Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں ہم اس کو اس کی خلقت میں پیچھے لوٹ دیتے ہیں۔ تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
آیت 68 اوپر جو دھمکی دی گئی ہے کہ انسانی زندگی کے احوال و مشاہدات سے اس کی دلیل دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے لوگوں کی قوتوں اور صلاحیتوں کو مسخح کردینا ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ انسان جب وجود میں آتا ہے تو وہ ایک مضغہ گوشت ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ درجہ بدرجہ اس کو قوت و توانائی بخشتا ہے یہاں تک کہ وہ جوانی کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں سے بھرپور ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے اوپر بڑھاپا طاری ہونا شروع ہوتا ہے اور درجہ بدرجہ وہ اسی ضعف و ناتوانی کی حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے جس میں وہ اپنی ولادت کے وقت مبتلا تھا۔ قرآن نے اس حالت کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے۔ اللہ الذی خلقکم من جعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعف وشیبۃ (الروم : 54) (اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ناتوانی سے، پھر ناتوانی کے بعد اس نے توانائی بخشی پھر توانائی کے بعد ضعف اور بڑھاپا طاری کردیا) یہ عام حالت کی تصویر ہے۔ ہر شخص جو جوانی اور پیری کے مراحل سے گزرتا ہے اس کو اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ قوتوں اور صلاحیتوں کی ناتوانی کا اس سے کہیں زیادہ تجربہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کو ارذل عمر کے مرحلے سے سابقہ پڑتا ہے۔ قرآن نے ان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے۔ ومنکم من یردا الی ارذک لعمر یس کی لایعلم بعد علم شیاء (النحل : 70) (اور تم میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو ارزول عمر کو پہنچائے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہیں جانتے)۔ آیات زیر بحث میں اسی صورت ھال کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس دنیا میں تم دیکھتے ہو کہ جس کی عمر ہم زیادہ کرتے ہیں درجہ بدرجہ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں میں ہم اس کو پیچھے کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ یعنی جس ناتوانی کے دور سے وہ زندگی کا آغاز کرتا ہے اسی ناتوانی کی طرف پھر وہ واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام قوتین اور صلاحیتیں خدا ہی کی بخشی ہوئی ہیں وہ جب چاہے ان کو واپس لے سکتا ہے اور اس طرح واپس لے سکتا ہے کہ کسی کو اپنے داہنے بائیں کا بھی کچھ ہوش باقی نہ رہے تو حیف ہے ان لوگوں پر جو اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کرین اور ان کو پا کر خدا کے شکر گزارے ہونے کے بجائے استکبار میں مبتلا ہوجائیں۔ ’ تنکیس ‘ اور نکس ‘ کو عام اہل لغت بالکل ہم معنی قرار دیتے ہیں۔ یعنی کسے شے کو پیچھے کی طرف لوٹا دینا۔ لیکن میرے نزدیک تنکیس میں تدریج کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے یعنی درجہ بدرجہ کسی چیز کو پیچھے کی طرف لوٹانا۔ قرآن میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں اور دونوں جگہ یہ فرق ملحوظ ہے۔ لفظ ’ خلق ‘ یہاں ’ خلقت ‘ کے مفہوم میں ہے اور اس معنی میں یہ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔
Top