Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 16
وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا١ۚ فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَالَّذٰنِ : اور جو دو مرد يَاْتِيٰنِھَا : مرتکب ہوں مِنْكُمْ : تم میں سے فَاٰذُوْھُمَا : تو انہیں ایذا دو فَاِنْ : پھر اگر تَابَا : وہ توبہ کریں وَاَصْلَحَا : اور اصلاح کرلیں فَاَعْرِضُوْا : تو پیچھا چھوڑ دو عَنْهُمَا : ان کا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے تَوَّابًا : توبہ قبول کرنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور جو دو شخص تم میں سے بدچلنی کے مرتکب ہوں تو چاہیے کہ ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ ، پھر اگر وہ دونوں توبہ کرلیں اور اپنی حالت سنوار لیں تو انہیں چھوڑ دو ، بلاشبہ اللہ ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے
دو شخص بےحیائی اور بدکاری کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا کیا ہے ؟ 43: جس طرح قبل ازیں آیت کے تین مطالب بیان کئے گئے تھے بالکل اسی طرح یہاں بھی تین ہی مطالب بیان ہوئے ہیں۔ ” دو شخصوں “ سے کیا مراد ہے ؟ دو مرد یا مرد اور عورت پھر اگر مرد اور عورت مراد ہیں تو ارتکاب فعل دبر میں ہوا ہے یا قبل میں۔ اگر مراد در اور عورت ہیں اور مقام فعل بھی قبل ہی ہے تو پھر آیت کا مطلب کیا ہوگا ؟ کیونہ اس فعل کی سزا تو پہلے ہی سنائی جا چکی اور پھر اس آیت میں پہلی سزا کو بھی ڈھیلا کردیا گیا۔ کیوں ؟ دو شخصوں سے مراد دو مرد بھی کی گئی ہے۔ اس طرح سے یہ ایک دوسرا حکم ہے جس کا پہلے حکم سے کوئی تعلق نہیں پھر ظاہر ہے کہ جب حکم الگ ہے تو اس کی سزا بھی الگ ہی ہونا چاہیے تھی۔ اس لئے سزا بھی الگ ہی بیان کردی۔ ان ساری باتوں میں سے صحیح کون سی بات ہے۔ جن لوگوں نے پچھلا حکم دو عورتوں کے درمیان سحافت مراد لیا ہے۔ انہوں نے ” وَا لَّذَانِ “ سے مراد سدومیت لیا ہے یعنی مرد مرد بےحیائی کا مرتکب ہو اور بعض نے کہا کہ چونکہ یہ ابتدای حکم ہے جب کہ ابھی زنا کی سزا کا اعلان الٰہی نہیں ہوا تھا اس لئے جیسا کہ اور بہت سے احکام تدریجاً نازل ہوئے یہ حکم بھی تدریجاً نازل ہوا اور اس کا پہلا قدم یہ تھا کہ اگر مرد اور عورت کے درمیان کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے تو ان دونوں کو طعن لعن کرو اور مناسب سزا بھی دو تا آنکہ ان کے لئے کوئی واضح حکم نازل ہوجائے۔ پھر یہ بھی بیان کیا گیا کہ بعض اوقات حالات اس طرح بھی ہوتے ہیں کہ انسان انسانیت ہی سے گری ہوئی حرکت جب کرنے پر اترتا ہے تو گرتا ہی چلا جاتا ہے اس لئے اگر کسی نے غیر فطری راستہ عورت کا استعمال کرلیا تو چناچہ کچھ لوگ اس طرف بھی نکل گئے بہر حال اس سے اس طرح کی ساری صورتیں ہی مراد لی جاسکتی ہیں اس لئے کسی ایک کو قبول کر کے باقی کا رد ایک مزید گھٹیا بات ہے جس چیز سے برائی کا ہر ممکن راستہ بند ہوتا ہو اس سے کوئی ایک راستہ بند کر کے باقی راستوں کو کھول دینا بھی کوئی کمال کی بات نہیں بلکہ ہم کو ان سب مفسرین کا ممنون احسان ہونا چاہے جنہوں نے ہر راستہ کی نشاندہی کردی اور اس طرح اس راستہ کو بند کردینا آسان ہوگیا۔ قرآن کریم کی یہ آیت بھی برائی کے راستہ کو بند کرنے کے لئے بیان کی جاسکتی ہے اگر یہ ابتدائی حکم ہے تو پھر ہم کو اس کی ضرروت ہے کہ جہاں ذرا کمزوری دیکھی ان کی گوشمالی کی جاسکے فرمایا اگر کوئی ایسی بات ہے تو ان کو اذیت دو ، دکھ پہنچاؤ تاکہ ان کو انرجی کے ضائع ہونے اور غیر فطری راستہ کے استعمال کی فطری سزا جو نتیجہ کے طور پر لازم ہوجاتی ہے اس سے ان کو آگاہی حاصل ہو اور پھر آئندہ ایسی حرکت کرنے سے باز آنے کی ذمہ داری وہ قبول کرلیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کی سزا اہل حل و عقد پر چھوڑ دو تاکہ وقت ، حالات اور اتفاق و عادت ساری باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ خود اس کا فیصلہ کرلیں