Urwatul-Wusqaa - Yunus : 104
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۖۚ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِيْ شَكٍّ : کسی شک میں مِّنْ : سے دِيْنِيْ : میرے دین فَلَآ اَعْبُدُ : تو میں عبادت نہیں کرتا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَعْبُدُوْنَ : تم پوجتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن اَعْبُدُ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں الَّذِيْ : وہ جو يَتَوَفّٰىكُمْ : تمہیں اٹھا لیتا ہے وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنین
(اے پیغمبر اسلام ! ) تم کہہ دو ، اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے بارے میں کسی طرح کے شبہ میں ہو تو میں بتلا دیتا ہوں کہ میرا طریقہ کیا ہے تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا میں تو اللہ کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضہ میں تمہاری زندگی ہے اور جس کے حکم سے تم پر موت طاری ہوتی ہے اور مجھے اس کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ مومنوں کے زمرے میں رہوں
پیغمبر اسلام سے اس بات کا اعلان کرایا گیا کہ کان کھول کر میرے دین کے بارے میں سن لو 140 ؎ اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے متعلق ابھی تک اشتباہ میں ہو اور تم پر یہ واضح نہیں ہوا کہ جس دین کی دعوت میں دے رہا ہوں اور اصلا ً اور اپنی روح و مغز کے اعتبار سے کیا ہے ؟ تو کان کھول کر سن لو کہ میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو ۔ اس میں وہ سب معبود شامل ہیں جن کی عبادت دنیا بھر کے کفار اور مشرکین کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں خواہ وہ ملا مکہ ہوں ، جن ہوں ، انبیاء کرام اور اولیاء عظام ہوں ، زندہ یامردہ انسانوں کی ارواح ہوں یا سورج ، چاند ، ستارے ، جانور ، درخت ، دریا ، بت ، شبیہیں اور خیالی دیویاں اور دیوتا ہوں ۔ اس پر چونکہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو بھی تو معبود مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین نے بھی قدیم زمانے سے آج تک اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کیا ہے اس لئے یہاں داعئی اسلام کی زبان سے اصل و اساس فرق دین اسلام اور دین جاہلیت کے درمیان بیان کردیا اور واضح طور پر اشارہ کرایا جا رہا ہے کہ اگر اب بھی ابہام و اشتباہ باقی ہے تو اچھی طرح سن لو کہ بنیادی فرق میری دعوت اور تمہارے دین جاہلیت کے درمیان یہ ہے کہ میری دعوت اور تمہارے دین جاہلیت کے درمیان یہ ہے کہ میری دعوت خالصتا ً توحید کی ہے میں اس رب العزت ، احد و صمدلم یلد ولم یولد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہوں جو مطلق الاختیار ہے اور تمہاری موت و زندگی پر حاکم ہے اور خصوصاً ” جو تمہیں موت دیتا ہے “۔ صرف اور صرف اس کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے سوا کسی بھی دوسرے کی عبادت نہیں کرتا ۔ ’ ’ جو تمہیں موت دیتا ہے “ کے الفاظ پر غور کرو کہ کس زور کے ساتھ اور کس چیلنج کے ساتھ بات کی جا رہی ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ دنیا میں جن جن لوگوں نے غیر اللہ کی پرستش کی خواہ وہ پرستش کئے جانے والے ملا مکہ ہوں ، جن ہوں یا انبیائے کرام (علیہ السلام) اور اولیائے عظام (رح) ہوں آج تک کسی نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ فلاں فرشتہ ، جن ، نبی ، رسول یا ولی کو پکارو گے یا اس کی عبادت کرو گے تو وہ تمہیں موت سے بچا لے گا اور مرنے نہیں دے گا اس کے علاوہ زندگی کی ساری باتیں لوگوں نے مختلف شخصیتوں کی طرف منسوب کیں اور کی جا رہی ہیں لیکن موت کے بچائو کا اشارہ کسی نے بھی کسی کی طرف نہیں دیا اس طرح جن جن لوگوں نے اپنی پرستش کروائی یا اس وقت کروا رہے ہیں جو اپنے اپنے وقت میں زندہ تھے یا اب زندہ ہیں آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ جب موت آنے لگے تو مجھے پکارو ، میری عبادت کرو ، میرے نام کو نذر و نیاز دینا ، تو میں تمہیں موت نہیں آنے دوں گا ۔ نہ کوئی ایسا تھا ، نہ ہے اور نہ ہوگا اس لئے پیغمبر اسلام ﷺ سے جو اعلان کروایا گیا اس میں اس کی طرف اشارہ کرا دیا گیا کہ ” آپ ﷺ اعلان کر دیجئے میں بھی اس کی اور صرف اس کی عبادت کرتا ہوں جو تم سب کو وفات دیتا ہے۔ وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اس وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہوجائے اسی آن تمہیں اپنی جان اس جان آفرین کے حوالے کر دینی پڑتی ہے۔ میں صرف اس کی عبادت کرتا ہوں جو تم کو اور تمہارے معبودوں کو موت دیتا ہے 141 ؎ یہاں اتنا مزید سمجھ لینا چاہئے کہ مشرکین مکہ یہ جانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے جیسا کہ اوپر ابھی ذکر کیا گیا اور یہ بھی سب مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ اس پر کسی دوسرے کو قابو نہیں حتیٰ کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھہراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکتا پس بیان مدعا کیلئے اللہ تعالیٰ کی بیشمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کی بجائے یہ خاص صفت کہ ” وہ جو تمہیں موت دیتا ہے “ یہاں اس لئے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے یعنی سب کو چھوڑ کر میں اس کی بندگی اس لئے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اس کا اقتدار ہے اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیوں کروں جب کہ وہ خود بھی اپنی زندگی و موت پر مختار نہیں ہیں ۔ پھر کمال بلاغت کے ساتھ یہ فرمایا گا کہ ” وہ تمہیں موت دیتا ہے “ یہ نہیں فرمایا کہ وہ جو مجھے موت دیتا ہے کیونکہ اس طرح میں مدعا ، دلیل مدعا اور دعوت الی المدعا تینوں فائدے جمع کردیئے ۔ اس فقرہ پر جوں جوں غور کرتے جائو گے مزید معانی پر روشنی پڑتی جائے گی ۔ ذرا غور کر کے دیکھو کہ کیا لطف آتا ہے اس جملہ میں اور یہ کہ اس ایک جملہ میں وہ سب کچھ کہ دیا جس کے بیان کرنے کیلئے دفتر درکار ہیں اور پھر آخر میں مزید وضاحت فرما دی کہ میں یہ جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کے کہنے کا میں حکم دیا گیا ہوں اور مومن کا کام ہی کیا ہے ؟ یہی کہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے وہ بلا کسی چون و چرا کے کر گزرے اور اس میں کسی مصلحت اندیشی سے کام نہ لے اس لئے کہ مصلحت اندیشی ماننے تک تو صحیح ہے لیکن ماننے کے بعد جس کو لوگ مصلحت اندیشی کا نام دیتے ہیں وہ منافقت کے سوا کچھ نہیں ہوتی ۔ فان عزمت فتوکل علی اللہ۔
Top