Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 200
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا١ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمْ : تم ادا کرچکو مَّنَاسِكَكُمْ : حج کے مراسم فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَذِكْرِكُمْ : جیسی تمہاری یاد اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ ذِكْرًا : یاد فَمِنَ النَّاسِ : پس۔ سے۔ آدمی مَنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي : میں اَلدُّنْیَا : دنیا وَمَا : اور نہیں لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنْ خَلَاقٍ : کچھ حصہ
پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کر چکو تو چاہیے کہ جس طرح پہلے اپنے آباؤاجداد کی بڑائیوں کا ذکر کیا کرتے تھے اب اسی طرح اللہ کا ذکر کیا کرو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پھر غور کرو کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا ہی میں دے دے پس آخرت کی زندگی میں ان کیلئے کوئی حصہ نہیں ہو گا
مناسک حج کی تکمیل کے بعد خالص اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاؤ : 349: زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر منی کے میدان میں تین دن تک مجالس و مجامع منعقد کرتے اور ان میں اپنے باپ دادوں کے مفاخر و فضائل بیان کرتے۔ قرآن کریم نے اس بیہودہ رسم کی اصلاح کی اور حکم دیا کہ اس کی جگہ پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے جو خود بڑا ہے اور دوسروں کو بڑائی بخشتا ہے ۔ باپ دادوں کی بزرگی بیان کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا بلکہ الٹا نقصان ہوگا۔ باپ دادوں کا ذکر وہی لوگ کرتے ہیں جو شریف اور خاندانی ہوں۔ جن کا ماضی مشہور آفاق ہو۔ جن میں درخشندگی اور تابناکی کے سوا کچھ نہ ہو اور جنہوں نے جواں مردی و شجاعت ، فیاضی و سخاوت اور مہماں نوازی و صلہ رحمی کے عظائم امور انجام دیئے ہوں۔ ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی نہ کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ وہ اپنے بزرگوں پر کسی قسم کا فخر کرسکتے ہیں۔ پس اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ ہر مسلمان کا یہ اولین فرض ہونا چاہئے کہ جس وقت تبلیغ و دعوت اسلام کے لئے میدان میں قدم رکھے تو اس کے روئے سخن شریف اور خاندانی لوگوں کی طرف ہو۔ ان کو وہ مذہب کی طرف متوجہ کردے۔ ان میں اعلیٰ ترین اخلاق اور شریفانہ جذبات پہلے سے موجود ہوتے ہیں ، صرف راستہ دکھانا باقی رہتا ہے۔ گویا بارود تو تیار ہے شتابہ دکھانے کی دیر ہے خودبخود بھڑک اٹھے گا ۔ جب ان لوگوں کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کی جائے گی تو ان کے لئے وہ سونے پر سہاگہ کا کام دے گی اور وہ ماشاء اللہ بہترین خدمات مذہبی انجام دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ : (الناس کمعادن الذھب والفضۃ) لوگ بھی سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہیں ۔ سونے کی کان سے سونا ہی نکلے گا اور چاندی کی کان سے چاندی۔ یہی حال خاندان اور قبیلوں کا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک اس طرح ہے : (خیارکمفی الجاھلیۃ خیارکم فی اسلام اذا فقھوا) جو شخص زمانہ جاہلیت میں اچھا تھا ۔ اس کی اچھائی اسلام قبول کرنے کے بعد بھی باقی رہے گی بلکہ جس وقت وہ قرآن کریم میں درس و فکر کرے گا تو اس کی شرافت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ چلتے چلتے اس پر ذرا مزید غور کرلو کہ اس وقت بھی ملک کے طول و عرض میں بیشمار عربی مدر اس مصروف تعلیم ہیں مگر جو لوگ وہاں سے فارغ ہو کر نکلتے ہیں بہت ہی قلیل تعداد کے سوا عام طور پر ملک وملت کے لئے عضو معطل ثابت ہوتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عربی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہی لوگ آتے ہیں جو بیکار اور معذور ہوں۔ گھر کا کام کاج نہ کرسکیں یا ادنیٰ خاندانوں کے ہوں ، فہم و فراست سے کورے اور بلید الذہن ہوں۔ اور اس کے برعکس جب انگریزی کالجوں اور یونیوسٹیوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قوم کا بہترین ذخیرہ یہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے خاندانی روایات اور ظاہری وجاہت کے اعتبار سے وہ کسی سے کم نہیں ہوتے۔ ایک دوسرے سے اعلیٰ اور عقل و دانائی میں کامل ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تحریکات قومی میں یہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں لیکن مذہب سے بعد و ہجر ، انکے محاسن و فضائل کے آئینہ کو گرد آلود اور مکدر کردیتا ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں بہترین جذبات ہوتے ہیں ۔ مذہبی جوش ، محبت وطن اور خدمت اسلام میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہوتے ۔ مگر ان کی اکثر کوشش بےموقع صرف ہوتی ہے۔ اس غلط کاری کو دور کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ان کی تعلیم وتربیت کے لئے صرف قرآن کریم کی تعلیم کو عام کردیا جائے اور مذہبی منافرت کو ختم کیا جائے ان کو آزادی کے ساتھ سوچنے سمجھنے اور عقل و فکر سے کام لینے کی دعوت دی جائے۔ ان کو باور کرایا جائے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور کائنات کا سارا انتظام صرف اور صرف اسی کا کام ہے جس کو آج کل تم اپنی زبان میں سائنس کہتے ہو۔ پھر اللہ کا کلام اللہ کے کام کے کبھی خلاف نہیں ہو سکتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سائنس اور قرآن بالکل متضاد نہیں یہ تم کو کس نے باور کرادیا۔ آؤ قرآن کریم کو اس نہج پر مطالعہ کر کے دیکھو تمہارے سارے شکوک ہوا ہوجائیں گے۔ تو انشاء اللہ تمام خرابیاں دور ہوجائیں گی پھر مذہبی رنگ میں یہ لوگ جس قدر جوش وو لولہ کے ساتھ کام کریں گے دوسرے لوگ انکی گرد کو بھی نہیں پا سکیں گے۔ صرف دنیا کا طالب ہمیشہ آخرت سے محروم رہتا ہے : 350: تعلیم حاصل کرلی مذہبی اعمال کے پابند بن گئے مگر مقاصد و اغراض کے اعتبار سے جس قدر باہمی فرق مراتب ہوتا ہے اس کا ظہور نہ ہوا۔ بعض لوگ محض دکھاوے کی غرض سے ان تمام تکالیف کو برداشت کر رہے تھے اور بعض کے پیش نظر مقاصد عالیہ اور مصالح شرعیہ تھے۔ اس امتحان گاہ میں آتے ہی دونوں جماعتوں میں فرق و امتیاز ہوگیا اور ایک کی صف دوسرے سے جدا ہوگی ۔ منافقین پکار پکار کر اپنے کفر ونفاق باطنی اور الحاد فی العمل کا اظہار کر رہے تھے اور مؤمنین قانتین کا خلوص وایثار اپنا رنگ الگ دکھا رہا تھا اور یہ تفریق اس لئے ضروری تھی کہ حج سے فارغ ہوتے ہی جہاد فی سبیل اللہ کا حکم پھر دیا جائے گا جو حج سے پہلے بھی دیاجا چکا ہے۔ اگر ارباب علم و عمل اور نااہل لوگوں میں علیحدگی نہ کی جائے تو میدان جنگ میں شدائد تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بس مناسب یہی تھا کہ ان کو پہلے ہی سے جدا کردیا جائے۔ منافقین کی کیفیت یہ تھی کہ وہ ببانگ دہل کہہ رہے تھے کہ ” ربنا اتنا فی الدنیا “ ان کے سامنے دنیا ہی دنیا تھی۔ اس کا عیش و آرام قدرومنزلت اور عزت واحترام تھا۔ شہرت و ناموری ان کی غایت الغایات تھی۔ نہ تو اعمال صالح اور نہ اخلاق ضلہ ان کے پیش نظر تھے اور نہ انہیں اپنی اصلاح و درستی کا خیال تھا اس لئے وہ دنیا ہی میں اپنی کوششوں کے تمام ثمرات اور نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے کہ وہ یہی غرض لے کر اسلام کی طرف گامزن ہوئے تھے اور یہی دراصل ان کا مطمع نظر تھا ۔ جب وہ ان کو حاصل ہوگیا تو گویا ان کے نظریہ کی تکمیل ہوگئی اس سے آگے ان کی طلب ہی کیا تھی ؟ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ یَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلَى النَّارِ 1ؕ اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا 1ۚ فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ (رح) 0020 (الاحقاف 46 : 20) ” اور جس روز آگ پر حاضر کئے جائیں گے ان سے کہا جائے تم دینوی زندگی میں اپنے حصہ کی نعمتیں حاصل کرچکے اور خوب فائدہ اٹھا چکے تمہاری طلب بھی یہیں تک تھی ۔ سو آج تم کو اس تکبر کے باعث جو تم ناحق دنیا میں کیا کرتے تھے ذلیل کرنے والے عذاب کی سزادی جائے گی۔ “
Top