Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔2 اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے3 کہ سچے کون ہیں  اور جھُوٹے کون
سورة العنکبوت 2 یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے، اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری خصوصیت ہے کہ تمہیں صرف زبانی دعوے پر نواز دیا جائے۔ سورة العنکبوت 3 اصل الفاظ ہیں فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ جن کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ " ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے " اس پر ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے، عملا اس کا ظہور نہیں ہوجاتا، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزا کا مستحق ہوسکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلا ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت، ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملا ظہور نہ ہوجائے، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علم ساق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے پہلے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے، انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے، اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رجحان رکھتا ہے اور چوری کرے گا یا کرنے والا ہے، بلکہ اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلی درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کردیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھا دی ہے، اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ " اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے " کیا ہے۔
Top