Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 59
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاِذَا : اور جب بَلَغَ : پہنچیں الْاَطْفَالُ : لڑکے مِنْكُمُ : تم میں سے الْحُلُمَ : (حد) شعور کو فَلْيَسْتَاْذِنُوْا : پس چاہیے کہ وہ اجازت لیں كَمَا : جیسے اسْتَاْذَنَ : اجازت لیتے تھے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : جاننے ولاا، حکمت والا
اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں 91 تو چاہیے کہ اُسی طرح اجازت لیکر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اِس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے
سورة النُّوْر 91 یعنی بالغ ہوجائیں۔ جیسا کہ اوپر 87 میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائیں ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں 15 برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا، اور امام ابوحنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں 17 برس کی لڑکی اور 18 برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلکہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ 15 یا 18 برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو ونما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جائے، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے معتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 15 برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہوگا، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے لیے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کرسکتے ہیں۔ 15 برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں 14 سال کا تھا جب غزوۂ خندق کے موقع پر، جبکہ میں 15 سال کا تھا، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی (صحاح ستہ و مسند احمد)۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال 3 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال 5 ھ میں اور بقول ابن سعد ذی القعدہ 5 میں پیش آیا۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر 14 سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف 15 سال کے ہوں ؟ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے 12 سال 11 مہینے کی عمر کو 14 سال، اور 15 برس 11 مہینے کی عمر کا 15 سال کہہ دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نابالغ ہونا اور چیز۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جاسکے۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے 15 برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے، کوئی منصوص حکم نہیں ہے۔ سورة النُّوْر 92 اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی " عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں " یا " بیٹھی ہوئی عورتیں "۔ اس سے مراد ہے سن یاس، یعنی عورت کا اس عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے، اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہوسکتا ہو۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے۔ سورة النُّوْر 93 اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ ، " اپنے کپڑے اتار دیں "۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہوجانا تو نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکمسورۃ احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ میں دیا گیا تھا۔
Top