Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 32
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ١ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَاَنْكِحُوا : اور تم نکاح کرو الْاَيَامٰى : بیوی عورتیں مِنْكُمْ : اپنے میں سے (اپنی) وَالصّٰلِحِيْنَ : اور نیک مِنْ : سے عِبَادِكُمْ : اپنے غلام وَاِمَآئِكُمْ : اور اپنی کنیزیں اِنْ يَّكُوْنُوْا : اگر وہ ہوں فُقَرَآءَ : تنگدست (جمع) يُغْنِهِمُ : انہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اور نکاح کردو رانڈوں کا اپنے اندر8 اور جو نیک ہوں تمہارے غلام اور لونڈیاں9 اگر وہ ہوں گے مفلس اللہ ان کو غنی کر دے گا اپنے فضل سے10 اور اللہ کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے11
8 اوپر استیذان، غض بصر اور تستر وغیرہ کے احکام بیان ہوئے تھے، تاکہ بےحیائی اور بدکاری کی روک تھام کی جائے۔ اس آیت میں یہ حکم دیا کہ جن کا نکاح نہیں ہوا یا ہو کر بیوہ اور رنڈوے ہوگئے تو موقع مناسب ملنے پر ان کا نکاح کردیا کرو۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ " اے علی ! تین کاموں میں دیر نہ کر، نماز فرض کا جب وقت آجائے، جنازہ جب موجود ہو، اور رانڈ عورت جب اس کا کفو مل جائے۔ " جو قومیں رانڈوں کے نکاح پر ناک بھوں چڑھاتی ہیں سمجھ لیں کہ ان کا ایمان سلامت نہیں۔ 9 یعنی لونڈی غلام کو اگر اس لائق سمجھو کہ حقوق زوجیت ادا کرسکیں گے اور نکاح ہوجانے پر مغرور ہو کر تمہاری خدمت نہ چھوڑ بیٹھیں گے تو ان کا بھی نکاح کردو۔ 10 بعض لوگ نکاح میں اس لیے پس و پیش کیا کرتے ہیں کہ نکاح ہوجانے کے بعد بیوی بچوں کا بار کیسے اٹھے گا۔ انھیں سمجھا دیا کہ ایسے موہوم خطرات پر نکاح سے مت رکو۔ روزی تمہاری اور بیوی بچوں کی اللہ کے ہاتھ میں ہے کیا معلوم ہے کہ خدا چاہے تو ان ہی کی قسمت سے تمہارے رزق میں کشایش کر دے۔ نہ مجرد رہنا غنا کا موجب ہے اور نہ نکاح کرنا فقر و افلاس کو مستلزم ہے۔ یہ باتیں حق تعالیٰ کی مشیت پر ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ (وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ ) 9 ۔ التوبہ :28) اور ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی یہ چیز معقول ہے کہ نکاح کرلینے یا ایسا ارادہ کرنے سے آدمی پر بوجھ پڑتا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر کمائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ادھر بیوی اور اولاد ہوجائے تو وہ بلکہ بعض اوقات بیوی کے کنبہ والے بھی کسب معاش میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بہرحال روزی کی تنگی یا وسعت نکاح یا تجرد پر موقوف نہیں۔ پھر یہ خیال نکاح سے مانع کیوں ہو۔ 11 جس کے حق میں مناسب جانتا ہے کشایش کردیتا ہے۔
Top