Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہیں ، ہاں ! جو عورتیں تمہاری ملک یمین ہوچکی ہوں یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے ، ان عورتوں کے علاوہ ، تمام عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں ، بشرطیکہ قید و بند میں رہنے کیلئے نہ کہ نفس پرستی کیلئے اپنا مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرو ، پھر جن عورتوں سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے چاہیے کہ جو مہر ان کا مقرر کیا ہے وہ ان کے حوالے کر دو اور مہر مقرر کرنے کے بعد اگر آپس کی رضامندی سے کوئی بات ٹھہرجائے تو ایسا کیا جاسکتا ہے اس میں تم پر کوئی پکڑ نہ ہوگی ، اللہ جاننے والا اور حکمت رکھنے والا ہے
وہ عورتیں جو دوسروں کے نکاح میں موجود ہیں تمہارے نکاح میں نہیں آسکتیں : 54: جب تک کوئی عورت کسی شخص کے نکاح میں ہو دوسرا شخص اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔ اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ ایک عورت بیک وقت ایک سے زائد شوہر والی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح گویا یہ رد ہے ان لوگوں کو جو یہ کہتے ہیں کہ ملک یمین سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نکاح ہی اس کو بیوی بنایا جاسکتا ہے۔ ایک شخص نے جب اپنی ملک یمین کو کسی دوسرے کے نکاح میں دے دیا تو اس طرح جس کے نکاح میں وہ دی وہ اس کا نکاح کی وجہ سے شوہر ہوگیا اور ظاہر ہے کہ وہ اس سے زنا شوئی کا تعلق قائم کرے گا اور دوسرا جس کی وہ ملک یمین ہے اگر وہ بھی ملک یمین ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ وہی تعلق قائم کرے گا تو گویا عملاً اس عورت کے دو شوہر ہوگئے ایک نکاح کی وجہ سے اور دوسرا ملک یمین ہونے کے سبب سے اور یہ بات حرام ہے۔ اسی طرح اس آیت میں ان لوگوں کا رد بھی آگیا جو اپنے الحاد کی وجہ سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ مردوں کو جب ایک ساے زائد بیویوں کی اجازت ہے تو عورتوں کو بھی ایک سے زائد شوہروں کی ضرورت ہو سکتی ہے لہٰذا ان کو بھی متمتع ہونے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اس آیت نے حکماً ان کا بھی رد کردیا کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکتا اور یہ بات عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ اس طرح بات آگے بڑھے گی اور مردوں کو حمل کی باری مقرر کرنا پڑے گی۔ اذیت کے دنوں کو اپنے سر لینا پڑے گا اور وضع و رض جیسی مصیبتوں سے گزرنا پڑے گا کہ یہ سارے کام باری باری انصاف کے ساتھ چلتے رہیں ایسا کیوں ہو کہ ہر بار عورت ہی حمل کی مصیبت برداشت کرے اور ہر ماہ عورت ہی اذیت کے دنوں کے لیے مجبور ہو۔ اس طرح یہ دین کا مذاق اڑانے والے خود مذاق بن کر رہ جائیں گے اور جو باتیں اللہ نے ان کے ذمہ نہیں ڈالیں ان کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ اپنے سر نہ لیں۔ بلکہ جو کام اللہ نے عورتوں کے لیے مخصوص کردیے ہیں وہ انہی کے ذمہ رہنے دیں اور جو کام مردوں کے ذمہ مخصوص کیے ہیں وہ ان ہی کو نباہتے رہیں تو خیر اس میں ہے ورنہ نماز معاف کراتے کراتے روزوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔ یورپ کی عینک اتار کر دیکھیں تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ مرد کے لیے کثرت ازدواج ایک نعمت ہے جسے ہر مذہب و ملت میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ جس پر انسان کی تاریخ شاہد ہے لیکن عورت کے لیے ایک وقت میں ایک سے زائد شوہر ہونا اس عورت کے لیے ایک بہت بڑا عذاب ہے اور جو دو مرد ایک عورت کے شوہر بن جائیں ان کے لیے بھی باعث ننگ و عار ہے اور سراسر بےشرمی و بےحیائی کی بات ہے۔ پھر میں کسی بچہ کے ثابت النسب ہونے کی بھی کوئی صورت نہیں۔ جب ایک عورت سے کئی مرد استمتاع کریں گے تو پیدا ہونے والی اولاد کو ان میں سے کسی ایک کا بیٹا قرار دینے کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہے گا اور حسب و نسب باقی نہ رہا تو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہے گی اور یہ وہ صورت ہوگی کہ انسان انسان نہیں بلکہ ایک حیوان رہ جائے گا اور بلے کتے اور ایسے انسانوں میں سوائے نطق کے کوئی امتیاز باقی نہ رہ گا۔ لہٰذا اس طرح کا بدترین مطالبہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو انسانیت کو ضائع کرچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے انسان بھی انسان نہ رہیں اور جن کی غیرت و حیاء کا اس طرح جنازہ نکل چکا ہے ایسے لوگ اولاد اور والدین کے حقوق کی لائن سے وجود میں آنے والی رحمتوں سے خود محروم ہوچکے ہیں اور پوری انسانیت کو ان سے محروم کرنے کی فکر میں ہیں۔ جب نسب ہی ثابت نہ رہا تو باہمی حقوق و فرائض کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی ؟ اس لیے خالص طبعی اور عقلی اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو ایک عورت کے لیے متعدد شوہر ہونے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ 1۔ ازدواجی زندگی کا بنیادی مقصد تناسل ہے اس اعتبار سے متعدد عورتیں تو ایک مرد سے حاملہ ہو سکتی ہیں اس لیے وہ ایک مرد سے رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایک عورت متعدد مردوں سے حاملہ نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ایک ہی مرد سے حاملہ ہوگی اور اس طرح جب وہ ایک مرد سے حاملہ ہوچکی تو اس طرح دوسرے مردوں کی قوت ضائع ہوگئی اور شہوت رانی کے سوا ان کو کیا حاصل ہوا۔ 2۔ مشاہدہ اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ عورت مرد کے مقابلہ میں صنف نازک ہے وہ سال کے اکثر حصہ میں استمتاع کے قابل ہی نہیں رہتی۔ بعض حالات میں اس کے لیے ایک ہی شوہر کے حقوق پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اس طرح کئی طرح کی بداعتدالیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا فریقین حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں اس لیے عورت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک سے زائد شوہروں کے بندھن میں وہ بندھ سکے۔ ہاں ! ایسی عورت کو انسانیت کے سارے اصول توڑ کر حیوانی زندگی ہی پر گزربسر کرنا پڑے گا اور آج یورپ میں یہی کچھ ہو رہا ہے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ 3۔ چونکہ مرد جسمانی قوت کے لحاظ سے عورت کے مقابلہ میں زیادہ طاقت و قوت رکھتا ہے کیونکہ سخت جان ہے اور اس قوت عمل کے لیے اس کو زیادہ مواقع فراہم ہیں کہ جن دنوں میں عورت حمل میں ہے۔ رضاعت کی منازل طے کر رہی ہے اور اس طرح کبھی وہ اذیت ماہانہ کے دنوں میں مصروف ہے۔ ان سارے کاموں پر اس کی قوت صرف ہو رہی ہے اس لیے اگر کسی مرد میں اتنے لمبے وقت کے لیے انتظار مشکل ہے تو اس کا عقلی طور پر بھی حق ہے کہ اس قوت کے جائز اور صحیح مصرف کے لیے اس کو دوسری بیوی کی اجازت ہو۔ ورنہ وہ دوسرے ناجائز طریقے استعمال کر کے پورے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنے گا۔ اس لیے عقل بھی اس بات سے انکار کرتی ہے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی۔ دین اسلام میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ کسی مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے عورت سے دوسرا نکاح حرام قرار دیا بلکہ کسی عورت کو جب اس کا شوہر طلاق دے دے یا شوہر وفات پا جائے تو بھی عورت کے ساتھ عدت کے دنوں میں نکاح حرام کردیا تاکہ حسب و نسب محفوظ رہے اور اس میں گڑبڑ نہ ہو۔ ” المحصنٰت “ اور ” المحصنین “ کے الفاظ شادی شدہ عورتوں اور مردوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں : قرآن کریم کی اس آیت میں جو لفظ استعمال کیا گیا وہ اَلْمُحْصَنٰتُ “ ہے جو ” محصنۃ “ کی جمع ہے اور وہ ” حصن “ سے ہے اور ” حصن “ کے معنی قلعہ کے ہیں۔ جس کی جمع ” حصون “ آتی ہے اور اسی سے ” تحصن “ ہے جس کے معنی ہیں کہ قلعہ کو اپنا مسکن بنایا اور اس سے یہ لفظ ہر طرح کی حفاظت پر استعمال ہونے لگا جیسے ” فرس حصان “ وہ گھوڑا جو اپنے سوار کو بچا لتا ہے۔ درع حصینۃ وہ زرہ جو بدن کی حفاظت کرتی ہے۔ اس سے احصان ہے جس کے معنی ” نکاح کرنا “ کے ہیں جیسے قرآن کریم میں فَاِذَا اُحصِنَّ ای زوجن۔ وَاَحْصَنَہٗ ای زوجہ۔ تحَصُنَّا ای تزوجا و زنا و معنا۔ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا ای زوجت۔ اَلْمُحْصَنَاتُ ای المتزوجات اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا کے الفاظ قرآن کریم میں سیدہ مریم ؓ کے لیے اور حدیث شریف میں سیدہ فاطمہ ؓ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یا معشر الشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصروا حصن للفرج (مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ بخاری و مسلم ، عن عبداللہ بن مسعود ؓ ” اے نوجوانو ! تم میں جو بھی استطاعت رکھے شادی کرے کہ اس سے نظر اور شرمگاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ “ المحصنۃ و جمعھا محصنتھی الحرۃ والفیفۃ اوالمتزوجۃ آزاد ، پاکباز اور شادی شدہ عورت کو محصنہ کہتے ہیں۔ اس طرح محصن آزاد ، پاکباز اور شادی شدہ مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے اس آیت زیر نظر میں مُحصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ محصنین ای متزوجین استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کی تفسیر چار طریقوں سے کی گئی ہے اور چاروں ہی طریقوں سے صحیح اور درست ہے۔ اول محصناتٌ شادی شدہ عورتیں مراد لی گئی ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اس طرح اس کی دو صورتیں ہیں پہلی یہ کہ اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد وہ عورتیں لی جائیں جو جنگ میں قید ہو کر ملک یمین ہوجاتی ہیں اور اس طرح معنی آیت کے اس طرح ہوں گے ” خاوند والی عورتوں سے نکاح کرنا منع ہے سوائے ان خاوند والی عورتوں کے جو ملک یمین میں آجائیں۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ملک یمین سے مرد ملک نکاح لی جائے تو اس طرح آیت کے معنی یہ ہوں گے ” خاوند والی عورتیں تم پر حرام ہیں سوائے اس صورت کے کہ وہ تمہاری ملک میں نکاح میں آجائیں بعد اس کے کہ ان کے پہلے خاوندوں سے جدائی واقع ہوجائے۔ “ کیونکہ جب تک پہلے خاوند سے جدائی نہ ہوجائے ایسی عوت ملک نکاح میں نہیں آسکتی۔ دوم : مُحْصَنٰتٌ سے مراد آزاد عورتیں لی جائیں تو اس طرح بھی دو ہی صورتیں ہوں گی پہلی یہ کہ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد وہ عدد لیا جائے جو اللہ نے بیک وقت نکاح میں لانے کی حد مقرر کردی ہے یعنی چار اور دوسری یہ کہ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد یہ لی جائے کہ وہ عورتیں جو تمہارے قبضہ میں جائز طور پر آ چکی ہیں یعنی دل کی رضامندی سے اور گواہوں کی موجودگی میں اور دوسری ساری شرائط کے ساتھ تو اس طرح دونوں صورتوں میں معنی یہ ہوں گے ” آزاد عورتیں چار کی تعداد سے زیادہ تمہارے لیے حرام ہیں یا یہ کہ آزاد عورتیں تمہارے لیے حرام ہیں سوائے اس کے کہ جائز طور پر وہ تمہارے نکاح میں آئیں۔ “ اس طرح پہلے پیرا کی دو صورتوں میں سے دوسری صورت اور دوسرے پیرے کی دونوں صورتوں کو ملا کر تینوں صورتوں میں جو معنی کیے گئے ہیں ان پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا اور پہلی صورت پر ذرا غور کرنا اور ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے اور اس طرح بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ اس طرح تمام منکوحہ عورتوں سے نکاح حرام قرار پاتا ہے خواہ وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتی ہوں اور اس طرح گویا دوسرے مذاہب کی عورتوں کے نکاح کو بھی صحیح تسلیم کیا گیا اور حکم دیا کہ ” کسی مذہب یا قوم کی عورت سے جو نکاح شدہ ہو مسلمان کا نکاح کرنا ناجائز ہے۔ سوائے اسی منکوحہ عورت کے جو ملک یمین ہوجائے۔ “ یعنی شادی شدہ عورت جب کسی کسی ملک یمین ہوجائے تو اس صورت میں اس سے نکاح کرلینا جائز ہے اس میں سمجھایا جا رہا ہے کہ نکاح کے بغیر کسی قسم کا تعلق مرد و عورت کا ہونا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ ہاں ! اس آیت میں ملک یمین یعنی باندی سے نکاح کرلینے کی اجازت کا حکم دیا جا رہا ہے اور وہ نکاح دوسری شرائط کے ماتحت ہے جن میں سے بعض شرائط کا ذکر آگے والی آیت میں دیا جا رہا ہے اور عام شرائط قرآن کریم کی دوسری آیات میں موجود ہیں مثلاً یہ کہ مشرکہ عورت سے نکاح جائز نہیں ہے اور یہ بات جو لوگوں میں معروف ہے اور علماء و مفسرین کی خاصی تعداد اس طرف چلی گئی ہے کہ ” ملک یمین “ کے ساتھ نکاح کی ضرورت نہیں بالکل لغو ہے اور اس کی پوری وضاحت ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں۔ مذکورہ عورتوں کے سوا باقی عورتوں سے تم نکاح کرسکتے ہو : 55: ان عورتوں کے ما سوا عورتوں سے یعنی جن کا ذکر ” لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَآئَ کُمْ “ سے شروع ہو کر مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ تک ہوچکا ہے تمہارا نکاح جائز و درست ہے لیکن اس کے ساتھ دو شرطیں مزید ہیں اور وہ دونوں شرطیں بیک وقت مطلوب ہیں۔ ایک یہ کہ نکاح مہر کے ساتھ ہو اور دوسری شرط یہ کہ اس نکاح سے مقصود عورت کو اپنی حمایت و حفاظت میں لینا ہو یعنی مستقل زوجہ بنانا مطلوب ہو نہ کہ وقتی طور پر شہوت رانی کر کے آگ پر پانی ڈالنا کہ چار آنہ دیے ، اپنی ہوس کی آگ بجھائی اور چلتے بنے۔ مہر کی شرط لگانے کا اصل مقصد عورتوں کے معاملے میں اکراہ یا تو ارث کے ان امکانات کا بالکل خاتمہ کرنا ہے جن کی طرف اوپر اشارات دیے گئے ہیں اور جو دور جاہلیت کے رواج میں پایا جاتا تھا۔ اس کا بہت حد تک تدارک تو رحمی رشتوں کو حرام قرار دینے سے ہوگیا جن کو لوگوں نے اپنے اپنے رواج کی وجہ سے بھلا دیا ہوا تھا اور رہی سہی کسر اس شرط نے پوری کردی اور اس طرح جاہلیت کی رسم دفن کرنے کے لیے مہر کا حق لازم کردیا گیا۔ دو لسرا مقصد اس کا یعنی مہر کا یہ ہے کہ نکاح کے معاملے کو ایک سنجیدہ معاہدہ کی حیثیت حاصل ہوجائے اس کو بچوں کا کھیل نہ سمجھا جائے کہ یہ گیند بلا یا ” اٹی ٹلا “ نہیں بلکہ زندگی کی قید و بند کا معاملہ ہے اور اس معاہدہ سے حقوق و فرائض لازم آتے ہیں جن کو پورا کرنا ہر حال میں ضروری ہوجاتا ہے مہر کیا ہے ؟ ایک شریک زندگی کو شریک مال و متاع کردینا کہ اس سارے گھر کا مالک فرد واحد مرد ہی نہیں بلکہ شریک حیات بھی ایک حد تک اس میں حصہ دار ہے۔ اس کی حیثیت کسی کرایہ دار کی نہیں بلکہ مستقل ملکیت کی ہے۔ اس گرہ نکاح کا مطلب یا مقصد خواہش نفس کا ازالہ نہیں بلکہ زندگی کی ساری رعنائیوں میں شرکت کامل ہے۔ ” احصان “ کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ نکاح کو سفاح سے بالکل الگ کردیا جائے۔ سفاح کیا ہے ؟ خون یا پانی بہانے کو سفاح کہا جاتا ہے اور اس جگہ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی مرد اور عورت کا صرف ازالہ خواہش کے لیے مل جانا شہوت رانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی آگ پر پانی ڈالنا ہے۔ احصان پاکبازی ہے اور سفاح بدکاری۔ احصان یہ ہے کہ ایک مرد ایک عورت کو سنجیدہ ارادے اور زندگی بھر کے سنجوک اور شریک حیات کے عزم کے ساتھ اپنی حفاظت و حمایت کے قلعہ میں داخل کرے اور اس شعور و ارادہ کے ساتھ اس کے حصن حمایت میں داخل ہو۔ اس احصان کے بغیر عورت اور مرد کے تعلق سے وہ مقصد پورا ہی نہیں ہو سکتا جو قدرت الٰہی نے اس سے پورا کرنا چاہا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے ایک وقت اور عارضی تعلق پیدا کرتا ہے تو وہ اس کتے سے بھی بدتر ہے جو ایک خاص وقت کی شناخت رکھتا ہے۔ مہر کی ادائیگی کی تاکید کہ اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا : 56: قرآن کریم میں جہاں بھی ازدواجی زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا تو اس شرط کو ساتھ رکھا کوئی ایک جگہ بھی قرآن کریم میں ایسی نہیں ہے کہ نکاح کا ذکر کیا ہو اور مہر کی ادائیگی کا نام نہ لیا ہو کیوں ؟ اس لیے کہ مال ہی وہ چیز ہے جس سے ہر انسان ہر حال میں محبت رکھتا ہے اور پھر جتنا مل جائے کبھی اس سے طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دیتے وقت کم سے کم دے اور لیتے وقت زیادہ سے زیادہ حاصل کرے۔ اس لیے جگہ بھی ارشاد فرمایا گیا کہ ” جن عورتوں سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے تو چاہئے کہ جو مہران کا مقرر کیا ہے وہ ان کے حوالے کر دو ۔ “ جن عورتوں سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے تو چاہئے کہ جو مہران کا مقرر کیا ہے وہ ان کے حوالے کر دو ۔ “ آیت کے حصہ سے لوگوں نے متعہ کا جواز نکال لیا اور پھر برملا کہنا شروع کردیا کہ دیکھو قرآن کریم میں متعہ کا ذکر کر کے متعہ کرنا ضروری ٹھہرایا ہے جو ہر حال میں غلط ہے۔ سورة النساء کی اس آیت نمبر 24 کے اس حصہ سے کچھ لوگوں نے متعہ کا جواز نکال کر اس پر ایک مستقل بےحیائی اور بےغیرتی کی بنیاد رکھ لی اور پھر اس پر اتنے دلائل جمع کردیے کہ اس کو نعوذ باللہ ” حج اکبر “ بنا کر رکھ دیا۔ متعہ کیا ہے ؟ وہ ایک نکاح کا طریقہ ہے جو عربوں کے ہاں اسلام سے پہلے پایا جاتا تھا اور اس کی تعریف آج تک یہ معروف چلی آتی ہے کہ ” ایک مرد ایک عورت سے میعاد معین کے لیے مثلاً ایک شب کے لیے بعوض مال معین کے مثلاً دس روپے کی اجرت ٹھہرا لے اور اس عورت سے اس معابد تک تعلق خاص قائم کرے۔ “ جیسا کہ اس زمانہ میں بھی بےحیا عورتوں اور بےحیا مردوں کا عام دستور ہے۔ چناچہ تفسیر کبیر میں ہے کہ : وھی اے المتعۃ عبارۃ عن ان یستاجر الرجل المراءۃ بمال معلوم الیٰ اجل معین فیجا معھا۔ (تفسیر کبیر امام رازی آیت زیرنظر) سورۃ النساء کی زیر نظر آیت میں لفظ آیا ہے کہ ” اِسْتَمْتَعْتُمْ “ یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے تم نے تعلق زنا شو قائم کرلیا ان کو ان کے پورے حق مہر ادا کرو۔ اس لیے کہ جو نکاح کا مقصد تھا وہ یہی تھا کہ تمہاری ازدواجی زندگی بحال ہوجائے اور جس طرح تم ایک دوسرے سے جسامنی نفع حاصل کر رہے ہو اور دونوں مل کر گویا ایک ہوچکے ہو تم میں مال اشتراک بھی ضوری ہے تاکہ یہ گھر دونوں کا گھر اور ہر مال دونوں کا مال ہوجائے اور ظاہر ہے کہ اس طرح وہ حق قائم ہوجاتا ہے جس کو اسلام نے ضروری قرار دیا ہے۔ اور مراد اس سے یہ تھی کہ اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ نکاح کے بعد اگر تعلق خاص پیدا نہ ہو جس کو شریعت کی زبان میں ” خلوت صحیحہ “ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس طرح مینہ برستے ہی اولے شروع ہوجائیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جائے جس کا بعض اوقات امکان ہوتا ہے تو سر پورا واجب نہیں ہوتا بلکہ آوصا واجب ہوتا ہے کیونکہ فریقین کی شرکت ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس عیب کا گویا ازالہ ہے جو ایک حصہ تک لگ چکا ہے۔ متعہ کو جائز قرار دینے والوں نے اس مدت میں معین کا اضافہ کر کے اس سے وہ فائدہ حاصل کرنا شروع کردیا جس کو متعہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پھر جیسے مثل مشہور ہے کہ ” ساواں کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے “ انہوں نے جہاں قرآن و سنت میں کوئی ایسا لفظ دیکھا جس کے مادہ میں م۔ ت اور ع ہوں اس سے متعہ کا جواز ثابت کر دکھایا اور پھر اس کے فوائد عقلی اور نقلی بیان کرنے شروع کردیے اور شریعت کی نظر میں اس فعل کو نہایت ہی بابرک ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی اور آہستہ آہستہ ایک مکتبہ فکر نے اس کو ” عقدہ النکاح “ سے ہر لحاظ میں افضل کہنا شروع کردیا۔ ہمارے علماء و مفسرین کی اکثریت کا یہ اتفاق ہے کہ ابتدائے اسلام میں متعہ جائز تھا اور پھر اس باب میں کہ وہ بدستور جائز ہے یا ممنوع یا منسوخ ہوگیا ہے اختلاف ہے۔ پھر ان میں سے گروہ کثیر کا یہ قول ہے کہ اس آیت سے تو بلاشبہ جواز متعہ کا حکم ہے یعنی ” اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ “ لیکن یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ پھر اس پر استدلال شروع ہوجاتا ہے جو دور تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اور گروہ قلیل کا یہ قول ہے کہ حکم جواز متعہ بدستور بحال اور وہ غیر منسوخ ہے پھر دونوں طرف سے دلائل شروع ہوگئے ہیں قائلین متعہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور حکم کے منسوخ کہنے والوں کے پاس اپنے دلائل ہیں اور پھر دونوں طرف طعن وتشنیع اس کے علاوہ ہے۔ ہمارے نزدیک علماء و مفسرین کا اس آیت سے حکم جواز متعہ پر استدلال کرنا محض غلط ہے بلکہ ایک طرح کی سینہ زوری ہے ہاں ! اس میں اعلانیہ متعہ کے امتناع کا حکم پایا جاتا ہے جو اسلام سے پہلے عربوں میں رواجاً پایا جاتا تھا۔ جب نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہوئے تو اس طرح کے بیسیوں کام عربوں میں موجود تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی ہر طرح سے حفاظت فرمائی اور کوئی ایک کام بھی آپ ﷺ سے ایسا سرزد نہ ہونے دیا جس کو بعد میں چل کر ناجائز و حرام قرار دینا علم الٰہی میں موجود تھا اور یہی وہ کمال ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو دنیا کے تمام انسانوں سے الگ کر دکھاتا ہے کہ باوجود ایک انسان و بشر ہونے کے کوئی کمزوری آپ ﷺ سے سرزد نہ ہوئی بلکہ ہر ایسی کمزوری سے اس طرح پاک رہے جیسے ماں کے بطن سے پیدا ہونے والا حسب و نسب کا وجیہ اور پسندیدہ بچہ۔ تمام تاریخوں اور کتابوں میں پایا جاتا ہے کہ ہر ایک قوم میں قدیم زمانہ میں اس قسم کی عورتیں تھیں جو یہی پیشہ کرتی تھیں جیسے کہ اس زمانہ میں بھی ایسی عورتیں پائی جاتی تھیں جن کو بلحاظ ان کے حالات کے خانگیاں اور کسیاں کہتے تھے۔ یہودیوں میں ، فارسیوں میں بلکہ تمام قوموں میں اس قسم کی عورتیں تھیں۔ عرب میں قبل از اسلام اور ابتدائے اسلام میں اور جب تک امتناع متعہ کا حکم نہیں آیا ایسی عورتوں کا وجود تھا۔ یہ طریقہ اور یہ فعل صرف اس وجہ سے نکلا تھا کہ مردوں کو اپنی خرمستی دور کرنے کا موقع ملے۔ تزوج میں اور اس طرح پر متعہ یعنی اجرت سے کام چلانے میں فی نفسہ کوئی فرق نہ تھا اس لیے کہ مہر اور اجرت کو ایک ہی شے سمجھا جاتا تھا اور رضاء و معاہدہ بھی دونوں حالتوں میں ایک ہی حقیقت رکھتا تھا۔ متعہ میں میعاد کا معین ہوجانا اور تزوج میں تعین میعاد کا اختیار زوج کے ہاتھ میں رہتا یا میعاد کا معلوم ہونا لیکن اس تعداد کا نامعلوم ہونا کہ کب موت آئے گی حقیقت میں معاہدہ میں کوئی معتدبہ تبدیل نہیں کرتا پس ان دونوں میں جو حقیقتاً فرق تھا وہ یہی تھا کہ تزوج سے مقصود دراصل احصان یعنی پاکدامنی اور نیکی تھی اور متعہ سے صرف خرمستی کو متانا کو قن کہ اس کے مرتکب کو بجز سطح یعنی منی گرانے کے اور کوئی مقصود نہیں ہوتا پس اس کو اس احکم الحاکمین نے منع فرایا۔ اور حکم دیا کہ اِنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ یعنی تم اپنے مال سے آزاد عورتوں کو نکاح کرنے کے لیے تلاش کرو اور ان سے نکاح کرنا پاکدامنی رکھنے کے لیے ہو وقتی خرمستی کرنے کے لیے نہیں۔ اس طرح آیت کا مطلب محصنین کے لفظ پر گویا ختم ہوگیا غیر مسافحین کا لفظ صرف اسی طریقہ متعہ کے منع کرنے کو کہا گیا ہے جو نہایت بےحیائی اور بداخلاقی سے رائج تھا اس طرح اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتًا وَّسَآئَ سَتِیْلًا میں یہ فعل بھی داخل ہے۔ پس اس طرح اس آیت کے لفظ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ سے متعہ کا امتناع پایا جاتا ہے نہ کہ اس کا جواز جیسا کہ غلطی سے سمجھ لیا گیا۔ اس استمتاع سے مراد بلاشبہ ہم بستر ہونا ہے لیکن اپنی منکوحہ بیوی سے بغرض حصول اولاد اور پاکدامنی کے نہ کہ خرمستی کے لیے جس کا مقصود صرف اور صرف منی گرانا ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ رہی طلاق تو وہ ایک شرعی ضرورت ہے اور اس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا یہ کہ کسی عورت سے یہ کہہ دیا جائے کہ یہ رقم وصول کرلو اس مرد سے نکاح کرلو لیکن ٹھیک تین دن کے بعد اس کی دونوں ٹانگیں توڑ دی جائیں گی تو یقینا کوئی عورت بھی ایسے مرد سے شادی رچانے کو تیار نہیں ہوگی لیکن یہ بات عین ممکن ہے کہ جس کا آج نکاح ہوا ہو اور تین روز بعد اس کے خاوند کی کسی حادثہ میں دونوں ٹانگیں ٹوٹ جائیں اور اس طرح اس کو بطور مثال پیش کیا جائے کہ آج سے چار روز پہلے فلاں کی شادی ہوئی اور تیسرے ہی روز اس کے خاوند کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں تو آخر اس میں حرج کیا ہے یا گناہ کیا ہے کہ تم اس مرد سے آج نکاح کرلو کیونکہ اس کی ٹانگیں تو تین روز کے بعد توڑی جانے والی ہیں کیا یہ مثال صحیح ہے ؟ کیا اس طرح کوئی نیک کردار اور نیک سیرت عورت تیار ہوگی ؟ یقینا نہیں حادثہ اور بات ہے اس لیے کہ وہ اختیاری نہیں بلکہ اتفاقی ہے اور متعہ جس بلا کا نام ہے اتفاقی نہیں بلکہ اختیاری چیز ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اتفاق اور اختیار کے فرق کو نہ سمجھتا ہو تو یہ دوسری بات ہے کیونکہ اندھے کو راستہ دکھایا نہیں جاسکتا اور اگر وہ دیکھ کر چلنے کی ضد کرے تو اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ کسی صحابی کا یہ بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد بھی ہم متعہ کرتے رہے اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ آپ ﷺ نے متعہ کا حکم دیا ہے یا کم از کم اجازت دی ہے۔ حاشا کلا ہرگز نہیں۔ ہاں ! اس رواج کے منع فرمانے سے پہلے مسلمانوں سے بھی رواجاً کسی بات کا ہونا اس کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ آپ ﷺ نے اس کا حکم یا آپ ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان بھی متعہ کرلیا کرتے تھے جب تک کہ اس کو منع نہیں کیا گیا تھا اور سورة نساء کی اس آیت نے عربوں کے اس رواج کو سختی سے روک دیا کہ آئندہ خرمستی لگانے کے لیے اور صرف منی گرانے کے لیے استمتاع حرام ہے۔ ان احادیث سے متعہ کا جواز نکالنا سراسر زیادتی اور سینہ زوری ہے اور اس طرح یہ مسئلہ ناسخ و منسوخ کا نہیں بلکہ عربوں کے رواج کو مٹانے کا ہے کسی قوم میں کسی رواج کا پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا اس کا حکم ان کے مذہب نے دیا ہے۔ آج بھی مسلمانوں میں بیسیوں ایسی رسمیں موجود ہیں جن سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے تاہم مسلمان کرتے ہیں اور ان کی ادائیگی قرآن و سنت کے احکام کے مقابلہ میں بھی بہت سخت سمجھی جاتی ہے لیکن اس طرح سمجھ لینے سے وہ رسم اسلام کی نہیں ہو سکتی۔ نہ اس کو بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ مسلمان ایسا کرتے ہیں اس لیے یہ اسلام کے حکم ہیں۔ اگرچہ ان رسومات کے ادا کرنے والے اس کے جواز میں سو دلیلیں گھڑ لیں جیسے متعہ کے جواز کے لیے لوگوں نے بیسیوں دلیلیں گھڑ لی ہیں اور پھر من حیث القوم جو برائیاں قوم میں موجود ہیں ان کے پیش نظر ایک دوسرے پر الزام ہی سے جواز گھڑ لیا گیا ہے کہ دیکھو کچھ لوگ حلالہ نکالتے ہیں اور پھر حلالہ اور متعہ کا موازنہ کر کے دکھایا جائے کہ متعہ حلالہ سے کئی درجہ بہتر ہے پھر حلالہ کی برائی کی دلیلیں پیش کر کے ان ہی دلیلوں کو متعہ کا جواز سمجھ لینا کوئی دیانت و امانت کا مسہل نہیں ہے۔ ہم روایتی بحث میں اس لیے الجھنا نہیں چاہتے کہ بدقسمتی سے دونوں فریق اس معاملہ میں حدود سے تجاوز کرتے نظر آتے ہیں اور دونوں اطراف سے اپنے بزرگوں کو اس طرح جواز اور عدم جواز کے لیے کھڑا کیا ہے کہ ان کی عصمتوں کو بھی محفوظ نہیں رہنے دیا گیا۔ شعیوں نے رسول اللہ ﷺ سے شروع کر کے بڑے بڑے صحابہ کرام ؓ اور آئمہ کرام کو متعہ کرتے دکھایا ہے اور اس جوا زمین وہ کچھ پیش کیا ہے جس کا دہرانا نقل کفر کفر نباشد کے محاورہ کے باوجود ایک صالح طبیعت اس سے انکار کرتی ہے کہ ان باتوں کا ذکر کیا جائے اور مانعین جواز کی طرف سے بھی کچھ اس طرح کے تسامح ضور ہوئے ہیں۔ ہاں ! اس جگہ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ جس طرح ” متعہ ‘ حرام ہے بالکل اسی طرح ” حلالہ “ بھی حرام ہے اوقر ہر قسم کا موقت نکاح بھی باطل و حرام ہے اور دونوں کی حرمت اسلام میں طے شدہ امر ہے اور اس طرح شغار بھی ممنوع اور مکروہ فعل ہے اور اس کے لیے جواز پیش کرنا کسی حال میں بھی جائز و درست نہیں اس کے حسن سے قبائح ہر حال زیادہ ہیں اس لیے مسلمانوں کو اس بری رسم کا دفن کردینا بھی ضروری ہے نیز یہ بھی کہ اپنے بیٹوں کے نکاح کے لیے صرف ظاہری مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لینا بھی ایک قبیح فعل ہے اس لیے حسن اخ (رح) اق ، نیک کردار اور صالح انسان کا انتخاب دین اسلام کی ہدایت اور ہر چمکنے والی چیز کو سونا سمجھنا بےوقوفی کی دلیل ہے۔ زوجین اپنی رضامندی سے حق مہر زیادہ یا کم کرسکتے ہیں : 56: مہر شرعاً فرض اور ضروری ہے کوئی بھی اسے ساقط نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ اگر کسی نے اس شرط کے ساتھ نکاح کرلیا ہو کہ وہ کوئی مہر نہ دے گا اور مہر کے بغیر ہی نکاح کر رہا ہے اور عورت نے بھی اس شرط کو منظور کرلیا ہو تب بھی اس کی ادائیگی اپنی جگہ بدستور واجب اور ضروری ہیر ہے گی اور مرد کی یہ شرط یکسر لغو اور غیر موثر قرار پائے گی کیونکہ یہ مہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم ٹھہرایا ہوا فریضہ ہے۔ اس کا واجب اور ضروری ہونا کسی اور کی مرضی پر ہرگز موقوف نہیں ہے۔ بعض کے نزدیک مہر صرف واجب ہی نہیں بلکہ عقد نکاح کے ارکان میں شامل ہے یعنی نکاح کا نکاح ہونا جہاں کچھ اور باتوں پر موقوف ہے وہیں مہر پر بھی موقوف ہے اگر کسی نے مہر نہ دینے کی شرط کے ساتھ نکاح کرلیا تو یہ نکاح سرے سے جائز ہی نہ قرار پائے گا۔ بلاشبہ قرآن کریم نے مہر کے سلسلے میں جو ہدایات دی ہیں ان کے الفاظ اور انداز بیان سے یہی بات وزنی معلوم ہوتی ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) شارح بخاری نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مہر کے بغیر کسی عورت سے جنسی تعلق کا قائم کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباری ، ج : 9 ، ص : 167) اس مسئلے میں خود عورت کی رضامندی اور منظوری بھی کوئی فرق پیدا نہ کرسکے گی کیونکہ عورت کا مہر حق ضروری ہے مگر اس سے پہلے وہ خود شریعت کا حق ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے حق کو تو ساقط کرسکتا ہے مگر شریعت کے حق کو ساقط نہیں کرسکتا۔ چناچہ اس بات پر سب مسلمانوں کا ہر لحاظ سے اتفاق ہے کہ مہر کو ساقط ٹھہرا لینے پر متعلقہ افراد شوہر و بیوی یا اس کے ولی کا متفق ہونا اور رضامند ہونا جائز نہیں ہے۔ ہاں ! یہ بات جان لینی چاہئے کہ مہر کے واجب ہونے یا صحت نکاح کی شرط ہونے کے باوجود یہ ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے وقت ہی اسے ادا کردیا جائے اگرچہ وقت پر ادا کرنا زیادہ مناسب ہے یا کم از کم یہ کہ اس کی تعین اور ادائیگی بعد میں بھی کردی جاسکتی ہے اور یہ گنجائش یا اجازت قرآن کریم کے بعض ارشادات سے بالکل واضح طور پر نکلتی ہے مثلاً سورة بقرہ کی آیت 236 اور جہاں تک ہمارا علم ہے علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔ اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کے وقت مہر کا تذکرہ نہ آنے یا اس کی تعین نہ ہونے سے اس کی ضرورت اور اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا کیونکہ وہ بجائے خود ایک لازمی اور قطعی فریضہ ہے اس لیے نکاح کے موقع پر لفظوں میں اس کا تذکرہ اور تعین نہ ہونے کے باوجود اصلاً اور معنی وہ مذکور اور متعین ہی ہوتا ہے = ہاں ! وقت پر اس کا تعین کرنا زیادہ بہتر اور صحیح ہے۔ مہر کی مقدار کم سے کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی اور اعتدال ہر حال میں بہتر ہوتا ہے لیکن اس کی ایک حد مقرر کردینا مناسب ہے اس لیے کہ شرعاً اس کی حد کا مقرر کرنا فریقین پر رکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود کہ مجلس میں ایک اعلان ہوجائے کہ اس نکاح کا اتنا مہر مقرر ہے پھر بھی میاں بیوی کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ وہ اس میں چاہیں تو رضامندی سے کمی بیشی کرلیں اور اسی طرح مرد کو بڑھانے کا حق ہوگا اور عورت کو کم کرنے کا۔ مرد اپنی طرف سے کم نہیں کرسکتا اور عورت اپنی طرف سے زیادہ نہیں کرسکتی اور رضامندی سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ شریعت کی نگاہ میں بہتر یہ ہے کہ مہر اتنا ہی مقرر کیا جائے جو وقت کے معروف اور زوجین کے سماجی مرتبے اور معاشی حالات کے مطابق ہو جیسا کہ لفظ ” بِالْمَعْرُوْف “ سے واضح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اپنے زمانہ میں بعض لوگوں نے ” معروف “ کی سطح سے اونچے مہر مقرر کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکماً منع نہیں فرمایا لیکن ناپسندیدگی کا اظہار ضرور فرمایا۔ (مسلم کتاب النکاح ، ج : اول ، ص : 475) مہر پر لفظ ” اُجُوْر “ کا استعمال بھی قرآن کریم کی اس آیت میں ہوا ہے فَاْتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ ان کے حق مہر ادا کر دو تو اس ” اجر “ کے لفظ سے بھی بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور اس غلطی کا نتیجہ بھی بہت بھیانک سامنے آیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اجر کیا ہے ؟ الثواب علی العمل کسی عمل کا نتیجہ۔ مزدوری نہیں ؟ اس لیے کہ نتیجہ وہ شے ہے جو عمل کے ساتھ لازم و ملزوم ہے اور مزدوری و چیز ہے جو معاوضہ کے طور پر طے کی جاتی ہے۔ ہاں ! یہ دوسری چیز ہے کہ عربی زبان میں مزدوری کو بھی اجرت کہا جاتا ہے لیکن یہ معنوں کی وسعت کی وجہ سے ہے۔ ہاں ! اس کو لفظ ہدیہ یا تحفہ سے ادا کیا جاسکتا ہے جو ایک طرف سے ہوتا ہے اور انہی ہدایا اور تحائف ہی کو اجر یا اجور کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ جو کچھ دیا گیا ہے یہ صرف اور صرف ایک طرف سے یعنی مرد کی طرف سے دیا گیا ہے دونوں طرف سے کچھ نہیں لیا دیا گیا۔ اس لیے اس کو مزدوری یا اجرت جو ہماری زبان میں بولے جانے والے الفاظ ہیں وہ اس جگہ مراد نہیں اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ حسن عمل کے نتیجہ کو قرآن کریم نے ” اجر “ کے لفظ سے موسوم کیا ہے۔ یہ فقیر کو کپڑا ، روٹی اور نقد جو کچھ آپ نے دیا اس کا جو نتیجہ آپ کو ملے گا اس پر لفظ ” اجر “ کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن اس کو مزوری کون کہے گا ؟ اس خراب راستے کو جو آپ نے درست کیا۔ اس اندھے کو اس کے مقام تک پہنچا دیا۔ بھولے ہوئے مسافر کو سیدھے راہ کی نشاندہی کردی اس کا اجر آپ کو ضرور ملے گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن اس کو مزدوری کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ کسی دوست ، عزیز ، رشتہ دار یا نیک و بد بزرگ کو جو آپ نے ہدیۃً و تحفۃً کوئی چیز پیش کی اس کو آخر مزدوری کیوں کر کہیں گے ؟
Top