Urwatul-Wusqaa - At-Talaaq : 8
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًا١ۙ وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا   ۧ
وَكَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیوں میں سے عَتَتْ : انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے حکم سے وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں سے فَحَاسَبْنٰهَا : تو حساب لیا ہم نے اس سے حِسَابًا : حساب شَدِيْدًا : سخت وَّعَذَّبْنٰهَا : اور عذاب دیا ہم نے اس کو عَذَابًا نُّكْرًا : عذاب سخت
اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو ہم نے نرالی آفت (مصیبت) میں مبتلا کیا
کتنی بستیاں ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے احکام کی نافرمانی کی اور اپنے انجام کو پہنچ گئیں 8 ؎ کسی معاشرہ کے اچھے یا برے ہونے کا تعلق اس معاشرے کے قوانین کے ساتھ ہوتا ہے اگر قوانین اچھے ہیں اور ان کی پابندی کرانے والے پابندی کرانے میں مخلص ہوں اور اس طرح پابندی کرنے والے پابندی کرنے میں بھی اخلاص اور دیانت داری سے کام لیں تو وہ معاشرہ خود بخود درست ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کے بنائے اور بتائے ہوئے قوانین کا ہے جو فی نفسہٖ بہت اچھے قوانین ہیں کیونکہ وہ اسی ذات کی طرف سے نازل کیے گئے ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ظاہر ہے کہ جتنا اللہ تعالیٰ ہر ایک انسان اور قوم کی ضروریات کو جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا ۔ اس لیے جو قوانین اس نے اتارے ہیں وہ عین نیچر (Nature) انسانی کے مطابق ہیں اب ان قوانین کے مطابق عملدرآمد کرنے اور کرانے والے اگر درست ہوں تو اس معاشرے کے عامل کبھی خراب ہو ہی نہیں سکتے لیکن اگر عمل کرنے اور کرانے والے مخلص نہ ہوں تو محض قانون کی درستی سے تو کبھی حالت نہیں بدلتی اس لیے اب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے کتنی ہی بستیاں گزر چکی ہیں جنہوں نے قوانین الٰہی سے سر پھیر اور اللہ کے احکام سے سر تاب کی اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کے احکام کو ماننے سے عملی طور پر انکار کردیا اور ہم نے ان کو ان اعمال کی پاداش میں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ان کو وہ مار دی کہ ہو دوبارہ ابھرنے کے قابل ہی نہ رہیں اور اس طرح جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ان کے اپنے اعمال ہی کے باعث ہوا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تم کو بھی وہ قوانین دیئے جن کے نتائج بہت ہی اچھے اور درست ہیں لیکن کن کے لیے ؟ نہی کے لیے جو ان کی پابندی کرتے اور کراتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پابندی کرانا احکام وقت ہی کا کام ہے اور وہ اسی وقت پابندی کرا سکتے ہیں جب خود صحیح اور درست ہوں اور ان قوانین کی پابندی کرتے ہوں لیکن افسوس کہ آج اللہ تعالیٰ کے قوانین کی بےحرمتی اور خلاف ورزی کرنے والی اگر کوئی قوم صفحہ ہستی پر ہے تو شاید وہ مسلمانوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور اگر اللہ تعالٰ کے بھیجے ہوئے قوانین کی حامل کوئی جماعت ہے تو وہ بھی یہی قوم مسلم ہی ہے اور کوئی قوم دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی حامل صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے۔ آپ صرف انہی قوانین پر غور کریں جو اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں اور ایک خاص موضوع (Specified Topic) پر بیان کیے گئے ہیں اور جن کی ضرورت بھی عام طور پر نہیں پیش آتی بلکہ بعض لوگوں کو بعض اوقات پیش آتی ہے لیکن اس کے باوجود ان قوانین کی جو گت ہم نے بنائی ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس میں جتنا قصور ہے وہ طبقہ علماء اور سیاستدانوں کا ہے اور اس کے بعد ان اداروں کا جو محض اس قانون کی صحت کیلئے تشکیل دیئے گئے ہیں ۔ ہمارے اس ملک عزیز میں جب یہ قانون طلاق اسلامی خطوط کے تحت نافذ العمل ہونے کا اعلان ہوا اس وقت سے لے کر آج تک اس کے تحت جو جو زیادتیاں کی گئیں ان سے شاید ہی کوئی پاکستانی ناواقف ہو جو کچھ بھی عقل و شعور رکھتا ہے :
Top