Urwatul-Wusqaa - Yunus : 103
ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ١ۚ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر نُنَجِّيْ : ہم بچا لیتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَذٰلِكَ : اسی طرح حَقًّا عَلَيْنَا : حق ہم پر نُنْجِ : ہم بچالیں گے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنین
پھر ہم اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو اس سے بچا لیتے رہے اس طرح ہم نے اپنے اوپر ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ مومنوں کو بچالیا کریں
جس طرح ہم نے پہلوں کو بچایا تم کو بھی بچائیں گے کیونکہ ایسا کرنا ہم پر لازم ہے 139 ؎ گزشتہ اقوام کا ذکر پڑھو اور دیکھو کہ ہم نے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مخالفوں اور موافقوں کے ساتھ کیا کیا ؟ تم کو یقینا معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنے رسولوں اور ان کے ماننے والوں کو نجات دی اور ان کے مخالفین کو تباہ کن عذاب میں مبتلا کیا اور یہی کچھ اب بھی ہوگا ۔ تم کو معلوم ہے کہ بحر احمر کی چنگھاڑتی ہوئی موجیں جو فرعون اور اس کے لائو لشکر کو تنکوں کی طرح بہا لے گئیں وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کیلئے خدمت گاروں کی طرح راستہ بناتی گئیں ۔ آندھی کے زور دار جھٹکے جو قوم عاد کی بستی کو زیر و زبر کر کے رکھ گئے لیکن جب ان کا گزر لوط اور اس کے تابعداروں کے پاس سے ہوا تو ان کی تندی و تیزی نرمی میں بدل گئی اور ان کو ایسے معلوم ہوا کہ گویا وہ نسیم صبح کے جھونکے ہیں جو خفیہ غنچوں کو بیدار کرنے کیلئے چمن کی سمت کو رواں دواں ہیں ۔ اس ساری کائنات کے اندر جو کچھ ہے وہ ہمارے تابع فرمان ہے اور جس سے جو کام لینا چاہتے ہیں ہمارا حکم ہوتا ہے کہ ہو پس وہ ہوجاتا ہے اور آج بھی وہی کچھ ہوگا جو پہلے ہوتا آیا ہے کہ اگر تم باز آگئے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ترک کردی تو خیر ورنہ تمہارے منہ پر ایسا قدرت کا دھپڑ پڑے گا کہ تمہارے اوسان خطا ہوجائیں گے۔ یاد رکھو کہ ہمارا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ ہم ان پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور ہمارا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے اس میں خلف ممکن ہی نہیں ” ان اللہ لا یخلف المیعاد “ اللہ تعالیٰ نہ ہی اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے اور نہ ہی ہونے دیتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو بار بار مختلف پیرایوں میں واضح کیا ہے کہ موعود عذاب الٰہی جب آتا ہے تو صرف کافروں اور منکروں پر آتا ہے اور مومنین اس سے بچا لئے جاتے ہیں ۔۔۔ اور یہیں سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ تکوینی حادثے جن میں مومن و کافر سب بلا امتیاز و تفریق یکساں مبتلاقحط ، سیلاب ، وباء وغیرہ یہ ہرگز صحیح معنوں میں ” عذاب الٰہی “ نہیں بلکہ یہ نمونہ عذاب الٰہی کہلا سکتا ہے اور پھر یہ بھی کہ اس سے وہی عذاب مراد ہے جو انبیائے کرام علہیم السلام کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق ہوتا تھا اس لئے ہم نے اس کو ” موعود عذاب “ سے تعبیر کیا ہے وہ وقت اور تاریخ معین کر کے باقاعدہ اعلان کے بعد ہوا کرتا تھا ۔ اب اس کی صورت وہ نہیں رہی کیونکہ اب نبوت و رسالت کو ختم کردیا گیا ہے لیکن اب بھی مومن اگر وہ صحیح معنوں میں مومن ہے تو ان کی نجات ہم پر لازم ہے اور ہم ان کو نجات دیتے ہیں اور کفر کے مقابلہ میں وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتے الایہ کہ وہ خود ہی مومن نہ رہے ہوں۔
Top