عنداللہ اس کی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا یعنی قرابت اور رشتہ داری کا حق ادا کرے گا اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ اپنے سے وابستہ کرلے گا اور اپنا بنالے گا اور جو کوئی اس کے برعکس قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ دے گا اور بےتعلق کردے گا۔ یہی بات ایک دوسری حدیث میں بھی فرمائی گئی۔ عن عبدالرحمن بن عوف قال سمعت رسولَ اللہ ﷺ یقول قال اللہ تبارک وتعالی اناا للہ وانا الرحمن خلقت الرحم وشققت لھا من اسمی فمن وصلھا وصلتہ ومن قطع بتـتہ (حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے : اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں الرحمن ہوں، میں نے رشتہ قرابت کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمن کے مادہ سے نکال کر اس کو رحم کا نام دے دیا ہے۔ پس جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں اس کو توڑوں گا) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات اور مشیت سے پیدائش کا ایسا انتظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والارشتوں کے بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے۔ پھر ان رشتوں کے کچھ فطری تقاضے اور حقوق ہیں جن کا عنوان اللہ تعالیٰ نے ” رحم “ مقرر کیا، جو اس کے نام ” رحمن “ سے گویا مشتق ہے۔ یعنی دونوں مادوں کا مادہ ایک ہی ہے۔ پس جو بندہ انسان کی فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا یعنی صلہ رحمی کرے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو جوڑے گا یعنی اس کو اپنا بنالے گا اور فضل و کرم سے نوازے گا۔ اس کے برعکس کوئی قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اور قرابت کے ان حقوق کو پامال کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور انسان کی فطرت میں رکھے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑدے گا یعنی اپنے قرب اور اپنے رحم و کرم سے محروم کردے گا۔ اس مفہوم کو استعارہ کے گہرے رنگ میں آنحضرت ﷺ نے ایک اور طریقے سے بھی بیان فرمایا، اس حدیث میں کلام کے تیور بہت تیکھے ہیں جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صلہ رحمی کس قدراہمیت کی حامل ہے اور قطع رحمی کس قدر خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے : (اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جب پروردگار اس سے فارغ ہوئے تو رحم یعنی قرابت نے اٹھ کر پروردگار کا دامن پکڑ لیا۔ پروردگار نے فرمایا بتا کیا بات ہے ؟ حقِ قرابت نے کہا یہی جگہ قطع رحمی سے آپ کی پناہ لینے کی ہے۔ پروردگار نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے میں اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں اسے توڑ دوں ؟ حقِ قرابت نے کہا : کیوں نہیں، اے رب ! میں اس پر راضی ہوں۔ پروردگار نے فرمایا پھر یہی کچھ ہوگا) یتیموں اور مسکینوں کے حقوق سورة النساء کی اس آیت کریمہ میں معاشرتی حقوق کی جو ترتیب رکھی گئی ہے اس میں اہل قرابت کے بعدیتیموں اور مسکینوں کا ذکر ہے کیونکہ یتیم اور حاجت مند لوگ اہل قرابت میں سے بھی ہوسکتے ہیں او دیگر مسلمانوں میں سے بھی اس لیے اس کی ٹھیک جگہ اہل قرابت کے پہلو میں ہی ہونی چاہیے۔ یتیم ” اکیلے اور منفرد “ کو کہتے ہیں۔ جس سیپ میں ایک ہی موتی ہو اسے دریتیم کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے یتیم وہ ہے جو بچپن یا لڑکپن میں یعنی بلوغ سے پہلے باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے سے اکیلا اور تنہا رہ جائے۔ قریبی عزیزوں کے رحم و کرم پر ہو یا معاشرہ کی ہمدردی و خیرخواہی کا محتاج ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔ مسکین ” مسکنت “ سے ہے۔ مسکنت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بیچارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انھیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ چناچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے : المسکین الذی لایجد غنی یغنیہ ولایفطن لہ فیتصدق علیہ ولایقوم فسال الناس (مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے، گویا وہ ایک شریف خوددار اور غریب آدمی ہے ) یتیم اور مسکین دونوں ہی اپنی بےکسی اور بےچارگی اور درماندگی کی وجہ سے یکساں طو پر امداد واعانت اور ہمدردی و خیرخواہی کے مستحق ہیں۔ لیکن یتیم مسکنت اور بےچارگی کے ساتھ ساتھ کم عمری اور صغر سنی کے باعث زیادہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مستحق ہے اور پھر مساکین میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے جنھیں یتیمی کی بےچارگی میں معاشرے نے سہارا دے کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زندگی کا بوجھ تو کسی نہ کسی طرح اٹھائے پھرے مگر ذلت ومسکنت سے پیچھانہ چھڑاسکے۔ اس لیے قرآن کریم اگرچہ یتامیٰ اور مساکین دونوں کے حقوق پر زور دیتا ہے لیکن یتامی کا ذکر پہلے کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی اہمیت اور بےچارگی کے باعث یقینا اولیت کے مستحق ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے بھی قرآن کریم کی طرح اپنے ارشادات عالیہ میں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی اور اسے مسلمان معاشرے کی اخلاقی ذمہ داری قراردیا۔ آپ کا ارشاد ہے : انا وکافل الیتیم لہ ولغیرہ فی الجنۃ ھکذا واشار بالسبابۃ والوسطٰی وفرج بینھما شیئا (میں اور اپنے یاپرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ نے اپنی انگشتِ شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کرکے بتلایا اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی) مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر کہ ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھابتلایا کہ جتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مرد مومن کے مقام میں ہوگا جو اللہ کے لیے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے۔ خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو جیسے پوتا یابھتیجا وغیرہ یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کا ایک اور ارشاد دیکھئے : من قبض یتیما من بین المسلمین الی طعامہ وشرابہ ادخلہ الجنۃ البتۃ الا این یکون قد عمل ذنبا لایغفر (اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا او اپنے کھانے پینے میں شریک کرلیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کرے گا۔ الایہ کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابلِ معافی ہو) ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : من مسح راس یتیم لم یمسحہ الاللہ کان لہ بکل شعرۃ یمر علیھا یدہ حسنات ومن احسن الی یتیمۃ اویتیم عندہ کنت انا وھو فی الجنۃ کہا تین وقرن بین اصبعیۃ (جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھرا تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کو نیکیاں ملیں گی اور جس نے اپنے زیر کفالت کسی یتیم بچی یایتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملاکر دکھایا یعنی ان دوانگلیوں کی طرح بالکل پاس پاس ہوں گے ) اندازہ فرمائیے ! کہ محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا کتنی بڑی سعادت اور لاکھوں نیکیوں کے حصول کا سبب ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک پیار اور محبت آنحضرت ﷺ کے قرب کا ذریعہ ہے وہ بھی جنت میں۔ یعنی جنت میں داخلہ بجائے خود کتنی بڑی خوش بختی ہے اور پھر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا قرب ؎ یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے مزید فرمایا : خیر بیت فی المسلمین بیت فیہ یتیم یحسن الیہ وشربیت فی المسلمین بیت فیہ یتیم یساء الیہ (مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین وہ گھرانہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے ) یعنی یتیم کے ساتھ حسن سلوک کسی گھر کو اللہ کی نگاہ میں عزت ووجاہت کا حامل بنا دیتا ہے اور یتیم کے ساتھ بدسلوکی کسی گھر کو قابل نفرت بنادیتی ہے لوگ عزت وذلت کے اسباب اور ذرائع نہ جانے کیا کیا گمان کرتے ہیں لیکن اللہ کی نگاہ میں بالکل دوسرے معیارات ہیں اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ جو گھر اللہ کے یہاں بہتر ہے اسی پر اس کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے وہیں رزق میں برکت ہوتی ہے اور اسی گھر کے مکینوں کو نیکیوں کی توفیق ہوتی ہے اور جو گھر اس کے یہاں برا ہے وہ خیروبرکت سے محروم اور توفیق خداوندی سے دور ہے۔ ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے مساکین کے ساتھ مروت و خیرخواہی کو اتنی بڑی نیکی قرار دیا ہے جو سراسر اللہ کا کرم ہے ورنہ آدمی کبھی اس کا گمان بھی نہیں کرسکتا۔ ارشادِ نبوی ہے : الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللہ واحسبہ قال کا القائم لایفتر وکالصائم لایفطر (کسی بےچاری بےشوہر والی عورت یا کسی مسکین حاجت مند کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والابندہ اللہ کے نزدیک اور اجروثواب میں راہ خدا میں جہاد کرنے والے بندے کی طرح ہے ) (راوی کہتا ہے) اور میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا تھا کہ اس قائم اللیل (یعنی شب زندہ دار) بندے کی مانند ہے جو (عبادت اور شب خیزی میں) سستی نہ کرتاہو اور اس قائم الدھر بندے کی مثل ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو کبھی ناغہ نہ کرتاہو۔ یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد و قتال بلند ترین عمل ہے اسی طرح کسی بندے کا یہ حال کہ اس کی راتیں عبادت میں کٹتی ہوں اور دن ہمیشہ روزہ رکھتاہو بڑا ہی قابل رشک حال ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی درجہ اور مقام ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی حاجت مند مسکین یا کسی ایسی لاوارث عورت کی خدمت واعانت کے لیے جس کے سرپرشوہر کا سایہ نہ ہو دوڑ دھوپ کریں۔ مختصر یہ کہ اسلام نے مختلف اسالیب سے یتامیٰ و مساکین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے مقام کے تعین اور بعثت نبوی کے وقت ان مظلوم گروہوں سے متعلق دنیا کی ذہنیت کی تبدیلی کے لیے حیرت انگیز کام کیا جس سے فی الواقع یتامیٰ اور مساکین کو ایک نئی زندگی اور ایک نیا معاشرتی مقام نصیب ہوا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محض تذکیر و ترغیب سے لائی ہوئی تبدیلی دیرپا اور مستقل نہیں ہوتی۔ اس لیے اسلام نے اسی پر اکتفا کرنے کی کی بجائے یتامیٰ اور مساکین کو قانونی تحفظ بھی دیا اور ان بےکسوں پر ہونے والے مظالم کا قانونی عمل سے انسداد کرکے رکھ دیا۔ ہمسایوں کے حقوق اس آیت کریمہ کی ترتیب میں قرابت مندوں کے بعد ہمسایوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ لیکن ہمسائیگی کے حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کے لیے چند الفاظ کا اضافہ فرمایا۔ ارشاد فرمایا : وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ ” ہمسایہ قریب اور ہمسایہ بیگانہ “۔ علماء نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ قریب وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر کے ساتھ متصل ہے۔ اور ہمسایہ بیگانہ وہ ہے جس کا گھر دو رہے۔ بعض دوسرے علما نے کہا کہ ہمسایہ قریب سے مراد مسلمان ہمسایہ ہے اور بےگانہ ہمسایہ سے مراد غیرمسلم ہمسایہ ہے۔ بعض اور علما کی رائے یہ ہے کہ ہمسایہ قریب سے مراد رشتہ دار ہمسایہ ہے اور بےگانہ ہمسائے سے مراد وہ ہمسایہ ہے جس سے رشتہ داری کا تعلق نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ علما کا بظاہر یہ اختلاف ایک حققیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن کریم کے ان دونوں الفاظ سے یہ تینوں قسم کے ہمسائے مراد ہیں۔ کیونکہ اس کی تعیین آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد سے ہوتی ہے : آپ نے ارشاد فرمایا : الجیران ثلاثۃ فجار لہ حق واحدٌ وھوا ادنٰی الجیران حقاً وجار لہ حقان وجار لہ ثلاثۃ حقوق فاما الذی حق واحد فجار مشرک لارحم لہ، لہ حق الجوار واما الذی لہ حقان فجار مسلم لہ حق الاسلام وحق الجوار واما الذی لہ ثلاثۃ حقوق فجار مسلم ذورحم لہ حق الاسلام وحق الجوار وحق الرحم (پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہے او وہ حق کے لحاظ سے کم درجہ کا پڑوسی ہے اور دوسرا وہ پڑوسی ہے جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہیں۔ تو ایک حق والا وہ مشرک پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے تو اس کو صرف پڑوسی ہونے کا حق حاصل ہے اور دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان بھی ہے اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہے، مسلمان بھی ہے اور رشتہ دار بھی ہے۔ اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا اور دوسر احق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا حق رشتہ داری کا ہے ) قرآن کریم کی پیش نظر آیت اور اس حدیث سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نگاہ میں ہمسائے کا صحیح تصور کیا ہے اور پھر ان میں ایک ترتیب اور تدریج رکھی ہے تاکہ ان کی درجہ بدرجہ اہمیت واضح ہو اور جب آدمی ہمسائیگی کے حوالے سے حسن سلوک کرنے لگے تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے حسن سلوک کا اولاً مستحق کون ہے ؟ اور بعض مواقع زندگی میں ایسے آتے ہیں جب آدمی کو واقعی اس ترتیب کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضور میں اپنے پڑوسی کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں میرے پڑوسی ایک سے زیادہ ہیں تو میں کس کو ہدیہ بھیجوں ؟ آپ نے فرمایا اس کو مقدم رکھو جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر کے دروازے کے بالکل سامنے ہے اور دوسرا اس حدیث سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمسائیگی کا تعلق صرف مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ یہ تعلق غیرمسلمون کے ساتھ بھی ہے۔ اگرچہ ہمارا ان کے ساتھ رشتہ دینی بھائی ہونے کا نہیں لیکن بطور ایک انسان کے وہ بھی ہماری طرف سے نیکی کا حق رکھتے ہیں۔ اس لیے اگر غیر مسلم ہمارا ہمسایہ ہے تو ہم اس کے ساتھ بھی ہمسایوں جیسا سلوک کریں گے۔ صحابہ کرام نے آں حضرت ﷺ کی تعلیم سے یہی سمجھا تھا حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) کے گھر میں ایک بکری ذبح ہوئی۔ وہ تشریف لائے انھوں نے آتے ہیں اہل خانہ سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے اپنے یہودی پڑوسی کو بھی گوشت کا ہدیہ بھیجا ؟ یہ بات آپ نے دو دفعہ فرمائی اور پھر آپ نے وہ حدیث بیان کی جس میں آنحضرت ﷺ نے پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ نے اگر آنحضرت ﷺ کی ان ہدایات پر عمل کیا ہوتا بالخصوص ایسے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی پہلے لوگوں نے اپنے اخلاق کے ذریعے ہی ہمیں اور ہمارے آبائو اجداد کو مسلمان کیا تھا۔ لیکن ہم نے اپنی بداخلاقی اور بےمروتی کے باعث بلکہ ہندوئوں کے دیئے ہوئے چھوت چھات کے تصور کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ ایساطرزِ عمل اختیار کیا جو ہندو اچھوتوں کے ساتھ کرتے تھے۔ عجیب بات ہے کہ ہم نے اپنے کاموں میں بطور ملازم ان کو شریک رکھا گھر کی خدمتیں بھی لیں، باہر کے کاموں میں بھی شریک رہے، لیکن یہ چھوت چھات کا تصور ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود رہا۔ اپنی معاشرتی زندگی میں کبھی ان کو برابری کا درجہ دینے کی ہم نے زحمت نہیں کی بلکہ ہم نے یہ غلط تصور نجانے کہاں سے لے لیا کہ ایک صاف ستھرا غیر مسلم بھی اگر کسی برتن کو ہاتھ لگادے تو برتن ناپاک ہوجاتا ہے اور دھونے سے بھی پاک نہیں ہوتا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اگر وہ غیر مسلم گوری چمڑی والا ہمارا آقا بن کر ہم پر مسلط ہوجائے تو ہم اس کی غلامی اختیار کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں اور وہ ہماری کھالوں کے جوتے بنواکر بھی پہن لے تو ہمیں اس سے بھی انکار نہیں بلکہ اس کا طرزمعاشرت اور اس کی تہذیب اختیار کرنے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں لیکن انھیں کے ہم مذہب فراش اور ملازم بن کر ہمارے گھروں میں کام کرتے ہیں تو ہم ان سے فاصلہ رکھتے ہیں۔ کاش ! ہم نے یہ فاصلے نہ رکھے ہوتے تو ان لوگوں کو جس طرح انگریز نے باوجود ہم مذہب ہونے کے کالا ہونے کی وجہ سے اپنا مساوی کبھی نہیں سمجھا تھا اگر ہم ان کو برابری کا درجہ دیتے تو یہ بہت پہلے اسلام کے دامن میں آچکے ہوتے۔ حتی کہ ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں جو اچھوت رہتے ہیں اگر انھوں نے اسلامی اخلاق دیکھے ہوتے تو وہ دیگر نومسلموں کی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک طاقت بنتے۔ اسلام نے ہمسائیگی کے اس تصور میں ایک اور لفظ بول کر مزید وسعت پیدا کردی اس آیت کریمہ میں وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ کے ساتھ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ کا اضافہ بھی ہے۔ اس کا معنی ہے ” پہلوکا ساتھی “۔ یعنی وہ شخص جو عارضی طور پر کسی کام میں آپ کا رفیق ہے یا آپ کا ہم رکاب مثلاً ایک سکول میں پڑھنے والے دو لڑکے، ایک دکان پر کام کرنے والے، ایک پیشے سے تعلق رکھنے والے، حتی کہ ایک ٹرین یا ایک بس میں سفر کرنے والے، ہوائی جہاز کے سفر میں ساتھ ساتھ بیٹھنے والے، یعنی جہاں کہیں بھی دو یا چند انسانوں کو یکجائی اور ہم نشینی کا موقع ملا ہے اسلام نے انھیں پہلو کا ساتھی قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ہمسائیگی کے رشتے کو تسلیم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں دو مسلمان ایک جگہ اکٹھے مل بیٹھتے تھے یا سفر میں شریک ہوتے تھے وہ ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی، غم گساری، ایک دوسرے کی مدد اور اعانت اپنا فریضہ جانتے تھے اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک کسی حادثے کا شکار ہوگیا تو دوسرا اپنا فرض سمجھتا تھا کہ وہ جہاں تک اس کی مدد کرسکتا ہے کرے اور اس بات کا تو عام مسلمانوں میں چلن تھا کہ گاڑیوں میں ایک ساتھ بیٹھ کر سفر کرنے والے اپنے کھانے میں ایک دوسرے کو شریک کیا کرتے تھے۔ مشہور نو مسلم مورخ اور محقق جن کا تعلق جرمنی سے تھا اور جو اصلاً یہودی تھے اور نصف صدی پہلے وہ اسلام کے دامن میں آئے اور پھر اللہ نے ان سے اسلام کی بہت خدمت لی۔ ان کا اصل نام لیوپولڈ تھا اور آج وہ علامہ اسد کے نام سے مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب Road to Mecca میں مشرق وسطیٰ کے سفر کے دوران اپنے جن مشاہدات کا ذکر کیا ہے جو انھیں اسلام تک لانے کا باعث ہوئے ان میں انھوں نے اس بات کا بطور خاص ذکر کیا کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ ایک عرب جو گاڑی میں سفر کررہا ہے اور جب کھانے کا وقت ہوتا ہے تو ایک روٹی جو اس نے اپنے ساتھ باندھ رکھی ہے وہ کھولتا ہے آدھی خود کھاتا ہے اور آدھی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو اصرار کرکے کھلاتا ہے۔ پھر وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک ٹرین کے سفر کے دوران ایک بدو جو میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا آہستہ آہستہ اٹھا اور اپنا مفلر کھولا پھر کھڑکی کھولی اس کا رنگ سانولا اور چہرہ ستواں تھا ان عقابی چہروں میں سے ایک چہرہ جو آہنی عزم اور قوت ارادی کے ساتھ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتے ہیں اس نے ایک روٹی خریدی اور واپس ہونے لگا اور جب وہ بیٹھنے جارہا تھا اس وقت اس کی نگاہ مجھ پر پڑی کچھ کہے بغیر اس نے اس روٹی کے دو ٹکڑے کیئے اور ایک مجھے دینے لگا جب اس نے میرا تردد اور تعجب دیکھا تو مسکرایا اس کی مسکراہٹ بھی اس کے چہرے پر اسی طرح موزوں تھی جس طرح عزم اور قوت ارادی۔ پھر اس نے ایک لفظ کہا جو اس وقت تو میں نہیں سمجھا لیکن اب سمجھتا ہوں۔ تفضل،” نوش فرمائیے “۔ میں نے وہ ٹکڑا لے لیا اور سر کے اشارے سے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ایک مسافر نے جو ترکی ٹوپی کے علاوہ باقی تمام یورپین لباس میں تھا اور کوئی متوسط درجہ کا تاجر معلوم ہورہا تھا، رضاکارانہ طور پر ترجمہ کی پیشکش کی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا : (یہ کہتے ہیں آپ بھی مسافر ہیں اور میں بھی مسافر ہوں اور ہم دونوں کا راستہ ایک ہے ) یعنی اسلام نے پہلو کے ساتھی کو جو حقوق دئیے تھے یہ اسی کا اثر تھا کہ ہمسائیگی کے اس تصور نے مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیرخواہ بنادیا تھا اور وہ بجائے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے، جیب کاٹنے یا دھوکا دینے کے ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور غمگساری کے پیکر بن گئے تھے۔ پڑوسی کا مقام اور اس کے حقوق کی رعائت کی تاکید ہمسائیگی کے تصور کی وضاحت کے بعد اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نگاہ میں ہمسائے کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور ہمسائیگی کے حق کی رعائت اور حقوق کی ادائیگی کی اہمیت اور فضائل کیا ہیں ؟ جہاں تک اس کی اہمیت کا تعلق ہے اس کا اندازہ آنحضرت ﷺ کی اس حدیث سے ہوتا ہے۔ عن عائشہ وابن عمر عن النبی ﷺ قال مازال جبرائیل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ (حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) اور حضرت عمر ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پڑوسی کے بارے میں برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے ) یعنی پڑوسی کا حق اور اس کے ساتھ اکرام ورعائت کا رویہ رکھنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرائیل مسلسل تاکیدی پیغام لاتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شائد اس کو وارث بھی بنادیا جائے گا یعنی حکم آجائے گا کہ کسی کے انتقال کے بعد جس طرح اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور دوسرے اقارب اس کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں اسی طرح پڑوسی کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔ اس حدیث سے بڑی آسانی سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ حقوق میں جو اہمیت ماں باپ اور اولاد کی ہے کہ وہ مرنے والے کی وراثت کے وارث ہوتے ہیں حضور ﷺ کو ہمسائے کے حقوق کی تاکید کی وجہ سے اس بات کا خیال ہونے لگا کہ شائد یہی مقام ہمسائے کو بھی دے دیا جائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر بھی کسی حق کی اہمیت ہوسکتی ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں ایمان سے بڑھ کر کوئی چیزاہم نہیں۔ وہ ایک مومن بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے اور مومن بن کر ہی مرنا چاہتا ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہوجائے کہ کسی چیز کے نہ کرنے سے میرے ایمان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خطرناک چیز نہیں ہوسکتی اور اگر اسی خطرے کا اظہار آنحضرت ﷺ کی طرف سے نہائیت پرخطر طریقے سے اور تاکیدی انداز میں فرمایا جائے تو پھر اس کے خطرناک ہونے اور اس کے ثابت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ آپ ذرا اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیے ! اور اندازہ فرمائیے کہ اس میں کلام کے تیور کتنے تیکھے ہیں اور حضور ﷺ یہ بات فرماتے ہوئے کس قدر جلال میں دکھائی دیتے ہیں۔ قال رسول اللہ ﷺ لایومن واللّٰہِ لَایُؤمِنُ وَاللّٰہِ لاَ یُـؤمِنُ قِیلَ مَنْ یَارَسُولَ اللّٰہ ؟ قَالَ الَّذِی لاَ یَامَنُ جَارُہٗ بَوَائِـقَہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں، اللہ کی قسم اس میں ایمان نہیں، اللہ کی قسم وہ صاحب ” ایمان نہیں عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ کون شخص ؟ یعنی حضور کس بدنصیب شخص کے بارے میں قسم کے ساتھ ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں اور اس کا ایمان نہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور اس کی فتنہ پردازیوں سے مامون اور بےخوف نہیں ہیں۔ “ اندازہ کیجیے ! آنحضرت ﷺ کس قدر حتمی انداز میں اس آدمی کے صاحب ایمان ہونے سے انکار فرما رہے ہیں۔ جس آدمی کا رویہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ اس طرح کا ہے کہ وہ اس کی شرارتوں اور اس کی دل آزاریوں سے پریشان ہیں۔ یعنی ہمسایہ ہمسائے کے لیے قوت اور راحت کا سامان ہونا چاہیے اور اگر اس کے برعکس اس نے اپنے ہمسائے کی زندگی اجیرن کررکھی ہے تو وہ یقینا ایمان کے اعتبار سے کوئی بہتر آدمی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کو دو خواتین کے بارے میں بتایا گیا کہ حضور ایک خاتون بہت عبادت گزار، شب زندہ دار، راہ اللہ میں مال صرف کرنے والی اور بہت نیک ہے لیکن اس کے ہمسائے اس کی زبان درازیوں سے بہت پریشان ہیں۔ لیکن دوسری خاتون جو بہت زیادہ عبادت گزار نہیں صرف فرائض کی پابند ہے لیکن اس کے ہمسائے اس کے سلوک اور اس کی مروت سے بہت خوش ہیں اور بہت تعریف کرتے ہیں تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ پہلی خاتون کا نیکی میں کوئی حصہ نہیں اور وہ اپنی زبان درازیوں کے باعث جہنم میں جائے گی اور دوسری خاتون اپنے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے جنت میں داخل کی جائے گی۔ اسی طرح ایک اور حدیث کے مطابق آنحضرت ﷺ نے ہمسائے کے حقوق ادا نہ کرنے والے کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ ایسے شخص نے معلوم ہوتا ہے مجھے ماناہی نہیں۔ ذراحدیث کے الفاظ ملاحظہ کیجیے : عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ ما امن بی من بات شبعان وجارہ جائع الی جنبہ وھو یعلم بہ (حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا یعنی اس نے مجھے مانا ہی نہیں جو ایسی حالت میں اپنا پیٹ بھر کر رات کو بےفکری سے سوجائے کہ اس کے برابر رہنے والا اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور اس آدمی کو اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو) پڑوسی کے معاشرتی حقوق اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے ارشادات غائت درجہ، پر مغز اور از بس لطیف واقع ہوئے ہیں۔ ان ارشادات میں آپ نے معاشرتی حقوق کو بھی بیان فرمایا اور اصلاحی اور دعوتی حقوق کی بھی تاکید فرمائی معاشرتی حقوق کے حوالے سے آپ کا ارشادِ گرامی ہے : قال رسول اللہ ﷺ حق الجار ان مرض عدتہ وان مات شیعتہ وان استقرضک اقرضتہ وان اعور سترتہ وان اصابہ خیر ھناتہ وان اصابتہ مصیبۃ عزیتہ ولاترفع بناء ک فوق بنائہ فتسد علیہ الریح ولاتوذیہ بریح قدرک الا ان تغرف لہ منھا (رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پڑوسی کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور خبرگیری کرو اور انتقال کر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جاؤ (اور تدفین کے کاموں میں ہاتھ بٹائو) اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لیے قرض مانگے تو (بشرطِ استطاعت) اسے قرض دو اور اگر وہ کوئی براکام کربیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے اور (جب تمہارے گھر کوئی اچھا کھانا پکے تو اس کی کوشش کرو کہ) تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لیے (اور اس کے بچوں کے لیے) باعث ایذا نہ ہو (یعنی اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک اس کے گھر تک نہ جائے) الایہ کہ اس میں سے تھوڑا سا کچھ اس کے گھر بھی بھیج دو ) اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے پڑوسی کے معاشرتی حقوق بیان فرمائے ہیں۔ ہم انھیں اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے پڑوسی سے حسن سلوک کرنے اور حق جوار کی رعایت کرنے کی مطلقاً تو جابجا تاکید فرمائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عام معمول کے تعلقات اور روزمرہ کے معمولات میں پڑوسی کے ساتھ مروت اور شائستگی سے پیش آنا اور دونوں کا ایک دوسرے کے لیے تقویت اور اکرام و راحت کا ذریعہ بن کر زندگی گزارنا تو ایک مستقل وتیرہ ہونا چاہیے لیکن مخصوص حالات میں تعین کے ساتھ مخصوص احکام دیئے، مثلاً حکم دیا 1 اگر پڑوسی بیمار ہوجائے تو دوسرے پڑوسی کا فرض ہے کہ وہ اس کی تیمارداری عیادت اور خبر گیری کرے۔ یعنی بیماری کے دنوں میں اسے جس طرح کی مدد اور دلجوئی کی ضرورت ہو اس کا انتظام کرے۔ کوئی اس کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تو دیکھ بھال کرے۔ ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہو تو ہسپتال لے کرجائے، وہ تہی دامن ہے تو ادویہ مہیاکرے اور بقدر استطاعت جتنی مدد اور اعانت کرسکتا ہو اس میں دریغ نہ کرے اور ایسا رویہ اختیار کرے کہ اسے اپنے تنہا ہونے کا احساس نہ ہو۔ 2 اور اگر خدانخواستہ پڑوسی انتقال کرجائے تو جنازے کے ساتھ جائے اگر اس کے تکفین اور تدفین میں مدد کی ضرورت ہو یعنی کفن خریدنا پڑے تو کفن خریدے۔ قبر کھدوانے کی ضرورت ہو تو قبرکھدوائے۔ پھر تدفین میں ساتھ رہے۔ مرحوم کے اہل خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کرے کیونکہ وہ غم کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی دوردراز کے مہمان آئے ہوں تو ان کی بھی دیکھ بھال کرے۔ مرحوم کے اہل خانہ کی ہمدردی اور دلجوئی کی پوری کوشش کرے اور ان پر ذمہ داری کا بار کم سے کم کرنے کی کوشش کرے۔ 3 اگر پڑوسی کبھی حالات کی نامساعدت یا کسی ناگہانی آفت سے مجبور ہوکرقرض مانگے تو اس کے پڑوسی کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ بقدر استطاعت مدد اور اعانت سے دریغ نہ کرے کیونکہ مالی احتیاج بعض دفعہ جسمانی احتیاج سے بھی شدید تر ہوتی ہے اور ایسی صورت میں دستگیری نہ کرنا اور حالات کے رحم و کرم پرچھوڑدینا سنگین نتائج کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی ایک آدمی کا اصل امتحان مالی معاملات میں ہی ہوتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو وقت اور ہمت صرف کرنے میں فیاض ہوتے ہیں لیکن مالی ایثار میں کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان حقوق میں ہر طرح کے تعاون اور ایثار کو شامل فرمایا ہے۔ 4 اگر پڑوسی سے کوئی برائی ہوجائے تو دوسرے پڑوسی کو پردہ پوشی سے کام لینا چاہے۔ غلطیوں اور فروگزاشتوں سے کون مبرا ہے۔ کتنے گنہگار ہیں جن کے گناہوں پر رحمت حق نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ پڑوسی کو پڑوسی کے لیے رحمت بننا چاہیے۔ غایت اتصال اور اکثر اوقات کی آگاہی کے باعث ایک دوسرے کے عیوب کی اطلاع اکثرا وقات ممکن ہے اس لیے اصلاح کے حوالے سے اور تعلقات کے استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ عیبوں اور گناہوں پر پردہ ڈالا جائے۔ 5 تعلقات میں گہرائی اور گیرائی محبت اور اخلاص اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب پڑوسی دوسرے پڑوسی کے احساسات میں بھی شریک اور حصہ دار بن جائے یعنی اگر پڑوسی بھائی کو کوئی نعمت میسر آئے، کوئی خوشی اور مسرت کالمحہ نصیب ہو مثلاً اللہ گھر میں بچہ دے یا کوئی بچہ امتحان میں کامیاب ہو یا کسی کو نوکری ملے، ملازمت میں ترقی ہو، کاروبار پھلے پھولے، غرضیکہ بہتری اور خوشی کی کوئی بھی صورت پیدا ہو تو دوسرے پڑوسی کو تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے کے لیے ضرور جانا چاہیے۔ اس طرح اس کی خوشی دو چند ہوجائے گی اور دونوں کے تعلقات میں گہرائی پیدا ہوگی اور استحکام آئے گا۔ 6 جس طرح دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے سے تعلقات میں قربت آتی ہے اس طرح مصیبت اور غم کے موقع پر ہمدردی اور غمخواری کرنے سے قلبی رشتے قائم ہوتے ہیں بلکہ مصیبت اور درد کے رشتے خوشی کے تعلقات سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے پڑوسی کا یہ حق رکھا ہے کہ اگر تمہارے پڑوسی کو کوئی دکھ پہنچے تو تمہارا اخلاقی فریضہ ہے کہ اس کے دکھ اور غم میں شرکت کرو۔ اس کا غم بٹانے کی کوشش کرو۔ اس سے ہمدردی اور خیرخواہی کرو۔ اس طرح اس کی مصیبت کو بوجھ ہلکا ہوجائے گا اور انسانیت پر جانبین کا اعتقاد مستحکم ہوجائے گا۔ 7 پڑسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے مکان سے دوسرا پڑوسی اپنے مکان کی دیوار اتنی بلند نہ کرے کہ اس کی ہوا رک جائے اور وہ یہ سمجھنے لگے کہ میں جیل کی دیواروں کے پیچھے بیٹھا ہوں۔ آج بجلی کی سہولت کی دجہ سے شائد اس نصیحت کی حقیقی قدر و قیمت معلوم نہ ہوسکے لیکن جن پسماندہ دیہات اور علاقوں میں آج بھی یہ سہولت نہیں ہے ان سے پوچھئے کہ پڑوسی کی بلند دیواروں کا کیا مفہوم ہے ؟ اور ان سے کیسی اذیت ہوتی ہے۔ البتہ ! ہوا بند ہونے کے علاوہ ان بلند دیواروں یا غیر ذمہ دار اور غیر شائستہ پڑوسی سے ایسی اذیتیں بھی وقوع پذیر ہوتی ہیں جن کا آج سے پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن ان کا تعلق چونکہ صرف دیواروں کی بلندی سے نہیں اس لیے آنحضرت نے اس کا الگ سے ذکر فرمایا 8 مندرجہ بالا حدیث میں آخر میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے پڑوسی کو ایذا اور تکلیف مت پہنچائو اپنی ہنڈیا کی مہک سے یعنی ایسی ہنڈیا مت پکائو جس کی مہک اور خوشبو غریب پڑوسی تک پہنچے اور اسے اور اس کے بچوں کو یہ خوشبو اپنی محرومیوں کی یاددلانے لگے اور بچے چونکہ اپنی محرومیوں کا ذمہ دار بالعموم اپنے والد کو سمجھتے ہیں تو ایسے مواقع پر زبانیں خاموش بھی رہیں لیکن خشمگین نگاہیں والد کو ضرور گھورتی ہیں اور دل میں دبا ہوا احساس لاوے کی طرح کھولنے لگتا ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ اس کی کسی حدتک تلافی اس طرح ہوسکتی ہے کہ جو پر تکلف پکوان گھر میں تیار ہوا ہے اس میں سے کچھ ہمسائے کے گھر بھی بھیجوتا کہ وہ تمہیں بھی اپنا سمجھیں اور ان کے دلوں میں رشک وحسد کی بجائے اپنائیت کے جذبات پیدا ہوں۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں اب تک چھ قسم کے لوگوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں جو خونی رشتوں یا ہمسائیگی کے تعلقات کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ قربت رکھتے تھے۔ اب دو طرح کے ایسے لوگوں کے حقوق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو نہ تو خونی رشتوں سے منسلک ہیں اور نہ ہمسائیگی کی وابستگی رکھتے ہیں۔ ان میں ایک ” اِبْنِ السَّبِیْلِ “ ہیں اور دوسرا ” وَمَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ “ اِبْنِ السَّبِیْل کا معنی ہے ” مسافر “۔ اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک سے آنے والا کوئی شخص یا چند اشخاص جو کسی بھی نیک ارادے سے گھر سے نکلے ہوں چاہے وہ تبلیغی ارادے سے آئے ہوں یاتجارتی ارادے سے، گھومنے پھرنے اور سیر کرنے کے لیے یا کسی خاص علاقے کے تاریخی آثار دیکھنے یا کسی خاص علاقے میں خاص موسم سے محفوظ ہونے کے لیے یہ تمام لوگ مسافر ہیں۔ ان میں دونوں طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں وہ بھی جو اپنے پاس سفر کی ضروریات کے لیے کافی سرمایہ رکھتے ہیں اور وہ بھی جو واجبی سا خرچ لے کر نکلے ہیں اور کسی وقت بھی ضروریات میں کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ بظاہر اپنے ساتھ زرکثیر یا سہولیات کی ایک بڑی مقدار لے کر آئے ہیں یہ اندیشہ تو ان کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے کہ وہ کسی نقصان یا کسی حادثے کا شکار ہوجائیں۔ سامان چوری ہوجائے، راستے میں ایکسیڈنٹ ہوجائے، کا رتباہ ہوجائے، جسمانی طور پر کسی نقصان کا شکار ہوجائیں، تو باوجود اس کے کہ یہ لوگ اپنی ذات میں مالدار اور معزز لوگ ہیں لیکن اب چونکہ حالات نے انھیں ضرورت مند اور حاجت مند بنادیا ہے تو اسلام نے ان کو وہ حقوق عطا کیے ہیں جو ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کے لیے ہیں اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے وہی فضائل ہیں جو کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے فضائل ہوسکتے ہیں۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ آپ ان کی کوئی مالی مدد کرکے ان کو سفر کے قابل بنادیں یہ بھی عین سعادت کی بات ہے آنحضرت ﷺ نے مختلف ارشادات میں اور قرآن کریم نے اپنی مختلف آیات میں ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے اور ننگوں کو کپڑا پہنانے کی بہت فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ لیکن دوسری صورت یہ ہے کہ وہ معاشرے کے پاس بطور مہمان آجائیں اور معاشرہ انھیں اپنے پاس مہمان ٹھہرا کر ان کو سنبھالا دینے کی کوشش کرے۔ وَمَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ کا معنی ہے ” وہ جو تمہارے زیر دست ہیں “ ، ” تمہارے ہاتھ جن کے مالک ہیں “۔ نزول ِ قرآن کے وقت تک اس طبقے کی زنجیریں کٹنے کی بجائے مضبوط ہوتی رہی تھیں۔ ہر دور میں فاتح قوموں نے ہمیشہ مفتوح قوموں کے افر اد کو غلامی کی زنجیریں پہنائی ہیں اور اپنی خواہشات اور قوت واقتدار کے لیے ہمیشہ ان کو ایندھن بنایا۔ شاہوں اور ظالم امراء کے چراغ ہمیشہ ان مظلوموں کے پسینے اور خون سے جلتے رہے۔ ہندوئوں میں اچھوت اسی ظلم کی یادگار ہیں، مصر میں بنی اسرائیل کے ساتھ یہی ظلم ہوتا رہا، رومیوں کے بحری جہاز اسی مظلوم طبقے کی توانائیوں کو نچوڑتے رہے، ان کے کھیلوں کے میدان درندوں کے جبڑوں میں انھیں تڑپتا دیکھ کر تالیوں سے گونجتے رہے، عربوں میں بھی یہی مظلوم طبقہ اپنی محرومیوں کی تصویر بنا زندگی کا رتھ کھینچتا رہا۔ مذہب جب بھی دنیا میں آیا اس نے ہمیشہ مظلوموں کی داد رسی کی اور کمزوروں کو طاقت اور خود اعتمادی دے کر جبر و استبداد کا شکنجہ توڑا۔ بعثتِ نبوی کے وقت دنیا میں جو بین الاقوامی قوانین جنگ نافذ تھے ان میں قیدیوں کے تبادلے یا فدیہ وغیرہ لے کر قیدیوں کو آزاد کرنے کی بجائے مفتوح قوم کے افراد کو غلام بنالینے کا عام چلن تھا۔ اسلام کو بادل نخواستہ اس کو قبول کرنا پڑا۔ لیکن اسے ایک تدبیر کے طور پر اختیار کیا گیا۔ اسے اسلامی نظام کا جزو یا اسلامی اہداف میں سے ایک ہدف قرار نہیں دیا۔ علاوہ ازیں اس میں ایسی اصلاحات کیں جس سے غلامی استحاصل کا ذریعہ بننے کی بجائے تربیت وتشکیل کردار کا ذریعہ بن گئی۔ جنگ میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو جب مسلمان گھرانوں میں رہ کر مسلمانوں کے سیرت و کردار کو قریب سے دیکھنے کا اور اسلام اور اس کے اثرات کو براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تو ان کی عظیم اکثریت نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد وعلماء، فضلا اور مجاہدین کی ایسی تیا رہوئی جس پر ہمیشہ مسلمانوں کی تاریخ فخر کرتی رہے گی۔ مزیدبرآں اسلام نے اس عقدہ کو حل کرنے کے لیے ایسی اصلاحات تجویز کیں جس نے پہلے مرحلے میں غلاموں کو ایک مظلوم طبقے کی بجائے عام انسانوں کی طرح زندگی کے سفر میں شرکت کے قابل بنایا۔ کسی کو عبد کہہ کربلانے پر پابندی لگادی۔ تمام امتیازی علامات کا خاتمہ کردیا۔ ان کی معاشرتی زندگی کو برابر کی سطح پر لانے کے لیے حکم دیا کہ غلاموں کو اپنے بھائی سمجھو اور ان کے ساتھ بھائیوں جیساسلوک کرو۔ عن ابی ذر قال رسول اللہ ﷺ اخوانکم جعلھم اللہ تحت ایدیکم فمن جعل اللہ اخاہ تحت یدیہ فلیطعمہ مما یا کل ولیلبسہ ممایلبس ولایکلفہ من العمل مایغلبہ ان کلفہ ما یغلبہ فلیعنہ علیہ (حضرت ابو ذر ( رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ غلام تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہاری زیر نگرانی دے دیا ہے جس کے بھائی کو اللہ تعالیٰ اس کی تحویل میں دے دے اسے چاہیے کہ جو خود کھائے اسے کھلائے جو خود پہنے اسے پہنائے اور اس کی ہمت سے بڑھ سے اسے کام کی تکلیف نہ دے اور اگر کسی مشکل کام کا بار اس پر ڈالے تو اس میں خود اس کی مدد کرے ) دوسرے مرحلے میں غلاموں کو آزاد کرنے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا اور اسے اس قدر اہمیت دی کہ قرآن کریم نے اسلامی زندگی اختیار کرنے اور اس راستے میں شریعت کی طرف سے عائدکردہ فرائض وواجبات کو باحسن طریق ادا کرنے کو گھاٹی سر کرنے سے تعبیر کیا اور اس عظیم مہم کے پہلے مرحلے کو ” فَکُّ رَقَـبَۃٍ “ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا قرار دیا پھر آنحضرت ﷺ نے بہ کثرت ارشادات میں اس کی ترغیب فرمائی۔ انھیں میں ایک ارشاد حضرت ابوہریرہ ( رض) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا : جس شخص نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا، اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے شخص کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا۔ ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پائوں کے بدلے پائوں، شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ۔ حضرت علی بن حسین (امام زین العابدین) نے اس حدیث کے راوی سعدبن مرجانہ سے پوچھا کیا تم نے ابوہریرہ ( رض) سے یہ حدیث خود سنی ہے۔ انھوں نے کہا : ہاں۔ اس پر امام زین العابدین نے اپنے سب سے قیمتی غلام کو بلایا اور اسی وقت اسے آزاد کردیا۔ مسلم میں بیان کیا گیا ہے کہ اس غلام کے لیے ان کو دس ہزار درہم قیمت مل رہی تھی۔ مزید برآں کفارہ کی مختلف شکلوں میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔ مثلاً قتل خطا، عمداً روزہ توڑنے اور بیوی سے ظہار وغیرہ میں غلام کی موجودگی میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح غلام اگر آزادی حاصل کرنے کے لیے شریعت کی عطاکردہ قانونی صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرنا چاہے تو غلام کے مالک کو اسے قبول کرلینے کا حکم ہے۔ انہی ترغیبات اور تعلیمات کا نتیجہ کا یہ ہوا کہ مسلمانوں میں غلامی کو ختم کرنے غلاموں کی فلاح و بہبود اور غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کا ایک دینی ذوق پیدا ہوگیا، جس کی وجہ سے ہر مالدار شخص اس نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ حضرت حکیم بن حزام فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمانوں ہوئے آپ نے ایک سو غلام آزاد کیے۔ حضرت عثمان غنی ( رض) ہر جمعہ کو دس غلام آزاد کرتے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ( رض) نے مجموعی طو رپرتیس ہزار غلام آزاد کیے۔ ایسی ہی کاوشوں کے نتیجے میں نہ صرف غلامی ختم ہوگئی بلکہ ماضی کے غلام مستقبل میں حکمران بن کراٹھے۔ بقول ہری چند اختر ؎ جس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درِ یتیم اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا ” اللہ اترانے اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ اس آیت کریمہ کی وضاحت میں آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کو بیان کرنے کے بعد بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا حکم دیا ہے اور بندوں کے معاملے میں جن رشتوں اور جن وابستگیوں کی اہمیت بنیادی ہے بطور خاص ان کے لیے ادائے حقوق کی تاکید کی گئی ہے اور اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں کہ ادائے حقوق اور احسان کی ادائیگی کے لیے ایک خاص ذہنیت اور خاص مزاج کی ضرورت ہے، جس میں اللہ کی نعمتوں پر شکر گزاری اور بندوں کے ساتھ معاملات میں تواضع کا جذبہ کارفرما ہو۔ یہی جذبہ انسان کو ادائے حقوق اور احسان پر آمادہ کرتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس انسان کے اندر وہ رویہ پیدا ہوجائے جس سے گھمنڈ اور فخر پیدا ہوتا ہے اور جس سے انسان میں تکبر کو راہ ملتی ہے۔ تو ایسے انسان سے کبھی اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرے گا، جن کے حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں ان کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرے گا، لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آئے گا کیونکہ تکبر اور گھمنڈ انسان کے اندر بالکل اس سے متضاد اخلاق پیدا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانیت مجروح ہوتی اور انسانی رشتے بےاثر ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ناشکروں اور کم ظرفوں کی اللہ کے ہاں کیا پذیرائی ہوسکتی ہے ؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا یعنی میں ایسے لوگوں سے نفرت کرتا ہوں کیونکہ اس رویے سے انسان کے اندر چند خصوصیات جنم لیتی ہیں جو انسانیت کے لیے بدنما داغ سے کم نہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں انھیں کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ اب ہم ایک ترتیب سے انھیں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Top