Urwatul-Wusqaa - Yunus : 102
فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ قُلْ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ
فَهَلْ : تو کیا يَنْتَظِرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّا : مگر مِثْلَ : جیسے اَيَّامِ : دن (واقعات) الَّذِيْنَ : وہ لوگ خَلَوْا : جو گزر چکے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے قُلْ : آپ کہ دیں فَانْتَظِرُوْٓا : پس تم انتظار کرو اِنِّىْ : بیشک میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
پھر اگر یہ لوگ منتظر ہیں تو ان کا انتظار اس بات کے سوا اور کس بات کے لیے ہوسکتا ہے کہ جیسے کچھ دن ان سے پہلے لوگوں پر گزر چکے ہیں ویسے ہی ان پر بھی آموجود ہوں تو تم کہہ دو اچھا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں
یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ یہی کہ ان کے پاس بھی ہلاک کردینے والا عذاب بھیج دیا جائے 138 ؎ ان موجودہ منکرین و معاندین کے طور طریقوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی گزشتہ ہلاک شدہ قوموں کے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اس لئے کہ ان پر حجت پوری ہوچکی اور حق واضح ہوچکا لیکن اس کے باوجودوہ اب بھی ایمان نہیں لا رہے شاید وہ اس عذاب کے منتظر ہیں جو ان سے پہلے گمراہ قوموں پر نازل ہوا تھا اور انہیں میان میٹ کر گیا تھا۔ اگر ان کی یہی منشاء ہے تو ان کی یہ حسرت بھی پوری کردی جائے گی انہیں کہئے کہ کچھ وقت انتظار کریں یہاں تک کہ وہ متعین گھڑی آجائے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت و بربادی کیلئے مقرر رکھی ہے اور مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی انداز بیان اختیار کیا گیا جو قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ہمیں ملتا ہے اور پیچھے آیت 94 میں بھی گزرا ہے کہ خطاب بظاہر تو نبی کریم ﷺ سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو ! حجت اور دلیل سے ہدایت و ضالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی ﷺ نے پورا پورا ادا کردیا اب اگر تم خود راست رو بننا نہیں چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اس پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبردستی راہ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا ۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کیلئے اسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کرسکتا تھا۔
Top