Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 13
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ
نَبِّئْ : خبر دیدو عِبَادِيْٓ : میرے بندے اَنِّىْٓ : کہ بیشک اَنَا : میں الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
الم
آیت نمبر : 1 تا 2 : اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الم، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ یہ بالاجماع مدنی سورت ہے، نقاش نے بیان کیا ہے کہ تورات میں اس کا نام طیبہ ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 396 دارالکتب العلمیہ) اور حسن، عمرو بن عبید، عاصم بن ابی النجود اور ابو جعفر الرواسی نے ” الم ‘۔ اللہ “ الف وصل کو قطع کے ساتھ پڑھا ہے، اس تقدیر پر کہ الم پر وقف ہے جیسا کہ وہ اسماء اعداد مثلا واحد، اثنان ثلاثۃ اور اربعۃ وغیرہ میں وقف مقدر کرتے ہیں، حالانکہ وہ انہیں اکٹھا اور ملا کر پڑھتے ہیں۔ اخفش سعید نے کہا ہے : الم، اللہ التقاء ساکنین کی وجہ سے میم کو کسرہ کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے، زجاج نے کہا ہے : یہ غلطی ہے، ثقیل ہونے کی وجہ سے عرب اس طرح نہیں کہتے، نحاس نے کہا ہے : پہلی قرات ہی قرات عامہ ہے اور متقدمین علمائے نحو نے اس میں گفتگو کی ہے۔ پس سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ اجتماع ساکنین کی وجہ سے میم کو فتحہ دیا جائے اور انہوں نے علمائے نحو نے اس میں گفتگو کی ہے، پس سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ اجتماع ساکنین کی وجہ سے میم کو فتح دیا جائے اور انہوں نے اس کے لئے فتحہ کو اختیار کیا ہے تاکہ کسرہ اور یا اور اس کے ماقبل کے کسرہ کے درمیان اسے جمع نہ کردیا جائے۔ اور کسائی نے کہا ہے : حروف تہجی کے ساتھ الف وصل مل جائے اور تو الف وصل کو حذف کر دے تو اسے الف کی حرکت کے ساتھ حرکت دے گا اور یہ کہے گا : (آیت) ” الم اللہ، والم اذکر، والم اقتربت۔ اور امام فراء نے کہا ہے : الم، اللہ کی اصل وہی ہے جسے رواسی نے پڑھا ہے پھر ہمزہ کی حرکت میم پر ڈال دی گئی، حضرت عمربن خطاب ؓ نے ’ الحی القیام “۔ پڑھا ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 397 دارالکتب العلمیہ) اور خارجہ نے کہا ہے : حضرت عبداللہ ؓ کے مصحف میں ” الحی القیم “ ہے وہ حروف جو سورتوں کے اوائل میں آئے ہیں ان کے بارے علماء کی آراء سورة البقرہ کے شروع میں بیان ہوچکی ہیں۔ اس حیثیت سے اس سورت میں (آیت) ” الم، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ ایسا جملہ آیا ہے جو قائم بنفسہ ہے۔ اور اس میں وہ تمام اقوال متصور ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (2) امام کسائی نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور سورة آل عمران شروع کی اور پڑھا (آیت) ” الم، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ اور پہلی رکعت میں سو آیات تلاوت کیں اور دوسری رکعت میں بقیہ سو آیات پڑھیں (1) (سنن نسائی کتاب الافتتاح، جلد 1، صفحہ 154) ہمارے علماء نے کہا ہے : دو رکعتوں میں ایک سورت نہیں پڑھی جائے گی اور گر کسی نے ایسا کیا تو اس کے لئے جائز ہے، اور امام مالک نے المجوعہ میں کہا ہے : اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ (مہتم) بالشان نہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس میں صحیح یہ ہے کہ یہ جائز ہے حضور نبی مکرم ﷺ نے نماز مغرب میں سورة الاعراف تلاوت فرمائی اور اسے دو رکعتوں میں تقسیم کردیا (2) (ایضا) اسے نسائی نے بھی بیان کیا ہے اور ابو محمد عبدالحق نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) اس سورت کی فضیلت میں کئی آثار واخبار موجود ہیں اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ یہ سورت سانپوں سے امان ہے، اور فقراء اور محتاجوں کے لئے یہ خزانہ ہے۔ اور یہ آخرت میں اپنے قاری کی جانب سے جھگڑا کرے گی اور رات کے وقت جس نے اس کی آخری آیات پڑھیں اس کے لئے ساری رات قیام کرنے کی طرح کا ثواب لکھا جائے گا۔ وغیرذالک۔ داری ابومحمد نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے کہ ہمیں ابو عبید قاسم بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے عبید اللہ اشجعی نے بتایا، انہوں نے کہا مجھے مسعر نے بیان کیا، انہوں نے کہا : مجھے جابر نے اس حالت میں واقع ہونے سے پہلے بتایا جس میں وہ واقع ہوئے کہ حضرت شعبی (رح) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ نے کہا : فقراء اور محتاجوں کے لئے سورة آل عمران کتنا بہترین اور اچھا خزانہ ہے جو رات کے آخری حصہ میں اس کے ساتھ قیام کرتا ہے۔ (3) (فضائل القرآن سورالقرآن وآیاتہ صفحہ 238) (یعنی نوافل میں اس اس کی تلاوت کرتا ہے) محمد بن سعید نے، عبدالسلام نے جریری سے انہوں نے ابی السلیل سے بیان کیا ہے : ایک آدمی سیع جنگل میں پہنچا اور اس نے وادی مجنہ میں پناہ لی اور یہ وہ وادی ہے جس میں جو بھی چلتا تھا اسے سانپ ڈس لیتے تھے اور اس وادی کے کنارے پر دو راہب تھے، پس جب شام ہوئی تو اس ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا : قسم بخدا یہ آدمی ہلاک ہوگیا، راوی کا بیان ہیں۔ پس اس آدمی نے سورة آل عمران پڑھنی شروع کردی، دونوں راہبوں نے کہا : اس نے سورة طیبہ پڑھی ہے شاید نجات پا جائے گا، راوی کہتا ہے پس اس آدمی نے صحیح سالم صبح کی، اور مکحول سے روایت ہے : جس نے جمعہ کے دن سورة آل عمران پڑھی رات تک ملائکہ اس کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ اور حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے : جس نے رات کے وقت سورة آل عمران کی آخری آیات پڑھیں تو اس کے لئے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا گیا اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے۔ اور مسلم نے نواس بن سمعان کلابی سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” اسے قیامت کے دن قرآن کے ساتھ اور ان اہل قرآن ساتھ لایا جائے گا جو اس کے مطابق عمل کرتے رہے اور اس کے آگے سورة البقرہ اور آل عمران ہوں گی، اور رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں ابھی تک نہیں بھولا فرمایا : گویا کہ یہ دونوں دو بال یا دو سیاہ سیائے ہیں جن کے درمیان روشنی اور چمک ہے یا گویا یہ دونوں پرندوں کا گروہ ہیں جو صفیں باندھے ہوئے ہیں یہ دونوں اپنے اپنے قاری کی جانب سے جھگڑیں گی۔ (1) (صحیح مسلم، فضائل القرآن، جلد 1، صفحہ 270) مسلم نے ہی حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” قرآن کریم پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفیع بن کر آئے گا تم زھراوین (یعنی) سورة البقرہ اور سورة آل عمران پڑھا کرو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس حال میں آئیں گی گویا کہ یہ دو بادل میں یا گویا کہ یہ دو سائے ہیں یا گویا کہ یہ دونوں پرندوں کے غول ہیں جو صفیں باندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے پڑھنے والوں کی جانب سے جھگڑا کریں گی، سورة البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے لے لینا برکت ہے اور اسے چھوڑنا حسرت ہے اور جادوگر اس کی استطاعت نہیں رکھیں گے “۔ معاویہ نے کہا ہے : مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ البطلہ سے مراد جادوگر ہیں (2) (صحیح مسلم، فضائل القرآن، جلد 1، صفحہ 270) مسئلہ نمبر : (4) سورة البقرۃ اور آل عمران کا نام الزھراوین رکھا گیا ہے اس بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں : (1) بلاشبہ یہ دونوں روشن کرنے والیاں ہیں، (زھراوین) الزھر اور الزھرۃ سے بنایا گیا ہے چونکہ ان کی ہدایت اور راہنمائی کی وجہ سے ان کے قاری کے لئے انکے انوار یعنی معانی ظاہر اور روشن ہوجاتے ہیں، (اس لئے ان کا نام زھراوین رکھا گیا) ّ (2) پھر اس لئے کہ ان کی قرات پر قیامت کے دن نور تام مرتب ہوگا اور یہی دوسرا قول ہے۔ (3) ان دونوں کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کو متضمن ہونے میں شریک ہیں، جیسا کہ ابو داؤد وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے، حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دونوں آیتوں میں ہے (آیت) ” والھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم “ اور وہ آیت جو آل عمران میں ہے (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 210، ایضا، باب الدعاء حدیث نمبر 1278، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے۔ الغمام کا معنی ہے وہ بادل جو اکٹھا اور گھنا ہو۔ اور الغیایۃ کا معنی بھی یہی ہے جب کہ وہ سر کے قریب ہو، اور یہی ظلۃ بھی ہے اور روایت کا معنی یہ ہے کہ ان دونوں کی تلاوت کرنے والا ان کے ثواب کے سائے میں ہوگا جیسا کہ ایک آدمی اپنے صدقہ کے سائے میں آئے گا۔ “ اور قولہ تحاجان کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے ملائکہ پیدا فرمائے گا جو ان کے ثواب کے عوض پڑھنے والے کی جانب سے جھگڑا کریں گے۔ (4) (کنز العمال جلد 6، صفحہ 371، حدیث نمبر 160109) جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے۔ ” بلاشبہ جس نے (آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو “۔ الآیہ پڑھی اللہ تعالیٰ ستر فرشتے پیدا فرما دے گا وہ اس کے لئے یوم قیامت تک استغفار کرتے رہیں گے۔ “۔ اور قولہ : بینھما شرقی اسے را کے سکون اور اس کے فتحہ کے ساتھ مقید کیا گیا ہے اور یہ روشنی پر تنبیہ ہے، کیونکہ جب فرمایا : سود اوان اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ دونوں تاریک ہیں تو اپنے قول بینھما شرق سے اس کی نفی کی گئی، یعنی یہ دونوں اپنی کثافت کے سبب ان کے درمیان جو ان کے نیچے ہوں گے اور سورج کی حرارت اور تپش کی شدت کے درمیان حائل ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) اس سورت کا ابتدائی حصہ وفد نجران کے سبب نازل ہوا اس بارے میں محمد بن اسحاق نے محمد بن جعفر بن زبیر سے نقل کیا ہے : وہ نصاری تھے جو ساٹھ سواروں پر مشتمل وفد بن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ طیبہ حاضر ہوئے ان کے اشراف میں سے چودہ افراد پت تھا) ایک عاقب تھا جو قوم کا امیر اور ان میں صاحب رائے تھا، اور اس کا نام عبدالمسیح تھا۔ اور ایک ان کا معاون و مددگار سردار تھا اور انہیں اکٹھا کرنے والا تھا اس کا نام الایھم تھا، اور ابو حارثہ بن علقمہ بکر بن وائل میں سے ایک تھا وہ ان کا بشپ اور ان کا عالم تھا، وہ عصر کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، وہ یمنی کپڑوں کے جبے اور چادریں پہنے ہوئے تھے تو حضور نبی کریم ﷺ کے اصحاب نے کہا : ہم نے ان کی مثل جما و جلال والا کوئی وفد نہیں دیکھا، ان کی نماز کا وقت ہوا، وہ اٹھے اور حضور نبی مکرم ﷺ کی مسجد میں مشرق کی طرف انہوں نے نماز پڑھی، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم انہیں چھوڑ دو “ پھر وہ کئی دنوں تک وہاں ٹھہرے رہے اور رسول اللہ ﷺ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مناظرہ کرتے رہے اور وہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ ابن اللہ (یعنی اللہ تعالیٰ کے بیٹے) تھے، علاوہ ازیں وہ اضطراب میں ڈالنے والی شنیع باتیں کرتے رہے اور رسول اللہ ﷺ برائین ساطعہ کے ساتھ ان کا رد کرتے رہے اور ان کی کوئی مدد نہ کی گئی اور انہیں کے بارے میں اس سورت کی ابتدائی تقریبا اسی آیات نازل ہوئیں، یہاں تک کہ ان کا معاملہ اس حد تک جا پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دے دی، جیسا کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں مذکورہ ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 396 دارالکتب العلمیہ)
Top