Aasan Quran - Al-Baqara : 240
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا١ۖۚ وَّصِیَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ١ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُتَوَفَّوْنَ : وفات پاجائیں مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑ جائیں اَزْوَاجًا : بیویاں وَّصِيَّةً : وصیت لِّاَزْوَاجِهِمْ : اپنی بیویوں کے لیے مَّتَاعًا : نان نفقہ اِلَى : تک الْحَوْلِ : ایک سال غَيْرَ : بغیر اِخْرَاجٍ : نکالے فَاِنْ : پھر اگر خَرَجْنَ : وہ نکل جائیں فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْ : میں مَا فَعَلْنَ : جو وہ کریں فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں مِنْ : سے مَّعْرُوْفٍ : دستور وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جایا کریں کہ ایک سال تک وہ (ترکے سے نفقہ وصول کرنے کا) فائدہ اٹھائیں گی اور ان کو (شوہر کے گھر سے) نکالا نہیں جائے گا (161) ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو اپنے حق میں قاعدے کے مطابق وہ جو کچھ بھی کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔
161: آخر میں طلاق کے جو مسائل چل رہے تھے ان کا ایک تکملہ ضمنی طور پر بیان ہوا ہے جو مطلقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق ہے، زمانہ جاہلیت میں بیوہ عورت کی عدت ایک سال ہوتی تھی ؛ لیکن اسلام نے پیچھے آیت نمبر : 234 میں عدت کی مدت گھٹا کر چار مہینے دس دن مقرر کردی، جس وقت زیر نظر آیت نازل ہوئی ہے اس وقت تک میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور جیسا کے اوپر آیت نمبر : 180 میں گزرا لوگوں پر یہ واجب تھا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے حق میں وصیت کیا کریں کہ ان کے ترکے سے کس کو کتنا دیا جائے، لہذا اس آیت میں اسی اصول کے تحت یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگرچہ بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے، لیکن اس کے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے حق میں یہ وصیت کرجائے کہ اسے سال بھر تک اس کے ترکے سے نفقہ بھی دیا جائے اور اس کے گھر میں رہائش بھی فراہم کی جائے، البتہ وہ خود اپنا یہ حق چھوڑدے اور چار مہینے دس دن کے بعد شوہر کے گھر سے چلی جائے تو کچھ حرج نہیں، ہاں چار مہینے دس دن سے پہلے اس کے لئے بھی شوہر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، اگلے جملے میں جو کہا گیا ہے کہ ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو اپنے حق میں قاعدے کے مطابق وہ جو کچھ بھی کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، اس میں قاعدے سے مراد یہی ہے کہ وہ عدت پوری کرنے کے بعد نکلیں، پہلے نہیں، لیکن یہ سارا حکم میراث کے احکام آنے سے پہلے تھا، جب سورة نساء میں میراث کے احکام آگئے اور بیوی کا حصہ ترکے میں مقرر کردیا گیا تو سال بھر کے نفقے اور رہائش کا یہ حق ختم ہوگیا۔
Top