Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور ان عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ لاؤ جنہیں تمہارے باپ نکاح میں لا چکے ہوں ، اس سے پہلے جو کچھ ہوچکا سو ہوچکا ، یہ بڑی ہی بےحیائی کی بات تھی ، مکروہ و مردود شیوہ تھا اور برا دستور
باپ کی منکوحہ سے نکاح حرام ہے اس لیے کہ وہ ماں کے حکم میں داخل ہے : 52: جاہلیت کے دور میں اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی جیسا کہ اوپر آیت 19 میں مذکور ہو ابل کہ ان کے ہاں عام رواج تھا کہ جب کسی کا باپ وفات پا جائے تو اس کا بڑا لڑکا یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اٹھتا اور اس کی بیوی پر جو کپڑا ڈالنے والے کی حقیقی والدہ نہ ہوتی کپڑا ڈالنے سے اس کی ملکیت تصور ہوتی اب وہ چاہے اس کو زوجہ بنا کر ازدواجی تعلقات پیدا کرے اور چاہے کسی دوسرے کو نکاح میں دے کر اس کا حق مہر خود وصول کرلے اور چاہے کپڑا ڈال کر بس چھوڑ دے تاکہ وہ اس طرح کسی دوسری جگہ جا کر نکاح نہ کرسکے۔ اس رسم بد کو قرآن کریم نے بےشرمی اور بےحیائی کے کام سے منسوب کیا اور منع فرمایا کہ مسلمانوں تم اس حرام فعل کے کبھی مرتکب نہ ہو۔ اس آیت سے مزید یہ بھی معلوم ہوگیا کہ باپ کی منکوحہ سے نکاح حرام ہے خواہ اس سے خلوت صحیحہ ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو اس تحقیق کی ضرورت نہیں۔ صرف نکاح کا ثبوت کافی ہے اور بالکل اسی طرح بیٹے کی منکوحہ سے اس کے باپ کا نکاح حرام قطعی ہے خواہ اس کے بیٹے کے ساتھ اس کی منکوحہ کی خلوت صحیح میسر آئی ہو یا نہ آئی ہو اس لیے کہ ان دونوں صورتوں میں صرف نکاح کی شہادت موجود ہونا کافی ہے باوجود اس کے کہ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے باپوں کی بیویوں سے نکاح کرلیتے تھے تاہم اس رسم کو وہ بھی اچھا نہ سمجھتے تھے اس لیے اس نکاح کو نکاح مقت کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اسلام نے اس کو جڑ سے کاٹ دیا۔ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ کے لفظی معنی تو یہی ہیں کہ جو پہلے گزر چکا سو گزر چکا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو نکاح اس طرح سے ہوچکے سو ہوچکے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو اب تک ہوا سو ہوا اور اب اس طرح کے جتنے نکاح ہیں وہ سب خودبخود ہی اس حکم سے فسخ ہوگئے اس لیے اب کوئی جواز نہیں ہے کہ ایسے نکاح اپنی اسی حالت میں قائم رہیں۔ غور کریں کہ حرمت سود کے متعلق بھی یہی لفظ استعمال ہوئے ہیں چناچہ ارشاد ہوا : فَمَنْ جَآئَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ (البقرہ : 275:2) اور فَلَہٗ مَا سَلَفَ کے معنی بتائے گئے کہ جو گناہ اس سے ہوا ہوچکا اس سے درگزر کی جائے گی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ جس نے سودی معاملہ کیا ہوا ہے وہ سود لیتا رہے بلکہ وہاں صاف صاف یہ ہدایت موجود ہے کہ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا (البقرہ : 278:2) جو سود اس وقت تک لینا باقی ہے وہ بھی ترک کرنا پڑے گا۔ اس طرح اس جگہ بھی اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ میں استثناء گناہ سے ہے جواز فعل سے نہیں۔ اس کلمہ کو بیان کرتے وقت سارے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے جو اس فعل کی نفرت پر بذاتہ دلالت کرتے چلے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ” یہ بڑی ہی بےحیائی کی بات تھی۔ “ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً مکروہ و مردود شیوہ تھا۔ مَقْتًا اور نہایت ہی برا دستور وَسَآئَ سَبِیْلًا اس ایک ہی فعل کے لیے تینوں جملے استعمال کیے گئے اور تینوں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر سخت ہیں جس سے اس فعل قبیح اور رسم ثنیع پر دلالت کر رہے ہیں۔
Top