Urwatul-Wusqaa - Yunus : 105
وَ اَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا١ۚ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
وَاَنْ : اور یہ کہ اَقِمْ : سیدھا رکھ وَجْهَكَ : اپنا منہ لِلدِّيْنِ : دین کے لیے حَنِيْفًا : سب سے منہ موڑ کر وَلَا تَكُوْنَنَّ : اور ہرگز نہ ہونا مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اور نیز مجھے کہا گیا ہے کہ ہر طرف سے ہٹ کر اپنا رخ اللہ کے دین کی طرف کرلے اور ایسا ہرگز نہ کیجیو کہ شرک کرنے والوں سے ہوجاؤ
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ کا ہوجائوں ، سو میں اس کا ہوگیا 142 ؎ نبی کریم ﷺ سے جو اعلان کرایا گیا ہے اس کی دوسری شق یہ قرار پائی کہ آپ یہ بھی اعلان کریں گے کہ لوگو ! میری حیثیت واضح قانون کی نہیں کہ غلط فہمی میں نہ مبتلا ہونا بلکہ میں تو عامل قانون ہوں ، جو قانون حیات لے کر آیا ہوں خود بھی اس کے دا ائرہ نفاذ سے مستثنیٰ ہوں اور مافوق نہیں ہوں ۔ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس دین بر حق کی طرف اپنا رخ سیدھا کرلو اور قاعدہ ہے کہ جب کسی چیز کی طرف رخ کیا جاتا ہے تو اس کے علاوہ تمام دوسری چیزوں سے منہ مڑ جاتا ہے۔ اگرچہ ” اقم وجھک “ کے حکم میں جو جلال ہے وہ کسی مزید توضیح کا محتاج نہیں لیکن اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر ” حنیفا “ کا اضافہ بھی فرما دیا جس کے معنی مزید واضح ہوگئے کہ ہر باطل سے منہ موڑ کر ہمہ تین حق کی طرف متوجہ ہوگیا ہوں اور یہی حکم الٰہی تھا کہ ہادئی عالم ! ہر باطل سے خواہ وہ کسی رنگ میں ، کسی روپ میں ہو اپنا منہ موڑ لو اور کمال یکسوئی کے ساتھ صرف اس دین حق کی طرف رخ کرلو ۔ سچ تو یہ ہے کہ دین اسلام قبول کرلینے کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی انفرادی یا اجتماعی ، معاشی یا سیاسی رہنمائی کیلئے کسی اور نظام حیات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھئے۔ غور کرو اور پھر غور کرو کہ جب تک کتاب و سنت کا دمن ہم نے مضبوطی سے پکڑے رکھا ہمارے منہ سے نکلی ہوئی بات وزن رکھتی تھی ۔ ہماری سیرت پر کشش تھی اور ہمارے کردار میں ایک رعب تھا ؎ تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے۔۔۔۔ کھویا گیا تیرا جذب قلندرانہ اس وقت جو ہماری حالت ہے وہ آپ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے آپ خود ہی فیصلہ فرما لیں ، میری آہ وزاری اور چیخ و پکار تمہارے ساتھ ہے بشرطیکہ تم اس زمانہ کے ” مولانا “ یا ” سیاسی اور مذہبی “ رہنما نہ ہو۔ ” اور ایسا ہرگز نہ کیجئو کہ شرک کرنے والوں سے ہو جائو “ ۔ صرف یہی تو شرک نہیں کہ غیر اللہ کو خدا مان لیا جائے۔ کسی بت کے سامنے ، زندہ یا مردہ انسانوں کے سامنے ، قبر ، شجر ، حجر اور اپنی خواہش نفس کے سامنے سجدہ ریزہ ہوا جائے بلکہ اگر مدعی اسلام قرآن کریم کے واضح احکام کو نظر انداز کر کے اپنی معاشی حالت کو سدھارنے کیلئے کسی غیر اسلامی نظام کی قیادت قبول کرنے کیلئے بےتاب نظر آتا ہے یا اپنے سیاسی نظام کو کسی دوسرے سانچہ میں ڈھالنا چاہتا ہے یا اسے اسلام کا لایا ہوا تمدن پسند نہیں اور وہ اجنبی طرز تمدن پر فریفتہ ہوچکا ہے تو آپ اسے شرک کا مرتکب نہیں کہیں گے تو کیا مومن کہیں گے ؟ وہ ارباب اختیار جنہیں قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے خواہ وہ سیاسی ہے یا مذہبی انہیں قرآن کریم کے اس پر جلال ارشاد کو ایک لمحہ کیلئے بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شرک کی سمجھ لینا چاہئے کہ شرک کی ایک قسم سے نکل کر دس قسموں کو اختیار کرلینا شرک سے بیزاری کا نام نہیں بلکہ دھوکا اور فریب کا نام ہے۔
Top