بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے بنی کریم ﷺ آپ (اپنے اوپر) وہ چیزیں کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے تیرے لیے حلال ٹھہرائی ہیں ؟ کیا اپنی بیویوں (ؓن) کی خوشی کے لیے ؟ اور اللہ بخشنے والا بہت ہی پیار کرنے والا ہے
آپ ﷺ نے بعض ازواج کی رضا کیلئے ایک حلال چیز کیوں اپنے اوپر منع کرلی ہے ؟ 1 ؎ کہاوت ہے کہ کسی بادشاہ کو شکار کا بہت شوق تھا اور وہ شکار کو جاتا تو خود اور اپنے ساتھیوں کو بھی شکار کے گوشت کے سوا کوئی دوسری چیز کھانے پر پابندی رکھتا ۔ اس وجہ سے جب بادشاہ سلامت شکار کو جاتے تو بادشاہ کے ساتھی گوشت میں ڈالی جانے والی چیزوں کے سوا کوئی کھانے کی چیز ساتھ نہ لے جاتے ۔ ایک دفعہ بادشاہ سلامت شکار کو نکلے اور چلتے چلتے بہت دور نکل گئے اور بڑی دیر کے بعددور دراز جنگل طے کرنے کے بعد شکار ہاتھ لگا ۔ بہر حال شکار کا گوشت جلد تیار کرنے کا حکم ہوا اور سب کی خواہش بھی تھی کہ یہ گوشت جلد تیار ہو ۔ بہر حال گوشت تیار ہونے لگا تو معلوم ہوا کہ نمک ندارد ۔ لوگ پریشان ہوئے کہ ایک طرف نے ستایا ہے اور دوسری طرف جنگل میں بہت دور نکل آئے ہیں ، کوئی بستی بھی قریب نہیں اور گوشت کا مزہ بھی نمک کے بغیر کچھ نہیں ہوگا بہر حال گوشت تیار ہوگیا تو بادشاہ سلامت سے حقیقت حال عرض کی گئی ۔ آپ کے مصاحبین میں سے کسی نے ایک بستی کے قریب ہونے کا ذکر کیا لیکن بادشاہ نے سختی سے منع کردیا کہ آج گوشت بغیر نمک ہی کے استعمال ہوگا اور کسی بستی سے کوئی چیز نہیں لائی جائے گی ۔ کسی مصاحب نے اس کی حکومت پوچھ لی تو بادشاہ سلامت نے فرمایا کہ کسی لشکری کا کسی بستی سے نمک کا ایک تولہ مانگنابستی والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے لہٰذا میرے حکم پر عمل بھی ہوگا خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے ۔ اس کے عرض کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ فی الحقیقت بات صحیح ہے کہ بڑے لوگوں کی طرف سے ایک ذرہ بھر ڈھیل سے بڑی بڑی تباہیاں برپا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ آج اگر آپ اس ملک عزیز کے حالات پر غور کریں گے تو بات مزید واضح ہوتی دکھائی دے گی ۔ مغربی جمہوریت تو ویسے ہی کفر تھی جب اس ملک میں داخل ہوئی اور اب بھی ویسا ہی کفر ہے لیکن اس کے آنے کے وقت میں اور آج کے وقت میں جو فرق ہے وہ زمین و آسمان کے فرق سے بھی زیادہ ہے ۔ ابتدائی جمہوریت یعنی بی ۔ ڈی سے شروع ہوا کر ایم ۔ این ۔ اے تک دھونس ، دھاندلی ، رشوت اور منافقت کا یہ کاروبار جس قدر پھیل گیا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور پھر جوں ہی کوئی ایم ۔ این ۔ اے ہوگیا اس کی قیمت جوں لگنا شروع ہوئی تو وہ کروڑوں اور اربوں تک چلا گیا ۔ قل کے ، ختم شریف کے ، کپڑوں اور پیسوں کی طرح جس ادب و احترام سے وہ ملاں کو پیش کیے جاتے ہیں بالکل اسی طرح سینیٹ (Senate) کی سیٹیں ، وزارتیں اور لاکھوں ، اربوں روپیہ بڑے ادب و احترام کے ساتھ ایک ایم ۔ این ۔ اے کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم ہونے والے کی طرف سے پیش کیے جانے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کاروبار تو جو بڑھا سو بڑھا لیکن ملک میں کوئی ادارہ ایسا نہ رہا جس میں رشوت جی بھر بھر کرلینا شروع نہ کردی گئی ہو اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ ایک چپڑاسی ، ایک اردلی ، ایک گیٹ کی پر کے مبارک عہدوں کے لیے آفر (Offer) ہزاروں سے متجاوز ہوگئی۔ سکول ، ٹیچر ، سپاہی ، پٹواری ، کلرک اور اسی طرح کے دوسرے محکموں کی ابتدائی اسامیوں (Clerical jobs) کے لیے بڑی بڑی سفارشیں اور سفارشوں کی رشوتیں چل رہی ہیں اور اس کے سوا اب کوئی چارہ کار نہیں رہا ۔ لیکن یہ سب اثر کس چیز کا ہے ؟ ملک کے وڈیروں کی بد اعتدالیوں کا ۔ جہاں ایک بادشاہ کے کسی سپاہی کا کسی بستی کا نمک حاصل کرنا گناہ سمجھا گیا تھا وہ محض اس وجہ سے تھا اور آج تو کانیں ہضم کی جا رہی ہیں۔ زیر نظر آیت میں بیان کی گئی بات اسی قبیل سے ہے جس سے قرآن کریم کی یہ آیت کہ : (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) (التوبۃ) ” اللہ تجھ کو معاف فرمائے تو نے ان لوگوں کو کیوں اجازت دے دی “ لیکن وہاں بھی آپ کو مخاطب کر کے ایک معمولی سی بات سے جس کا نتیجہ لوگ غلط نکال سکتے تھے منع فرمایا گیا اور زیر نظر آیت میں بھی ارشاد فرمایا کہ ” اے پیغمبر اسلام ﷺ ! آپ ﷺ اپنے اوپر ہر وہ چیز کیوں منع کرتے ہیں جو اللہ نے تیرے لیے جائز ٹھہرائی ہے “۔ یہ چیز کیا تھی جیسا کہ روایات میں ذکر آیا ہے کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات ؓ کے ہاں کسی ایک سے شہید پیا اور کسی دوسری بی بی نے اس میں مغافیر کی شکایت کی کہ آپ ﷺ نے ازراہ دل آزادی فرما دیا کہ میں آئندہ ایسی شہد نہیں پیئوں گا لیکن اس میں ایک طرف کی دل آزادی کو روکنا تھا اور دوسری طرف سے دل آزادی کا مرتکب ہونا اور ظاہر ہے کہ اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا تھا جو آپ ﷺ نے ازراہ خلافت طبع ازراہ ناگواری ایک زوجہ محترمہ ؓ سے یہ بات فرما دی حالانکہ آپ ﷺ کی اپنی طبیعت نے اس سے انکار نہیں کیا تھا۔ گویا آپ ﷺ کو وہ شہد ناگوار نہیں محسوس ہوئی تھی لیکن آپ ﷺ کا کہنا ایک بی بی کی ناگواری کو اگر دور کرنا تھا یا دو بیبیوں کی ناگواری کو تو دوسری طرف یہ بات دوسری بی بی کی ناگواری کا باعث بھی ہو سکتی تھی ۔ بات اگرچہ بالکل معمولی تیا اور اپنی ازواج مطہرات ؓ ہی کا معاملہ بھی تھا لیکن اس سے استنباط کرنے والے اور استدلال کرنے والے نہ معلوم کیا کیا جائز اور درست کردیتے اس لیے آپ ﷺ کی زبان سے یہ کلمہ نکلتے ہی اس سے آپ ﷺ کو روک دیا گیا کہ آپ ﷺ کے لیے ایسی بات درست نہیں ہے کہ ایک طرف کی ناگواری کو دور کرتے کرتے دوسری طرف کی ناگواری کو برداشت کریں ۔ وہ چیز جو جائز اور حلال و طیب ہے اس کو کسی کی ناگواری کے باعث اپنے اوپر منع کرلینا تکلیف مالا یطاق ہے۔ جس کے نتائج اچھے نہیں نکل سکتے اور خصوصاً گھریلو زندگی کی ہم آہنگیوں کے یہ خلاف ہے کہ بعض بیبیوں کی رضا جوئی کے لیے بعض کی ناگواری کا باعث بنا جائے پھر اس کے اثرات بھی اچھے مرتب نہیں ہو سکتے ۔ بات شہد کے پینے پلانے کی تھی یا کوئی دوسرا واقعہ تھا بہر حال اس کا تذکرہ قرآن کریم نے نہیں کیا اور احادیث میں چونکہ ایک سے زیادہ باتیں اس طرح کی بیان ہوئی ہیں اس لیے کسی نے ایک کو اور کسی نے دوسری بات کو ترجیح دی ہے اور یہ استدلال کی بات ہے اگر دو سے زیادہ باتیں بھی اس طرح کی بیان ہوئی ہوں تو ممکن ہے اور آیت بہر حال اس طرح کی ساری باتوں کی نفی کرتی ہے اس لیے مفسرین نے جس کو بھی ترجیح دی ہے محض اپنی تفہیم اور قیاس سے دی ہے لیکن جہاں بھی قرآن کریم ایسے احکام بیان کرتا ہے ہم ان کو عموم کی حالت ہی میں رکھنا پسند کرتے ہیں تا وقتیکہ کوئی وضاحت حدیث میں نہ آئی ہو ۔ اس جگہ ایک واقعہ تو شہد (Honey) کا ہے اس میں مفسرین نے نام بنام وضاحت کی ہے کہ آپ ﷺ نے کس کے ہاں سے شہد پیا اور کس کس نے مل کر یہ بات بنائی کہ مغافیر کی بو آپ ﷺ کے منہ سے آتی ہے جب کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور ایسے کہنے والیوں کا کہنا محض رقابت کے باعث تھا لیکن دوسری روایت اس سے بڑی ہے اور زیادہ تفصیل طلب ہے اور وہ بات بھی اس سے زیادہ خطرناک ہے لیکن ہم ان باتوں کا نام بنام ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے اس لیے کہ وہاں واقعہ کچھ بھی ہو قرآن کریم نے ہماری رہنمائی کے لیے اس کو بیان کیا اور ہم کو جب بغیر ان ناموں کے اور بغیر واقعہ کی تحقیق کے اصل واقعہ سے سبق حاصل ہوتا ہے تو ہم وہ بات کیوں نہ کریں جو ہمارے لیے مفید مطلب ہے ۔ ہم وہی کام کیے چلے جائیں جس سے زیر نظر آیت روکتی ہے اور گزشتہ لوگوں کے ناموں کی تحقیق میں لگ کر اپنی ضرورت کی بات سے غافل ہوجائیں تو ہمارے لیے بات کبھی قابل درس نہیں ہو سکتی حالانکہ اس سے ہم کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کریم کے احکام ہمارے لیے بھی وہی اہمیت رکھتے ہیں جو ہم سے پہلے لوگوں کے لیے اہمیت رکھتے تھے اور خصوصاً یہ کہ ایک معمولی بات جو گھریلو عدل کے خلاف ہو اگر وہ رسول اللہ ﷺ سے ہو تو عدل کے خلاف ہی سمجھی جاتی ہے تو ہم جو ساری زندگی عدل کے خلاف گھریلو زندگیاں گزار رہے ہیں ، ہمارا کیا حال ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو حق کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ اپنی صفات غفور یت اور رحمیت کے باعث ہم سے ہماری لعزشیں معاف فرما دے ۔ زیر نظر آیت میں دوسری توجیہات کے علاوہ یہ توجیہہ بھی ہو سکتی کہ آپ ﷺ کو مخاطب کر کے آپ ﷺ کی بیبیوں ؓ کے نام لے کر قوم کے مردوں اور عورتوں کے تسامحات کا ذکر کیا گیا ہو کیونکہ آگے آنے والی آیت سے اس توجیہ کا احتمال بھی ہوتا ہے ۔
Top