Urwatul-Wusqaa - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ نے تمہاری قسموں کا تمہارے لیے کفارہ مقرر کردیا ہے اور اللہ ہی تمہارا آقا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے وہ بڑی حکمت والا ہے
اگر غلط قسم کا تہیہ تم کرلو تو اس کو ترک کرنے کے لیے اللہ نے تم کو خاص ہدایت عطا کردی ہے 2 ؎ اوپر کی آیت میں بات تو آپ ﷺ کو مخاطب فرما کر کی گئی تھی اور آپ ﷺ کی بعض ازواج ؓ کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے لیکن زیر نظر آیت میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے جس سے وہ احتمال قوی ہوتا ہے جس کی طرف ہم نے گزشتہ آیت کی تفسیر کے آخر میں اشارہ کیا ہے۔ (تحلۃ) کے معنی میں کھولنا ، ڈالنا ، حلال کرنا ۔ یہ حلال کا مصدر ہے وزن تفعلہ اور باب تفعیل کا دوسرا وزن ہے جسے کرم سے تکریم اور تکرمۃ کمل تکمیل اور تکملۃ دونوں وزن آتے ہیں اسی طرح یہ بھی حلل تعیلیلاً کا دوسرا مصدر ہے ۔ قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم ای بین ما تنحل بہ عقدۃ ایمانکم من الکفارۃ ( امام راغب) ” اللہ نے وہ چیز بیان کردی جس سے تمہاری قسموں کی گرہ کھل جاتی ہے اور وہ کفارہ ہے۔ مطلب یہ یہ کہ قسم کھا کر تم نے جو گرہ ڈال لی تھی اس کے کھولنے کا طریقہ تمہیں بتا دیا ہے کہ کفارہ ادا کرو اور پابندی سے آزاد ہو جائو ۔ اس طرح گویا آیت کا اشارہ کفارہ قسم کی طرف ہے جس کا ذکر قبل ازیں کیا جا چکا ہے جیسا کہ سورة المائدہ کی آیت 89 میں اس کا واضح بیان کیا گیا ہے ۔ البتہ یہ بات اگر ایسی ہی ہے تو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سورة المائدہ میں جو حکم نازل ہوا وہ اس جائے تو وہ سورت اس سورة التحریم کے بعد کی تسلیم کی جاتی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس حکم کو اس سورت کے نزول سے پہلے کا تسلیم کیا جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا یہ حکم الگ حکم ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے یا پہلی آیت کے مضمون کے ساتھ اس کا تعلق موجود ہے ۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ہم پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات تو شروع سے لے کر آج تک متفق چلی آرہی ہے کہ ان دونوں آیتوں کا ربط قائم کرنے کے لیے اس آیت کا حکم گزشتہ آیت کے حکم کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اگر بات ایسی ہی ہے تو کم از کم ہماری نظر سے ایسا کوئی دوسرا حکم نہیں گزرا کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی معاملہ میں آپ ﷺ کی تفہیم کے لیے یا آپ ﷺ کو حکم دینے کے لیے عام انسانوں کو مخاطب کر کے بات کی گئی ہو البتہ اس کی مثالیں بیسیوں موجود ہیں کہ دوسرے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ، دوسروں کو روکنے کے لیے ، دوسروں کو نشانہ تنقید بنانے کے لیے ، دوسروں کو حکم دینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے بات کہہ دی ہو اس لیے بظاہر خطاب تو آپ ﷺ کو ہو لیکن بات دوسروں سے کرنا مقصود ہو ۔ اس طرح اگر یہ صحیح ہے تو دونوں آیتوں کے احکام کا ربط اسی صورت قائم ہو سکتا ہے کہ پہلی آیت میں جو نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کر کے بات کی گئی ہے وہ بات کسی دوسرے انسان ، گروہ یا جماعت کی ہو اور مخاطب آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی ازواج ؓ کو کیا گیا ہو جیسا کہ ہم نے اوپر بھی دوبارہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ گزشتہ آیت کا حکم الگ ہو جو براہ راست رسول اللہ ﷺ کا معاملہ ہو اور آپ ﷺ کو مخاطب کر کے ایک بات کہنے کے بعد عام انسانوں کی قسموں کا حکم ان کو یاد دلایا گیا ہو کہ کوئی شخص تم میں سے ایسی بات کے لیے قسم کھالے جس معاملہ میں اس کو قسم کھا کر بات کرنے کا حق نہ ہو لیکن وہ ایسے ناحق معاملہ میں قسم کھائے تو اس کو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے اور اپنی قسم کو توڑ دینا لازم و ضروری ہے اور ہر قسم کا کفارہ اس لیے ہے تاکہ آئندہ اس طرح قسم کھانے والا احتیاط کرے۔ دراصل اس سورت کی پہلی پانچ آیات کو مفسرین نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرار دیا ہے اور ان کا آپس میں ربط قائم کرنے کے لیے بہت سی باتیں ان کو ملانا پڑیں ہیں تاکہ ان کا ربط قائم ہو سکے لیکن اگر آپ کسی تفسیر کو اٹھا کر ان پانچ آیات کریمات کی تفسیر پڑھیں گے تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نہ تو یہ واقعہ ایک ہے اور نہ ہی اس طرح ربط قائم کرنے سے ان کا کوئی ربط قائم ہوتا نظر آتا ہے اور جو باتیں مفسرین نے ربط قائم کرنے کے لیے ملائی ہیں وہ الگ قسم کی باتیں صاف دکھائی دے رہی ہیں اور بار بار غور کرنے سے بھی کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی اور اس طرح جن روایات اور احادیث کو ان آیات کی تفسیر میں نقل کیا جاتا ہے وہ سب کی سب اکٹھی کرلی جائیں تو بھی اس کی وضاحت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان روایات کا آپس میں کوئی جوڑ جڑتا نظر آتا ہے جن باتوں کو شان نزول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے وہ آپس میں اس قدرمختلف ہیں کہ ان کو ملانے سے انسان مزید بھول بھلیوں میں پڑجاتا ہے۔ جو کچھ ہم نے سمجھا ہے اس کو بیان کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں اگرچہ وہ گزشتہ مفسرین سے میل نہ کھاتا ہو ۔ ہاں ! ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اگر کسی بھائی یا بزرگ کو ہماری رائے سے اختلاف ہو تو وہ سو بار رکھے اور جس طرح اس کو انشراح حاصل ہوتا ہے وہ اس کو تسلیم کرنے میں آزاد ہے ۔ اس معاملہ میں ہم محض یہ اپیل کریں گے کہ وہ بغیر کسی فتویٰ کے ہماری تفہیم کو رد کردے ۔ تفہیم ہماری اس طرح ہے کہ : ا۔ اس سورة کی پہلی آیت میں خطاب براہ راست نبی اعظم و آخر ﷺ سے ہے جو بات بیک آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے ازواج مطہرات ؓ کے درمیان ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ نے ایک حلال و طیب چیز کو محض اپنی بعض ازواج کی خوشنودی کے لیے اپنے اوپر منع فرما لیا لیکن اس طرح آپ ﷺ کی ازواج کو بعض پر اہمیت دیئے جانے کا پہلو نکلتا تھا جب کہ اس میں اہمیت دیئے جانے کی کوئی وجہ بھی موجود نہ تھی اور یہ بھی کہ اس سے دوسری بعض کی خواہ ایک تھی ، سبکی کا پہلو نکلتا تھا اور آپ ﷺ کی اس پرائیویٹ (Private) زندگی کا جس کو بھی پتہ چلتا وہ اس سے غلط استدال کرسکتا تھا کہ دیکھو آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں اپنی بعض ازواج کو بعض پر اہمی تدی ہے اور اس طرح سے اہمیت دی جاسکتی ہے اس طرح اگر کسی کا دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹا کرے ہمارے پاس آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔ اس لیے ان ساری باتوں کا انسداد کردیا اور آپ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اس طرح آپ ﷺ نے جو اپنی بعض ازواج کی خاطر ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر منع کرلیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے اور نہ کسی دوسرے کے لیے منع کیا ہے اور یہ بھی کہ بعض ازواج کو بعض پر وہ اہمیت دے دی گئی ہے جہاں کوئی اہمیت کی بات نہیں تھی۔ اس لیے آپ ﷺ کو اس بابت رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے آپ ﷺ اس چیز کو بخوشی استعمال کریں اور آئندہ محتاط رہیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ۔ آپ ﷺ کے اس طرح کہہ دینے کی بات کو اس نے پیشگی معاف کردیا ہے۔ ب۔ آپ ﷺ نے ایک چیز کو جس کو آپ ﷺ مرغوب جانتے تھے اور آپ ﷺ کی طبیعت کو بھی اس سے قطعاً انکار نہیں تھا محض اپنی ازواج میں سے کسی ایک یا دو کے کہنے پر اپنے اوپر منع کرلیا اس طرح کسی شرعی حلت و حرمت میں آپ ﷺ نے کوئی مداخلت نہیں کی محض آپ ﷺ کے رک جانے کے لیے ( تحرم) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ج ۔ آپ ﷺ نے اس معاملہ میں کوئی قسم وغیرہ نہیں اٹھائی تھی جس کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں عام حکم نازل کردیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے کفارہ ادا کرنے کا کوئی ذکر کسی روایت و حدیث میں موجود ہے ، بلکہ آیت دوم کا حکم ایک بالکل الگ حکم ہے بلکہ ایک دیئے گئے حکم کی وضاحت ہے اور قرآن کریم اس طرح کی یاددہانیاں عام طور پر کراتا رہتا ہے جن روایات میں آپ ﷺ کے قسم کھانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض اس آیت سے استدلالاً کہا گیا ہے اس لیے کسی روایت و حدیث میں آپ ﷺ کے کفارہ ادا کرنے کا ذکر نہیں آیا۔ آیت اول میں آپ ﷺ کو بالکل اسی طرح کا حکم دیا گیا ہے جس طرح کا حکم سورة المائدہ میں عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ( یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم ولا تعتدوا) ( 5 : 57) حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس سے مراد مسلمانوں کو ہدایت دینا ہے کہ تم یہودیوں اور عیسائیوں کے راہبوں کی طرح اپنے نفسوں کو دنیوی لذتوں سے مت روکو بلکہ اللہ نے جو حلال و طیب مال تم کو دیا ہے اس کو کھائو پیئو۔ ہ۔ آیت اول کا مضمون آیت دوم کے مضمون سے بالکل جدا ہے ۔ آپ ﷺ کو بات سمجھانے کے لیے عام مسلمانوں کو مخاطب کرے بات کرنے کی کوئی مثال قرآن کریم میں اور کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے اور نہ ہی جائز اور درست ہے ۔ کسی وزیر تعلیم (Education Minster) کا سیکرٹری تعلیم (Education Secratry) کو مخاطب کر کے کسی پروفیسر (Professor) صاحب کی غلطی کے متعلق کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن کسی پروفیسر کو مخاطب کر کے سیکرٹری تعلیم کی غلطی کی بات کرنا طنز میں آئے گا جو کسی حال میں درست نہیں ہے اور نہ ہی اس کو کوئی درست کہے گا بلکہ یہ بات خود وزیر تعلیم کی شان (Status) کے خلاف ہے۔ و۔ اسلام بڑے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی غلطیوں ہی سے نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگوں کی معمولی معمولی لغزشوں کو پکڑنے کا درس دیتا ہے اس لیے خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کا محاورہ بالکل سطح زمین کی ایجاد ہے۔ معاشرہ کی اصلاح اسی طرح ممکن ہے کہ ہر بڑے بڑے لوگوں کی معمولی معمولی غلطوں کو بڑا سمجھ کر بڑوں کے بڑے تادیبی کارروائی کریں۔ ذ۔ آیت دو کا مضمون محض اپنی اہمیت کے لحاظ سے اس جگہ بیان ہوا ہے ۔ یہ فطری چیز ہے کہ جب کسی اہم واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہاں دوسرے اہم واقعات بھی بیان کردیئے جاتے ہیں جن سے مقصود محض بیان کو تقویت دیتا ہے نہ کہ ان کا آپس میں جوڑ ملانا ہے ۔ آج ایک اہم واقعہ رونما ہوگیا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے کسی گزشتہ اہم واقعہ کو بیان کردیا اس طرح کی مثالیں بھی قرآن کریم میں عام ہیں اور احادیث میں ، تاریخ میں بھی اور آج بھی ہماری زبان میں عام ہیں لیکن ان کا آپس میں اگر کوئی تعلق قائم ہوتا ہے تو محض یہی کہ ایک واقعہ کی اہمیت کے پیش نظر دوسرا واقعہ بیان کردیا گیا اور اس کو سب لوگ سمجھتے اور جانتے ہیں اور یہ عام ہے ۔ ح۔ ایمان والوں کو ان کی قسموں سے نکلنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کو کسی حیلہ پر محمول نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک قانون ہے جس کی وضاحت سورة المائدہ کی آیت 89 میں کردی گئی اور اس کی وضاحت عروۃ الوثقیٰ جلد سوم میں محولہ حوالہ میں ملے گی۔ ط۔ زیر نظر آیت نمبر 2 میں جو اس کی وضاحت فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور ایمان والوں کے معاشرہ کی اصلاح چاہتا ہے تاکہ اس اصلاح شدہ معاشرہ کی مثال دی جاسکے اور بلا شبہ جب یہ معاشرہ قائم ہوا تھا اس وقت وہ مثالی ہی تھا جس کی مثالیں آج تک جا رہی ہیں اپنے تو اپنے غیر بھی کہیں ان کا ذکر کردیتے ہیں ۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ : ” ایک آدمی نے دوسرے سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا ۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اس زمین کو اپنی کسی ضرورت کے لیے کھود رہا تھا تو اس میں سے ایک خزانہ نکل آیا ۔ اس نے اس خزانہ کو بہت آرام کے ساتھ نکلا اور اٹھا کر اس شخص کے پاس لے گیا جس سے زمین کا وہ ٹکڑا خریدا تھا۔ اس کے سامنے خزانہ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ بھائی یہ اپنا خزانہ لے لو یہ تمہارا ہے میں نے آپ سے زمین خریدی تھی ، یہ خزانہ نہیں ھ خریدا تھا۔ اس نے کہا کہ بھائی ! یہ آپ کو مبارک ہو میں نے جب زمین دی تھی تو اس وقت اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کیوں فروخت کرتا ، جب میں نے فروخت کردی تو اب جو کچھ اس میں ہے سب آپ ہی کا ہے میں اس کو نہیں لے سکتا ۔ ان کے ہاں یہ ایک ایسا قضیہ کھڑا ہوا کہ دونوں اپنے اپنے مؤقف پر بضد ہوگئے اور دونوں مل کر ایک ثالث کے ہاں گئے ۔ ثالث نے بات سنی تو اس پر حقیقت واضح ہوگئی کہ دونوں بہت ہی مخلص ہیں اس لیے اخلاص کو دونوں نہیں چھوڑیں گے۔ اس نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ہاں کوئی اولاد ہے تو ایک نے لڑکی اور دوسرے نے لڑکا بتایا ۔ ثالث نے کہا کہ اگر میری بات مانو تو ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر کے دونوں کو خزانہ سپرد کر دو اور صلح و آتشی کے ساتھ رہنے کی تلقین کروچنانچہ یہی صورت انہوں نے اختیار کی ۔ ( بخاری و مسلم) مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے یہ مثال ایک ہندو کے مضمون میں پڑھی تھی لیکن اس وقت وہ مستحضر نہیں ہے۔ ی۔ زیر نظر آیت میں جو ایمان والوں کو مخاطب کر کے ان کو اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے ان میں تمام مرد اور عورتیں شمار ہیں اور جس طرح دوسرے سارے مسلمان شمار کیے گئے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ بھی اسی ضمن میں آتی ہیں ، ان کے درمیان کوئی اس طرح کی بات واقعہ ہوئی تو یہ بھی عین ممکن ہے اور اسی طرح لکم ایمانکم مونسکم میں جو ضمائر جمع مذکر حاضر استعمال کی گئی ہیں ان میں بہر حال سب شمار ہیں اور جس طرح دوسروں کے لیے یہ حکم عام ہے اس عام میں حکم میں وہ سب داخل ہیں اور یہ ہدایت سب کے لے برابر ایک جیسی ہے اور اسی نسبت سے اس کا ذکر سورة المائدہ میں گزر چکا ہے جیسا کہ اوپر ہم نے ان کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ ایک نظر سورة المائدہ کی آیت 89 پر بھی دوڑا لیں ۔ ان شاء اللہ مفید مطلب رہے گی۔ ک۔ آنے والی آیت 3 کے مضمون کا تعلق پھر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس سے ہے لیکن اس مضمون کا آیت اول سے کوئی ربط نہیں ہے ۔ الایہ کہ وہ بھی آپ ﷺ ہی کی ذات کا ایک واقعہ ہے اور یہ بھی ۔ اس میں ہماری زندگی کے لیے بہت سے اسباق مخفی ہیں اور اس کی تفصیل میں ہماری معاشرتی زندگی کے لیے ان گنت رہنمائیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ہم ان شاء اللہ العزیز آگے کریں گے ۔
Top