Aasan Quran - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے (65) تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے، اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے۔
65:: بعض یہودیوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا تھا کہ آپ کہ پاس جبرئیل ؑ وحی لاتے ہیں وہ چونکہ ہمارے لئے بڑے سخت احکام لایا کرتے تھے اس لئے ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اگر کوئی اور فرشتہ وحی لارہا ہو تو ہم کچھ غور کرسکتے تھے، یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیل ؑ تو محض پیغام پہنچانے والے ہیں، جو کچھ لاتے ہیں اللہ کے حکم سے لاتے ہیں، لہذا نہ ان سے دشمنی کی کوئی معقول وجہ ہے اور نہ اس کی و جہ سے اللہ کے کلام کو رد کرنے کا کوئی معنی ہے۔
Top