Ahkam-ul-Quran - Maryam : 32
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ١٘ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا
وَّبَرًّۢا : اور اچھا سلوک کرنیوالا بِوَالِدَتِيْ : اپنی ماں سے وَ : اور لَمْ يَجْعَلْنِيْ : اس نے مجھے نہیں بنایا جَبَّارًا : سرکش شَقِيًّا : بدنصیب
اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش و بدبخت نہیں بنایا
اپنی ذات کی تعریف بغیر فخر کے جائز ہے قول باری ہے (وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارًا شقیاً والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا۔ اور مجھے اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا، سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مرون اور جب کہ زندہ کر کے اٹھایا جائوں) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ انسان اپنی ذات کو تعریف اور نیکی کی صفات سے متصف کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کی نیت یہ ہو کہ دوسرے اشخاص بھی اس نیکی اور بھلائی سے روشناس ہو کر اس پر عمل پیرا ہو سکیں، اس کے ذریعے وہ ڈینگ مارنے اور اپنی خوبیوں کے فخر یہ اظہار کی نیت نہ رکھتا ہو۔ اس کی مثال حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول ہے جو قرآن کے الفاظ میں اس طرح مذکور ہے (اجعلنی علی خزائن الارض الی حفیظ علیم۔ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی صفات اس لئے بیان کیں تاکہ شاہ مصران سے آگاہ ہوجائے۔
Top