Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے اس کو شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور یہ اس کی شایانِ شان بھی نہیں۔ یہ بس یاددہانی اور نہایت واضح قرآن ہے
8۔ آگے کا مضمون۔ آیات 69۔ 73 آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ خاتمہ میں تمہید کے مضمون کو، ایک نئے اسلوب سے، پھر لے لیا ہے۔ یاد ہوگا، سورة کا آغاز قرآن حکیم کی قسم سے ہوا ہے اور اس حکیمانہ کتاب کو آنحضرت ﷺ کی رسالت کی دلیل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اس کتاب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے امیوں پر عظیم احسان فرمایا ہے لیکن اس پر ایمان وہی لائیں گے جن کے اندر زندگی کی رمق ہوگی۔ اس تمہید کے بعد کلام کا رخ قرآن کے دعاوی کے اثبات کی طرف مڑ گیا ہے۔ یہاں بھی غور کیجئے تو وہی بات ایک نئے اسلوب سے آئی ہے۔ پہلے ان مخالفین کی تردید ہے جو قرآن کو شاعری اور آنحضرت ﷺ کو شاعر قرار دیتے تھے۔ پھر یہ واضح فرمایا ہے کہ کن لوگوں پر یہ کلام اثر انداز ہوگا اور کون لوگ اس سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ربوبیت کی بعض واضح آیات کی طرف اشارہ کرکے اس دعوت شکر کا اعادہ کیا ہے جس پر اس سورة کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد کلام کا رخ آنحضرت ﷺ کی تسلی کی طرف مڑ گیا ہے کہ لوگ تمہاری مخالفت میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا غم نہ کرو، جو لوگ اللہ پر بھی پھبتیاں چست کرنے سے باز نہیں آتے وہ اگر تمہارا مذاق اڑائیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حولاے کرو۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایے۔ 9۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت آیت 69 ضمیر مفعول کا مرجع آنحضرت ﷺ ہیں۔ یہ ان لوگوں کے خیال کی تردید ہے جو قرآن کو شاعری آور آنحضرت ﷺ کو ایک شاعر قرار دیتے تھے۔ فرمایا کہ نہ ہم نے اپنے رسول کو شعر کی تعلیم دی۔ نہ یہ چیز اس کے شایانِ شان ہی ہے۔ یہ ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو قرآن کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کو مھض اس کے پیش کرنے والے کی شاعرانہ جادوبیانی کا کرشمہ قرار دیتے تھے تاکہ ان کے عوام پر یہ اثر نہ پڑنے پائے کہ وہ اس کی تاثر و تسخیر سے مرعوب ہو کر اس کو آسمانی کتاب مان لیں۔ عوام کو قرآن اور پیغمبر ﷺ سے گرگشتہ کرنے کے لئے وہ کہتے تھے کہ قرآن ہے تو بیشک ایک نہایت فصیح وبلیغ کلام لیکن اس کی یہ فصاحت و بلاغت اس وجہ سے نہیں ہے کہ یہ کوئی آسمانی وحی ہے، جیسا کہ اس کا پیش کرنے والا دعویٰ کرتا ہے، بلکہ جس طرح ہمارے اونچے درجے کے شاعروں کے کلام میں تاثیر و تسخیر ہے اسی طرح اس شخص کے کلام میں بھی تاثیر و تسخیر ہے۔ اس وجہ سے اس شخص کو زیادہ سے زیادہ ایک اونچے درجے کا شاعر سمجھنا چاہیے نہ کہ ایک نبی اور رسول اور اس قرآن کو ایک شاعر انہ کلام ہی کا رتبہ دینا چاہیے نہ کہ وحی والہام کا۔ قرآن نے ان کے اس خیال کی مختلف اسلوبوں سے جگہ جگہ تردید کی ہے۔ خاص طور پر سورة شعراء میں اس فرق کو نہایت تفصیل سے نمایاں فرمایا ہے جو ایک نبی اور ایک شاعر کے درمیان ایک عامی کو بھی نظر آسکتا ہے۔ تفصیل کے طالب اس پر ایک نظر ڈال لیں۔ ’ وما ینبغی لہ ‘ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ شاعری نبوت کی شان سے ایک فروتر چیز ہے۔ اس کے فروتر ہونے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام (علیہم السلام) کی روایات و خصوصیات اور شاعروں کی روایات و خصوصیات میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ سورة شعراء میں شاعروں کی تین خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور تینوں ہی شان نبوت کے منافی ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے غازی نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس نبی اپنی ہر بات پر سب اول اور سب سے بڑا عمل کرنے والے خود ہوتا ہے۔ دوسری خصوصیات ان کی یہ مذکور ہوئی ہے کہ ان کا کلام متضاد افکار کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ ہر وادی میں ہرزہ گردی کرتے اور فرع دونوں میں بالکل متحد و مربوط اور باہم و گرد، وابستہ و پیوستہ ہوتی ہے۔ ان کی تیسری خصوصیت یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ برعکس اس کے انبیائے کرام کے پیرو ہمیشہ سوسائٹی کے اخیار ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس کلیہ میں بعض استثناء بھی ہیں جن کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے لیکن بہت کم۔ عام حالت یہی ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو شعر و شاعری کی چھوت سے محفوظ رکھا۔ انبیاء کی شان سے اس کے فروتر ہونے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعری کا تعلق تمام تر جذبات سے ہے۔ یہ جذبات ہی سے پیدا ہوتی ہے اور جذبات ہی پر عمل کرتی ہے۔ یہ اچھے جذبات ابھارتی ہے کہ اگر اس کے اندر اچھے جذبات ظاہر کئے گئے ہوں اور برے جذبات بھی برانگیختہ کرتی ہے۔ اگر اس کو برے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس دائرہ سے باہر اس کا وجود بالکل بےکار ہے۔ حضرات انبیائے کرام جس مشن پر مامور ہوتے ہیں اس کا تعلق صرف جذبات سے نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا ہے اس وجہ سے ان کی اصل اپیل جذبات کے بجائے انسان کی عقل سے ہوتی جو زندگی کہ ہر پہلو میں رہنمائی کرتی ہے۔ انہوں لوگوں کو صرف ابھارنا ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے، ان کی غلطیوں کو درست کرنا ہوتا ہے، ان کو انفرادی و اجتماعی زندگی کے آداب و اصول سکھناے ہوتے ہیں، ان کو حکومت و ریاست کے قوانی و ضوابط بتانے ہوتے ہیں۔ مختصر الفاط میں یوں سمجھے کہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں کی حسنات سے لوگوں کو بہرہ مند کرنا ہوتا ہے۔ یہ سارے کام ظاہر ہے کہ شاعری کے بس سے باہر ہیں۔ ان کاموں کے لئے ضرورت کسی شاعر کے دیوان یا مجموعہ کلام کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کتاب مبین کی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو شاعر نہیں بلکہ اپنی کتاب مبین کا حامل بنایا۔ یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ جب شاعری حضرات انبیائے کرام کی شان اور ان کے مقصد سے ایک فروتر چیز ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑ کو زبور شعر کی شکل میں کیوں عطا فرمائی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت دائود ؑ کے پاس اصل رہنما کتاب زبور نہیں بلکہ تورات تھی۔ زبور کی حیثیت محض تورات کے ایک ضمیمہ کی سمجھے جس میں حضرت دائود ؑ کی کچھ دعائیں، مناجاتیں، ان کے مواعظ اور ان کی پُر حکمت نصیحتیں ہیں۔ تورات کے ساتھ مل کر تو یہ ایک نہایت بابرکت خزانہ حکمت ہے۔ لیکن تورات کے بغیر یہ اس مقصد کے لئے کافی نہیں ہے جس کے لئے حضرات انبیاء کی بعثت ہوئی۔ ان ھوالا ذکر و قرآن مبین ‘۔ یعنی یہ قرآن شعر و شاعری نہیں بلکہ ایک عظیم یاد دہانی اور ایک واضح صحیفہ ہدایت ہے تاکہ یہ خلق کی اصلاح اور لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنے۔ قران کے ’ ذکر ‘ ہونے کا مفہوم اس کے محل میں ہم واضح کرچکے ہیں۔ یہ ان تمام حقائق کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے اندر ودیوت فرمائے ہیں، اس پوری تاریخ ہدایت کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک پھیلی ہوئی ہے اور ان تمام نتائج و عواقب کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو دنیا اور آخرت دونوں لازماً پیش آکے رہیں گے، اگر اللہ کے رسول کی تکذیب کی گئی۔ ’ قرآن مبین ‘۔ یعنی ایک جامع صحیفہ ہدایت جو زندگی کے ہر پہلو کے لئے اپنے اندر نہایت واضح، ٹھوس، محکم اور مدلل رہنمائی رکھتا ہے اور ہر حقیقت کو اس طرح کھول کر بیان کرتا ہے کہ کسی انصاف پسند کے لئے کسی شب ہے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ایسے مدلل، میرہن اور منضبط کتاب کو شعرو شاعری سے کیا تعلق ! دنیا کی پوری تاریخ میں کس شاعر نے اس طرح کی کتاب پیش کی ہے !
Top