Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ
: تحقیق فرض کیا اللہ نے
لَكُمْ
: تمہارے لیے
تَحِلَّةَ
: کھولنا
اَيْمَانِكُمْ
: تمہاری قسموں کا
وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ
: اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا
وَهُوَ الْعَلِيْمُ
: اور وہ علم والا ہے
الْحَكِيْمُ
: حکمت والا ہے
اللہ نے تمہاری قسموں کا تمہارے لیے کفارہ مقرر کردیا ہے اور اللہ ہی تمہارا آقا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے وہ بڑی حکمت والا ہے
اگر غلط قسم کا تہیہ تم کرلو تو اس کو ترک کرنے کے لیے اللہ نے تم کو خاص ہدایت عطا کردی ہے 2 ؎ اوپر کی آیت میں بات تو آپ ﷺ کو مخاطب فرما کر کی گئی تھی اور آپ ﷺ کی بعض ازواج ؓ کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے لیکن زیر نظر آیت میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے جس سے وہ احتمال قوی ہوتا ہے جس کی طرف ہم نے گزشتہ آیت کی تفسیر کے آخر میں اشارہ کیا ہے۔ (تحلۃ) کے معنی میں کھولنا ، ڈالنا ، حلال کرنا ۔ یہ حلال کا مصدر ہے وزن تفعلہ اور باب تفعیل کا دوسرا وزن ہے جسے کرم سے تکریم اور تکرمۃ کمل تکمیل اور تکملۃ دونوں وزن آتے ہیں اسی طرح یہ بھی حلل تعیلیلاً کا دوسرا مصدر ہے ۔ قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم ای بین ما تنحل بہ عقدۃ ایمانکم من الکفارۃ ( امام راغب) ” اللہ نے وہ چیز بیان کردی جس سے تمہاری قسموں کی گرہ کھل جاتی ہے اور وہ کفارہ ہے۔ مطلب یہ یہ کہ قسم کھا کر تم نے جو گرہ ڈال لی تھی اس کے کھولنے کا طریقہ تمہیں بتا دیا ہے کہ کفارہ ادا کرو اور پابندی سے آزاد ہو جائو ۔ اس طرح گویا آیت کا اشارہ کفارہ قسم کی طرف ہے جس کا ذکر قبل ازیں کیا جا چکا ہے جیسا کہ سورة المائدہ کی آیت 89 میں اس کا واضح بیان کیا گیا ہے ۔ البتہ یہ بات اگر ایسی ہی ہے تو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سورة المائدہ میں جو حکم نازل ہوا وہ اس جائے تو وہ سورت اس سورة التحریم کے بعد کی تسلیم کی جاتی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس حکم کو اس سورت کے نزول سے پہلے کا تسلیم کیا جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا یہ حکم الگ حکم ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے یا پہلی آیت کے مضمون کے ساتھ اس کا تعلق موجود ہے ۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ہم پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات تو شروع سے لے کر آج تک متفق چلی آرہی ہے کہ ان دونوں آیتوں کا ربط قائم کرنے کے لیے اس آیت کا حکم گزشتہ آیت کے حکم کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اگر بات ایسی ہی ہے تو کم از کم ہماری نظر سے ایسا کوئی دوسرا حکم نہیں گزرا کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی معاملہ میں آپ ﷺ کی تفہیم کے لیے یا آپ ﷺ کو حکم دینے کے لیے عام انسانوں کو مخاطب کر کے بات کی گئی ہو البتہ اس کی مثالیں بیسیوں موجود ہیں کہ دوسرے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ، دوسروں کو روکنے کے لیے ، دوسروں کو نشانہ تنقید بنانے کے لیے ، دوسروں کو حکم دینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے بات کہہ دی ہو اس لیے بظاہر خطاب تو آپ ﷺ کو ہو لیکن بات دوسروں سے کرنا مقصود ہو ۔ اس طرح اگر یہ صحیح ہے تو دونوں آیتوں کے احکام کا ربط اسی صورت قائم ہو سکتا ہے کہ پہلی آیت میں جو نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کر کے بات کی گئی ہے وہ بات کسی دوسرے انسان ، گروہ یا جماعت کی ہو اور مخاطب آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی ازواج ؓ کو کیا گیا ہو جیسا کہ ہم نے اوپر بھی دوبارہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ گزشتہ آیت کا حکم الگ ہو جو براہ راست رسول اللہ ﷺ کا معاملہ ہو اور آپ ﷺ کو مخاطب کر کے ایک بات کہنے کے بعد عام انسانوں کی قسموں کا حکم ان کو یاد دلایا گیا ہو کہ کوئی شخص تم میں سے ایسی بات کے لیے قسم کھالے جس معاملہ میں اس کو قسم کھا کر بات کرنے کا حق نہ ہو لیکن وہ ایسے ناحق معاملہ میں قسم کھائے تو اس کو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے اور اپنی قسم کو توڑ دینا لازم و ضروری ہے اور ہر قسم کا کفارہ اس لیے ہے تاکہ آئندہ اس طرح قسم کھانے والا احتیاط کرے۔ دراصل اس سورت کی پہلی پانچ آیات کو مفسرین نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرار دیا ہے اور ان کا آپس میں ربط قائم کرنے کے لیے بہت سی باتیں ان کو ملانا پڑیں ہیں تاکہ ان کا ربط قائم ہو سکے لیکن اگر آپ کسی تفسیر کو اٹھا کر ان پانچ آیات کریمات کی تفسیر پڑھیں گے تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نہ تو یہ واقعہ ایک ہے اور نہ ہی اس طرح ربط قائم کرنے سے ان کا کوئی ربط قائم ہوتا نظر آتا ہے اور جو باتیں مفسرین نے ربط قائم کرنے کے لیے ملائی ہیں وہ الگ قسم کی باتیں صاف دکھائی دے رہی ہیں اور بار بار غور کرنے سے بھی کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی اور اس طرح جن روایات اور احادیث کو ان آیات کی تفسیر میں نقل کیا جاتا ہے وہ سب کی سب اکٹھی کرلی جائیں تو بھی اس کی وضاحت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان روایات کا آپس میں کوئی جوڑ جڑتا نظر آتا ہے جن باتوں کو شان نزول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے وہ آپس میں اس قدرمختلف ہیں کہ ان کو ملانے سے انسان مزید بھول بھلیوں میں پڑجاتا ہے۔ جو کچھ ہم نے سمجھا ہے اس کو بیان کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں اگرچہ وہ گزشتہ مفسرین سے میل نہ کھاتا ہو ۔ ہاں ! ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اگر کسی بھائی یا بزرگ کو ہماری رائے سے اختلاف ہو تو وہ سو بار رکھے اور جس طرح اس کو انشراح حاصل ہوتا ہے وہ اس کو تسلیم کرنے میں آزاد ہے ۔ اس معاملہ میں ہم محض یہ اپیل کریں گے کہ وہ بغیر کسی فتویٰ کے ہماری تفہیم کو رد کردے ۔ تفہیم ہماری اس طرح ہے کہ : ا۔ اس سورة کی پہلی آیت میں خطاب براہ راست نبی اعظم و آخر ﷺ سے ہے جو بات بیک آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے ازواج مطہرات ؓ کے درمیان ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ نے ایک حلال و طیب چیز کو محض اپنی بعض ازواج کی خوشنودی کے لیے اپنے اوپر منع فرما لیا لیکن اس طرح آپ ﷺ کی ازواج کو بعض پر اہمیت دیئے جانے کا پہلو نکلتا تھا جب کہ اس میں اہمیت دیئے جانے کی کوئی وجہ بھی موجود نہ تھی اور یہ بھی کہ اس سے دوسری بعض کی خواہ ایک تھی ، سبکی کا پہلو نکلتا تھا اور آپ ﷺ کی اس پرائیویٹ (Private) زندگی کا جس کو بھی پتہ چلتا وہ اس سے غلط استدال کرسکتا تھا کہ دیکھو آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں اپنی بعض ازواج کو بعض پر اہمی تدی ہے اور اس طرح سے اہمیت دی جاسکتی ہے اس طرح اگر کسی کا دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹا کرے ہمارے پاس آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔ اس لیے ان ساری باتوں کا انسداد کردیا اور آپ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اس طرح آپ ﷺ نے جو اپنی بعض ازواج کی خاطر ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر منع کرلیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے اور نہ کسی دوسرے کے لیے منع کیا ہے اور یہ بھی کہ بعض ازواج کو بعض پر وہ اہمیت دے دی گئی ہے جہاں کوئی اہمیت کی بات نہیں تھی۔ اس لیے آپ ﷺ کو اس بابت رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے آپ ﷺ اس چیز کو بخوشی استعمال کریں اور آئندہ محتاط رہیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ۔ آپ ﷺ کے اس طرح کہہ دینے کی بات کو اس نے پیشگی معاف کردیا ہے۔ ب۔ آپ ﷺ نے ایک چیز کو جس کو آپ ﷺ مرغوب جانتے تھے اور آپ ﷺ کی طبیعت کو بھی اس سے قطعاً انکار نہیں تھا محض اپنی ازواج میں سے کسی ایک یا دو کے کہنے پر اپنے اوپر منع کرلیا اس طرح کسی شرعی حلت و حرمت میں آپ ﷺ نے کوئی مداخلت نہیں کی محض آپ ﷺ کے رک جانے کے لیے ( تحرم) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ج ۔ آپ ﷺ نے اس معاملہ میں کوئی قسم وغیرہ نہیں اٹھائی تھی جس کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں عام حکم نازل کردیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے کفارہ ادا کرنے کا کوئی ذکر کسی روایت و حدیث میں موجود ہے ، بلکہ آیت دوم کا حکم ایک بالکل الگ حکم ہے بلکہ ایک دیئے گئے حکم کی وضاحت ہے اور قرآن کریم اس طرح کی یاددہانیاں عام طور پر کراتا رہتا ہے جن روایات میں آپ ﷺ کے قسم کھانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض اس آیت سے استدلالاً کہا گیا ہے اس لیے کسی روایت و حدیث میں آپ ﷺ کے کفارہ ادا کرنے کا ذکر نہیں آیا۔ آیت اول میں آپ ﷺ کو بالکل اسی طرح کا حکم دیا گیا ہے جس طرح کا حکم سورة المائدہ میں عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ( یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم ولا تعتدوا) ( 5 : 57) حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس سے مراد مسلمانوں کو ہدایت دینا ہے کہ تم یہودیوں اور عیسائیوں کے راہبوں کی طرح اپنے نفسوں کو دنیوی لذتوں سے مت روکو بلکہ اللہ نے جو حلال و طیب مال تم کو دیا ہے اس کو کھائو پیئو۔ ہ۔ آیت اول کا مضمون آیت دوم کے مضمون سے بالکل جدا ہے ۔ آپ ﷺ کو بات سمجھانے کے لیے عام مسلمانوں کو مخاطب کرے بات کرنے کی کوئی مثال قرآن کریم میں اور کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے اور نہ ہی جائز اور درست ہے ۔ کسی وزیر تعلیم (Education Minster) کا سیکرٹری تعلیم (Education Secratry) کو مخاطب کر کے کسی پروفیسر (Professor) صاحب کی غلطی کے متعلق کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن کسی پروفیسر کو مخاطب کر کے سیکرٹری تعلیم کی غلطی کی بات کرنا طنز میں آئے گا جو کسی حال میں درست نہیں ہے اور نہ ہی اس کو کوئی درست کہے گا بلکہ یہ بات خود وزیر تعلیم کی شان (Status) کے خلاف ہے۔ و۔ اسلام بڑے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی غلطیوں ہی سے نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگوں کی معمولی معمولی لغزشوں کو پکڑنے کا درس دیتا ہے اس لیے خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کا محاورہ بالکل سطح زمین کی ایجاد ہے۔ معاشرہ کی اصلاح اسی طرح ممکن ہے کہ ہر بڑے بڑے لوگوں کی معمولی معمولی غلطوں کو بڑا سمجھ کر بڑوں کے بڑے تادیبی کارروائی کریں۔ ذ۔ آیت دو کا مضمون محض اپنی اہمیت کے لحاظ سے اس جگہ بیان ہوا ہے ۔ یہ فطری چیز ہے کہ جب کسی اہم واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہاں دوسرے اہم واقعات بھی بیان کردیئے جاتے ہیں جن سے مقصود محض بیان کو تقویت دیتا ہے نہ کہ ان کا آپس میں جوڑ ملانا ہے ۔ آج ایک اہم واقعہ رونما ہوگیا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے کسی گزشتہ اہم واقعہ کو بیان کردیا اس طرح کی مثالیں بھی قرآن کریم میں عام ہیں اور احادیث میں ، تاریخ میں بھی اور آج بھی ہماری زبان میں عام ہیں لیکن ان کا آپس میں اگر کوئی تعلق قائم ہوتا ہے تو محض یہی کہ ایک واقعہ کی اہمیت کے پیش نظر دوسرا واقعہ بیان کردیا گیا اور اس کو سب لوگ سمجھتے اور جانتے ہیں اور یہ عام ہے ۔ ح۔ ایمان والوں کو ان کی قسموں سے نکلنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کو کسی حیلہ پر محمول نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک قانون ہے جس کی وضاحت سورة المائدہ کی آیت 89 میں کردی گئی اور اس کی وضاحت عروۃ الوثقیٰ جلد سوم میں محولہ حوالہ میں ملے گی۔ ط۔ زیر نظر آیت نمبر 2 میں جو اس کی وضاحت فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور ایمان والوں کے معاشرہ کی اصلاح چاہتا ہے تاکہ اس اصلاح شدہ معاشرہ کی مثال دی جاسکے اور بلا شبہ جب یہ معاشرہ قائم ہوا تھا اس وقت وہ مثالی ہی تھا جس کی مثالیں آج تک جا رہی ہیں اپنے تو اپنے غیر بھی کہیں ان کا ذکر کردیتے ہیں ۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ : ” ایک آدمی نے دوسرے سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا ۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اس زمین کو اپنی کسی ضرورت کے لیے کھود رہا تھا تو اس میں سے ایک خزانہ نکل آیا ۔ اس نے اس خزانہ کو بہت آرام کے ساتھ نکلا اور اٹھا کر اس شخص کے پاس لے گیا جس سے زمین کا وہ ٹکڑا خریدا تھا۔ اس کے سامنے خزانہ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ بھائی یہ اپنا خزانہ لے لو یہ تمہارا ہے میں نے آپ سے زمین خریدی تھی ، یہ خزانہ نہیں ھ خریدا تھا۔ اس نے کہا کہ بھائی ! یہ آپ کو مبارک ہو میں نے جب زمین دی تھی تو اس وقت اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کیوں فروخت کرتا ، جب میں نے فروخت کردی تو اب جو کچھ اس میں ہے سب آپ ہی کا ہے میں اس کو نہیں لے سکتا ۔ ان کے ہاں یہ ایک ایسا قضیہ کھڑا ہوا کہ دونوں اپنے اپنے مؤقف پر بضد ہوگئے اور دونوں مل کر ایک ثالث کے ہاں گئے ۔ ثالث نے بات سنی تو اس پر حقیقت واضح ہوگئی کہ دونوں بہت ہی مخلص ہیں اس لیے اخلاص کو دونوں نہیں چھوڑیں گے۔ اس نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ہاں کوئی اولاد ہے تو ایک نے لڑکی اور دوسرے نے لڑکا بتایا ۔ ثالث نے کہا کہ اگر میری بات مانو تو ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر کے دونوں کو خزانہ سپرد کر دو اور صلح و آتشی کے ساتھ رہنے کی تلقین کروچنانچہ یہی صورت انہوں نے اختیار کی ۔ ( بخاری و مسلم) مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے یہ مثال ایک ہندو کے مضمون میں پڑھی تھی لیکن اس وقت وہ مستحضر نہیں ہے۔ ی۔ زیر نظر آیت میں جو ایمان والوں کو مخاطب کر کے ان کو اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے ان میں تمام مرد اور عورتیں شمار ہیں اور جس طرح دوسرے سارے مسلمان شمار کیے گئے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ بھی اسی ضمن میں آتی ہیں ، ان کے درمیان کوئی اس طرح کی بات واقعہ ہوئی تو یہ بھی عین ممکن ہے اور اسی طرح لکم ایمانکم مونسکم میں جو ضمائر جمع مذکر حاضر استعمال کی گئی ہیں ان میں بہر حال سب شمار ہیں اور جس طرح دوسروں کے لیے یہ حکم عام ہے اس عام میں حکم میں وہ سب داخل ہیں اور یہ ہدایت سب کے لے برابر ایک جیسی ہے اور اسی نسبت سے اس کا ذکر سورة المائدہ میں گزر چکا ہے جیسا کہ اوپر ہم نے ان کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ ایک نظر سورة المائدہ کی آیت 89 پر بھی دوڑا لیں ۔ ان شاء اللہ مفید مطلب رہے گی۔ ک۔ آنے والی آیت 3 کے مضمون کا تعلق پھر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس سے ہے لیکن اس مضمون کا آیت اول سے کوئی ربط نہیں ہے ۔ الایہ کہ وہ بھی آپ ﷺ ہی کی ذات کا ایک واقعہ ہے اور یہ بھی ۔ اس میں ہماری زندگی کے لیے بہت سے اسباق مخفی ہیں اور اس کی تفصیل میں ہماری معاشرتی زندگی کے لیے ان گنت رہنمائیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ہم ان شاء اللہ العزیز آگے کریں گے ۔
Top