گے تو زیادہ بہتر نتیجہ برآمد ہوگا کیونکہ اتفاق بھی ممکن ہے اور عادت کا پختہ ہوجانا بھی اور ان ساری باتوں کی وضاحت بھی اس وقت ممکن ہے جب ایک چیز مشاہدہ میں آئے گی اور چونکہ یہ عمل برا ہے لیکن ایسا نہیں جس میں نسل کے خراب ہونے کا امکان ہو اگر یہ واقعہ دو مردوں کے درمیان ہے تو اس طرح نسل کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مفسرین نے اس کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ ” الَّذَانِ یَا تِیَا نِھَا “ کا مصداق وہ لوگ ہیں جو غیر فطری طریقہ پر قضاء شہوت کرتے ہیں یعنی دو مرد استلداذ بالمثل کے مرتکب ہونے ہیں اور الفاظ قرآن کریم میں چونکہ لفظ ” الَّذَانِ یَا تِیَا نِھَا “ موصول اور صلہ دنوں مذکر کے الفاظ ہیں اس لئے ان حضرات کا یہ قول بعید نہیں ہے گو جن حضرات نے زانی اور زانیہ مراد لیا ہے انہوں نے بطور تغلیب مذکر کا یہ صیغہ زانیہ کے لئے بھی شامل رکھا ہے تاہم موقع کی مناسبت سے استلذاذ بالمثل کی حرمت و شدت اور اس کی جزاء و تعزیز کا ذکر اس جگہ بےجا نہ ہوگا۔ احادیث و آثار سے اس سلسلہ میں جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں سے بطور نمونہ کچھ نقل کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سات قسم کے لوگوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت بھیجی ہے اور ان سات میں سے ایک پر تین دفعہ لعنت بھیجی ہے اور باقی پر ایک دفعہ فرمایا ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے وہ ملعون ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چار آدمی صبح کے وقت اللہ جل شانہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ جل شانہ ان سے ناراض ہوتے ہیں میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ مرد ججو عورتوں کی طرح بنتے ہیں اور وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں اور وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیر فطعی حرکت کرتا ہے اور وہ مرد جو مرد سے قضا شہوت کرتا ہے۔ (الترغیب والترہیب) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کو تم قوم لوط کی طرح غیر فطری حرکت کرتا ہوا دیکھ لو تو غافل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ (الترغیب و الترہیب) حافظ زکی الدین نے ترغیب و ترہیب میں لکھا ہے کہ چار خلفاء حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ ، اور ہشام بن عبد الملک ؓ ، نے اپنے زمانوں میں غیر فطری حرکت والوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے محمد بن المنکدر کی روایت سے ایک واقعہ بھی لکھا ہے کہ خالد بن ولید ؓ ، نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، کو خط لکھا کہ یہاں عرب کے ایک علاقہ میں ایک مرد ہے جس کے ساتھ عورت والا کام کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ ، نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ ، کو جمع کیا اور ان میں حضرت علی ؓ ، بھی تشریف لائے چناچہ حضرت علی ؓ ، نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب سوائے ایک قوم کے کسی نے نہیں کیا اور اللہ جل شانہ نے اس قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے۔ دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس پر اتفاق کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، نے اسے آگ میں جال دینے کا حکم دیا۔ مندرجہ بالا روایات استلذاد بالجنس سے متعلق تھیں۔ روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔ عن ابن عباس ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال لا ینظر اللہ عزوجل الیٰ رجل اتی رجلا اوامرء ۃ فی دبرھا۔ (الترغیب و ترہیب) ” حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے۔ “ (الترغیب والترہیب) ” حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے میں شرم نہیں کرتے یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین دفعہ ارشاد فرمائے عورتوں کے پاس غیر فطری طریقہ سے مت آیا کرو۔ “ (الترغیب و الترہیب) ” حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص ملعون ہے جو غیر فطری طریقہ سے بیوی کے ساتھ تعلق خاص قائم کرتا ہے۔ “ (الترغیب والترہیب) ” حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مرد اذیت کے دنوں میں بیوی کے ساتھ تعلق خاص پیدا کرتا ہے یا کاہن کے پاس جاتا ہے اور غیب سے متعلق اس کی خبر کی تصدیق کرتا ہے تو ایسے لوگ اس دین کے منکر ہوگئے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا۔ “ اس فعل قبیح میں خواہ مرد کے ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ یا مرد عورت سے غیر فطری طریقہ سے فعل اختیار کرے تو اس کی تقریباً ایک جیسی سزا سنائی گئی ہے کبھی آگ میں جلایا جانا ، دیوار گرا کر کچل دینا اور اونچی جگہ سے پھینک دینا اور تلوار سے قتل کردینا اور اس طرح بالکل جان سے مار دینے کے علاوہ بھی سزائیں سنائی گئیں تو نوعیت فعل ، یا بار بار ایسی حرکت کی سزا اور اتفاقی امر کی کچھ ہلکی سزائیں دے کر حالات و وقت پر چھوڑ دیا گیا تاکہ وقت کے ساتھ اسلامی حکومت اس کی سزا میں کمی بیشی کرنے کی مجاز رہے۔ یعنی پہلے زنا جیسی بلا سے بچنے کے لیے راستہ کی رکاوٹیں تجویز کیں کہ سب سے پہلے مردوں اور عورتوں کے کھلے میل جول اور عورتوں کو غیرمحرم لوگوں سے خلوت اختیار کرنے سے روکا۔ پھر عورتوں کو اس بات سے روکا کہ وہ بن سنور کر اور سنگھار کے باہر نہ نکلیں بلکہ پردہ میں رہ کر باہر جائیں ان کی چال ڈھال پر پابندی لگائی کہ وہ زینت کو ظاہر کرنے کے لیے زمین پر پاؤں زور سے نہ ماریں تاکہ چھن چھن کی آواز دوسروں کو راغب کرے لباس کی ہیئت پر پابندی لگائی اور سب سے بڑھ کر مردوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ جب راستہ پر چلو تو اپنی اپنی نظروں کو نیچا رکھو اور فضول تاک جھانک سے کام مت لو۔ پھر اتفاقی نظر کو معاف کرتے ہوئے دوبارہ خوب کو خوب تر دیکھنے سے منع فرمایا اور پھر اگر کوئی اتنا ہی آگے بڑھ گیا کہ ان ساری پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر بےحیائی کے فعل کا کھلے بندوں مرتکب ہوگیا کہ چار لوگوں نے ان کو مصروف کار دیکھ لیا تو ایسے بےحیاؤں کے لیے سخت سزا سنا دی۔ ایسے اس جگہ غیر فطری فعل کے مرتکبین کو بھی علی الترتیب مار پیٹ تک لے آیا اور اس قدر سزا دلوا دی کہ وہ توبہ پر مجبور ہوجائیں اور آئندہ ایسی حرکت سے کلی طور پر باز آجائیں۔ فرمایا اگر وہ باز آجائیں اور اصلاح کرلیں تو اب تم بھی ان کو بار بار بےحیائی کا طعنہ مت دو کہ اس سے وہ حیاء اتار پھینکنے پر مجبور ہی نہ ہوجائیں۔ ” بلاشبہ اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے۔ “ توبہ کے متعلق دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو ، تم پر سلامتی ہو تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ یہ اس کا رحم و کرم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو تو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے۔ “ (الانعام : 54:6) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ (الاعراف : 201:7) ” ہاں ! جن لوگوں نے جہالت کی بناء پر برا عمل کیا اور پھر توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کرلی تو یقینا توبہ و اصلاح کے بعد تیرا رب ان کے لیے غفور و رحیم ہے۔ “ (النحل : 119:16) مذکورہ روایات میں قوم لوط کے عمل کا حوالہ بار بار آیا ہے حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے وہ قوم کفر و شرک کے علاوہ اس بدترین اور غیر فطری حرکت کی بھی عادی تھی اور جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کا ان پر اثر نہ ہوا تو اللہ جل شانہ کے حکم سے فرشتوں نے اس قوم کی بستیوں کو اوندھا کر کے زمین پر پھینک دیا جس کا ذکر سورة اعراف میں آئے گا۔ ان شاء اللہ ! !
Top