Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 25
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَسْتَطِعْ : نہ طاقت رکھے مِنْكُمْ : تم میں سے طَوْلًا : مقدور اَنْ يَّنْكِحَ : کہ نکاح کرے الْمُحْصَنٰتِ : بیبیاں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن (جمع) فَمِنْ : تو۔ سے مَّا : جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں مِّنْ : سے فَتَيٰتِكُمُ : تمہاری کنیزیں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن۔ مسلمان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان کو بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض (ایک دوسرے سے فَانْكِحُوْھُنَّ : سو ان سے نکاح کرو تم بِاِذْنِ : اجازت سے اَھْلِهِنَّ : ان کے مالک وَاٰتُوْھُنَّ : اور ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ : ان کے مہر بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق مُحْصَنٰتٍ : قید (نکاح) میں آنے والیاں غَيْرَ : نہ کہ مُسٰفِحٰتٍ : مستی نکالنے والیاں وَّلَا : اور نہ مُتَّخِذٰتِ : آشنائی کرنے والیاں اَخْدَانٍ : چوری چھپے فَاِذَآ : پس جب اُحْصِنَّ : نکاح میں آجائیں فَاِنْ : پھر اگر اَتَيْنَ : وہ کریں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی فَعَلَيْهِنَّ : تو ان پر نِصْفُ : نصف مَا : جو عَلَي : پر الْمُحْصَنٰتِ : آزاد عورتیں مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب (سزا) ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : اس کے لیے جو خَشِيَ : ڈرا الْعَنَتَ : تکلیف (زنا) مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبرو کرو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور تم میں کوئی اس کا مقدور نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان بیبیوں سے نکاح کرے تو ان عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے جو تمہارے قبضے میں آئی ہوں اور وہ مومن ہوں اور اللہ تمہارے ایمانوں کا حال بہتر جاننے والا ہے اور تم سب ایک دوسرے کی ہم جنس ہو ، پس ایسی عورتوں کو ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اپنے نکاح میں لاؤ اور دستور کے مطابق ان کا مہر ان کے حوالے کر دو ، البتہ یاد رہے کہ وہ قید وبند میں رہنے والی ہوں ، بدکار عورتیں نہ ہوں اور نہ ایسی ہوں کہ چوری چھپے بدچلنی کرتی رہتی ہوں ، پھر اگر ایسا ہو کہ قید نکاح میں آنے کے بعد ، بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان کیلئے اس سزا سے آدھی سزا ہوگی جو کہ آزاد بیبیوں کیلئے ہے ، یہ حکم ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں اندیشہ ہو کہ نقصان اور برائی میں پڑجائیں گے اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے کہیں بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے
آزاد مومن عورت نہ مل سکتی ہو تو باندی سے مومنہ نکاح کرلو کہ وہ بھی تمہاری جنس ہی ہے : 58: مطلب یہ ہے کہ آزاد عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کی طاقت و وسعت مال نہ ہو کہ ان کے نان و نفقہ اور مہر وغیرہ کو تم آسانی سے نہ ادا کرسکتے ہو کیونکہ معاشرہ میں ہر طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کمزور بھی اور طاقتور بھی اور ظاہر ہے ایک کمزور اور مزدور قسم کا آدمی وسعت مال نہیں رکھتا اگر وہ کسی عورت سے نکاح رچا لے جس کے ایک دن کے اخراجات اس کی ایک ماہ کی مزدوری بھی پورے نہ کرسکتی ہو تو وہ ایسی بیوی سے سکون و محبت اور شفقت ورافت کی امید کیونکہ کرسکتا ہے تو پھر پہلے ہی وہ قدم سوچ سمجھ کر اٹھائے۔ ایک غریب آدمی اگر کسی متمول عورت سے نکاح کرے گا اور آنحا لی کہ وہ یہ بات نہ جانتی ہو کہ میرے ہونے والے شوہر کی کیا حالت ہے اور یہ سبز باغ دکھا کر اس کو یا اس کے گھر والوں کو آمادہ کر بھی لے گا اور طرح نکاح قرار پا جائے گا تو اس کا نبھانا اتنا آسان نہیں ہوگا اس لئے ایک تو نکاح سے پہلے فریقین کو اچھی طرح اس حالت پر غور و فکر کرلینا چاہیے اور دوسری یہ بات ہے کہ زندگی کے ایسے معاملات میں پردہ و اخفاء سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اس سے بہتر ہے کہ آدمی جوڑ ہی ایسی جگہ جوڑے جس میں اس طرح کی خلل اندازی کا خطرہ نہ ہو۔ اس لئے چونکہ نکاح کے مسائل جاری تھے ان میں اس طرح ہدایت فرما دی گئی کہ ایک آدمی اگر صاحب وسعت نہیں ہے کہ ایک آزاد عورت کی ذمہ داریاں با حسن و خوابی ادا کرسکے تو چاہیے کہ ان باندیوں میں سے جو اس کی اپنی ملکیت میں آچکی ہوں یا کسی دوسرے کی باندی سے اس کی اجازت کے ساتھ نکاح کرلے۔ ایسا کرے گا تو اس میں ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں بھلائیوں کی امید کی جاسکتی ہے اگر وہ باندی اپنی ہے تو بہتر ہے کہ آزاد کر کے اپنے نکاح میں لے آئے وہ اس کی شکر گزار رہے گی اور خدمت گزار بھی اور اگر کسی دوسرے کی باندی ہے تو اس کی اجازت سے جب وہ نکاح کرے گا اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا تو عین ممکن ہے کہ اس طرح مل بیٹھنے سے اس مملوکہ کے آزاد ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے ممکن ہے کہ نکاح میں دینے والا مزید احساس کرتے ہوئے اس کو آزاد کر دے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مکاتب کر دے اور اس طرح اس کی مکاتبت کو ادا کر کے وہ آزاد ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس جوڑ سے وہ دونوں مل کر مزدوری کرلیں اور اس مزدوری روی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ان کے حالات میں آسانی پیدا فرما دے۔ اس لئے فرمایا کہ اگر آزاد عورت میسر نہ آئے تو یہ کنیزو مملوکہ بھی تو آخر انسان ہے اور اس میں وہ ساری خواہشیں موجود ہیں جو ایک آزاد عورت میں ہیں پھر ایک پنتھ دو کاج والی بات سے کیوں گریز کیا جائے بلکہ اس کو ایک نیک کام سمجھتے ہوئے سر انجام دے اور نیت میں یہ بات رکھے کہ میں نے اس سے نیکیاں کمانی ہیں۔ یقینا اس کو اس میں سے سب کچھ میسر آجائے گا۔ یہ مشورہ گویا اس لئے دیا گیا کہ ایک کنیز کا مہر اور نان و نفقہ اتنا بڑا نہیں ہوگا جتنا کہ ایک آزاد عورت کا اور پھر یہ بھی کہ ان کے مالک ان کو غریب شوہروں کے نکاح میں دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ ” فَتَیٰتِکُمْ “ سے اس جگہ مراد نوجوان ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی کنیزیں مراد ہیں کو اہ وہ جوان ہوں یا سن رسیدہ ہوں۔ ہاں ! شرط یہ ہے کہ مملوکہ مومنہ ہو اس لئے کہ اگر وہ غیر مومنہ ہوئی تو اولاد کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہر حال میں رہے گا۔ اس طرح یہ بات بھی مسلمانوں کو سمجھا دی کہ اسیران جنگ میں سے جو عورتیں تمہارے قبضہ میں آجائیں انہیں اس لئے حقیر و ذلیل نہ سمجھو کہ وہ دوسری قوم کی عورتیں ہیں یا لڑائی میں قید ہو کر آئی ہیں۔ انسان ہونے کے لحاظ سے ہر آدمی دوسرے آدمی کا ہم جنس ہے اور اندانی برادری کا رشتہ سارے رشتوں سے زیادہ قابل لحاظ ہے ان میں سے جو عورتیں مسلمان ہوگئی ہوں تم ان سے نکاح کرسکتے ہو۔ اس سے جو مسائل ہمارے علماء مفسرین نے اخذ کئے ہیں وہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ہو سکتے کہ کوئی اور چارہ کار نہ ہونے کی صورت میں یہ حکم ہے ورنہ حتیٰ الامکان مملوکہ سے نکاح کرنا اچھا نہیں اور اس طرح کی اور بہت سی باتیں کہ باندیوں کی اولاد غلام ہی ہوتی ہے اس لئے یہ بھی اچھا نہیں ہے۔ یہ سب رسم و رواج کی باتیں ہیں اسلام ان ساری چیزوں سے بری الذمہ ہے بلکہ اسلام نے اس باندی و غلام والی رسم کو آہستہ آہستہ نیست و نابود کردیا ہے اور آج اس طرح کی باتیں کرنا ویسے بھی زیب نہیں دیتا۔ نزول قرآن کریم سے پہلے غلامی کی رسم پوری دنیا میں موجود تھی۔ ہر طاقتور قوم کمزور 4 قوم کے افراد کو غلام بنا لیتی اور ان کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کرتی۔ قرآن کریم نے اس بارے میں اصلاحات کیں انہیں دو قسموں مین بیان کیا جاسکتا ہے۔ لولا یئہ کہ غلامی صرف اسیران جنگ میں محدود کردی وہ بھی اس طرح کہ کم سے کم اس کا امکان باقی رہ گیا۔ سورة محمد کی آیت نمبر 4 کے ذریعہ اعلان کردیا کہ اگر مصالحہ جنگ کے خلاف نہ ہو تو چاہیے کہ اسیران جنگ کو فدیہ لے کر یا احسان رکھ کر چھوڑ دیا جائے۔ ثانیاً غلاموں کے حقوق کی رعایت پر اس قدر زور دیا اور ان کے لئے ایسے احکام و قوانین نافز کئے کہ غلامی غلامی نہیں رہی بلکہ سوسائٹی کا ایک مساویانہ عنصر بن گیا اور جو کمزور پہلو تھا وہ بھی معمولی کمزور رہ گیا جو آہستہ آہستہ طاقتور ہوگیا۔ چناچہ اس جگہ بھی گویا یہ ترغیب دی گئی ہے کہ کنیزوں اور باندیوں سے نکاح کرنے میں کوئی عیب کی بات نہیں۔ انسان ہونے کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں اور فضیلت کا معیار ایمان و عمل صالح ہے بلکہ یہ عورتیں دنیا کے تھپڑ کھانے کے بعد کافی حد تک سلجھ چکی ہوں گی اگر ان کو سہارا دو تے تو وہ تمہارے کی ممنون احسان بھی ہوں گی اور بیوی کے کام بھی باحسن خوابی انجام دیں گی۔ کنیزوں سے شادی کی جو اجازت دی جا رہی ہے اس میں ان باتوں کا لحاظ ضروری ہے : 59: فرمایا تم کو باندیوں سے نکاح کی جو اجازت دی جا رہی ہے وہ معاشرہ کو سنوارنے کے لئے گئی ہے بگاڑنے کے لئے نہیں اس لئے یہ بات یاد رکھو کہ سب سے پہلے تو کسی باندی سے نکاح کرنا چاہو تو اس صورت میں کہ جب وہ تمہاری اپنی مملوکہ نہیں ہے تو جس کی وہ کنیزو مملوکہ ہے اس سے رابطہ قائم کرو اور اس کی اجازت کے بعد نکاح کرو ان کی اجازت کے بغیر نکاح نکاح نہیں ہوگا اور دوسری بات یہ ہے کہ باندی و کنیز سمجھ کر اس کو مہر سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ اگر وہ بغیر مہر نکاح کرنے پر اراضی بھی ہوجائے تو بغیر نکاح منعقد نہیں ہوگا بلکہ مہر لازماً ادا کرنا پڑے گا ہاں اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا رہی تاکہ تم اپنی وسعت کے مطابق ادا کرسکو اور جو کچھ دو اللہ کا حکم اور دل کی رضا مندی سے ادا رکرو۔ ہوس نفس کی خاطر نہیں۔ تیسری بات یہ یاد رکھو کہ وہ قید و بند میں رہنے کے لئے تیار ہوں یعنی ان کی عادات واطوار سے ان کے اخلاق کر ادر سے کوئی ایسی جھلک ظاہر نہ ہوتی ہو کہ وہ ہر مقام پر آنکھ لڑانے والی ہوں اور اخلاق کر ادر کی گھٹیا نہ ہوں کہ معاشرے کو سنوارنے کی بجائے اس کے بگاڑ کا سبب بن جائیَ وہ پاکد امن ہوں ، گندی اور ناپاک عادات کی مالک نہ ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بغایا بھی نہ ہوں کہ ٹیگسی کی طرح چلنا ان کی عادت میں داخل ہوچکا ہو۔ اگر کوئی ایسی بات ان میں دیکھو تو بالکل قریب نہ جاؤ اس لئے کہ براہم نشین برا ہی رہتا ہے۔ ہاں ، طبعاً نیک ہوں اور عادتاً درست ہوں تو صرف باندی اور کنیز ہونا کوئی عیب کی بات نہیں اس لئے کہ یہ کسی عادت یا طبعی کمزوری کا نام نہیں بلکہ حالات زمانہ اور قومی کمزوری کی نشانی ہے جو ہر انسان کی انفرادی حالت سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اجتماعی کمزوری کا نتیجہ ہے اور یہ ہر انسان کی اختیاری بات نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ بد چلن عورت کو نکاح کے لئے کبھی بھی پسند نہ کرو اور اس طرح بد چلن مرد کو بھی وہ آزاد ہو غلام و باندی۔ کیونکہ یہ حالت کفر سے بھی بد تر ہے۔ اس کی اگر کوئی رگ ملتی ہے تو مشرک ایک اللہ کا ہو کر نہیں کرسکتا اور زانی ایک ہی نکاح پر انحصار و اکتفا نہیں کرسکتا وہ مرد ہو یا عورت ہو۔ اس لئے مشترکہ اور زانیہ عورت کے قریب ہی نہ جاؤ جب تک کہ وہ اس سے تائب نہ ہوجائیں۔ کنیز اگر برائی کی مرتکب ہوگی تو اس کے لئے آزاد عورت کے مقابلہ میں آدھی سزا دی جائے گی : 60: تم نے نکاح کرلیا اپنی طرف سے ہر طرح کی دیکھ بھال کی۔ پوری تسلی کرنے کے بعد نکاح کیا لیکن اس وقت حالات واضح نہ ہو کسے نکاح تم نے کر لیان کنیز ساری احتیاطوں کے باوجود پھر بھی بد اخلاق نکل یا تم نے شادی تو نہیں کی کسی عام کنیز کو برائی میں مبتلا پایا اور اسلامی نظر کے مطابق اس کو برائی میں کوئی شک و شک کی بات نہ رہی تو اب کیا جائے گا ؟ فرمایا ایسی صورت میں اس باندی و کنیز کے لئے آزاد و محصنہ کے مقابلہ میں آدھا عذاب دیا جائے گا۔ یعنی اس کو پچاس کوڑے مارے جائیں گی۔ اس آیت سے رجم کو اسلامی سزا نہ ماننے والوں نے استدلال کیا ہے کہ الفاظ واضح طور پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کنیز و باندی جس سے برائی کی صدور ہوا وہ شادی شدہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ آزاد نہیں اور اگر آزاد کی سزا رجم ہوتی تو اس کے لئے کسی دوسری سزا کا حکم نافذ ہوتا اس لئے کہ رجم میں آدھا عذاب ہے اور یہ آدھا عذاب غیر شادی شدہ آزاد کے مقابلہ میں تو آدھا ہو کر پچاس کوڑے ہوگئے لیکن شادی شدہ ہونے کی صورت میں اگر آزاد کے لیے رجم ہوتا تو اس کنیز کے لئے کوئی دوسری سزاد تجویز کی ججارتی ججب ایسا نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ آزاد کے لئے بھی ایک سو درے ہی تسلیم کرنا ہوں گے تاکہ اس کی آدھی سزا پچاس کوڑے قرار پا سکے۔ کنیز سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے ضروری نہیں ٹھہرایا گیا : 61: کسی کام کی اججازت ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کو کرنا لازم و ضروری ہے۔ یہ اجازت جو دی گئی ہے یہ محض تمہاری کمزوری کی بناء پر ہے کہ جب ایک آزاد عورت سے نکاح ممکن نہیں ہو رہا اور نفسانی کمزوری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے تو اس خطرہ کا ازالہ بہر حال نکاح ہی ہے اور وہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ آزاد عورت نہیں تو کنیز سے نکاح کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہے اور تمہاری جنس سے ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ باندی و غلام کی رسم قبل اسلام موجو تھی اسلام نے اس کو آہستہ آہستہ کئی ایک طریقوں سے ختم ضرور کیا ہے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور بیک وقت اس کو ختم کرنے کا اعلان جو نہیں کیا تو یہ مصلحت سے خالی نہ تھا بلکہ ایک دفعہ ان کی آزادی کا اعلان کردیا جاتا تو اس سے کئی طرح کی نئی خرابیاں جنم لیتیں اور جب ایک برائی کو ختم کرنے سے کئی برائیاں مزید پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اس برائی کو اس طرح ختم کرنا دانشمندی کی بات ہے کہ اس سے مزید برائیاں جنم نہ لیں۔ پاکستانیوں کی طرھ اندھا دھند قانون بنا کر نافذ کردینے کے بعد جو نتائج نکلتے ہیں ان سے آج کچھ بھی عقل و فکر رکھنے والا انسان ناواقف نہیں ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے کسی ایسے حکم کے نفاذ کی فوراً اور اچانک کوشش ہی نہیں فرمائی جس سے مزید برائیوں کے پیدا ہونے کا خطرہ موجود تھا۔ ایسے احکام کا نزول بھی تدریحاً ہوتا رہا۔ انہیں مسائل و احکام میں رسم ملک یمین بھی تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے یہ ثابت کر دکھایا کہ یہ رسم غیر اسلامی ہے اور اس کا قلع و قمع ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے نبوت ملنے سے بھی بہت پہلے زید کو آزاد کیا جو سیدہ خدیجہ کبریٰ ام المومنین کی طرف سے آپ ﷺ کو ہبہ کئے گئے تھے۔ آزاد کرنے کے بعد اس سے وہ محبت اور پیار کیا کہ ایک وقت آیا کہ جب اس کے والدین کو اطلاع ملی تو وہ زید کو حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ثبوت فراہم کردیا کہ یہ ہمارا بیٹا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تو زید کو ویسے ہی آزاد کردیا ہوا ہے اور اب میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہیے تو چلا جائے۔ والدین نے زید کو لے جانے کی سعی و کوشش کی زید کو بہت سمجھایا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت کو والدین کے مقابلہ میں ترجیح دی اور والدین کے ساتھ جانے سے صاف انکار کردیا۔ ام ایمن رسول اللہ ﷺ کی پرورش کرنے والی آپ ﷺ کے خاندان کی طرف سے بطور ورثہ میں ملی ہوئی کنیز تھی۔ آپ ﷺ نے اس کو آزاد کر کے اس کو وہ احترام دیا جیسے ایک بیٹا اپنی والدہ کو احترام دیتا ہے اور یہ دونوں واقعات نبوت سے پہلے آپ ﷺ نے سر انجام دیئے تھے نبوت عطا ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ایک باندی فتح خیبر کے موقع پر پیش کی گئی آپ ﷺ نے اسے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی آزاد کردیا اور پھر صرف آزاد ہی نہیں کیا بلکہ اپنے حرم میں بھی داخل کرلیا اور اس طرح ان کو ام المومنین ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔ یہی وہ ام المومنین ہیں جن کا اسم گرامی صفیہ ؓ تھا۔ احادیث و تاریخ کی روایات گواہ ہیں کہ ام المومنین سیدہ صفیہ کو وہی مقام حاصل تھا۔ جو قریشی بیبیوں کو حاصل تھا۔ اور بالکل یہی صورت ماریہ قبطیہ کی بھی تھی جس کو شاہ مصر نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ماریہ کے یہاں پہنچتے ہی اس کو آزاد کردیا اور پھر نکاح کر کے حرم میں داخل کر کے ام المومنین کے خطاب عظیم سے نواز اور یہی رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی وہ دیر تک زندہ رہیں اور ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ ان کی وفات تک ان کو دوسری ام المومنین کے ساتھ اور ان کے برابر نفقہ دیتے رہے۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ججس شخص کے پاس کنیز ہو پھر وہ اس کو تعلیم دے اور اچھی تعلیم دے اور اس کو آداب سکھائے اور اچھے آداب سکھائے اور پھر اسے آزاد کر کے نکاح کرلے تو اس کے لئے دو چند اجر وثواب ہے۔ پس باندی کے ساتھ نکاح کی صرف اجازت کا مطلب یہ ہے کہ باندی ہی رکھ کر نکاح کرنے کی بجائے کوئی اسی صورت اختیار کرنا کہ باندی باندی نہ رہے بلکہ آزاد ہوجائے اور پھر آزاد کرا کر اس سے نکاح کرنا کمالات انسانی اور آداب اسلامی میں داخل ہے۔ جن رشتوں سے نکاح حرام ہے یہ پچھلی امتوں میں بھی حرام تھے بد اعتدالی رسم و رواج نے پید کئے : 62: پچھلے رکوع میں جن قریب کے رشتوں میں نکاح کی حرمت کا اعلان فرمایا گیا یہ حرمت کوئی ایسی حرمت نہیں جس کو کبھی اللہ نے اس سے پہلے حلال بھی بتایا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے احکام جو تدریجاً نازل ہوتے رہے ہیں اس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی چیز کے حلال ہونے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہو اور پھر زمانہ یا مدت گزرنے کے بعد اس حکم کو حرام کردیا ہو۔ حاشا کلا کہ کبھی ایسا ہوا ہو۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ ہاں ! ایک کام ہوتا رہا اور اللہ جانتا تھا کہ ایسا ہو رہا ہے لیکن اس کی ممانعت نہیں فرمائی تو اس میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ اس وقت کے حالات میں اس حکم کا آنا مناسب نہیں تھا اور یہ علم الٰہی میں موجود تھا۔ لہٰذا اس کے حلال ہونے یا حرام ہونے کا حکم نافذ نہیں فرمایا اور پھر جب مناسب جانا اس کی حلت و حرمت کا حکم نازل فرما دیا۔ کتب سابقہ میں اگر کوئی ایسی بات بیان کی گئی ہے تو وہ ان لوگوں نے جن کی کتاب دی گئی تھی ان انبیاء کرام کے بعد جب وہ دنیا سے رخصت ہوگئے تو پچھلے لوگوں نے اپنی طرف سے اضافہ کر کے بطور تفسیر ان کتابوں میں ایسے احکام داخل کردیئے اور مرور زمانہ سے جب ان کتابوں کی اصل زبان بھی عنقا ہوگئی تو متر جمین نے ترجمہ کرتے وقت ان تفسیری بیان کا بھی ساتھ ترجمہ کردیا اور پھر کسی کو یہ بات معلوم ہی نہ رہی کہ اصل کتاب کا حکم کونسا ہے اور بعد میں لوگوں نے تفسیر کرتے وقت ان میں داخل کیا تھا۔ ایک مثال بھی اس طرح کی بیان نہیں کی جاسکتی کہ ایک چیز کو اللہ نے خود ہی حلال تھہرایا ہو اور پھر کسی زمانہ میں حرام کردیا ہو۔ ہاں یہود و نصاریٰ نے اپنی طرف سے حلت و حرمت میں بہت دخل اندازی کی اور بہت سی چیزوں کا حلال و حرام ٹھہراتے رہے اور اس طرح گویا ان کو ان کے اپنے ہی کئے کی سزا ملتی رہی کہ ایک چیز حلال تھی لیکن انہوں نے حرام کر کے اس سے فائدہ حاصل کرنا ترک کردیا اور ایسی چیزیں بھی ہیں کہ وہ ابدی طور پر حرام تھیں لیکن انہوں نے ان کو قومی طور پر حلال تصور کر کے ان سے فائدہ پانا شروع کردیا اور اس کی مثالیں کثرت سے قرآن کریم اور دوسری کتب احادیث میں مل جاتی ہیں۔ زیز نظر آیت میں اس بات کو بیان فرمایا ججا رہا ہے کہ یہ رشتے جو تم پر حرام ٹھہرائے گئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ” اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان لوگوں کی راہ کھول دے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور انہیں کے طریقہ پر تم کو بھی چلائے اور تم پر لوٹ آئے اور اللہ جاننے والا ، حکمت رکھنے والا ہے۔ “ اس آیت نے کیا سبق دیا ؟ سبق یہ دیا کہ اگر تم سنو کہ کسی زمانہ میں اللہ نے بہن بھائی کی شادیاں رچانے کا حکم دیا تھا جیسے آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں اور بیٹیوں کے بارے میں مشہور ہے تو سمجھ لو کہ یہ بالکل جھوٹ ہے اللہ نے ایسا حکم کبھی نہیں دیا۔ اگر تم کو یہ سنایا جائے کہ دیکھو یعقوب (علیہ السلام) کے نکاح میں دو سگی ہمشیرہ تھیں پھر حوالے بھی نکال کر دکھائے جائیں تو تم یاد رکھو کہ یہ بات بالکل غلط ہے اللہ نے کبھی ایسا حکم نہیں دیا اور نہ ہی یعقوب (علیہ السلام) کے گھر میں دو حققی بہنیں کبھی بیک وقت نکاح میں رہی ہیں۔ اگر تم یہ سنو کہ لوط (علیہ السلام) نے خود اپنی لڑکیوں سے نکاح کا فعل کیا یا یہ کہ کفار اور مشرکین کو آپ نے اپنی حقیقی بیٹیاں پیش کی تھیں تو صاف صاف انکار کر دو یہ باتیں بالکل غلط ہیں اور لوط (علیہ السلام) کے ذمہ افتراء کھلا افترا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی دو متضاد حکم نازل نہیں فرمائے۔ اور کبھی کوئی ایسا حکم نازل نہیں فرمایا کہ کسی زمانہ میں اللہ نے خود ہی اس کو حرام ٹھہرایا ہو اور پھر خود ہی اس کو کسی دوسرے زمانہ میں حلال ٹھہریا ہے تو بےدھڑک کہہ دو کہ بالکل غلط ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایس اندھیر کھاتہ مطلق نہیں۔ ہاں ! ایک چیز کے متعلق حکم نازل ہی نہ فرمایا ہو تو یہ دوسری بات ہے۔ اگر تم نے یہ اصول یاد رکھنا تو تمہاری بہت سی الجھنیں خود بخود ختم ہوجائیں گی اور تم سمجھ جاؤ گے کہ وہ کیا کیا جھوٹ ہیں جو آج تک تم سنتے آئے اور وہ اللہ کے لگا لگا کر بیان کئے گئے کہ پہلے اللہ نے حکم اس طرح دیا تھا لیکن بعد میں اس کو ایسا کردیا۔ کیوں ؟ اللہ کو پہلے علم نہیں تھا اور بعد میں علم آیا ہے۔ فوراً کہیں گے نہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ فَعَالُ لِمَا یُریْد ہے جو چاہے کرتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ فَعَالُ لِّمایُرِیْد ہے لیکن وہ بَذِاتِ الصُّدُوْر بھی ہے اور عَلَّامُ الْغُیُوْب بھی۔ اس نے خود ہیں یہ اعلان بھی فرمایا کہ وہ لَا تُخْلِفُ الْ مِیْعاد بھی ہے کہ جو وعدہ وہ کرلے اس کا خلاف نہیں کرتا اور نہ ہی ہونے دیتا ہے۔ اس لئے آپ ہرگز ایک بھی ایسا حکم نہیں دکھا سکتے کہ پہلے اللہ نے فرمایا ہو کہ ” ایسا کرو “ اور پھر کبھی کہہ دیا ہو کہ ” ایسا مت کرو “ کیوں ؟ اس لئے کہ میں فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْدُ ہوں تم کون ہوتے ہو مجھے پوچھنے والے۔ ایسی بات کوئی ملاح جی اور مولانا صاحب تو فرما سکتے ہیں کوئی سیاسی لیڈر کوئی حکمران یا کوئی مذہبی راہنما کہلانے والا تو کہہ سکتا ہے لیکن اللہ وحد و لاشریک اللہ کی ذاکت ایسی بات کبھی نہیں فرماتا۔ اس لئے کہ اس کے کلام میں مطلق تضاد نہیں ہے۔ جس چیز کو اس نے پہلے روز سے حرام کہا اس چیز کو اس نے وحی کے آخری روز بھی حرام ہی کہا اور جس چیز کو اس نے پہلے روز سے حلال ٹھہرایا وہ وحی کے آخری روز تک حلال ہی ٹھہری اور رہتی دنیا تک وہ حلال ہی ٹھہرے گی۔ اللہ کا حکم اور اللہ کا قانون موم کی ناک نہیں کہ جدھر چاہا موڑ لیا۔ وہ حاشا اللہ کہ کبھی ایسا کمزور ہو جیسا لوگوں نے اس کو سمجھ لیا۔ وللل ثم تاللہ ، للہ سے کوئی زور آور ہو وہ تو سارے زور آوروں سے زیادہ زور آور ہے اور اس طرح قانون کو ہمیشہ وہی بدلتا ہے اور وہی ترمیم کرتا ہے جو کمزور ہو اور ذرا حالات بگڑتے دیکھے تو وہ قانون میں ترمیم کر دے۔
Top