Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
وَاِذِ : اور جب اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ : تم نے ان سے کنارہ کرلیا وَ : اور مَا يَعْبُدُوْنَ : جو وہ پوجتے ہیں اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا فَاْوٗٓا : تو پناہ لو اِلَى : طرف میں الْكَهْفِ : غار يَنْشُرْ لَكُمْ : پھیلادے گا تمہیں رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَيُهَيِّئْ : مہیا کرے گا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَمْرِكُمْ : تمہارے کام مِّرْفَقًا : سہولت
پھر جب ہم نے ان لوگوں سے اور ان سے جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہیں کنارہ کشی کرلی تو چاہیے غار میں چل کر پناہ لیں ، ہمارا پروردگار اپنی رحمت کا سایہ ہم پر پھیلائے گا اور ہمارے اس معاملہ کے لیے سامان کر دے گا
حکمرانوں کا الٹی میٹم سن کر انہوں نے مشورہ کیا اور غار میں پناہ لینے کیلئے چل نکلے : 16۔ مسیحی دعوت کے ابتدائی قرنوں ہی میں زہد وتقوی کی ایک خاص صورت بنا لی گئی تھی اگرچہ وہ اختراعی تھی یہی وجہ ہے کہ اس کی حالتیں مختلف رہیں ۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آگے چل کر باقاعدہ رہبانیت کی مختلف شکلیں اختیار کرلی تھیں ، اس زندگی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ لوگ ترک علائق کے بعد کسی پہاڑ کی غار میں یہ کسی غیرآباد گوشہ میں معتکف ہوجاتے تھے اور اس طرح کی داستانیں سننے آتی رہتی تھیں اور اللہ کے نیک بندے ظلم وستم سے بچنے کے لئے تدابیر اختیار کرتے تھے ، ان لوگوں نے بھی اس مہلت کو غنیمت جانا جو حکومت وقت نے ان کو دی اور آپس میں ایک بات طے کر کے اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے اپنے دوسرے ہم سفروں کی طرح یہ لوگ بھی غذا کی طرف سے بےپرواہ ہوگئے ، آبادی قریب ہوگئی تو خاموشی سے کام چلتا رہا اور ادھر ادھر کی انہوں نے جستجو نہ کی ادھر اللہ تعالیٰ نے ملک کی حالت بدلنی شروع کردی اور ظالم بادشاہ اپنے انجام کو پہنچ گیا اور عیسائیت نے پنپنا شروع کردیا اور وہ حالت جو پہلے تھی اب نہ رہی ۔ اس طرح زیر نظر آیت میں بھی بیان ہوا کہ انہوں نے ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر جب مشورہ کیا تھا تو اس طرح کہا تھا کہ ” جب ہم نے ان لوگوں اور ان سے جن کی وہ پرستش کرتے تھے کنارہ کشی کرلی ہے تو چاہئے کہ اب کسی غار میں چل کر پناہ لیں اور ہمارا پروردگار اپنی رحمت کا سایہ ہم پر پھیلائے گا اور ہمارے اس معاملہ کے لئے یقینا کچھ نہ کچھ سروسامان کر دے گا ۔ “ وہ خود بےآسروں کا آسرا ہے اور بےسہاروں کا سہارا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ اس مشورہ کے مطابق وہ اپنے گھروں سے اللہ کا نام لے کر نکل پڑے اور کسی بستی کے قریب ہی پہاڑ کی ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ۔
Top