Ahkam-ul-Quran - An-Nahl : 106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
مَنْ : جو كَفَرَ : منکر ہوا بِاللّٰهِ : اللہ کا مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِيْمَانِهٖٓ : اس کے ایمان اِلَّا : سوائے مَنْ : جو اُكْرِهَ : مجبور کیا گیا وَقَلْبُهٗ : جبکہ اس کا دل مُطْمَئِنٌّۢ : مطمئن بِالْاِيْمَانِ : ایمان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّنْ : جو شَرَحَ : کشادہ کرے بِالْكُفْرِ : کفر کے لیے صَدْرًا : سینہ فَعَلَيْهِمْ : تو ان پر غَضَبٌ : غضب مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ عَظِيْمٌ : بڑا عذاب
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کیساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔
جبر و اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر کہنا جائز ہے قول باری ہے (من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تب توخیر) معمر نے عبدالکریم سے، انہوں نے ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر سے اس آیت کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ مشرکین نے حضرت عمار اور ان کے ساتھ مسلمانوں کے ایک گروہ کو پکڑ لیا اور پھر انہیں سخت اذیتیں پہنچانی شروع کردیں یہاں تک کہ مشرکین ان مسلمانوں سے انکار اسلام اور اظہار شرک کا مقصد حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین مکہ غریب اور بےآسرا مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتے تھے۔ حضرت عمار نے حضور ﷺ سے اپنی تکلیف بیان کی آپ نے ان سے پوچھا ” تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے ؟ “ حضرت عمار نے جواب دیا۔” میرا دل ایمان پر مطمئن ہے۔ “ اس پر آپ نے فرمایا :” اگر مشرکین تمہیں پھر اذیتیں دیں تو تم لوٹ جائو۔ “ یعنی اپنی زبا ن سے کلمہ کفر نکال دو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جبر اور اکراہ کی حالت میں زبان سے کلمہ کفر نکالنے کے جواز کی بنیاد یہ آیت اور یہ روایت ہے۔ اکراہ کی صورت میں اس کی اباحت ہوجاتی ہے۔ اکراہ کی صورت یہ ہے کہ کسی انسان کو حکم عدولی کی بنا پر اپنی جان چلی جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجائے ۔ ایسی حالت میں اس کے لئے کلمہ کفر کا اظہار مباح ہوگا اور جب اس کے دل میں اس کفر کا خیال گزرے گا تو وہ کلمہ کفر کے ذریعے اپنا خیال کفر کے سوا کسی اور بات کی طرف موڑ دے گا لیکن اگر اس نے کفر کا خیال آتے ہی اپنا خیال کسی اور طرف نہیں موڑا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ امام محمد بن الحسن نے فرمایا :” اگر کافر کسی مسلمان کو حضور ﷺ کے معلق سب و شتم پر مجبور کردیں اور اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ حضور ﷺ کے سوا کسی اور محمد نامی شخص کو گالی دے رہا ہے اگر اس نے اپنے دل میں یہ خیال نہ کیا اور حضور ﷺ کے متعلق یہ کلمات کہہ بیٹھا تو و کافر ہوجائے گا، اسی طرح اگر اسے صلیب کو سجدہ کرنے پر مجبور کردیا جائے اور اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ اللہ کو سجدہ کرے گا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور صلیب کو سجدہ کرلیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کافر اسے سوچنے کا موقعہ ہی نہ دیں اور اس کے دل میں کوئی خیال پیدا نہ ہو سکے اور وہ اپنی زبان سے وہ کلمہ کہہ دے یا وہ کام کرلے جس پر اسے مجبور کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں وہ کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کے دل میں وہ خیال گزرے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو اس کے ساتھ اس کے لئے ممکن ہوجائے گا کہ وہ سب و شتم کا رخ حضور ﷺ کی ذات اقدس کے سوا کسی اور کی طرف پھیر دے کیونکہ اس ضمیر یعنی دل میں پیدا ہونے والے خیال پر مجبور نہیں کیا گیا تھا اسے صرف زبان سے کہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کے لئے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ دل کے خیال کو کسی اور کی طرف موڑ دے لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس نے گویا کسی اکراہ کے بغیر کفر کے اظہار کو قبول کرلیا اس لئے اس پر کفر کا حکم عائد ہوجائے گا۔ حضور ﷺ نے حضرت عمار کو یہ حکم دیا تھا کہ اگر مشرکین تمہیں پھر اذیتیں دیں تو تم لوٹ جائو۔ “ یعنی اپنی زبان سے کلمہ کفر نکال دو ۔ آپ کا یہ حکم دراصل اباحت پر محمول ہے، ایجاب یا استحباب پر محمول نہیں ہے۔ جبر و اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر سے باز رہ کر قتل ہوجانا عزیمت اور افضلیت ہے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ افضل صورت یہ ہے کہ وہ تقیہ نہ کرے اور نہ ہی کفر کا اظہار کرے بلکہ قتل ہوجائے۔ اگر متبادل صورت اس کے لئے مباح ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت خبیب بن عدی کو جب مکہ والوں نے قتل کردینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے تقیہ نہیں کیا، یعنی اپنی اجن بچانے کے لئے کلمہ کفر کا اظہار نہیں بلکہ قتل ہوگئے اور حضور ﷺ اور مسلمانوں کے نزدیک حضرت عمار سے افضل قرار پائے جنہوں نے تقیہ کر کے اپنی اجن بچا لی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تقیہ نہ کر کے اپنے اسلام کے اظہار میں دین کو سربلند کرنے اور کافروں کو غیظ و غضب میں مبتلا کرنے کا پہلو موجود ہوتا ہے اس لئے ایسے شخص کی حیثیت اس مجاہد جیسی ہوجاتی ہے جو کافروں سے لڑتے لڑتے شہید ہوجاتا ہے۔ اس موقعہ پر اکراہ کا صرف یہ اثر ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے کلمہ کفر کہنے والے کا گناہ ساقط ہوجاتا ہے اور اس کی حیثیت یہ ہوجاتی ہے کہ اس نے گویا کچھ کہا ہی نہیں حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (رفع عن امتی الخطاء و النسیان وما استکرھوا علیہ میری امت سے خطا اور نسیان نیز اس فعل کا گناہ اٹھایا لیا ہے جس پر انہیں مجبور کردیا گیا ہو) آپ نے مکرہ یعنی مجبور انسا ن کو گناہ ساقط ہونے کے لحاظ سے مخطی اور ناسی کی طرح قرار دیا اس لئے اگر کوئی انسان بھول کر غلطی سے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکال بیٹھے تو اس کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ عائد نہیں ہوگا اور نہ اس بنا پر کوئی حکم اس پر لگایا جائے گا۔ مجبور آدمی کی طلاق، غناق، نکاح اور قسم کی حیثیت مکرہ یعنی مجبور انسان کی طلاق، عتاق اور نکاح نیز قسم کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی نے اکراہ کے تحت درج بالا کو ئیک ام کرلیا تو وہ اسے لازم ہوجائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اکراہ کی صورت میں درج بالا امور میں سے کوئی امر اسے لازم نہیں ہوگا۔ ان امور کے لزوم کے حکم پر ظاہر قول باری (فان طلقھا فلا تحل لہ من یعد حتی تنکح زوجاً غیرہ اگر پھر اس نے اسے طلاق دے دی تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے) اس آیت میں مکروہ یعنی مجبور اور طائع یعنی اپنی مرضی سے طالق دینے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واوفوا بعھدا اللہ اذا عاھد تم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اسے کوئی عہد باندھا اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو) آیت میں مکروہ اور غیرہ مکرہ کے عہد کے درمیان کوی فرق نہیں کیا گیا۔ نیز ارشاد ہوا (ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھائو) حضور ﷺ کا ارشاد ہے (کل طلاق جائز الا خلاق المعتوہ دیوانے کی طلاق کے سوا ہر طلاق درست ہوتی ہے) اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے یونس بن بکیر نے الولید بن جمیع الزہری سے نقل کی ہے انہوں نے ابو الطفیل سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ سے وہ فرماتے ہیں جنہیں اور میرے والد حضور ﷺ کے پاس جانے کے لئے نکلے آپ اس وقت بدر کی طرف روانہ ہوچکے تھے ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم محمد (ﷺ) کے پاس جانا چاہتے ہو ہم نے کہا کہ ہم محمد (ﷺ) کے پاس نہیں جا رہے بلکہ مدینہ جا رہے ہیں کافروں نے کہا کہ ” ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد کرو تم مدینہ جائو گے اور محمد (ﷺ) کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ نہیں کرو گے تاہم نے اللہ کے نام پر ان سے یہ عہد کرلیا۔ پھر ہم حضور ﷺ کے پاس پہنچے آپ اس وقت بدر کی طرف جا رہے تھے ہم نے آپ سے تمام ماجرا بیان کیا اور عرض کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا ان کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور ان کے خلاف اللہ سے استعانت طلب کرو، چناچہ ہم مدینہ کی طرف لوٹ گئے اور اس عہد کی وجہ سے ہم معرکہ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ ناریک پیچھے ہو سکے : اس روایت کے مطابق ان دونوں حضرات سے مشرکین نے بجرہ و اکراہ وعہدہ لیا تھا ” حضور ﷺ نے اس کی توثیق فرما دی اور ان کی اس قسم کو وہی حیثیت دے دی جو اپنی مرضی سے کھائی ہوئی قسم کی ہوئی ہے جب قسم کے اندر اس کا ثبوت ہوگیا تو طلاق، عتاق اور نکاح بھی قسم کی طرح قرار پائے۔ اس لئے کہ کسی نے بھی ان امور کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن خبیب کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے نقل کی ہے، انہوں نے یوسف بن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ثلاث جدھن جد وھزلھن جدالنکاح و الطلاق والرجعہ تین امور ایسے ہیں کہ انسان خواہ انہیں سنجیدگی سے کرے یا مذاق کے طور پر ہر صورت میں انہیں سنجیدگی پر محمول کیا جائے گا اول نکاح، دوم طلاق سوم بیوی سے رجوع ) جب حضور ﷺ نے ان امور میں جاد اور ھازل یعنی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں کی حیثیت یکساں رکھی نیز جد اور ھزل یعنی سنجیدگی اور مذاق کے درمیان یہ فرق ہے کہ سنجیدہ انسان لفظ کا قصد کرتا ہے اور اس کے ذریعے اس کا حکم واقع کردیتا ہے جبکہ غیر سنجیدہ یعنی مذاق کے طور پر منہ سے لفظ نکالنے والا انسان لفظ کا تو قصد کرتا ہے لیکن اس کے دل میں اس لفظ کا حکم واقع کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ طلاق کی نخعی میں ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جاد اور ھازل دونوں پر اس حیثیت سے طلاق کا حکم ثابت ہوجائے گا کہ دونوں لفظ کا قصد کرتے ہیں۔ اس طرح مکرہ لفظ کا قصد کرتا ہے لفظ کا حکم واقع کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اس لئے وہ اور ہازل دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ طلاق بالجبر اگر یہ کہا جائے کہ جس شخص کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا جائے تو کلمہ کفر کہنے کی وجہ سے اس کی بیوی بائنی نہیں ہوتی بلکہ بیوی کے بائن ہوجانے کے مسئلے میں بخوشی کلمہ کفر کہنے والے اور اکراہ کے طور پر کلمہ کفر کہنے والے کے حکم میں فرق ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب کردیتا ہے۔ اس بنا پر یہ لازم ہوگیا کہ اکراہ کے تحت طلاق دینے والے اور بخوشی طلاق دینے والے کے حکم میں فرق رکھا جائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کفر کا لفظ نہ تو صریحاً علیحدگی کا لفظ ہے اور نہ کنایۃ بلکہ اس لفظ سے صرف علیحدگی واقع ہوجاتی ہے۔ جب میاں بیوی میں سے کوئی کافر ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ایک شخص کو اگر کفر پر مجبور کردیا جائے تو وہ کافر نہیں ہوتا۔ جب وہ کلمہ کفر کے اظہار کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا تو اس بنا پر علیحدگی بھی واقع نہیں ہوتی۔ رہ گیا طلاق کا لفظ تو یہ علیحدگی اور جدانی کا لفظ ہے اور ایک مکلف کی زبان سے نکلے ہوئے اس لفظ کے ذریعے اس کی بیوی پر یہ واقع ہوجاتا ہے اس لئے طلاق کا لفظ واقع کرنے والا شوہر خواہ مکرہ ہو یا غیر مکرہ دونوں صورتوں میں اس کا یکساں ہونا ضروری ہوگیا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ طلاق کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتوں کی یکسانیت اکراہ اور غیر اکراہ کی حالتوں میں یکسانیت کی موجب نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کفر کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتیں یکساں ہوتی ہیں لیکن اکراہ اور غیر اکراہ کی حالتیں یکساں نہیں ہوتیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ کب کہا ہے کہ ہر وہ امر جس کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتیں یکساں ہوتی ہیں اس میں اکراہ اور غیر اکراہ یعنی طوع یا رضا مندی کی حالتیں بھی یکساں ہوتی ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہا ہے کہ جب حضور ﷺ نے طلاق کے سلسلے میں جاد اور ہازل یعنی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں کو یکساں قرار دیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں طلاق کے ذریعے قول کے اندر قصد کے وجود کے بعد طلاق واقع کرنے کے قصد کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ اس سے ہم نے یہ استدلال کیا کہ ایک مکلف کی طرف سے طلاق دینے والے لفظ کے وجود کے بعد اسے واقع کرنے کے قصد کے اعتبار کئی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رہ گیا کفر تو اس کے حکم کا تعلق قصد اور ارادے کے ساتھ ہوتا ہے قول کے ساتھ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص سنجیدگی یا مذاق کے طور پر کفر کا قصد کرتا ہے اس پر کلمہ کفر زبان پر لانے سے پہلے ہی کفر کا حکم لگ جاتا ہے جبکہ طلاق دینے کا قصد کرنے والا جب تک اپنی زبان پر طلاق کا لفظ نہیں لاتا طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ان دونوں کے درمیان فرق اس بات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی شخص بھول کر بھی اپنی زبان پر طلاق کا لفظ لے آتا ہے اس کی طلاق واقع ہوئی جاتی ہے لیکن نسیان کے طور پر کلمہ کفر زبان پر لانے کی وجہ سے ایک شخص کافر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی شخص اگر سبقت لسانی کی وجہ سے غلطی سے کلمہ کہہ بیٹھے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا لیکن اگر سبقت لسانی کی وجہ سے وہ غلطی سے اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ چیز دونوں باتوں کے درمیان فرق کو واضح کردیتی ہے۔ طلاق بالجبر کی مختلف صورتیں حضرت علی، حضرت عمر، سعید بن المسیب، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ مکرہ کی دی ہوئی طلاق درست ہوتی ہے ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن الزبیر ، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح ، کرمہ، طائوس اور جابربن زید سے مروی ہے کہ مکرہ کی دی ہوئی طلاق درست نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے حصین سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ اگر سلطان کسی شخص کو طلا قدینے پر مجبور رکے تو اس کی دی ہوئی طلاق درست ہوتی ہے اور اگر کوئی اور اسے طلاق دینے پر مجبور کرے تو پھر ایسی طلاق درست نہیں ہوتی۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص کو شراب پینے یا مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے اور بصورت دیگر اس کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس کے لئے نہ کھانے یا نہ پینے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ اگر اس نے نہ کھایا یا نہ پیا اور اپنی جان گنوا بیٹھایا کسی عضو سے محروم کردیا گیا تو اس صورت میں وہ گنہگار قرار پائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جان کے خطرے کی صورت میں ضرورت کی حالت کے اندر اس کے لئے ایسا کرلینا مباح کردیا تھا چناچہ ارشاد ہے (الا ما اضطر تم الیہ مگر یہ کہ تم اسے کھانے پر ضرورت کے تحت مجبور ہو جائو) جو شخص ضرورت کے وقت مردار نہ کھائے اور بھوک سے مرجائے وہ گنہگار ٹھہرے گا جس طرح ایک شخص روٹی نہ کھائے اور بھوک سے مرجائے۔ اس کی حیثیت کفر پر اکراہ کی طرح نہیں ہوگی جس میں تقیہ نہ کرنا افضل ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سمعی دلیل کی بنا پر مردار کھانا یا شراب پینا حرام ہے لیکن جب سمعی دلیل ان دونوں چیزوں کو مباح کر دے تو پھر ممانعت کا حکم زائل ہوجائے گا اور ان کی حیثیت دوسری تمام مباح چیزوں کی طر ح ہوجائے گی۔ اس کے برعکس کفر کا اظہار عقلی طور پر ممنوع ہے اور ضرورت کی بنا پر اس کی اباحت جائز نہیں ہوتی۔ البتہ اتنی بات جائز ہوتی ہے کہ توریہ اور کنایہ کے طور پر کلمہ کفر کا اظہار کر کے غیر کفر کے معنی مراد لئے جائیں جس کے ساتھ کفر کے اس معنی کا دل میں اعتقاد نہ ہو جس کے لئے اسے مجبور کیا جا رہا ہو۔ اس صورت میں کفر کا یہ لفظ اس شخص کے کلمہ کفر کی طرح ہوگا جو بھول کر یا سبقت لسانی کی وجہ سے یہ کلمہ اپنی زبا نپر لے آتا ہے ۔ اس کے لئے کلمہ کفر کا اظہار نہ کرنا اولی اور افضل ہوتا ہے اگرچہ جان کے خطرے کی صورت میں اس کے لئے اس کے اظہار کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی جان لینے یا کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرنے پر مجبور کردیا جائے تو اس کے لئے اس اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اس لئے کہ ان امور کا شمار حقوق العباد میں ہوتا ہے جن میں یہ دونوں افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے اس صورت میں اسے کسی استحقاق کے بغیر دوسرے کی جان لے کر اپنی جان بچانا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی صورت میں اس کی ناموس کی ایسے طریقے سے بےحرمتی ہوتی ہے جس کی ضرورت کے تحت اباحت نہیں ہوتی نیز اس کے دامن پر ہمیشہ کے لئے ننگ و عار کا دھبہ لگ جاتا ہے اس بنا پر اگر کسی شخص کو اس فعل بد پر مجبور کردیا جائے تو بھی اس کے لئے اس کے ارتکاب کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ہمارے فقہاء کے نزدیک قذف یعنی کسی پر زنا کی تہمت دکا لینے پر مجبور کرنے کی یہ حیثیت نہیں ہے اس صورت میں مکرہ کے لئے ایسے اقدام کا جواز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکراہ کے طریقے سے لگائی گئی تہمت کا اس شخص پر کوئی اثر نہیں ہوتا جس پر یہ تہمت لگانی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے دامن پر کوئی دھبہ آتا ہے۔ جبرواکراہ کا خلاصہ بحث درج بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکراہ کے احکام کی مختلف صورتیں ہیں بعض صورتوں میں تقیہ کرنا واجب ہوتا ہے ۔ مثلاً شراب پینے یا مردار کھانے یا اسی قسم کے کسی اور حرام کام کے سلسلے میں اکراہ جس کی ممانعت کسی سمعی دلیل کی بنا پر ثابت ہو۔ بعض صورتیں وہ ہیں جن میں جان بچانے کی خاطر تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کو بلا جواز قتل کردینے یا کسی عورت کی عصمت دری پر اکراہ یا اس قسم کا کوئی اور فعل جس سے کسی آدمی کے حقوق کی پامالی لازم آتی ہو اور جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس فعل کے ارتکاب کا جواز ہوتا ہے جس پر کسی کو مجبور کردیا جائے لیکن اس کا ترک افضل ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو کفر یا اس جیسے کسی اور فعل پر مجبور کردینا وغیرہ۔ جبر و اکراہ کا خلاصہ بحث درج بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکراہ کے احکام کی مختلف صورتیں ہیں۔ بعض صورتوں میں تقیہ کرنا واجب ہوتا ہے۔ مثلاً شراب پینے یا مردار کھانے یا اسی قسم کے کسی اور حرام کام کے سلسلے میں اکراہ جس کی ممانعت کسی سمعی دلیل کی بنا پر ثابت ہو ۔ بعض صورتیں وہ ہیں جن میں جان بچانے کی خاطر تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا مثلاً کسی کو بلا جواز قتل کردینے یا کسی عورت کی عصمت دری پر اکراہ یا اسی قسم کا کوئی اور فعل جس سے کسی آدمی کے حقوق کی پامالی لازم آتی ہو اور جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس فعل کے ارتکاب کا جواز ہوتا ہے جس پر کسی کو مجبور کردیا جائے لیکن اس کا ترک افضل ہوتا ہے مثلاً کسی کو کفر یا اس جیسے کسی اور فعل پر مجبور کردینا وغیرہ
Top