Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nahl : 106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
مَنْ
: جو
كَفَرَ
: منکر ہوا
بِاللّٰهِ
: اللہ کا
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِيْمَانِهٖٓ
: اس کے ایمان
اِلَّا
: سوائے
مَنْ
: جو
اُكْرِهَ
: مجبور کیا گیا
وَقَلْبُهٗ
: جبکہ اس کا دل
مُطْمَئِنٌّۢ
: مطمئن
بِالْاِيْمَانِ
: ایمان پر
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
مَّنْ
: جو
شَرَحَ
: کشادہ کرے
بِالْكُفْرِ
: کفر کے لیے
صَدْرًا
: سینہ
فَعَلَيْهِمْ
: تو ان پر
غَضَبٌ
: غضب
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
عَذَابٌ عَظِيْمٌ
: بڑا عذاب
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کیساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔
جبر و اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر کہنا جائز ہے قول باری ہے (من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تب توخیر) معمر نے عبدالکریم سے، انہوں نے ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر سے اس آیت کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ مشرکین نے حضرت عمار اور ان کے ساتھ مسلمانوں کے ایک گروہ کو پکڑ لیا اور پھر انہیں سخت اذیتیں پہنچانی شروع کردیں یہاں تک کہ مشرکین ان مسلمانوں سے انکار اسلام اور اظہار شرک کا مقصد حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین مکہ غریب اور بےآسرا مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتے تھے۔ حضرت عمار نے حضور ﷺ سے اپنی تکلیف بیان کی آپ نے ان سے پوچھا ” تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے ؟ “ حضرت عمار نے جواب دیا۔” میرا دل ایمان پر مطمئن ہے۔ “ اس پر آپ نے فرمایا :” اگر مشرکین تمہیں پھر اذیتیں دیں تو تم لوٹ جائو۔ “ یعنی اپنی زبا ن سے کلمہ کفر نکال دو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جبر اور اکراہ کی حالت میں زبان سے کلمہ کفر نکالنے کے جواز کی بنیاد یہ آیت اور یہ روایت ہے۔ اکراہ کی صورت میں اس کی اباحت ہوجاتی ہے۔ اکراہ کی صورت یہ ہے کہ کسی انسان کو حکم عدولی کی بنا پر اپنی جان چلی جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجائے ۔ ایسی حالت میں اس کے لئے کلمہ کفر کا اظہار مباح ہوگا اور جب اس کے دل میں اس کفر کا خیال گزرے گا تو وہ کلمہ کفر کے ذریعے اپنا خیال کفر کے سوا کسی اور بات کی طرف موڑ دے گا لیکن اگر اس نے کفر کا خیال آتے ہی اپنا خیال کسی اور طرف نہیں موڑا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ امام محمد بن الحسن نے فرمایا :” اگر کافر کسی مسلمان کو حضور ﷺ کے معلق سب و شتم پر مجبور کردیں اور اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ حضور ﷺ کے سوا کسی اور محمد نامی شخص کو گالی دے رہا ہے اگر اس نے اپنے دل میں یہ خیال نہ کیا اور حضور ﷺ کے متعلق یہ کلمات کہہ بیٹھا تو و کافر ہوجائے گا، اسی طرح اگر اسے صلیب کو سجدہ کرنے پر مجبور کردیا جائے اور اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ اللہ کو سجدہ کرے گا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور صلیب کو سجدہ کرلیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر کافر اسے سوچنے کا موقعہ ہی نہ دیں اور اس کے دل میں کوئی خیال پیدا نہ ہو سکے اور وہ اپنی زبان سے وہ کلمہ کہہ دے یا وہ کام کرلے جس پر اسے مجبور کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں وہ کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کے دل میں وہ خیال گزرے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو اس کے ساتھ اس کے لئے ممکن ہوجائے گا کہ وہ سب و شتم کا رخ حضور ﷺ کی ذات اقدس کے سوا کسی اور کی طرف پھیر دے کیونکہ اس ضمیر یعنی دل میں پیدا ہونے والے خیال پر مجبور نہیں کیا گیا تھا اسے صرف زبان سے کہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کے لئے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ دل کے خیال کو کسی اور کی طرف موڑ دے لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس نے گویا کسی اکراہ کے بغیر کفر کے اظہار کو قبول کرلیا اس لئے اس پر کفر کا حکم عائد ہوجائے گا۔ حضور ﷺ نے حضرت عمار کو یہ حکم دیا تھا کہ اگر مشرکین تمہیں پھر اذیتیں دیں تو تم لوٹ جائو۔ “ یعنی اپنی زبان سے کلمہ کفر نکال دو ۔ آپ کا یہ حکم دراصل اباحت پر محمول ہے، ایجاب یا استحباب پر محمول نہیں ہے۔ جبر و اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر سے باز رہ کر قتل ہوجانا عزیمت اور افضلیت ہے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ افضل صورت یہ ہے کہ وہ تقیہ نہ کرے اور نہ ہی کفر کا اظہار کرے بلکہ قتل ہوجائے۔ اگر متبادل صورت اس کے لئے مباح ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت خبیب بن عدی کو جب مکہ والوں نے قتل کردینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے تقیہ نہیں کیا، یعنی اپنی اجن بچانے کے لئے کلمہ کفر کا اظہار نہیں بلکہ قتل ہوگئے اور حضور ﷺ اور مسلمانوں کے نزدیک حضرت عمار سے افضل قرار پائے جنہوں نے تقیہ کر کے اپنی اجن بچا لی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تقیہ نہ کر کے اپنے اسلام کے اظہار میں دین کو سربلند کرنے اور کافروں کو غیظ و غضب میں مبتلا کرنے کا پہلو موجود ہوتا ہے اس لئے ایسے شخص کی حیثیت اس مجاہد جیسی ہوجاتی ہے جو کافروں سے لڑتے لڑتے شہید ہوجاتا ہے۔ اس موقعہ پر اکراہ کا صرف یہ اثر ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے کلمہ کفر کہنے والے کا گناہ ساقط ہوجاتا ہے اور اس کی حیثیت یہ ہوجاتی ہے کہ اس نے گویا کچھ کہا ہی نہیں حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (رفع عن امتی الخطاء و النسیان وما استکرھوا علیہ میری امت سے خطا اور نسیان نیز اس فعل کا گناہ اٹھایا لیا ہے جس پر انہیں مجبور کردیا گیا ہو) آپ نے مکرہ یعنی مجبور انسا ن کو گناہ ساقط ہونے کے لحاظ سے مخطی اور ناسی کی طرح قرار دیا اس لئے اگر کوئی انسان بھول کر غلطی سے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکال بیٹھے تو اس کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ عائد نہیں ہوگا اور نہ اس بنا پر کوئی حکم اس پر لگایا جائے گا۔ مجبور آدمی کی طلاق، غناق، نکاح اور قسم کی حیثیت مکرہ یعنی مجبور انسان کی طلاق، عتاق اور نکاح نیز قسم کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی نے اکراہ کے تحت درج بالا کو ئیک ام کرلیا تو وہ اسے لازم ہوجائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اکراہ کی صورت میں درج بالا امور میں سے کوئی امر اسے لازم نہیں ہوگا۔ ان امور کے لزوم کے حکم پر ظاہر قول باری (فان طلقھا فلا تحل لہ من یعد حتی تنکح زوجاً غیرہ اگر پھر اس نے اسے طلاق دے دی تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے) اس آیت میں مکروہ یعنی مجبور اور طائع یعنی اپنی مرضی سے طالق دینے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واوفوا بعھدا اللہ اذا عاھد تم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اسے کوئی عہد باندھا اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو) آیت میں مکروہ اور غیرہ مکرہ کے عہد کے درمیان کوی فرق نہیں کیا گیا۔ نیز ارشاد ہوا (ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھائو) حضور ﷺ کا ارشاد ہے (کل طلاق جائز الا خلاق المعتوہ دیوانے کی طلاق کے سوا ہر طلاق درست ہوتی ہے) اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے یونس بن بکیر نے الولید بن جمیع الزہری سے نقل کی ہے انہوں نے ابو الطفیل سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ سے وہ فرماتے ہیں جنہیں اور میرے والد حضور ﷺ کے پاس جانے کے لئے نکلے آپ اس وقت بدر کی طرف روانہ ہوچکے تھے ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم محمد (ﷺ) کے پاس جانا چاہتے ہو ہم نے کہا کہ ہم محمد (ﷺ) کے پاس نہیں جا رہے بلکہ مدینہ جا رہے ہیں کافروں نے کہا کہ ” ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد کرو تم مدینہ جائو گے اور محمد (ﷺ) کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ نہیں کرو گے تاہم نے اللہ کے نام پر ان سے یہ عہد کرلیا۔ پھر ہم حضور ﷺ کے پاس پہنچے آپ اس وقت بدر کی طرف جا رہے تھے ہم نے آپ سے تمام ماجرا بیان کیا اور عرض کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا ان کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور ان کے خلاف اللہ سے استعانت طلب کرو، چناچہ ہم مدینہ کی طرف لوٹ گئے اور اس عہد کی وجہ سے ہم معرکہ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ ناریک پیچھے ہو سکے : اس روایت کے مطابق ان دونوں حضرات سے مشرکین نے بجرہ و اکراہ وعہدہ لیا تھا ” حضور ﷺ نے اس کی توثیق فرما دی اور ان کی اس قسم کو وہی حیثیت دے دی جو اپنی مرضی سے کھائی ہوئی قسم کی ہوئی ہے جب قسم کے اندر اس کا ثبوت ہوگیا تو طلاق، عتاق اور نکاح بھی قسم کی طرح قرار پائے۔ اس لئے کہ کسی نے بھی ان امور کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن خبیب کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے نقل کی ہے، انہوں نے یوسف بن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ثلاث جدھن جد وھزلھن جدالنکاح و الطلاق والرجعہ تین امور ایسے ہیں کہ انسان خواہ انہیں سنجیدگی سے کرے یا مذاق کے طور پر ہر صورت میں انہیں سنجیدگی پر محمول کیا جائے گا اول نکاح، دوم طلاق سوم بیوی سے رجوع ) جب حضور ﷺ نے ان امور میں جاد اور ھازل یعنی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں کی حیثیت یکساں رکھی نیز جد اور ھزل یعنی سنجیدگی اور مذاق کے درمیان یہ فرق ہے کہ سنجیدہ انسان لفظ کا قصد کرتا ہے اور اس کے ذریعے اس کا حکم واقع کردیتا ہے جبکہ غیر سنجیدہ یعنی مذاق کے طور پر منہ سے لفظ نکالنے والا انسان لفظ کا تو قصد کرتا ہے لیکن اس کے دل میں اس لفظ کا حکم واقع کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ طلاق کی نخعی میں ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جاد اور ھازل دونوں پر اس حیثیت سے طلاق کا حکم ثابت ہوجائے گا کہ دونوں لفظ کا قصد کرتے ہیں۔ اس طرح مکرہ لفظ کا قصد کرتا ہے لفظ کا حکم واقع کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اس لئے وہ اور ہازل دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ طلاق بالجبر اگر یہ کہا جائے کہ جس شخص کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا جائے تو کلمہ کفر کہنے کی وجہ سے اس کی بیوی بائنی نہیں ہوتی بلکہ بیوی کے بائن ہوجانے کے مسئلے میں بخوشی کلمہ کفر کہنے والے اور اکراہ کے طور پر کلمہ کفر کہنے والے کے حکم میں فرق ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب کردیتا ہے۔ اس بنا پر یہ لازم ہوگیا کہ اکراہ کے تحت طلاق دینے والے اور بخوشی طلاق دینے والے کے حکم میں فرق رکھا جائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کفر کا لفظ نہ تو صریحاً علیحدگی کا لفظ ہے اور نہ کنایۃ بلکہ اس لفظ سے صرف علیحدگی واقع ہوجاتی ہے۔ جب میاں بیوی میں سے کوئی کافر ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف ایک شخص کو اگر کفر پر مجبور کردیا جائے تو وہ کافر نہیں ہوتا۔ جب وہ کلمہ کفر کے اظہار کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا تو اس بنا پر علیحدگی بھی واقع نہیں ہوتی۔ رہ گیا طلاق کا لفظ تو یہ علیحدگی اور جدانی کا لفظ ہے اور ایک مکلف کی زبان سے نکلے ہوئے اس لفظ کے ذریعے اس کی بیوی پر یہ واقع ہوجاتا ہے اس لئے طلاق کا لفظ واقع کرنے والا شوہر خواہ مکرہ ہو یا غیر مکرہ دونوں صورتوں میں اس کا یکساں ہونا ضروری ہوگیا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ طلاق کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتوں کی یکسانیت اکراہ اور غیر اکراہ کی حالتوں میں یکسانیت کی موجب نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کفر کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتیں یکساں ہوتی ہیں لیکن اکراہ اور غیر اکراہ کی حالتیں یکساں نہیں ہوتیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ کب کہا ہے کہ ہر وہ امر جس کے سلسلے میں جد اور ہزل کی حالتیں یکساں ہوتی ہیں اس میں اکراہ اور غیر اکراہ یعنی طوع یا رضا مندی کی حالتیں بھی یکساں ہوتی ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہا ہے کہ جب حضور ﷺ نے طلاق کے سلسلے میں جاد اور ہازل یعنی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں کو یکساں قرار دیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں طلاق کے ذریعے قول کے اندر قصد کے وجود کے بعد طلاق واقع کرنے کے قصد کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ اس سے ہم نے یہ استدلال کیا کہ ایک مکلف کی طرف سے طلاق دینے والے لفظ کے وجود کے بعد اسے واقع کرنے کے قصد کے اعتبار کئی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رہ گیا کفر تو اس کے حکم کا تعلق قصد اور ارادے کے ساتھ ہوتا ہے قول کے ساتھ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص سنجیدگی یا مذاق کے طور پر کفر کا قصد کرتا ہے اس پر کلمہ کفر زبان پر لانے سے پہلے ہی کفر کا حکم لگ جاتا ہے جبکہ طلاق دینے کا قصد کرنے والا جب تک اپنی زبان پر طلاق کا لفظ نہیں لاتا طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ان دونوں کے درمیان فرق اس بات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی شخص بھول کر بھی اپنی زبان پر طلاق کا لفظ لے آتا ہے اس کی طلاق واقع ہوئی جاتی ہے لیکن نسیان کے طور پر کلمہ کفر زبان پر لانے کی وجہ سے ایک شخص کافر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی شخص اگر سبقت لسانی کی وجہ سے غلطی سے کلمہ کہہ بیٹھے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا لیکن اگر سبقت لسانی کی وجہ سے وہ غلطی سے اپنی بیوی کو طلاق دے بیٹھے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ چیز دونوں باتوں کے درمیان فرق کو واضح کردیتی ہے۔ طلاق بالجبر کی مختلف صورتیں حضرت علی، حضرت عمر، سعید بن المسیب، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ مکرہ کی دی ہوئی طلاق درست ہوتی ہے ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن الزبیر ، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح ، کرمہ، طائوس اور جابربن زید سے مروی ہے کہ مکرہ کی دی ہوئی طلاق درست نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے حصین سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ اگر سلطان کسی شخص کو طلا قدینے پر مجبور رکے تو اس کی دی ہوئی طلاق درست ہوتی ہے اور اگر کوئی اور اسے طلاق دینے پر مجبور کرے تو پھر ایسی طلاق درست نہیں ہوتی۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص کو شراب پینے یا مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے اور بصورت دیگر اس کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس کے لئے نہ کھانے یا نہ پینے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ اگر اس نے نہ کھایا یا نہ پیا اور اپنی جان گنوا بیٹھایا کسی عضو سے محروم کردیا گیا تو اس صورت میں وہ گنہگار قرار پائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جان کے خطرے کی صورت میں ضرورت کی حالت کے اندر اس کے لئے ایسا کرلینا مباح کردیا تھا چناچہ ارشاد ہے (الا ما اضطر تم الیہ مگر یہ کہ تم اسے کھانے پر ضرورت کے تحت مجبور ہو جائو) جو شخص ضرورت کے وقت مردار نہ کھائے اور بھوک سے مرجائے وہ گنہگار ٹھہرے گا جس طرح ایک شخص روٹی نہ کھائے اور بھوک سے مرجائے۔ اس کی حیثیت کفر پر اکراہ کی طرح نہیں ہوگی جس میں تقیہ نہ کرنا افضل ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سمعی دلیل کی بنا پر مردار کھانا یا شراب پینا حرام ہے لیکن جب سمعی دلیل ان دونوں چیزوں کو مباح کر دے تو پھر ممانعت کا حکم زائل ہوجائے گا اور ان کی حیثیت دوسری تمام مباح چیزوں کی طر ح ہوجائے گی۔ اس کے برعکس کفر کا اظہار عقلی طور پر ممنوع ہے اور ضرورت کی بنا پر اس کی اباحت جائز نہیں ہوتی۔ البتہ اتنی بات جائز ہوتی ہے کہ توریہ اور کنایہ کے طور پر کلمہ کفر کا اظہار کر کے غیر کفر کے معنی مراد لئے جائیں جس کے ساتھ کفر کے اس معنی کا دل میں اعتقاد نہ ہو جس کے لئے اسے مجبور کیا جا رہا ہو۔ اس صورت میں کفر کا یہ لفظ اس شخص کے کلمہ کفر کی طرح ہوگا جو بھول کر یا سبقت لسانی کی وجہ سے یہ کلمہ اپنی زبا نپر لے آتا ہے ۔ اس کے لئے کلمہ کفر کا اظہار نہ کرنا اولی اور افضل ہوتا ہے اگرچہ جان کے خطرے کی صورت میں اس کے لئے اس کے اظہار کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی جان لینے یا کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرنے پر مجبور کردیا جائے تو اس کے لئے اس اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اس لئے کہ ان امور کا شمار حقوق العباد میں ہوتا ہے جن میں یہ دونوں افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے اس صورت میں اسے کسی استحقاق کے بغیر دوسرے کی جان لے کر اپنی جان بچانا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی صورت میں اس کی ناموس کی ایسے طریقے سے بےحرمتی ہوتی ہے جس کی ضرورت کے تحت اباحت نہیں ہوتی نیز اس کے دامن پر ہمیشہ کے لئے ننگ و عار کا دھبہ لگ جاتا ہے اس بنا پر اگر کسی شخص کو اس فعل بد پر مجبور کردیا جائے تو بھی اس کے لئے اس کے ارتکاب کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ہمارے فقہاء کے نزدیک قذف یعنی کسی پر زنا کی تہمت دکا لینے پر مجبور کرنے کی یہ حیثیت نہیں ہے اس صورت میں مکرہ کے لئے ایسے اقدام کا جواز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکراہ کے طریقے سے لگائی گئی تہمت کا اس شخص پر کوئی اثر نہیں ہوتا جس پر یہ تہمت لگانی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے دامن پر کوئی دھبہ آتا ہے۔ جبرواکراہ کا خلاصہ بحث درج بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکراہ کے احکام کی مختلف صورتیں ہیں بعض صورتوں میں تقیہ کرنا واجب ہوتا ہے ۔ مثلاً شراب پینے یا مردار کھانے یا اسی قسم کے کسی اور حرام کام کے سلسلے میں اکراہ جس کی ممانعت کسی سمعی دلیل کی بنا پر ثابت ہو۔ بعض صورتیں وہ ہیں جن میں جان بچانے کی خاطر تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کو بلا جواز قتل کردینے یا کسی عورت کی عصمت دری پر اکراہ یا اس قسم کا کوئی اور فعل جس سے کسی آدمی کے حقوق کی پامالی لازم آتی ہو اور جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس فعل کے ارتکاب کا جواز ہوتا ہے جس پر کسی کو مجبور کردیا جائے لیکن اس کا ترک افضل ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو کفر یا اس جیسے کسی اور فعل پر مجبور کردینا وغیرہ۔ جبر و اکراہ کا خلاصہ بحث درج بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکراہ کے احکام کی مختلف صورتیں ہیں۔ بعض صورتوں میں تقیہ کرنا واجب ہوتا ہے۔ مثلاً شراب پینے یا مردار کھانے یا اسی قسم کے کسی اور حرام کام کے سلسلے میں اکراہ جس کی ممانعت کسی سمعی دلیل کی بنا پر ثابت ہو ۔ بعض صورتیں وہ ہیں جن میں جان بچانے کی خاطر تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا مثلاً کسی کو بلا جواز قتل کردینے یا کسی عورت کی عصمت دری پر اکراہ یا اسی قسم کا کوئی اور فعل جس سے کسی آدمی کے حقوق کی پامالی لازم آتی ہو اور جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ بعض صورتوں میں اس فعل کے ارتکاب کا جواز ہوتا ہے جس پر کسی کو مجبور کردیا جائے لیکن اس کا ترک افضل ہوتا ہے مثلاً کسی کو کفر یا اس جیسے کسی اور فعل پر مجبور کردینا وغیرہ
Top