Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 47
اَمْ تَسْئَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ١ۖۗ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : کیا تم ان سے مانگتے ہو خَرْجًا : اجر فَخَرَاجُ : تو اجر رَبِّكَ : تمہارا رب خَيْرٌ : بہتر وَّهُوَ : اور وہ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : بہترین روزی دہندہ ہے
اور اگر حق ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتا تو آسمان و زمین اور جوان میں ہیں سب تباہ ہوجاتے ہیں۔ بلکہ ہم تو ان کے پاس ان کے حصہ کی یاد دہانی لائے ہیں تو وہ اپنی یاد دہانی سے اعراض کر رہے ہیں
خواہشات نفس اور حق کے درمیان بعد المشرقین ہے اب یہ خواہشات نفس اور حق دونوں کے اختلاف مزاج کو واضح فرمایا ہے کہ ان دونوں کے درمیان بعد المشرقین ہے۔ خواہشات نفس کے مطالبے کچھ اور ہیں، حق کے تقاضے، ان سے بالکل الگ کچھ اور ہیں۔ اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے پیچھے چلنے لگے، جیسا کہ یہ چاہتے ہیں کہ قرآن اور پیغمبر کی باتیں ان کی خواہشوں کے مطابق ہوں تب یہ ان کو مانیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ اس پوری کائنات کی تباہی ہے۔ اس لئے کہ یہ خبر کی جگہ شر، عدل کی جگہ ظلم، نیکی کی جگہ بدی، امانت کی جگہ خیانت اور اس سے بھڑ کر یہ کہ توحید کی جگہ شرک اور قیامت کے بجائے انکار قیامت کے علم بردار ہیں۔ اگر یہ تمام اقدار ان کی خواہشوں کے مطابق تلپٹ ہوجائیں تو اس دنیا کا سارا اخلاقی نظام درہم برہم ہوجائے اور اگر اس کے اندر شرک کے وجود کو تسلیم کرلیا جائے تو شرک کے ساتھ تو اس کائنات کا نظام ایک دن بھی باقی نہ رہ سکتا۔ اس حقیقت کو آگے اسی سورة میں یوں واضح فرمایا ہے۔ ما اتخذ اللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خالق ولعلا بعضھم علی بعض (91) (اللہ نے نہ تو اپنے لئے کوئی اولاد بنائی اور نہ کوئی معبود اس کے ساتھ شریک ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اس کو لے کر چل دیتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کردیتا۔) مطلب یہ ہے کہ یہ تولق تو حق کو اپنی خواہشوں کے پیچھے چلانا چاہتے ہیں اور اس دنیا کی نجات و فلاح حق کے پیچھے چلنے میں ہے۔ خالق کائنات اپنی دنیا کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ اب یہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ حق کے پیچھے چل کر زندگی چاہتے ہیں یا باطل کے ساھ چمٹے رہ کر موت اور ہلاکت ! اگر زندگی مطلوب ہے تو یہ گھونٹ حلق سے اتارنے پڑیں گے، خواہ کڑوے لگیں یا میٹھے۔ اس سے الگ زندگی کی کوئی اور راہ نہیں ہے۔ یاد دہانی سے اعراض کرنے والوں کا انجام بل اتینھم بذکر ھم فھم عن ذکر ھم معرضون یہ دوسرے الفاظ میں وہی تنبیہ ہے جو اوپر ام لم یعرفوا رسولھم کے الفاظ میں گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اس قرآن کو کسی افسانہ گو کی افاسنہ گوئی سمجھے ہیں تو بہت غلط سمجھے ہیں۔ یہ ان کے حصہ کی وہ یاد دہانی ہے جو اتمام حجت کے لئے ہم نے ان کی طرف بھیجی ہے۔ اگر اس یاد دہانی سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو یاد رکھیں کہ ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو ان سے پہلے خدا کی یاد دہانی کی ناقدری کرنے والی قوموں کا ہوچکا ہے۔ اوپر ہم اس سنت الٰہی کا حوالہ دے چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنے رسول بھیجے اور اس رسولوں کے ذریعہ سے ان قوموں کو یاد دہانی کی۔ جس قوم نے اس یاد دہانی کی قدر کی اس نے فالح پائی، جس نے اس کی قدر نہ کی وہ فنا کردی گئی۔ یہاں اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ کر کے آگاہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ اس یاد دہانی سے اعراض کئے جا رہے ہیں اور اس کے عواقب سے بیخبر ہیں ! نبی کا زادوں راحلہ اس کے ساتھ ہوتا ہے
Top