Urwatul-Wusqaa - Yunus : 100
وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِنَفْسٍ : کسی شخص کے لیے اَنْ : کہ تُؤْمِنَ : ایمان لائے اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِ اللّٰهِ : اذنِ الٰہی سے وَيَجْعَلُ : اور وہ ڈالتا ہے الرِّجْسَ : گندگی عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
اور (یاد رکھو) کسی جان کے اختیار میں نہیں ہے کہ (کسی بات پر) یقین لے آئے مگر یہ کہ اللہ کے حکم سے اور وہ ان لوگوں کو (محرومی و شقاوت کی) گندگی میں چھوڑ دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے
عقل سے کام نہ لینے والوں کو اللہ تعالیٰ گندگی ہی میں چھوڑ دیتا ہے 136 ؎ مشیت الٰہی صرف انہی لوگوں کے ایمان لانے سے غیر متعلق رہتی ہے جو اپنی خداداد عقل و فہم سے کام نہیں لیتے اور حق کے قبول و اتباع کا قصد ہی نہیں کرتے اس قسم کی آیتوں نے بار بار اس حقیقت کو صاف کیا ہے کہ کسی کے ایمان و ہدایت کی راہ میں اضلا ً رکاوٹ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں ہوتی صرف انسان کی اپنی ہی کج نظری اور بد نفسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شرف ایمان سے فقط وہی مشرف ہو سکتا ہے جس کی یاوری توفیق الٰہی کرے اور بلا وجہ لوگوں کو نعمت ایمان سے محروم نہیں کردیا جاتا اور بلا سبب ان پر کرو خذلان کی ذلت تھوپ نہیں دی جاتی فقط انہی لوگوں کو توفیق سے محروم کیا جاتا ہے جو عقل و فہم کی خداداد قوتوں کو ناکارہ بنا دیتے ہیں اور حق و باطل میں تمیز کرنے کیلئے انہیں استعمال نہیں کرتے۔ الرجس یعنی کفر و بد عقیدگی کی گندگی ” رجس “ اس جگہ ” ایمان “ کے مقابلہ میں آیا ہے اس لئے اس کے معنی کفر کے ہیں ۔ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بےلاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس لئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقیقت ، اس کے اسباب و ذرائع ، اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کردیئے جاتے ہیں اور اس کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں یا سرے سے تلاش حقیقت میں اسے استعمال ہی نہیں کرتے تو ان کیلئے اللہ کے خزانہ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناتے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔
Top