Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - At-Talaaq : 6
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ١ۚ وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ١ۚ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰىؕ
اَسْكِنُوْهُنَّ
: بساؤ ان عورتوں کو
مِنْ حَيْثُ
: جہاں
سَكَنْتُمْ
: تم رہتے ہو
مِّنْ وُّجْدِكُمْ
: اپنی دست کے مطابق
وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ
: اور نہ تم ضرر پہنچاؤ ان کو
لِتُضَيِّقُوْا
: تاکہ تم تنگ کرو۔ تنگی کرو
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
وَاِنْ كُنَّ
: اور اگر ہوں
اُولَاتِ حَمْلٍ
: حمل والیاں
فَاَنْفِقُوْا
: تو خرچ کرو
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
حَتّٰى يَضَعْنَ
: یہاں تک کہ وہ رکھ دیں
حَمْلَهُنَّ
: حمل اپنا
فَاِنْ اَرْضَعْنَ
: پھر اگر وہ دودھ پلائیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
فَاٰتُوْهُنَّ
: تو دے دو ان کو
اُجُوْرَهُنَّ
: ان کے اجر
وَاْتَمِرُوْا
: اور معاملہ کرو
بَيْنَكُمْ
: آپس میں
بِمَعْرُوْفٍ
: بھلے طریقے سے
وَاِنْ
: اور اگر
تَعَاسَرْتُمْ
: آپس میں کشمش کرو تم
فَسَتُرْضِعُ
: تو دودھ پلا دے
لَهٗٓ اُخْرٰى
: اس کے لیے کوئی دوسری
اُن کو (زمانہ عدّت میں) اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسّر ہو،اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ۔
16
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہوجائے۔
17
پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچےکو) دُودھ پلائیں تو ان کی اُجرت انہیں دو، اور بھلے طریقےسے (اُجرت کا معاملہ) باہمی گفت وشنید سے طے کر لو۔
18
لیکن اگر تم نے (اُجرت طے کرنے میں) ایک دُوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دُودھ پلالے گی۔
19
سورة الطَّلَاق
16
اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر رجعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پر اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو، تو خو اہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہو یا قطعی طور پرا لگ کردینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہوگا۔ اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقہ مبتُوتہ (یعنی جسے قطعی طور پرا لگ کردینے والی طلاق دی گئی ہو) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟ یا صرف سکونت کا حق رکہتی ہے ؟ یا دونوں میں سے کسی کی بھی حق دار نہیں ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے۔ یہ رائے حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین (امام زین العابد ین) ، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی کی ہے۔ اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے، اور امام سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس کی تائید دار قطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی والنفقۃ، " جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے "۔ اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ ﷺ کی یہ سنت ہوگی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے۔ بلکہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا سمعت رسول اللہ ﷺ یقول لھا السکنٰی و النفقۃ، " میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی " امام ابوبکر جصاص احکام القرآن میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ، " ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو " اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کرچکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ " آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہوچکا ہو " تو اس میں آپ نے پہلی، دوسری، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ " ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو " ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جائے گا۔ تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے۔ اور غیر حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سکونت اور نفقہ کا وجوب دراصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے۔ یہ مسلک سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، عطاء، شعبی، اوزاعی، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے، اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ یہ مسلک حسن بصری، حماد، ابن ابی لیلیٰ ، عمرو بن دینار، طاؤس، اسحاق بن راہویہ، اور ابو ثور کا ہے۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن………… والحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ۔ " طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ………… اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا "۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْراً ، تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے "۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے۔ دوسرا استدلال فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ یہ فاطمہ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں، اور حضرت عمر کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کردیا، اور بعد میں رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گئے تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی ﷺ کے پاس پہنچیں، اور حضور ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا انما النفقہ والسکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لۂ علیھا رجعۃ، فاذالم یکن لہ علیہا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔ " عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت " (مسند احمد)۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔ " لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت "۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضور ﷺ نے ان کو پہلے ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو۔ لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں اولاً ، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے تنگ تھے۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ " ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا " (ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا (جصاص)۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں " ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا " (ابو داؤد)۔ ثانیاً ، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کردیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو فاطمہ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتارکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ ﷺ لقول امرأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول لھا السکنٰی و النفقۃ۔ " ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ ﷺ کے قول کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے۔ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی " (جصاص)۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریاں کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا " ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کرسکتے، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے، اللہ کا حکم ہے لَا تُخرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ " یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے۔ ثالثاً ، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی، حضرت عائشہ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا " فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے " (بخاری) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں " فاطمہ کو کیا ہوگیا ہے، وہ خدا سے ڈرتی نہیں ؟ " تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا " فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے "۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا " وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضور ﷺ نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرمائی تھی "۔ رابعاً ، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہ بن زید سے ہوا تھا، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے (جصاص)۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ سورة الطَّلَاق
17
یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مرگیا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہوگئی ہو۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں
1
)۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، قاضی شریح، ابو العالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے، اور حضرت عبد اللہ بن عباس کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے (آلوسی۔ جصاص)۔
2
)۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جائے اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ (البقرہ، آیت
233
)۔
3
)۔ حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت عبداللہ بن الزبیر، حضرت حسن نصری، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے (جصاص)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کرسکتی ہے، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے۔
4
)۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتا ہے (جصاص)۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جائے۔
5
)۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہوسکتا ہے (ہدایہ، جصاص)۔ یہی مسلک امام احمد بن حنبل کا ہے (الانصاف)۔
6
)۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے، البتہ اسے سکونت کا حق ہے (مُغنی المحتاج)۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کردیے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں (ابو داؤد، نسائی، ترمذی)۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ۔ " بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے "۔ یہی مسلک امام مالک کا بھی ہے (حاشیۃ الد سوقی)۔ سورة الطَّلَاق
18
اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہوگئی تو بچے کو دودھ پلائے گی اور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہوگی۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلوائے۔ چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے۔ فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں ضحاک کہتے ہیں کہ " بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا "۔ اسی سے ملتی جلتی رائے قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ " اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا ’‘ (ابن جریر)۔ ہدایہ میں ہے، " اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیتا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلائے۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جائے گی۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجائے دوسری عورت سے اجرت پر یہ کام لوں گا، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جائے گا۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا "۔ سورة الطَّلَاق
19
اس میں ماں اور باپ دونوں کے لیے عتاب کا ایک پہلو ہے۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی تلخیوں کی بنا پر، جن کے باعث بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی تھی، دونوں بھلے طریقہ سے آپس میں بچے کی رضاعت کا معاملہ طے نہ کریں تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے۔ عورت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تو زیادہ اجرت مانگ کر مرد کو تنگ کرنے کی کوشش کرے گی تو بچے کی پرورش کچھ تیرے ہی اوپر موقوف نہیں ہے، کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلالے گی۔ اور مرد کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تو ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے تنگ کرنا چاہے گا تو یہ بھلے آدمیوں کا سا کام نہ ہوگا۔ قریب قریب یہی مضمون سورة بقرہ، آیت
233
میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد ہوا ہے۔
Top