Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 53
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
آپ کہہ دیجئے (اے پیغمبر ﷺ میری طرف سے ) کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے زیادتی کی ہے اپنی جانوں پر نہ مایوس ہوں اللہ کی رحمت سے ، بیشک اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے سب گناہ بیشک وہ بہت بخشش کرنے بالا اور نہایت مہربان ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں اور مشرکوں کی تردید فرمائی اور پھر عام انسانوں کی ناشکری کا حال اس طرح بیان فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے ، آرام و راحت اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو اسے اپنی عقل ، سمجھ ، ہنر اور تدبیر کا کمال سمجھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو ہماری طرف سے آزمائش ہوتی ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور ناکام ہوجاتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے مجرمین کی سزا کا ذکر فرمایا اور اپنی قدرت اور تصرف کا تذکرہ فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی خالصتا اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے تحت ہوتی ہے ، نیز فرمایا کہ مذکورہ تمام باتوں میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لیے واضح نشانیاں موجود ہیں ۔ (مغفرت عامہ کا اعلان) اسلام کے ابتدائی دور میں جب لوگ کفر اور شرک کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے تھے تو بعض لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ہم ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرلیں اور نیک اعمال بھی شروع کردیں تو ہمارے سابق گناہوں کی سزا بھگتنا ہے تو اسلام لانے کا کیا فائدہ ؟ چناچہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہی سوال کیا کہ کیا ہمارے وہ گنا معاف ہوجائیں گے جن کا ارتکاب ہم نے کفر وشرک کی حالت میں کیا ؟ اس سوال کا جواب پہلے سورة الفرقان میں بھی گزر چکا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے سابقہ گناہوں سے توبہ کرلی ، ایمان لے آئے اور اچھے اعمال انجام دینے لگے (آیت) ” فاولئک یبدل اللہ سیاتھم حسنت ، وکان اللہ غفورا رحیم “۔ (آیت : 70) ایسے لوگوں کے گناہ اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے ، اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی عفو عامہ کا ذکر دوسرے انداز میں کیا ہے ارشاد ہوتا ہے ” قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ میری طرف سے میرے بندوں میں اعلان کردیں (آیت) ” یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “۔ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے یعنی کفر ، شرک یا معاصی کا ارتکاب کیا ہے ، کوئی زندیق بن گیا ہے ، مرتد ہوگیا ہے ، یہودی ، نصرانی یا بدعتی بن گیا ہے ، فاسق فاجر ہوگیا ہے ، غرضیکہ کوئی بھی جرم کیا ہے ، ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے نسخہ شفا نازل فرمایا ہے (آیت) ” لاتقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کیونکہ (آیت) ” ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا “۔ اللہ تعالیٰ سب کے سب گناہ معاف کر دیگا ، (آیت) ” انہ ھو الغفور الرحیم “۔ بیشک وہ بہت بخشش کرنے والا اور از حد مہربان ہے ، یہ عام لوگوں کے لیے تسلی کا مضمون ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بیحد وبیشمار ہے ، اور اس کی معافی اور درگزر کی شان بہت رفیع ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے گناہ کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ (شرائط معافی) اور اس کے لیے صرف دو شرائط کی پابندی لگائی ہے جو شخص وہ شرائط پوری کر دے گا ، اس کے لیے اللہ کی بخشش ورحمت موجود ہے ، فرمایا پہلی شرط یہ ہے (آیت) ” وانیبوا الی ربکم “۔ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو ، مطلب یہ ہے کہ پہلے جن جرائم کا ارتکاب کر رہے تھے ان کو یکدم ترک کر دو اور ان سے توبہ کرو کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے ، اور دوسری شرط یہ ہے (آیت) ” واسلموا لہ “۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرلو ، آئندہ کے لیے اس کے احکام سے انحراف نہ کرو ، ان دو شرائط کی تکمیل موت کی حالت طاری ہونے سے پہلے پہلے ضروری ہے حدیث (1) (ترمذی ص 500) میں آتا ہے ” توبۃ العبد مالم یغرغر “۔ بندے کی توبہ کی قبولیت کا وقت موت کا غرغرہ طاری ہونے سے پہلے پہلے ہے ، جب موت کے فرشتے نظر آنے لگیں اور انسان کا وقت قریب آجائے تو پھر توبہ کا درازہ بند ہوجاتا ہے لہذا اس وقت سے پہلے پہلے توبہ کرنے اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کو اختیار کرلے تو اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اپنے بندے کا بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کر دے گا ۔ مفسرین اور محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اگر حقوق اللہ کا تعلق ایسے حقوق سے ہے جن کی قضا ہو سکتی ہے تو انہیں قضا کرنے کی کوشش کرے اور اگر قضا نہیں ہو سکتے تو ویسے ہی استغفار کرے اور پھر آئندہ کے لیے اطاعت گزار بن جائے ، جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے تو ان کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک بندہ معاف نہ کر دے ایسے حقوق یا تو ادا کیے جائیں یا پھر متعلقہ اشخاص سے معاف کرایا جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی کی درخواست پیش کی جائے ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان دو شرائط کے ساتھ معافی عامہ کے قانون سے مطلع فرمایا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ یہ رعایت (آیت) ” من قبل ان یاتیکم العذاب “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی آمد سے قبل تک ہے ، اگر ایمان لانے اور توبہ کرنے سے پہلے عذاب آگیا تو پھر بھی توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوگی (آیت) ” ثم لا تنصرون “۔ پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جاسکے گی اور تمہیں اپنی کارگزاری کی سزا بھگتنا ہوگی ۔ (قرآنی تعلیمات کا اتباع) فرمایا (آیت) ” واتبعوا احسن ما انزل الیکم من ربکم من قبل ان یاتیکم العذاب بغتۃ “۔ اور اس بہتر بات کا اتباع کرو جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے قبل اس کے کہ اچانک تمہاری پاس عذاب آجائے (آیت) ” وانتم لا تشعرون “۔ اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہترین نازل ہونے والی چیز قرآن کریم ہے جس کے اتباع کا حکم دیا جا رہا ہے ، آیت ، 23 میں اسے احسن الحدیث بھی کہا گیا ہے ، اور یہ ایسا قانون اور تعلیم ہے کہ اس سے بہتر کوئی پروگرام نہیں ہے اور اچانک عذاب آجانے کا مطلب یہ ہے کہ اچانک تمہاری موت واقع ہوجائے یا اجتماعی طور پر تمہاری موت واقع ہوجائے یا اجتماعی طور پر قیامت برپا ہوجائے لہذا اللہ کے اس دستور کا اتباع اختیار کرلو ، یہ باتیں اس لیے سمجھا دی گئی ہیں کہ جس طرح کلیتا گناہ سے بےنیاز اور بخشش کے لیے پر امید ہونا کفر ہے اسی طرح اللہ کی رحمت سے بالکل ناامید ہوجانا بھی کفر ہے سورة یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حسرت سے یعقوب (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا ہے (آیت) ” ولا تایئسوا من روح اللہ ، انہ لا یایئس من روح اللہ الا القوم الکفرون “۔ (آیت : 87) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو کیونکہ مایوسی تو کافروں کا شیوہ ہے مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرتا رہتا ہے اور اس کی رحمت و بخشش کے لیے پر امید ہوتا ہے عام مقولہ بھی ہے ” الایمان بین الخوف والرجائ “۔ یعنی ایمان کا صحیح مقام خوف اور امید کے درمیان ہے ، کسی ایک طرف کو جھک جانا درست نہیں ۔ (گزشتہ زندگی پر حسرت) فرمایا ان حقائق کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے (آیت) ” ان تقول نفس “۔ کہ کل کو کوئی نفس یہ نہ کہہ دے (آیت) ” یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ “۔ افسوس کہ میں نے اللہ کے سامنے کو آسی کی ہے (آیت) ” وان کنت لمن الساخرین “۔ اور میں تو ٹھٹا کرنے والوں میں تھا میں دنیا میں خواہشات کی پوجا کرتا تھا اور دوسروں کی دیکھا دیکھی حجاب رسم میں مبتلا تھا افسوس میں نے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور دین کے حقائق کی طرف توجہ ہی نہ کہ اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا (آیت) ” اوتقول لو ان اللہ ھدنی لکنت من المتقین “۔ یا کوئی یہ کہہ دے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں متقیوں میں سے ہوتا ، اللہ نے ایسے شخص کی حسرت کا حال بیان کیا ہے وگرنہ اللہ نے تو ہدایت کے سارے سامان مہیا کر دے تھے اپنے نبی بھیجے کتابیں نازل فرمائیں ان کے پیچھے مبلغ بھیجے جنہوں نے ہدایت کے راستے کو واضح کیا پھر جگہ جگہ دلائل قدرت بکھیر دیے جنہیں دیکھ کر اور جن پر غور فکر کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچان سکتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بھر اس ہدایت کو اختیار کرنے کہ مہلت بھی دی اس کے باوجود اگر کوئی شخص ہدایت کو قبول نہیں کرتا تو پھر اس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہے اور اسے قیامت والے دن افسوس ہی کرنا پڑے گا مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے یہ تمام چیزیں اس لیے بھی واضح کردیں (آیت) ” او تقول حین تری العذاب “۔ کہ کوئی شخص عذاب الہی کو آتا ہوادیکھ کر یہ بھی نہ کہہ دے (آیت) ” لوان لی کرۃ فاکون من المحسنین “۔ کاش کہ میرے لیے دنیا میں پلٹ کر جانا ہوتا تو میں نیکی کرنے والوں میں ہوتا ، مگر اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو شخص ایک دفعہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے اسے دوبارہ واپس آنے کا موقع نہیں دیا جاتا بلکہ اسے اپنی اسی زندگی کے اعمال وکردار کا ہی بھگتان کرنا ہوتا ہے لہذا مجھے ایسے شخص کو بےوقت افسوس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔ (تکذیب کا انجام) آگے اللہ نے اتمام حجت کے طور پر یاد دلا ” بلی “ کیوں نہیں ۔ (آیت) ” قد جآء تک ایتی فکذبت بھا “۔ تحقیق میری آیتیں تیرے پاس آ چکی ہیں مگر تو نے ان کو جھٹلا دیا یعنی قبول نہ کیا آیات سے مراد معجزات احکام اور دلائل ہیں ، اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی میں یہ سب کچھ تمہیں مہیا کردیا ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بیشمار دلائل ظاہر کیے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے معجزات اور حلال و حرام اور جائز ناجائز کے احکام پیش کیے مگر تو نے کسی کو تسلیم نہ کیا اور تیرا یہ جھٹلانا اس وجہ سے تھا (آیت) ” واستکبرت “ کہ تو نے غرور وتکبر کیا نبیوں کی بات کو نہ مانا بلکہ اپنی عقل کو بڑا سمجھتا رہا اور اپنے مال و دولت پر اتراتا رہا جس کے نتیجے میں (آیت) ” وکنت من الکفرین “۔ تو کفر کرنے والوں میں شامل ہوگیا اور تو نے مذکورہ تمام چیزوں کا انکار کردیا ۔ فرمایا (آیت) ” ویوم القیمۃ تری الذین کذبوا علی اللہ وجوھھم مسودۃ “۔ قیامت والے دن تو اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھے گا کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ، ان پر کفر ، شرک اور معاصی کی تاریکی چھائی ہوگی ، سورة عبس میں ہے (آیت) ” ووجوہ یومئذ علیھا غبرۃ ، ترھقہا قترۃ “۔ اس دن بعض چہروں پر گردوغبار اور سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی ، دور سے پہچانے جائیں گے کہ یہ کفر ، شرک اور معاصی والے لوگ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اب دیکھ لو (آیت) ” الیس فی جھنم مثوی للمتکبرین “۔ کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ یقینا جہنم رسید ہوں گے ۔ (متقین کے لیے اجر) مکذبین کے بالمقابل متقین کے متعلق فرمایا (آیت) ” وینجی اللہ الذین اتقوا بمفازتھم “۔ اور بچا لے گا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہوں نے تقوی کا راستہ اختیار کیا ان کی کامیابی کی جگہ میں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ کفر ، شرک بدعقیدگی اور کبائر وصغائر سے بچنے کا نام تقوی ہے ، اللہ نے مومنوں کے کی شان میں یہ بھی فرمایا ہے (آیت) ” والحفظون لحدود اللہ “۔ (التوبۃ : 110) ان ایمان والوں کو کامیابی کی بشارت دے دو جو اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) بھی تقوی کا معنی محافظت پر حدود شرع ‘ ہی کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں کی حفاظت کرنا ہی تقوی ہے مفازت کا معنی کامیابی کی جگہ ہے جو یقینا اللہ کی رحمت کا مقام جنت ہی ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو حظیرۃ القدس اور جنت تک پہنچائے گا اس کے علاوہ (آیت) ” لایمسھم السوء “۔ ان کو کسی قسم کی برائی نہیں پہنچے گی ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مقام میں کوئی دکھ تکلیف جسمانی یا روحانی نہیں ہوگی (آیت) ” ولا ھم یحزنون “۔ اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ظاہر ہے کہ جب کوئی ظاہری باطنی تکلیف نہیں ہوگی تو غم بھی نہیں ہوگا ، ان کی کوشش ٹھکانے لگ چکی ہوگی ، اور وہ ہمیشہ کی پر آسائش زندگی گزاریں گے ، جس میں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں آئے گی ۔ ّ ( ۔۔۔۔۔۔ ) پھر یاد دلایا (آیت) ” اللہ خالق کل شیء “۔ اللہ ہر چیز کا خالق ہے وہی مدبر اور متصرف ہے (آیت) ” وھو علی کل شیء وکیل “۔ اور وہی ہر چیز کا کارساز یعنی ذمہ دار ہے ، جب ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے تو پھر اس کی ذات ، صفات ، اور عبادت میں کسی کو شریک بھی نہیں بنانا چاہئے ، (آیت) ” لہ مقالید السموت والارض “۔ زمین وآسمان کی چابیاں بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں یعنی تمام کائنات پر اسی کا کنٹرول ہے ، لہذا اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے تمام معاملات اسی کے سپرد کردینے چاہئے اور اس کے علاوہ کسی دوسری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کیوں ؟ (آیت) ” والذین کفروا بایت اللہ “۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات یعنی معجزات دلائل اور احکام کا انکار کیا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اور اس کے پروگرام کی حقانیت کو تسلیم نہ کیا اور نہ اس پر عمل پیرا ہوئے فرمایا (آیت) ” اولئک ھم الخسرون “۔ یہی لوگ حقیقی خسارے والے ہیں جن کے متعلق اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور رہیں گے ، بلکہ اس کے غیظ وغضب کا شکار بھی ہوں گے اور یہ سب سے بڑا نقصان ہے ۔
Top