Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بےحیائی اور بری راہ ہے
زنا کے قریب نہ پھٹکو قول باری ہے (ولا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ وساء سجیلاً ۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہ براہ راستہ) اس میں زنا کی تحریم کی خبر دی گئی ہے نیز یہ کہ یہ بہت قبیح فعل ہے۔ اس لئے کہ فاحشہ اس فعل کو کہتے ہیں جس کی قباحت بڑی زبردست اور بڑی واضح ہو۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ سمعی حجت کے ورود سے پہلے ہی زنا عقل انسانی کے نزدیک ایک قبیح فعل تھا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو فاحشہ کا نام دیا، سمعی حجت کے ورود سے قبل یا اس کے بعد کی حالت کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں کی۔ عقلی طور پر زنا ایک قبیح فعل ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زانی عورت پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس بچے کے باپ کی نسبت سے بیان نہیں کرسکتی اس لئے کہ اس کے ساتھ منہ کالا کرنے والے مرد ایک دوسرے سے بڑھ کر اس بچے کے نسب کے حق دار نہیں ہوتے۔ اس طرح زنا کے فعل قبیح کی وجہ سے نسب کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور مواریث، مناکحات صلہ رحمی کے سلسلے میں نسب سے متعلقہ حرمتوں کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ ولد پر والد کا حق باطل ہوجاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے حقوق بھی اس فعل قبیح کی بنا پر پامال ہوجاتے۔ عقل انسانی کے نزدیک یہ ایک گھنائونا فعل ہے اور عادۃ لوگ اسے قبیح سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الولد للفراش وللعاھرا لحجر بچے کے نسب کا تعلق بچھونے کے ساتھ ہے اور منہ کالا کرنے والے کے لئے پتھر ہے ) اس لئے کہ اگر نسب کو بچھونے کے اندر محدود نہ کردیا جاتا یعنی نسب کے اجرا کو صرف نکاح اور نکاح جیسی صورت مثلاً ملک یمین کے اندر محدود نہ کردیا جاتا تو پھر صاحب فرا ش یعنی شوہر، زانی سے بڑھ کر بچے کے نسب کا حق دار قرار نہ پاتا جس کے نتیجے میں اکتساب کا ابطال لازم آتا اور انساب سے تعلق رکھنے والے تمام حقوق و مراعات ساقط ہوجاتے ہیں۔
Top