Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم اسے واپس لے لو جب کہ تم دونوں ایکد وسرے کے ساتھ شوہر اور بیوی کا ملنا مل چکے ہو اور تمہاری بیویاں تم سے نکاح کے وقت پکا قول وقرار کرا چکی ہوں ؟
حق مہر کی واپسی کے ظلم و گناہ ہونے کے مزید دو مراحل کی طرف اشارہ : 51: حق مہر کی واپسی کے ایک مرحلہ کا ذکر اوپر کی آیت کے آخری حصہ میں کردیا تھا اور باقی دو مرحلوں کا ذکر اس آیت میں کردیا گیا ہے۔ فرمایا : ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم اسے واپس لو جب کہ تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ شوہر و بیوی کا ملنا مل چکے ہو۔ “ وَقَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ ۔ ” افضیٰ “ فضا فراح کا مکان کو کہتے ہیں اور مفردات میں ہے کہ عورت کی طرف افضیٰ کنایہ میں زیادہ بلیغ اور تصریح میں زیادہ ہے ” خلابھا “ سے یعنی اس سے خلوت کی اور مراد اس سے عورت سے خلوت کرنا ہی ہے۔ گویا اس طرح اس آیت میں اس حق مہر کی واپسی کی ممانعت کی وجہ بھی ذکر کردی کہ جب تم دونوں کا صرف عقد ہی نہیں بلکہ خلوت صحیحہ بھی میسر آگئی اور ایک دوسرے سے بےحجابانہ ملنا بھی ہوچکا ہے کیونکہ اس صورت میں دیا ہوا مال اگر مہر کا ہے تو عورت اس کی پوری مستحق اور مالک ہوچکی ہے کیونکہ اس نے اپنے نفس کو شوہر کے سپرد کردیا ہے اس لے تو اب اس کی واپسی کے کوئی معنی نہیں اور اگر یہ دیا ہوا مال ہدیہ یا تحفہ ہے تو بھی اس کی واپسی کے لحاظ سے درست نہیں کیونکہ ہدیہ یا تحفہ دیا ہوا واپس مانگنے کا کوئی جواز شرعی اور قانونی نہیں ہے بلکہ وہ کتے کی قے کے مترادف ہے جو انسانیت کے اصول ہی کے منافی ہے۔ پھر اس مضمون کا تیسرا مرحلہ جو اس آیت میں دوسرے نمبر پر ہے یہ بیان فرمایا کہ ” تمہاری بیویاں تم سے نکاح کے وقت پکا قول وقرار کرا چکی ہیں ؟ “ اور تم نے یہ قول وقرار قبول کیا ہے اور اس سے مراد بھی وہی عقد نکاح کا عہد ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر خطبہ کے ساتھ مجمع کیے سامنے کیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس ازدواجی عہد و میثاق اور باہم بےحجابانہ ملنے کے بعد دیا ہوا مال واپس کرنے کے لیے عورت کو مجبور کرنا کھلا ہوا ظلم اور جور ہے جس سے مسلمانوں کو بڑی وعیدیں سنا سنا کر روکا گیا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس آیت کو بھی بعض مفسرین نے منسوخ بتایا ہے اور سورة بقرہ کی آیت 229 کو اس کا ناسخ قرار دیا ہے جس میں خلع کی صورت میں عورت سے مہر جزوی طور پر یا کلی طور پر وصول کرلینے کی اجازت دی گئی ہے۔ حالانکہ اس حکم کے منسوخ ہونے کا کوئی جواز یہاں نہیں بلکہ وہاں بھی اور یہاں بھی تسلیم کی گئی ہے۔ ہاں ! طلاق کی صورت میں اس کے جوا زکی کوئی وجہ نہیں اس کی سختی سے ممانعت وہاں بھی موجود ہے اور یہاں بھی۔ اس طرح دونوں حکم ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں بلکہ اس سے نظم قرآنی کا کمال معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح حصے حصے کر کے مضمون کو مکمل اور مدلل کرتا ہے تاکہ کسی طرح کا ابہام باقی نہ رہے۔
Top