Urwatul-Wusqaa - At-Talaaq : 9
فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ كَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا
فَذَاقَتْ : تو اس نے چکھا وَبَالَ : وبال اَمْرِهَا : اپنے کام کا وَكَانَ عَاقِبَةُ : اور ہے انجام اَمْرِهَا : اس کے کام کا خُسْرًا : ناکامی
مختصر یہ کہ انہوں نے اپنی بداعمالیوں کا مزہ چکھا اور انجام کار ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ رہا
گجرات شہر کے ایک وفادار خاوند اور شریف النفس اور پارسا بیوی کی کہانی اس سلسلہ میں آپ کو ایک سچی کہانی سناتا ہوں ۔ آپ اس سے اندازہ لگا گیں کہ ہمارے مذہب پروہتوں کا کیا حال ہے ؟ ایک صاحب انگلینڈ (Engladn) میں ملازم تھے جو گجرات شہر کے رہنے والے تھے۔ ایک عورت سے ان کی شادی ان کے والدین نے کی ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دونوں میاں بیوی میں بہت محبت تھی اور بہت خوشی سے رہ رہے تھے۔ اتفاق یہ کہ ان کے ہاں کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی ۔ عرصہ دس سال کے بعد ان صاحب کے والد کا لڑکی کے والدین سے کسی معاملہ میں جھگڑا ہوگیا اور بات تو تو میں میں پر ہی ختم ہوگئی ۔ اس وقت وہ صاحب اپنی بیوی کے ہمراہ ملک سے باہر ہی تھے۔ تقریباً ڈیڑھ دو سال کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو لڑکے کے والدین نے لڑکی کے والدین کی شکایت کی اور مطالبہ کیا کہ تم اپنی بیوی یعنی ان کی بیٹی کو طلاق دے دو ۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں ٹالتا رہا اور تحقیق کرتا رہا کہ جھگڑا کیوں ہوا اور زیادتی کس فریق کی تھی ؟ مجھے تصدی ہوگئی کہ زیادتی میرے والد کی تھی ۔ تا ہم تو تو میں میں دونوں طرف سے ہوئی ۔ انگلینڈ والے صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدین کی عزت افزائی کے لیے لڑکی کے والدین کو مجبور کیا کہ آپ میرے والدین سے معافی مانگیں ورنہ اس کا نتجہت اچھا نہیں رہے گا ۔ وہ میرے ساتھ میرے گھر میرے والدین کے پاس آئے اور ان کے پاؤں پڑگئے اور نہایت عاجزی اور زاری سے معافی مانگی اور خصوصاً میرے والد کو باور کرایا کہ ہماری بیٹی کا چیک اپ (Check up) کرا لو اگر اس میں کوئی ایسا نقص ظاہر ہو کہ جس کے باعث اولاد نہ ہو رہی ہو تو آپ جو چاہو کرو ۔ چاہے اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرلو چاہے ہماری بیٹی کو طلاق ہی دلوا دو ۔ بہر حال بہت مشکل سے میرے والدین مان گئے لیکن جب ہم واپس انگلینڈ جانے کے لیے تیار ہوئے تو میرے والد نے مجھے مجبور کیا کہ تم ایک طلاق نامہ لکھوا کر مجھے دے دو اگر تیرے سسرال والوں نے اپنا وعدہ قائم رکھا کہ ہم آئندہ آپ سے تو تو میں میں نہیں کریں گے تو طلاق نامہ میرے پاس ہی رہے گا لیکن اگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تو میں بہر حال یہ طلاق نامہ ان کو بھجوائوں گا ۔ میں نے والد کی بہت منت سماجت کی لیکن میرا والد مصر رہا اور میں نے یہ بیوقوفی کی کہ ایک طلاق نامہ عرضہ نویس سے لکھوا کر والد کے دے دیا اور جو کچھ کیا محض والد کی خوشنودی کے لیے کیا اور مجھے یقین تھا کہ میرے سسرال میرے والد کے ساتھ نہ اس طرح کی کوئی بات کریں گے نہ طلاق بھجوائی جائے گی ۔ بہر حال یہ تحریر والد کو دے کر ہم دونوں میاں بیوی انگلینڈواپس چلے گئے۔ میری بیوی میرے ساتھ دو سال رہی اور پھر ایک شادی کے سلسلہ میں وہ پاکستان آئی اور میں اس کو انگلینڈ سے کپڑے ، تحفے ، رقم اور دوسری چیزیں بھیجتا رہا اور وہ کبھی میرے والدین کے پاس ، کبھی اپنے والدین کے پاس بالکل راضی خوشی رہتی رہی ۔ اگرچہ میرے گھر والوں کے رویئے کا اس نے ایک دو خط میں ذکر بھی کیا لیکن میں بھی اس کو برداشت کرنے کی تلقین کرتا رہا ۔ اس میں تقریباً ایک سال سے زیادہ گزر گیا ۔ اتفاق دیکھیں کہ میرا والد اچانک بیمار ہوا اور دو تین روز بیمار رہ کر وفات پا گیا ۔ مجھے انگلینڈ فون پر اطلاع ملی تو میں فوراً پاکستان پہنچا اور والد کے جنازے میں شریک ہوا ۔ تقریباً ایک ماہ والد کی وفات کے بعد میں اپنے گھر میں رہا اور ہنسی خوشی وقت گزرتا گیا ۔ والد کی وفات کے صدمہ کے سوا کوئی دوسرا غم مجھے نہیں تھا۔ بہر حال ہم میاں بیوی ایک ماہ کے بعد واپس انگلینڈ چلے گئے ۔ ہمارے جانے کے کچھ عرصہ بعد میری بہنوں نے میرے والد کا کوئی بیگ یا نہ معلوم کونسا سامان کھولا تو اس سے وہ کاغذ یعنی طلاق نامہ ان کی نظروں سے گزرا ، وہ پڑھ سکتی تھیں ، انہوں نے پڑھا اور پھر کئی دوسرے لوگوں کو بھی پڑھوایا اور یہاں تک کہ میری بیوی کے میکہ والوں کو بھی اطلاع کردی اور ہمارے پیر صاحب جو بخاری سید ہیں ان کو بھی پڑھوا دیا کیونکہ ان سے ہمارے پورے گھر کو گہری عقیدت تھی ، انہوں نے میری بہنوں کو کہا کہ ووہ خط لکھیں کہ تمہاری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے اس کو بیوی مت بنائو اور جتنا جلدی ہو سکتا ہے اس کو واپس پاکستان بھجوا دو ۔ یہ خط جب ہم کو ملا تو ہمارے طوطے اڑ گئے ۔ میری بیوی رو رو کر ہلاک ہونے کو ہوگئی ۔ میں بہت حیران ہوا اور جو حقیقت تھی وہ من و عن اس کو بتائی ۔ میں نے انگلینڈ سے اپنے پیر جی کو صورت حال سے آگاہ کیا اور ساتھ ایک دوست کو بھی پاکستان خط لکھا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا ۔ آٹھ دن کے اندر میرے دوست کا خط آیا کہ کوئی طلاق نہیں ہوئی آپ گھبرائیں نہیں اور پھر دو دن بعد ہمارے پیر جی کا خط آیا تو اس میں تحریر تھا کہ بیٹا تیری بیوی تجھ پر حرام ہے اس کو جلد واپس پاکستان بھیج دو ۔ میں نے وہ طلاق نامہ خود پڑھا ہے ۔ اس میں آپ کے آباد رکھنے کی کوئی صورت نہیں پھر میری حیرانی بہت بڑھی اور میں نے بھی کھانا پینا اگر ترک نہیں کیا تو بہر حال بہت کم کردیا اور میری بیوی کی حالت بہت ڈائون (Down) ہوگئی لیکن خوف کے باعث ہم پاکستان نہ گئے۔ میں نے پیر جی کو ٹکٹ کے لیے چالیس ہزار (40 , 000) روپے پاکستان بھیجے کہ وہ میرے پاس انگلینڈ تشریف لائیں اور بڑی تگ و دو کے بعد ایک مہینہ لندن آنے کا اجازت نامہ بھی بھجوایا ۔ پیر جی خود تشریف نہ لائے لیکن بیٹے کو جو آج کل اپنے والد کی جگہ خطیب ہیں بھیجا ، ان کی خاطر مدارت کی لیکن لا حاصل ۔ میں نے مجبوراً اپنی بیوی کو پاکستان اس کے میکے والوں کے پاس بھیج دیا ۔ دو روز کے بعد پیر جی روانہ ہوگئے ۔ چار چھ روز کے بعد میں خود پاکستان آگیا ۔ میں نے آتے ہی بڑے شاہ جی کو سب حقائق رو رو کر بتائے تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری بہنوں کا خیال ہے کہ ہماری بھا بھی اب ہمارے ہاں نہ رہے اس لیے اب اس کا خیال چھوڑ دو تمہاری شادی کی بات ایک جگہ کی ہے بس تم وہاں شادی کرلو ۔ یہ بات سن کر میرے دل میں آیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ میں اپنے دوست کے پاس گیا جو ایک فیکٹری کا مالک ہے اس نے مجھے پاس ٹھہرایا ۔ ایک دو دن کے بعد اس نے ایک مولانا کو دعوت دی وہ آئے ۔ میں نے ان کو ساری رام کہانی سنائی ۔ انہوں نے جو سوال مجھ پر کیے میں نے ایمانداری سے ان کو جواب دے دیئے۔ مولانا نے وہ طلاق نامہ لانے کا مجھے کہا ۔ میں نے دوسرے روز وہ طلاق نامہ اور ساتھ اپنا حلفیہ تحریر کر کے مولانا کو بھجوا دیا ۔ انہوں نے میرے اطمینان کے لیے مجھے فتویٰ لکھ دیا جس میں تحریر تھا کہ تمہاری بیوی تم پر بالکل حلال ہے اس کو اپنے گھر آباد کرو اور اس کے ساتھ ہی یہ شرط بھی لگائی کہ اپنے نکاح نامہ کی نقل یونین کونسل سے لے کر فوراً آئو ۔ میں وہ نقل کمیٹی لے گیا اور خود حاضر ہوا ۔ فتویٰ ان سے وصول کیا اور بیوی کے میکے والوں کے پاس چلا گیا لیکن میری بیوی کی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔ میرے سسرا نے مجھے کچھ نہ کہا لیکن میری بیوی کو میرے ساتھ بھنے ا۔ سے بھی انکار کردیا اور یہ بھی کہا کہ ہم شاہ جی کے پاس گئے ہیں لیکن وہ نہیں مانتے۔ مختصر یہ کہ میرے سسرال والوں نے میرے دوستوں کے ساتھ یہ وعدہ کرلیا کہ اگر تم کسی حنفی عالم کا فتویٰ لے آئو تو ہم اپنی بیٹی کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج دیں گے بشرطیکہ وہ انگلینڈ چلا جائے۔ یہاں اسکے آبائی مکان میں جہاں اس کے دوسرے گھر والے بھی رہتے ہیں ہم اپنی بیٹی کو نہیں بھیج سکتے۔ پھر ہماری دوڑ لگ گئی کسی خنفی عالم کی تلاش میں ۔ اس دورانیہ میں میں نے غصہ میں آ کر اس طلاق نامہ کو بھی جلا دیا لیکن اس کی فوٹو سٹیٹ اور اہل حدیث عالم کا فتویٰ اور میرا حلفیہ بیان اور میرے نکاح نامہ کی تصدیق یہ سب کچھ میرے پاس تھا۔ پھر ہم نے کہاں کہاں خاک چھانی اور کیا کچھ خرچ کیا کچھ نہ پوچھو ۔ شاہ جی کے پاس دوبارہ میں تو نہیں گیا لیکن میرے دوست جاتے رہے۔ وہ مختلف باتیں کہتے رہے کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور شاہ جی کی تان اس جگہ ٹوٹتی کہ میری بہنوں کا تقاضا ہے اس لیے اس کو ان کی بات مان لینی چاہئے۔ ہم نے سسرال والوں کو حنفی عالم کا فتویٰ دکھایا اور اس کی فوٹو کاپی دی ۔ اپنی بیوی کو تسلی دی ، بہت سمجھایا لیکن اس کی طبیعت نہ سنبھل سکی ۔ وہ بدستور بیمار رہی ۔ تین ماہ گزرنے کے بعد میں اپنی بیمار بوی کو ساتھ لے کر انگلینڈ چلا گیا ۔ بہت علاج کیا لیکن میری بیوی کی صحت بھی خراب رہی تا ہم میری بیوی کی طبیعت سنبھلنے میں نہ آئی یہاں تک کہ اس کے تقاضا کرنے پر میں نے اسے دس ماہ کے بعد پاکستان بھیج دیا اور وہ پاکستان آ کر چند دن زندہ رہ کر اللہ کو پیاری ہوگئی ۔ مجھے اطلاع ملی تو میں نے اپنے سسرال کو کہا میں پاکستان نہیں آئوں گا تم لوگ میری بیوی کو قبر کے سپرد کر دو اور اس کی چیزیں جو تمہارے پاس ہیں سب خیرات کر دو ، انہوں نے میری ہدایات کے مطابق عمل کیا اور اب میں زندگی و موت کی کشمکش میں ہوں کہ جلد فرشتہ اجل مجھے پکارے اور لبیک کہہ دوں کیونکہ اس کے سوا اب دنیا میں میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ اس مضمون پر مشتمل خط عبد الرحمن کے دوستوں کے پاس اس کی یاد رہ گئے کیونکہ بیوی کی وفات کے 17 ماہ بعد عبد الرحمن پاکستان آیا ، دوستوں کے ساتھ کار میں بیٹھ کر قبرستان بیوی کی قبر پر گیا اور ایک دن گزارنے کے بعد اپنی بہنوں کو سلام کرنے کے لیے اپنے گھر گیا اور پھر اس گھر سے نکلنا اس کو نصیب نہ ہو ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب پیر جی کہو یا بڑے شاہ جی ان کا کردار اپنے ذہن میں رکھو ۔ ان کے فتویٰ کے الفاظ یاد رکھو اور ان کی دعائے عریض کا حال شہر کے در و دیوار سے سن لو اور قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ پھر پڑھ لو ۔ فرمایا جا رہا ہے کہ ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو ہم نے نرالی آفت ( مصیبت) میں مبتلا کردیا “۔
Top