Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ : اور چاہیے کہ بچے رہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے نِكَاحًا : نکاح حَتّٰى : یہانتک کہ يُغْنِيَهُمُ : انہیں گنی کردے اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَبْتَغُوْنَ : چاہتے ہوں الْكِتٰبَ : مکاتبت مِمَّا : ان میں سے جو مَلَكَتْ : مالک ہوں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) فَكَاتِبُوْهُمْ : تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو اِنْ عَلِمْتُمْ : اگر تم جانو (پاؤ) فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : بہتری وَّاٰتُوْهُمْ : اور تم ان کو دو مِّنْ : سے مَّالِ اللّٰهِ : اللہ کا مال الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا وَلَا تُكْرِهُوْا : اور تم نہ مجبور کرو فَتَيٰتِكُمْ : اپنی کنیزیں عَلَي الْبِغَآءِ : بدکاری پر اِنْ اَرَدْنَ : اگر وہ چاہیں تَحَصُّنًا : پاکدامن رہنا لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم حاصل کرلو عَرَضَ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَنْ : اور جو يُّكْرِھْهُّنَّ : انہیوں مجبور کرے گا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِكْرَاهِهِنَّ : ان کے مجبوری غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور اپنے آپ کو تھامتے رہیں جن کو نہیں ملتا سامان نکاح کا جب تک مقدور دے ان کو اللہ اپنے فضل سے12 اور جو لوگ چاہیں لکھت آزادی کی مال دے کر ان میں سے کہ جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں تو ان کو لکھ کر دے دو اگر سمجھو ان میں کچھ نیکی1 اور دو ان کو اللہ کے مال سے جو اس نے تم کو دیا ہے2 اور نہ زبردستی کرو اپنی چھوکریوں پر بدکاری کے واسطے اگر وہ چاہیں قید سے رہنا کہ تم کمانا چاہو اسباب دنیا کی زندگانی کا3 اور جو کوئی ان پر زبردستی کرے گا تو اللہ ان کی بےبسی کے پیچھے بخشنے والا مہربان ہے4
12 یعنی جن کو فی الحال اتنا بھی مقدور نہیں کہ کسی عورت کو نکاح میں لاسکیں تو جب تک خدا تعالیٰ مقدور دے چاہیے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں۔ اور عفیف رہنے کی کوشش کریں۔ کچھ بعید نہیں کہ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے حق تعالیٰ ان کو غنی کر دے اور نکاح کے بہترین مواقع مہیا فرما دے۔ 1 یعنی کسی کا غلام یا لونڈی کہے یا مزید توثیق کے لیے لکھوانا چاہے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر مال تجھ کو کما دوں تو مجھے آزاد کر دے، تو مالک کو چاہیے کہ قبول کرلے اور لکھ دے (اس معاملہ کو " مکاتبت " کہتے ہیں اور یہ غلاموں کے آزاد کرانے کی ایک خاص صورت ہے) لیکن یہ مالک کو اس وقت قبول کرنا چاہیے جبکہ وہ سمجھے کہ واقعی اس غلام یا لونڈی کے حق میں آزادی بہتر ہوگی۔ قید غلامی سے چھوٹ کر چوری یا بدکاری یا اور طرح کی بدمعاشیاں کرتا نہ پھرے گا۔ اگر یہ اطمینان ہو تو بیشک اس کو آزادی کا موقع دینا چاہیے۔ تاکہ وہ آزاد ہو کر اپنی فلاح کے میدانوں میں خوب ترقی کرسکے اور کہیں نکاح کرنا چاہے تو باختیار خود نکاح کرلے۔ غلامی کی وجہ سے میدان تنگ نہ ہو۔ 2 یہ دولت مند مسلمانوں کو فرمایا کہ ایسی لونڈی غلام کی مالی امداد کرو خواہ زکوٰۃ سے یا عام صدقات و خیرات وغیرہ سے، تاکہ وہ جلدی آزادی حاصل کرسکیں، اور اگر مالک بدل کتابت کا کوئی حصہ معاف کر دے، یہ بھی بڑی امداد ہے (تنبیہ) مصارف زکوٰۃ میں جو وفی الرقاب کا ایک مد رکھا ہے وہ ان ہی غلاموں کے آزاد کرانے کا فنڈ ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بیت المال سے ایسے غلاموں کی امداد ہوتی تھی۔ 3 جاہلیت میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے پاس کئی لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کرا کر روپیہ حاصل کرتا تھا۔ ان میں بعض مسلمان ہوگئیں تو اس فعل شنیع سے انکار کیا۔ اس پر وہ ملعون زدوکوب کرتا تھا، یہ آیت اسی قصہ میں نازل ہوئی۔ اور اسی شان نزول کی رعایت سے مزید تقبیح کے لیے " اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا " اور " لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا " کی قیود بڑھائی ہیں ورنہ لونڈیوں سے بدکاری کرانا بہرحال حرام ہے اور اس طرح جو کمائی کریں سب ناپاک ہے۔ خواہ لونڈیاں یہ کام رضاء ورغبت سے کریں یا زبردستی اور ناخوشی سے۔ ہاں اگر لونڈیاں نہ چاہیں اور یہ محض دنیا کے حقیر فائدے کے لیے زبردستی مجبور کرے تو اور بھی زیادہ وبال اور انتہائی وقاحت اور بےشرمی کی دلیل ہے۔ 4 یعنی زنا ایسی بری چیز ہے جو جبرواکراہ کے بعد بھی بری رہتی ہے لیکن حق تعالیٰ محض اپنی رحمت سے " مکرہہ " کی بےبسی اور بیچارگی کو دیکھ کر درگزر فرماتا ہے۔ اس صورت میں مکرہ (زبرستی کرنے والے) پر سخت عذاب ہوگا اور مکرہ پر (جس پر زبردستی کی گئی) رحم کیا جائے گا۔
Top