Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ارادہ کرلو کہ ایک بیوی کو چھوڑ کر اس کی جگہ دوسری کرو گے اور پہلی بیوی کو تم نے ایک [ ڈھیر بھی دے دیا ہو تو بھی نہیں چاہیے کہ اس میں سے کچھ واپس لے لو ، کیا تم چاہتے ہو کہ انہیں دیا ہوا مال بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لے لو
اگر ازدواجی زندگی کی بحالی کی کوئی صورت نہیں رہی تو نقصان کو بخوشی قبول کرلو : 49: اوپر کی آیت میں بتایا تھا کہ ناپسندیدگی کے باوجود اعلیٰ طریقہ یہی ہے کہ آدمی بیوی کے ساتھ شائستہ طریقہ پر نباہنے کی کوشش کرے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی شخص اپنے حالات کے تقاضوں سے اگر اس فیصلہ پر پہنچ ہی گیا ہے کہ اس تعلق کو استوار نہیں رکھا جاسکتا اور اس طرح کوئی نیا جوڑ بند لگانا چاہتا ہے تو یہ تو بہرحال نہ کرے کہ جو کچھ پہلی بیوی کو لکھ دیا ہے اس کو واپس لینے کی کوشش کرے۔ یہاں تک کہ اگر اس کو ڈھیروں مال بھی اس نے دیا ہے جب بھی اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے واپس لینے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دے۔ استبدال کے لفظ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ عورت کو ادل بدل کرنے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ قرآن کریم نے اس کی اجازت دی ہے کہ جب چاہو اور جو چاہو یہ بگڑے ہوئے ذہنوں کی تفہیم ہو سکتی ہے ایک صالح انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس سے تو فطرتِ انسانی کا تقاضا ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تم نے نکاح کیا تھا کیوں ؟ اس لیے کہ فطری انسان کا تقاضا تھا اور اس طرح طلا قدے دینے سے فطری تقاضا تو ختم نہیں ہوجائے گا بلکہ وہ تو بدستور قائم ہے لہٰذا جو چیز برداشت نہیں ہوسکی اگر اس کو چھوڑنا چاہتے ہو تو اس کی جگہ کوئی دوسری لانا بھی تو اتنا ہی ضروری ہے اس لیے جو پہلے تم نے کیا تھا اس پر تم نے جو کچھ خرچ کیا اب اس کو بھول جاؤ اور اگر ابھی اس حق کا ادا کرنا تمہارے ذمہ واجب ہے تو فوراً ادا کر دو اور دل کی صفائی کے ساتھ اس نقصان کو بخوشی قبول کرو اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ اس نقصان کو نقصان ہی نہ سمجھو اور یہ کڑوا بول زبان تک بھی نہ لاؤ احسن طریقہ سے فارغ کر کے جو صورت تم کو پسند ہے وہ اختیار کرلو۔ پھر اس آیت کے آخری الفاظ میں مزید وضاحت فرما دی کہ کیا تم اپنا دیا ہوا مال لینے کی خاطر عورت پر کوئی بہتان لگاؤ گے یا کسی دوسرے گناہ کا ارتکاب کرو گے یعنی جاہلیت کی طرح عورت کو دکھ دینا شروع کر دو گے تاکہ وہ مال کا کچھ حصہ یا سارا واپس کر کے خلع کرلے۔ مطلب بالکل واضح کر کے رکھ دیا کہ حالات ایسے پیدا کردینا کہ طلاق دینے کا ارادہ ہونے کے باوجود اظہار نہ کرنا اور اوپر اوپر صلح اختیار کرنے کا اظہار کرنا اور اندر سے عورت کا حلقہ اس قدر تنگ کردینا کہ وہ بیچاری بولنے پر مجبور ہوجائے اور اس طرح خلع کا بہانہ بنا کر اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لینا دوہرا ظلم ہے جس کی سزا یقینا مل کر رہے گی اس لیے کہ اس طرح انسانوں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو دلوں کے رازوں سے واقف ہے اور وہ تمہاری ساری اسکیموں سے اچھی طرح واقفع ہے۔ یہ آیت اس پر بھی صریح دلیل ہے کہ صداق یعنی حق مہر پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ اتنا ہونا چاہئے کو ان کہ مہر کا تعلق خاوند کی حالت پر ہے اگر وہ آسودہ حال ہے تو اس حالت کے پیش نظر مقرر کرنا چاہے اور اگر وہ تنگدست ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق ہی کام کرے۔ لیکن ضروری بات تو یہ ہے کہ جو کچھ اس نے مقرر کیا ہے وہ خلوص نیت پر مبنی ہو بہتر ہے کہ بغیر مطالبہ اس کو ادا کر دے ورنہ مطالبہ پر تو بہرحال دل کی خوشی کے ساتھ ادا کرنا نہایت ضروری ہے ایسا نہ کرے کہ مجلس میں واہ واہ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں کا نام لے اور زیور کے ایک ڈھیر کو مہر سے منسوب کر دے لیکن جب ادائیگی کا وقت آئے تو بہانے تراشنے لگے یہ تعلماکت اسلامی کے سراسر منافی ہے اور نہایت ہی گناہ کی بات ہے۔ بلاشبہ اس جگہ ” قِنْطَارٌ “ کا لفظ آیا جو ایک غیر محدود مقدار ہے لیکن اس پر اٰتَیْتُمْ کا لفظ بڑھا کر صاف بتا دیا ہے کہ مہر ادا کرنے کی چیز ہے صرف اعلان کردینے یا تحریر کردینے کی نہیں اور جس کو ادا کرنا ہے ظاہر ہے کہ اس کی مقدار مقرر ہونا لازمی اور ضروری چیز ہے اگر وہ ایک ڈھیر بھی ہو تو ڈھیر کا وزن اور حساب رکھنا ضروری ہے اور جس چیز کو عام زبان میں ڈھیر ساری چیز کا لفظ بولتے ہیں یقینا اس کا وزن بھی ہوتا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی وزن ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک مرد نے جو زیور بنوایا وہ اپنی حیثیت کے مطابق بنوایا وہ کتنا وزن یا کتنی مالیت رکھتا ہے سب کو معلوم ہے اور اگر معلوم نہیں تو بہرحال معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اس ڈھیر کی گنتی ، وزن یا مالیت کا حساب لگانا ضروری ہے۔ پھر جہاں اس میں یہ وسعت موجود ہے کہ اس کو محدود نہیں کیا اس کے ساتھ یہ درس بھی دیا ہے جو احادیث میں موجود ہے کہ اعظم النساء برکۃ اسیرھن صداقا یعنی بہترین عورت وہ ہے جس کے مہر میں سہولت ہو اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مہر باندھتے وقت عورت یا عورت کے وکیل مہر زیادہ باندھنے پر زور نہ دیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے اس کی مقدار بالکل نہ ٹھہرائیں بلکہ لڑکے پر یا اس کے وکیل پر بات چھوڑ دیں اس میں بڑی برکت ہوگی اس لیے لڑکے والوں کے لیے یہ تاکید کافی ہے کہ لڑکا جو بخوشی ادا کرسکتا ہے اپنی حیثیت کے مطابق وہ بیان کر دے۔ ہاں ! یہ خیال رکھنا چاہئے کہ شریعت اسلامنی نے جب اس کی مقدار مقرر ہی نہیں فرمائی تو پھر شریعت کے ذمہ یہ لگانا کہ حق مہر بتیس روپے 6 آنے یا اس طرح کا کوئی اور نام رکھنا اور اس کو شرعی حق مہر کے نام سے یاد کرنا کسی حال میں درست نہیں ہو سکتا۔ مردوں کے لیے تاکیدی حکم کہ اس طرح دیا ہوا مال واپس لینا صریح ظلم ہے : 50: مردوں کا حق مہر دیا ہوا مال یا بیوری کو کوئی تحفہ و تحائف میں دی گئی کسی چیز کی واپسی خواہ چیز کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو اس کو گناہ ظاہر اور ظلم عظیم سے تعبیر فرما کر اس کی برائی کو واضح الفاظ میں بیان کردیا اور قرآن کریم میں جہاں بھی ازدواجی زندگی کا ذکر کیا وہاں اس بات کی طرف ضرور توجہ دلائی اور ہر بار ایک نئے پیرائے سے بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کا دیا ہوا مال واپس مانگنا یا اس کے واپس لینے کی اسکیم بنانا کہ عورت خودبخو مجبور ہو کر واپس دینے پر راضی ہوجائے کہ نہایت بری اور ذلیل حرکت قرار دیا۔ اس جگہ بھی دوبارہ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم چاہتے ہو کہ بیوی پر زنا وغیرہ کے بہتان لگانے کا کھلا گناہ کر کے اپنے مال واپس لینے کا راستہ نکالو۔ یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ دیا ہوا مال واپس لینا صرف اس وقت جائز ہے جب بیوی کسی ناجائز حرکت کی مرتکب ہو اور انسان ظاہر ہے کہ اس کو برداشت نہیں کرسکے گا تو اب تم جو صورت بھی مال کو واپس لینے کی اختیار کرو گے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ گویا اس نے کوئی ناجائز حرکت کی ہے جس کی وجہ سے تم طلاق دینا چاہتے ہو کیونکہ تم نے حق مہر اس سے طلب کرلیا ہے یا اس کی ادائیگی پر راضی نہیں ہو۔ اپنی زبان سے تم اس پر تہمت لگاؤ یا نہ لگاؤ بزبان عمل تم نے یہ ثابت کردیا کیوں ؟ اس لیے کہ تم نے دیا ہوا مال واپس لینے کی لاحاصل کوشش کی جس کا تم کو حق نہیں تھا۔ حق مہر کی واپسی کی صرف ایک صورت جائز ہے جس کو خلع کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اس میں یہ شرط ہے کہ طلاق حاصل کرنے کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہو اور خاوند کسی صورت بھی طلاق دینا نہ چاہتا ہو اور وہ اس میں بالکل سچا اور حق بجانب ہو۔ اگر کوئی صورت ایسی واقعہ ہوجائے تو وہ صرف اس قدر جو اس نے حق مہر میں دیا ہے واپس لینے کا مجاز ہے لیکن اس میں بھی اگر وہ اس اجازت سے استفادہ حاصل نہ کرے اور مہر واپس نہ لے تو زیادہ بہتر سمجھا گیا ہے اور یہ بات واضح کردی ہے کہ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا حق ہے کہ وہ کسی ناگواری کے باعث اس حق کو استعمال کرسکتا ہے اسی طرح عورت کو یہ شرعی حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی ناگواری کا شکار ہوجائے تو اس حق کو استعمال کرلے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں یہ بھی اجازت دے دی گئی کہ چونکہ ابتداء عورت کی طرف سے ہوئی ہے اس لیے وہ حق مہر کی رقم یا جو چیز بھی اس نے لی تھی واپس کر دے پھر اس کو مرد کے مطالبہ پر چھوڑ دیا کہ وہ چاہے جو دیا ہے سب واپس لے لے یا اس کا کوئی مخصوص حصہ یا کوئی چیز جو اس نے ادا کی تھی اور اگر ابھی کچھ ادا نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں وہ پابند نہ رہا کہ ادا کرے۔ اور اس کا نام خلع رکھا۔ تفصیل کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 229 حاشیہ 390 ملاحظہ کریں۔
Top