Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا اے کاش وہ اس سے واقف ہوتے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) زیر بحث آیت میں مذکورہ ساحر کفر کے اسم کا مستحق ہے۔ اس کی دلیل یہ قول باری ہے : واتبعوا ماتتلوا الشیاطین علی ملک سلیمان وما کفر سلیمان (اور وہ ان چیزوں کی پیروی کرنے لگے جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا) یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں۔ یہ بات حضرات مفسرین سے مروی ہے قول باری تتلوا اس کا مفہوم ہے۔” خبر دیتے اور پڑھتے تھے۔ “ قول باری : وما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا (حالانکہ سلیمان نے کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو یہ شیاطین ہوئے تھے۔ ) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ شیاطین حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے نام سے جن باتوں کی خبر دیتے اور جس جادوگری کا دعویٰ کرتے تھے وہ کفر کی صورت تھی، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے اس کی نفی کردی اور سا پر عمل کرنے والے شیاطین پر کفر کا حکم عائد کردیا۔ اور اس پر اپنے اس قول کو عطف کیا۔ وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت و ماروت وما یعلمان من احد حتی یقولآ انما نحن فتنہ فلا تکفر (وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بایل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے تو پہلے صاف طور پر متنبہ کردیا کرتے تھے کہ ” دیکھو، ہم محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔ ) یہاں اللہ تعالیٰ نے ان دونوںں فرشتوں کے بارے میں بتادیا کہ وہ جس شخص کو اس کی تعلیم دیتے اس سے پہلے کہتے کہ ” اس جادو کے عمل اور اس کے اعتقاد کے ذریعے کفر نہ کر “ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کا عمل کرنا نیز اعتقاد رکھنا کف رہے۔ پھر فرمایا : ولقد علموا لمن اشتراہ مالہ فی الاخرۃ من خلاق (اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدا رہنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے) یعنی جو شخص اللہ کے دین کے بدلے جادوگری لے لے آخرت میں اس کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ پھر فرمایا : ولبئس ماشروابہ انفسھم لوکانوا یعلمون، ولوا انھم امنوا واتقوآ لمثوبۃ من عند اللہ خیر لو کانوا یعلمون۔ (کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش انہیں معلوم ہوتا۔ اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا وہ ان کے لئے زیادہ بہتر تھا، کاش انہیں خبر ہوتی۔ ) اللہ تعالیٰ نے جادوگری کو ایمان کے ضد قمرار دیا کیونکہ اس نے ایمان کو جادوگری کے بالمقابل کردیا اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جادوگر کافر ہے اور جب اس کا کفر ثابت ہوگیا تو اگر وہ اس سے پہلے مسلمان ہو یا کسی وقت اس کی طرف سے اسلام کا اظہار ہوا ہو تو وہ جادوگری کی بنا پر کافر ہو کر حضور ﷺ کے ارشاد :” جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کردو۔ “ کے تحت قتل کا مستحق قرار پائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے حسن بن زیاد کی روایت کے مطابق فرمایا ہے کہ اسے قتل کردیا جائے گا اور سا کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے اصحاب میں سے کسی نے حسن کی مذکورہ روایت کی مخالفت کی ہے۔ امام ابو یوسف نے روایت بیان کی ہے کہ امام ابوحنیفہ نے ساحر اور مرتد کے درمیان فرق کیا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ساحر اپنے کفر کے ساتھ فساد فی الارض کی سعی کو شامل کرلیتا ہے۔ یہاں اگر کوئی کہے کہ آپ گلا گھونٹنے والے نیز محارب پر صرف اس وقت قتل کا حکم عائد کرتے ہیں جب وہ قتل کا ارتکاب کریں۔ یہی حکم آپ جادوگر پر کیوں نہیں عائد کرتے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کے مابین اس اعتبار سے فرق ہے کہ گلا گھونٹنے والا نیز محارب ارتکاب قتل سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد کفر کرتے ہیں اس لئے وہ قتل کے سزا وار نہیں ہوں گے۔ بشرطیکہ ان سے کوئی ایسا سبب وجود میں نہ آئے جس کی بنا پر انہیں قتل کا مستحق گردانا جائے۔ رہ گیا جادو گر تو وہ اپین جادوگری کی بنا پر قتل کا سزا وار ہوجائے گا خواہ وہ اپنے جادو سے کسی کو قتل کرے یا نہ کرے، اپنے کفر کے ساتھ وہ چونکہ زمین میں فساد مچانے والا بھی ہوگا، اس لئے اس کے قتل کا وجوب حد کے طور پر ہوگا اور یہ حدتوبہ کی بنا پر اس سے ساقط نہیں ہوگی جس طرح محارب اگر قتل کا مستحق ہوجائے تو توبہ کی بنا پر اس کی یہ سزا ساقط نہیں ہوتی۔ مذکورہ محارب کے ساتھ جادوگر کی مشابہت اس حکم میں ہوتی ہے کہ اس کا قتل اس کی حد کی بنا پر ہوتا ہے جسے تو یہ بھی اس سے دور نہیں کرسکتی۔ جادوگر مرتد سے اس جہت کے اندر مختلف ہوتا ہے کہ مرتد اپنے کفر پر ڈٹے رہنے کی بنا پر قتل کا مستحق ہوتا ہے اور جب وہ کفر ترک کر کے اسلام کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تو اس سے کفر اور قتل کی سزا دونوں زائل ہوجاتے ہیں۔ احناف نے ذمی ساحر اور مسلمان ساحر کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ جس طرح ذمی محارب اور مسلمان محارب کے درمیا ن محاربت کی سزا کے استحقاق کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگرنی کو قتل کی سزا نہیں دی جاتی کیونکہ ان حضرات کے نزدیک محارب عورت کو حد میں قتل نہیں کیا جاتا، بلکہ صرف قصاص میں قتل کیا جاتا ہے، جادوگر کی توبہ قبول نہ کرنے کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ کے قول کی ایک وجہ وہ ہے جس کا ذکر الطحاوی نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے امام ابو یوسف سے بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا :” اس شخص کو قتل کردو جو خفیہ طور پر زندیق ہو کیونکہ اس کی توبہ کا علم نہیں ہوسکتا۔ “ امام ابو یوسف نے اس کے خلاف کوئی قول نقل نہیں کیا اور اس پر جادو گر کے مسئلے کی بنیاد درست ہے کیونکہ جادوگر خفیہ طور پر کافر ہوتا ہے۔ اس لئے وہ زندیق کی طرح ہے۔ اس بنا پر یہ واجب ہ گا کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔ اوپر ہم نے الطحاوی کی جس روایت کا ذکر کیا ہے اسے راوی شعیب نے نوادر کے اندر بیان کیا ہے اور ان نوادر کے متعلق شعیب کا کہنا ہے کہ امام ابو یوسف نے انہیں اپنے امالی میں داخل کیا تھا۔ (استاد اپنے شاگردوں کو جو روایتیں اور مسائل لکھوائے انہیں امالی کہا جاتا ہے۔ مترجم) اگر کوئی شخص یہاں یہ کہے کہ بنا بریں ذمی ساحر کو قتل نہیں کیا جانا چاہیے اس لئے کہ اس کا کفر ظاہر ہوتا ہے اور کفر کی بنا پر وہ قتل کا سزاوار نہیں ہوتا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس کفر پر ہم نے اسے برقرار رہنے دیا ہے یہ وہ کفر ہے جس کا اظہار اس نے ہم سے کیا تھا۔ لیکن اپنی جادوگری کی بنا پر وہ جس کفر کا مرتکب ہوا ہے اس پر اسے برقرار نہیں رکھا گیا تھا اور ہم نے اس پر برقرار رہنے کی ذمہ داری نہیں اٹھائی تھی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ذمی جادوگر جزیہ دے کر اپنی جادوگری پر برقرار رہنے کی ہم سے درخواست کرے تو اس کی یہ درخواست قبول نہیں کریں گے اور اسے اس پر برقرار رہنے نہیں دیں گے۔ ذمی جادوگر اور مسلمان جادوگر کے درمیا ناس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز اگر ذمی جادوگر اپنے کفر کی بنا پر قتل کا سزاوار نہیں ہوگا تو بھی زمین پر فساد مچانے کی سعی کرنے کی بنا پر وہ اس کا سزاوار بن جائے گا جس طرح محاربین اس کے سزا وار بن جاتے ہیں۔ زندیق کی توبہ قبول نہ کرنے کے سلسلے میں احناف کا قول ہے کہ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں اور دیگر تمام ملحدین کی بھی توبہ قبول نہ کی جائے جن کے بارے میں کفر کے اعتقاد کا علم ہوجائے جس طرح دیگر تمام زنا دقہ کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور انہیں اظہار توبہ کے باوجود قتل کردیا جاتا ہے۔ ساحر کے قتل کے وجوب پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی روایت ابن قانع نے کی ہے انہیں بشربن موسیٰ نے ، انہیں ابن الاصبحانی نے، انہیں ابو معاویہ نے اسماعیل بن مسلم سے، انہوںں نے الحسن بن جندب سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ساحر کی حدیہ ہے کہ اسے تلوار کی ضرب لگائی جائے :” کوفہ میں حضرت جندب نے گورنر ولید بن عقبہ کے سامنے ایک جادوگر کو قتل کردیا تھا۔ یہ بڑا مشہور واقعہ ہے۔ حضور ﷺ کا درج بالا ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے، ایک بات تو یہ ہے کہ جادوگر کا قتل واجب ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ سزا حد کے طور پر دی جائے گی اور اسے توبہ بھی زائل نہیں کرسکے گی۔ ہم نے بیان کردیا ہے کہ جادوگر کا قتل محارب کے قتل کی طرح ہے۔ حسن بن زیاد کی بیان کردہ روایت کے مطابق احناف نے کہا ہے کہ اگر جادو گر کہے کہ ” میں جادوگر تھا “ اور یہ ثابت ہوجائے کہ اسے قتل نہیں کیا ج اسکتا جس طرح ایک شخص یہ اقرار کرے کہ وہ محارب تھا لیکن اب وہ توبہ کر کے آیا ہے، تو اس صورت میں اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ محابہ بین کے بارے میں قول باری ہے : الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم (مگر وہ لوگ جو اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پائو تو جان لو کہ اللہ غفور رحیم ہے) یہاں اللہ تعالیٰ نے قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلینے والے محارب کو ان لوگوں سے مستثنیٰ کردیا ہے جن پر اس نے حد واجب کی ہے جس کا ذکر آیت میں ہے۔ قول باری ہے : انما جزاء الذین یحاربون اللہ و رسولہ ویسعون فی الارض فساداً ۔ (جو کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لئے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ … ) تا آخر آیت ، اس قول باری کے ظاہر سے ساحر کو حد میں قتل کردینے پر استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ جادو کا عمل کر کے، نیز لوگوں کو اس کی طرف راغب کر کے اور اپنے کفر کے ساتھ ان کا ایمان خراب کرنے کے لئے ان لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ امام مالک نے جادوگر کو زندیق کے درجے میں رکھا ہے اور اس کی توبہ اسی طرح ناقابل قبول قرار دی ہے جس طرح زندیق کی توبہ ناقابل قبول ہے، تاہم انہوں نے ذمی جادوگر کو واجب القتل قرار نہیں دیا ہے، سا لئے کہ وہ اپنے کفر کی بنا پر قتل کا سزا وار نہیں ہوتا۔ جب ہم نے اسے اسی کے کفر پر برقرار رہنے دیا ہے، تو اسے جادوگری کی بن اپر بھی قتل نہیں کیا جائے گا الآیہ کہ وہ اپنے جادو سے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ ایسی صورت میں وہ نقض عہد کا مرتکب قرار پائے گا اور حربی کی طرح قتل کا سزاوار بنے گا۔ ہم پہلے ہی ذمی جادوگر کی زندیق کے ساتھ اس امر کے اندر موافقفت بیان کر آئے ہیں کہ وہ خفیہ طور پر کفر اپنا لیتا ہے اور جزیہ یا کسی اور چیز کے عوض اسے جادوگری پر برقرار رہنے دینا جائز نہیں ہوتا اس لئے ذمی جادوگر اور مدعی اسلام جادوگر کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک اور جہت سے ذمی جادوگر محارب جیسا ہوتا ہے اس لئے اہل ذمہ اور مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے جادوگروں کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ جہاں تک اس مسئلے میں امام شافعی کے قول کا تعلق ہے تو ہم نے پہلے ہی بیان کردیا ہے کہ ان کا یہ قول سلف کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے، اس لئے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس امر کا اعتبار نہیں کیا ہے کہ جادوگر اگر اپنے جادو سے کسی کو قتل کر دیتو پھر اسے قتل کیا جائے گا۔ بلکہ ان حضرات نے جادوگر کے ساتھ جادوگری کا نام چپک جانے کے ساتھ علی الاطلاق اسے واجب القتل قرار دیا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ جادوگر اگر کسی اور کو قتل کر دے تو پھر اسے قتل کیا جائے گا۔ ان کی یہ بات دو میں سے ایک وجہ سے خالی نہیں ہے۔ یا تو وہ جادوگر کے لئے اس امر کو روا رکھتے ہیں کہ وہ دوسرے شخص کو ہاتھ لگائے بغیر نیز اس کے لئے قتل کا کوئی سبب پیدا کئے بغیر اسے قتل کرسکتا ہے جیسا کہ جادوگروں کا بھی یہی دعویٰ ہے۔ اگر بات یہ ہے تو یہ انتہائی گھنائونی اور قابل نفرت بات ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا علم رکھنے والا کوئی شخص بھی جادوگروں کے ایسے عمل کو گوارا نہیں کرسکتا کیونکہ ہم نے جادو کے معنی بیان کرتے ہئے بتادیا ہے کہ اسباب کے بغیر افعال وجود میں لانا ابنیاء (علیہم السلام) کی نشانی ہے۔ دوسرے یہ کہ امام شافعی جادو گر کے لئے مذکورہ امر ادویات وغیرہ پلانے کی جہت سے روا رکھتے ہیں۔ اگر امام شافعی کے مذکورہ بالا قول سے ان کی مراد یہی ہی تو اس صورت میں اگر کوئی شخص کسی تک ایک دوا پہنچانے کی کچھ اس طرح تدبیر کرے کہ مذکورہ شخص وہ دوا پی لے اور پی کر مر جائیتو تدبیر کرنے والے پر اس کی دیت لازم نہیں ہونی چاہیے ، کیونکہ مذکورہ دوا اس نے خود پی کر اپنی جان کو نقصان پہنچایا ہے جس طرح یہ صورت کہ ایک شخص کسی کو ایک تلوار پکڑا دے اور وہ اس تلوار سے اپنی جان لے لے۔ اگر دوا پلانے والے نے پینے والے کے منہ میں دوا ڈال دی ہو جبکہ اس نے اپنے اختیار سے اسے نہ پیا ہو، تو یہ بات صرف اکراہ کی حالت ہی میں پیش آسکتی ہے ۔ اگر امام شافعی کی مراد یہی صورت ہو تو پھر اس میں ساحر اور غیر ساحر دونوں یکساں ہوں گے۔ امام شافعی کا قول ہے : اگر ساحر کہے کہ میں اپنے جادو کے عمل میں کبھی کامیاب ہوجاتا ہوں اور کبھی ناکام، تاہم یہ شخص میرے جادو کے عمل سے مراد ہے۔ تو اس صورت میں اس پر متوفی کی دیت ملازم ہوگی۔ ایک بےمعنی بات ہے، اس لئے کہ اگر کوئی شخص کسی کو ل ہے کے ہتھیار سے زخمی کر دے اور اسے جیسے زخم سے بعض دفعہ مجروح مرجاتا ہو اور بعض دفعہ مرتاز ہو تو جارح پر بہرصورت قصاص کا لزوم ہوجائے گا۔ اس بنا پر امام شافعی نے جس طرح لوہے کے ہتھیار سے کئے جانے والے جرم پر قصاص واجب کردیا ہے۔ اسی طرح جادوگر کے عمل پر بھی انہیں قصاص واجب کردینا چاہیے تھا۔ جادوگر کے اس اقرار کے بعد کہ : یہ شخص میرے جادو کے عمل سے مرا ہے اس کا یہ قول کہ میں اپنے جادو کے عمل میں کبھی کامیاب ہ وجات اہوں اور کبھی ناکام “ یعنی میرا معمول کبھی مرجاتا ہے اور کبھی نہیں مرتا، اس سے قصاص ٹل جانے کی علت نہیں بن سکتا کیونکہ یہ علت لوہے کے ہتھیار سے زخمی کرنے والے شخص کے جرم کے اندر بھی موجود ہے۔ اگر کوئی کہے کہ امام شافعی نے جادو گر کے عمل کو شبہ عمد اور لاٹھی یا طمانچے کی ضرب کے بمنزل ہقرار دیا ہے جو کبھی جان لیوا ہوتی ہے اور کبھی جان لیوا انہیں ہوتی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جادو کے عمل سے ہونے والا قتل لوہے کے ہتھیار سے ہونے والے قتل کی بہ نسبت لاٹھی اور طمانچے کے ذریعے ہونے والے قتل سے زیادہ مشابہ کیوں ہوگیا ؟ اگر دونوں کے درمیان اس جہت سے فرق رکھا جائے کہ یہ ہتھیار ہے اور وہ ہتھیار نہیں ہے، تو پھر امام شافعی پر یہ کہنا لازم ہوگا کہ ہر ایسا قتل جو ہتھیار کے ذریعے نہ کیا گیا ہو اس کے مرتکب سے قصاص نہ لیا جائے، اس سے امام شافعی پر لازم آئے گا کہ وہ ایجاب قصاص کے اندر صرف ہتھیار کا اعتبار کریں۔ ان کا قول : اگر جادوگر کہے کہ میرے جادو سے میرا معمول بیمار تو تو پڑگیا تھا لیکن اس سے وہ مرا نہیں، تو اس کے اولیاء کو قسم دلائی جائے گی وہ کہیں یہ اس جادو وہی سے مراد ہے۔ “ بظاہر یہ بات جنابیات کے اس احکام کے خلاف ہے، اس لئے کہ اگر کوئی شخص کسی کو زخمی کر دے اور پھر وہ صاحب فراش ہو کر مرجائے تو زخمی کرنے والے پر متوفی کی جنایت لازم ہوجائے گی اور اس پر یہ حکم عائد کیا جائے گا کہ اس کی موت زخمی ہونے کے وقت ہی واقع ہوگئی تھی، اس کے اولیاء سے قسم لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اولیاء سے قسم نہ لینے کی یہ بات امام شافعی پر ساعر کے سلسلے میں بھی لازم آتی ہے۔ جب ساحر یہ اقرار کرلے کہ مسحور اس کے سحر کی وجہ سے بیمار ہوگیا تھا۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ہم بھی یہی بات اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں جو زخموں کی وجہ سے بیمار پڑگیا ہو اور صاحب فراش ہو کر وفات پا گیا ہو تو ایسی صورت میں آ کر اس کی موت کے سبب کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اس وقت تک اس پر قتل ہو کر مرنے کا حکم عائد نہیں کیا جائے گا جب تک اس کے اولیاء سے اس سلسلے میں قسم نہیں لے لی جائے گی۔ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ پھر آپ کو یہی بات اس صورت میں بھی کہنی چاہیے جب ایک شخص کسی کو تلوار کی ایک ضرب لگائے اور پھر پے در پے ضرب لگا کر اسے قتل کر دے اور بعد میں کہے کہ ” دوسری ضرب لگانے سے پہلے ہی مقتول اپنی فلاں بیماری کی وجہ سے مرگیا تھا یا اللہ تعالیٰ نے ہی اسے قتل کردیا تھا اور یہ میری ضرب سے نہیں مرا تھا۔ “ تو ایسی صورت میں اس کے اولیاء سے قسم لی جائے، حالانکہ کسی کا بھی یہ قول نہیں ہے۔ یہی صورت ساحر کے سلسلے میں زیر بحث مسئلے کی ہے جس کا ذکر ہم نے گزشتہ سطور میں کیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے جادو کے معنی اور فقہاء کے اختلاف کے موضوع پر کافی گفتگو کرلی ہے۔ اب ہم زیر بحث آیت کے معانی اور مقتضاد پر گفتگو کریں گے۔ قول باری : واتبعوا ما تتلوا الشیاطین علی ملک سکیما ان کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آیت میں مذکورہ لوگوں سے مرا وہ یہود ہیں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضور ﷺ کے زمانوں میں تھے۔ ابن جریج اور ابن اسحاق سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ الربیع بن انس اور السدی نے کہا ہے کہ اس سے وہ یہود مراد ہیں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں تھے اور وہ بھی جو حضور ﷺ کے زمان میں تھے۔ کیونکہ جادو کی پیروی کرنے والے یہود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر حضور ﷺ کی بعثت کے زمانے تک موجود رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کے بارے میں جنہوں نے قرآن کو قبول نہیں کیا، بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کا انکار اور کفر کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کو کتاب اللہ نہیں مانا۔ یہ بتادیا کہ انہوں نے ان چیزوں کی پیروی کی جو شیاطین حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ شیاطین سے مراد شیاطین جن و انس ہیں۔ قول باری : تتلوا کے معنی ہیں خبر دیتے اور پڑھتے تھے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔” پیروی کرتے تھے۔ “ اس لئے کہ تالی (فعل تلایتلوا کا اسم فاعل) تابع ہوتا ہے۔ قول باری علی ملک سلیمان کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ ” حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں ایک تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کا نام لے کر ۔ “ ایک اور قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ ” شیاطین حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے منسوب ک رکے جھوٹی باتیں کہتے تھے۔ “ اس لئے کہ خبر اگر جھوٹ ہو تو کہا جاتا ہے : تلا علیہ اس نے اس کے ذمہ ڈال کر بات کی۔ اور اگر خبر سچ ہو تو کہا جاتا ہے : تلاعنہ اس نے اس کی طرف سے بات کی۔ اور اگر ابہام ہو تو اس میں جھوٹ اور سچ دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے : ام تقولون علی اللہ مالا تعلمون (یا یہ بات ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے) یہود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جادو کی نسبت کر کے یہ دعویٰ کرتے کہ ان کی سلطنت جادو پر قائم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس سے مبرا قرار دیا۔ یہ بات حضرت ابن عباس ، سعید بن جبیر اور قتادہ سے منقول ہے۔ محمد بن اسحاق نے کہا ہے کہ یہود کے بعض احبار یعنی علماء نے کہا کہ :” لوگو، تمہیں یہ سن کر تعجب نہیں ہوتا کہ محمد (ﷺ ) دعویٰ کرتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) نبی تھے، بخدا وہ تو محض ایک جادوگر تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : وما کفر سلیمان سلیمان نے کفر نہیں کیا۔ ایک قول کے مطابق یہود نے جادو کی نسبت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف صرف اس بنا پر کی کہ ان کی یہ بات لوگوں کے اندر ان کی جادو کی قبولیت کا ذریعہ بن جائے اور ان پر ان لوگوں کا جادو چل جائے۔ ایک اور قول کے مطابق حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جادو سے متعلقہ تمام کتابیں اکٹھی کر کے انہیں اپنے تخت کے نیچے یا اپنے خزانے میں دفن کردیا تھا، تاکہ لوگوں کو جادو کا عمل کرنے سے روک دیا جائے۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو مدفون کتابیں برآمد کرلی گئیں۔ اور یہ دیکھ کر شیاطین نے کہا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت جادو پر قائم تھی۔ یہ بات یہودیوں میں پھیل گئی اور انہوں نے اسے قبول کرتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جادو کی نسبت کردی۔ یہاں شیاطین سے شیاطین الانس مراد لینا جائز ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شیاطین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی زندگی میں لاعلمی میں جادو کی ان کتابوں کو ان کے تخت کے نیچے دفن کردیا ہو اور پھر ا ن کی وفات کے بعد یہ جادو ان کی طرف منسوب کردیا ہو اور یہ سارا کام شیاطین الانس نے کیا ہو، یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان شیاطین نیجادو کی یہ تمام کتابیں برآمد کر کے لوگوں کو اس وہم میں مبتلا کردیا ہو کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جادو کا یہ سارا عمل کیا تھا۔ قول باری ہے : وما انزل علی المکین ببابل ھاروت وماروت (اور وہ ان چیزوں کے پیچھے پڑگئے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھیں۔ آیت میں مذکور لفظ : ملکین کی قرأت لام کے زبر اور اس کی زیر کے ساتھ کی گئی ہے۔ جن حضرات نے پہلی قرأت کی ہے انہوں نے ہاروت اور ماروت کو فرشتوں میں شمار کیا ہے اور جنہوں نے دوسری قرأت اختیار کی ہے انہوں نے انہیں فرشتوں میں شمار نہیں کیا۔ ضحاک سے مروی ہے کہ ہاروت اور ماروت اہل بابل کے دوسردار تھے۔ یہ دونوں قراتیں صحیح ہیں اور ان میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ نے ان دونوں مذکورہ سرداروں کے زمانے میں اس بنا پر دو فرشتے نازل کئے ہوں کہ ان سرداروں پر جادو کا غلبہ ہوگیا تھا اور لوگ ان کی باتوں سے دھوکے میں آ گئے تھے اور ا ن کی باتیں قبول کرلی تھیں۔ اس وضاحت کے تحت اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ نازل شدہ دونوں فرشتے ان دونوں سرداروں نیز تمام دوسرے لوگوں کو جادو کے معنی، جادوگروں کی خرق عادات باتوں کی حقیقت اور ان کے کفر کو واضح کرنے اور لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے پر مامور تھے تو پھر ہمارے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ قول باری : وما انزل علی الملکین کی پہلی قرأت کے تحت دو فرشتے تھے جن پر وہ باتیں نازل کی گئی تھیں جن کی طرف آیت میں اشارہ ہے اور دوسری قرأت کے تحت مذکورہ باتیں دو انسانوں پر نازل کی گئی تھیں کیونکہ مذکورہ دونوں فرشتے ان دونوں افراد کو جادو کے معنی اور اس کی حقیقت سے آگاہ کرنے پر مامور تھے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ونزلنا علیک الکتب تبیاناً لکل شیء (اور ہم نے آپ ﷺ پر کتاب میں ہر چیز کا بیان بنا کر نازل کیا) اور دوسری جگہ فرمایا : قولوا امنا باللہ وما انزل الینا (کہو ہم الل ہپر اور اس کتاب پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کی گئی) اللہ نے کبھی انزال کی اضافت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی اور کبھی اس کی اضافت مرسل الیہم کی طرف کی۔ اللہ نے مذکورہ دونوں سرداروں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا حالانکہ دونوں فرشتے عوام الناس کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کرنے پر مامور تھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس ان دونوں سرداروں کے تابع تھے اس لئے جادو کے معانی نیز اس کے بطلان پر دلالت کی بلیغ ترین صورت یہی تھی کہ دونوں سرداروں کو خصوصیت کے ساتھ مذکورہ حقائق سے اگٓاہ کردیا جائے تاکہ عوام الناس ان کی پیروی کرتے ہوئے ان حقائق سے اگٓاہ ہوجائیں۔ جس طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) کو ارشاد ہوا : اذھبا الی فرعون انہ طغی، فقولا لہ قولاً لینا لعلہ یتذکروا و یخشی (تم دونوں فرعون کی طرف جائو، وہ سرکش ہوگیا ہے، اس سے جا کر نرم بات کرو شاید وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے) حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) فرعون کی پوری رعایا کی طرف اسی طرح رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جس طرح خود اس کی طرف، لیکن خطاب کو اس کے ساتھ مخصوص کردیا گیا کیونکہ یہ طریقہ اسے اور اس کی رعایا کو اسلام یعنی خدا کی فرمانبرداری کی طرف بلانے کے سلسلے میں زیادہ منافع تھا۔ اسی طرح حضور ﷺ نے قیصر و کسریٰ کو اسلام کے دعوت نامے بھیجے اور ان میں ان کی رعایا کا ذکر چھوڑ دیا۔ حالانکہ آپ ﷺ تو پوری انسانیت کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ وجہ اس کی یہی تھی کہ رعایا راعی یعنی بادشاہ کے تابع ہوتی ہے۔ اس طرح آپ ﷺ نے کسرائے ایران کے نام مرسلہ دعوت نامے میں فرمایا تھا : ” مسلمان ہو جائو بچ جائو گے ورنہ تمام مجوسیوں کا گناہ تم پر پڑے گا۔ “ قیصر روم کو آپ ﷺ نے لکھا تھا : مسلمان ہو جائو بچ جائو گے ورنہ تمام کاشتکاروں کا گناہ تم پر پڑے گا۔ “ آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ تھا کہ اگر تم ایمان لے آئو گے تو تمہاری رعایا تمہاری پیروی میں مسلمان ہوجائے گی اور اگر تم ایمان نہیں لائو گے تو رعایا تمہارے خوف سے اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا۔ دراصل اسلام اور کفر کے اندر تمہاری رعایا تمہارے تابع ہے۔ “ اللہ سبحانہ ، نے اہل بابل کے دوسرداروں کی طرف ہی دو فرشتے بھیجے جس طرح یہ ارشاد باری ہے : اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلاً و من الناس ( اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب کرلیتا ہے۔ ) اگر یہ کہا جائے کہ ملائکہ کس طرح ان کی طرف بھیجے جاسکتے ہیں ؟ تو جو با میں کہا جائے گا کہ یہ بات جائز اور عام ہے اس لئے کہ اللہ سبحانہ، کبھی تو فرشتوں میں سے بعض کو بعض کی طرف اسی طرح بھیجتا ہے جس طرح انہیں ابنیاء کی طرف ارسال کرتا تھا ۔ ایسی صورت میں وہ ان فرشتوں کے اجسام کو مکشوف کر کے انہیں انسانی ہئیت عطا کردیتا ہے ، تاکہ بنی آدم ان سے بدک کر دور نہ ہوجائیں ، چناچہ ارشاد باری ہے : ولو جعلناہ ملکا لجعلنا ہ رجلاً (اگر ہم اسے یعنی پیغمبر کو فرشتہ بناتے تو اسے مرد کی شکل ہی دیتے۔ ) قول باری ہے : یعلمون الناس السحر و ما انزل علی المکین اس کا مفہوم یہ ہے اللہ سبحانہ نے دو فرشتے بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو سحر کے معانی اور اصل حقیقت سے آگاہ کر کے انہیں بتادیں کہ جادوگری کفر، ملمع کاری اور جھوٹ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس طرح لوگ جادوگری سے مجتنب ہو جائں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ابنیاء کی زبانی تمام مخطور بات و محرمات بیان فرما دیے تاکہ لوگ ان سے اجتناب کریں اور ان کے قریب بھی نہ پھٹکیں ۔ چونکہ جادوگری کفر، ملمع کاری نیز دھوکا دہی تھی اور اس زمانے کے لوگ اس کے دھوکے میں آ کر جادوگروں کے ان دعوئوں کی تصدیق کرتے تھے جو وہ اپنے متعلق کرتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ دونوں فرشتوں کی زبانی لوگوں سے جادو کی حقیقت بیان کردی تاکہ ہر فرشتے ان سے جہالت کا پردہ ہٹا کر انہیں جادو کے دھوکے میں آنے سے روک دیں۔ قول باری ہے : وھدیناہ النجدین اور ہم نے اسے دونوں راستے بتا دیے ) یعنی ہم نے بھلائی اور برائی کی راہیں واضح کردیں تاکہ انسان بھلائی کی راہ منتخب کرلے اور برائی کی راہ سے اجتناب کرے۔ حضرت عمر ؓ سے کہا گیا کہ :” فلاں شخص برائی کو نہیں پہچانتا۔ “ تو آپ نے فرمایا : ” پھر وہ اس قابل ہے کہ برائی میں گرپڑے۔ “ جادو کے معانی بیان کرنے اور اس سے روکنے اور کفر کی تما م صورتیں نیز مائوں اور بہنوں کی تحریم اور زنا کاری، شراب نوشی اور سود خوری کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ مخطورات و ممنوعات سے اجتنبا کے بیان کی غرض وہی ہے جو بھلائی کے بیان کی ہے۔ اس لئے کہ ایک شخص کو جب تک بھلائی کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک وہ اسے بروئے کار لانے کے مرحلے تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اس لئے جس طرح طاعات و واجبات کو اختیار کرنے کا بیان واجب ہے اسی طرح برائی کا بیان بھی واجب ہے تاکہ سننے والا اس سے اجتناب کرسکے۔ جب تک اسے برائی کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک وہ اسے ترک کرنے اور اس سے مجتنب رہنے کے مرحلیت ک نہیں پہنچ سکے گا۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ قول باری : وما انزل علی الملکین کا مفہوم یہ ہے کہ شیاطین نے مذکورہ فرشتوں پر نازل ہونے والی باتوں کے بارے میں اسی طرح کذب بیانی کی تھی جس طرح انہوں نے حضرت سلیمان لعیہ السلام کے بارے میں کذب بیانی سے کام لیا تھا، نیز یہ کہ یہ شیاطین جس جادو کا تذکرہ کرتے تھے وہ ان دونوں فرشتوں پر نازل نہیں ہوا تھا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ قو ل باری :” فیتعلمون منھما کا مفہوم ” سحر اور کفر میں سے “ ہے کیو کہ قول باری : ولکن الشیاطین کفروا کفر کو متضمن ہے اس لئے ضمیر سحر اور کفر کی طرف راجع ہوگی جس طرح یہ قول باری ہے : سیذکر من یخشی ویتجنبھا الاشقی (جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت حاصل کرے گا اور اس نصیحت سے وہ پہلو تہی کرے گا جو بدبخت ہے) ان کے قول کے مطابق ارشاد باری : وما یعدمان من احد کا مفہوم یہ ہے کہ مذکورہ دونوں فرشتے کسی کو جادو کی تعلیم نہیں دیتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات میں کوتاہی نہیں کرتے تھے کہ جب تک اس کے روکنے میں وہ انتہائی کوشش نہ کرلیتے اور یہ نہ کہہ دیتے کہ : انما نحن فتنہ فلاتکفر اس وقت تک وہ اس کی تعلیم نہ دیتے۔ ہمارے مذکورہ دوست کو درج بالا آیات کی اس تاویل پر صرف اس بات نے مجبور کردیا کہ انہیں یہ چیز انتہائی ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو جادو اور جادوگر کی اس قدر مذمت کی ہے اور دوسری طرف وہ یہی جادو دونوں فرشتوں پر نازل کر دے، لیکن ہمارے دوست کی یہ سوچ اس نتیجے کی موجب نہیں ہے جو انہوں نے نکالا ہے۔ اس لئے کہ قابل مذمت وہ شخص ہے جو جادو کا عمل کرے ، وہ شخص قابل مذمت نہیں ہے جو لوگوں کے سامنے جادو کی حقیقت بیان کر کے انہیں اس سے روکے جس طرح کوئی شخص جادو کی حقیقت کا علم رکھتا ہو تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ حقیقت ان لوگوں سے بیان کرے جو اس سے ناواقف ہوں اور انہیں اس سے روکے، تاکہ وہ اس کی حقیقت سے واقف ہو کر اس سے مجتنب رہیں۔ یہ بات تو ان فرائض میں داخل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم پر لازم کردیا ہے، یعنی اگر ہم دیکھیں کہ ایک شخص جادو کی ملمع کاری کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے تو ہم پر فرض ہوگا کہ ہم اس کی جعلسازی سے دھوکا کھانے والوں کو آگاہ کریں۔ قول باری ہے : انما نحن فتنۃ فلا تکفر۔ فتنہ یعنی آزمائش وہ چیز ہے جس کے ذریعے ایک امر کی بھلائی اور برائی ظاہر ہوجائے۔ عرب کہت یہیں : فتنت الذھب۔ یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب آپ سونے کو آگ پر رکھیں ، تاکہ اس کا کھوٹا یا کھرا ہونا معلوم ہوجائے۔ اختیار کے لفظ کا بھی یہی مفہوم ہے، اختیار یعنی آزمانے کے ذریعے اصل حالت ظاہر ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس مقام کے سوا دوسرے مقامات میں فتنہ کا لفظ عذاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً یہ قول باری : ذوقوا فتنتکم (تم اپنے عذاب کا مزہ چکھو) چونکہ مذکورہ فرشتے لوگوں کے سامنے جادو کی حقیقت ظاہر کردیتے تھے اس لئے وہ کہتے کہ ” ہم تو آزمائش ہیں۔ “ قتادہ نے کہا ہے کہ آیت کا مفہوم ہے :” ہم تو فتنہ یعنی امحتان ہیں۔ “ ا س مفہوم کی بھی گنجائش ہے۔ “ اس لئے کہ اللہ کے انبیاء اور اس کے رسول ان قوموں کے لئے اس کی آزمائش ہوتے ہیں جن کی طرف انہیں میعوث کیا جاتا ہے۔ تاکہ اللہ ان کا یہ امتحان لے کر ان میں سے بہتر عمل کس کا ہے۔ ہوسکتا ہے آیت میں مراد یہ ہو کہ ہم آزمائش اور امتحان ہیں اس لئے ہ جو شخص ان دونوں فرشتوں سے جادو سیکھتا اس کے لئے اسے برائی میں استعمال کرنا ممکن ہوتا اور اس طرح وہ برائی میں مبتلا ہونے سے محفوظ نہ ہوتا اور یہی بات اس کے لئے دوسری عبادتوں کی طرح پرکھ بن جاتی ہے۔ دونوں فرشتوں کا یہ کہنا کہ تو کفر نہ کر۔ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جادو کا عمل کفر ہے، کیونکہ یہ دونوں فرشتے کسی کو جادو کی اس لئے تعلیم دیتے تھے کہ وہ اس کا عمل نہ کرے، اس لئے کہ وہ اسے بتاتے کہ جادو کیا ہے اور حیلے بازی نیز کرتب بازی کس طرح ہوتی ہے تاکہ وہ جادوگری سے اجتنبا کرے اور عوام الناس کے سامنے اس کا مظاہرہ نہ کرے نہ یہ کہے کہ جادو انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کی قسم ہے۔ قول باری : فیتعلمون منھما مایفرقون بہ بین المرء وزجہ (پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دیں) میں دو طریقوں سے جدائی ڈالنے کا احتمال بیان ہوا ہے۔ ایک تو یہ کہ سننے والا جادو پر عمل کرتا اور کفر میں مبتلا ہوجاتا اور ارتداد کی وجہ سے اس کے اور اس کی مسلمان بیوی کے درمیان علیحدہ ہوجاتی ۔ دوسرے یہ کہ جادو سیکھنے والا میاں بیوی کے درمیان چغل خوری اور لگائی بجھائی کر کے ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکانے کا اور تعلقات خراب کرنے کی سعی کرتا اور اس طرح شوہر کو اس مقا مپر پہنچ ایدتا جہاں وہ ان باطل باتوں کو حق سمجھ بیٹھتا اور پھر بیوی سے علیحدگی اختیار کرلیتا۔ قول باری ہے : وما ھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ (ظاہر تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر وہ اسے ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے) یہاں اذن کا لفظ علم کے معنوں میں ہے۔ اگر یہ لفظ حرف ڈال کے سکون کے ساتھ پڑھا جائے تو اسم ہوگا اور اگر حرف ڈال کر متحرک پڑھا جائے تو پھر مصدر ہوگا جس طرح کہا جاتا ہے : حذر الرجل حذراً فھو حذر (آدمی ڈر گیا۔ وہ ڈرنے والا ہے) اور فقرے میں پہلا لفظ حذر مصدر اور دوسرا اسم ہے۔ آیت میں مذکورہ لفظ کا تلفظ دو طریقوں سے ہوتا ہے جس طرح شبہ اور شبہ نیز، مثل اور مثل کا تلفظ ہے۔ ایک قول کے مطابق (الا باذن اللہ) کا مفہوم تخلیتہ “ بھی ہے ، یعنی راستے سہ ہٹ جانا۔ حسن بصری کا قول ہے :” اللہ تعالیٰ جس شخص کو چاہتا ہے جادو کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے اور پھر جادو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جس شخص کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس کے اور جادو کے درمیان سے ہٹ جاتا ہے اور پھر جادو سے اسے نقصان پہنچ جاتا ہے۔ قول باری ہے : ولقد علموا لمن اشتراہ مالہ فی الاخرۃ من خلاق (اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا اس کے لئے) آخرت میں کوئی حصہ نہیں) ایک قول کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ کے دین بدلے جادو کو اپنا لیا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں یعنی خیر میں اس کا حصہ حسن بصری کے قول کے مطابق اس کا کوئی دین نہیں۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کا عمل کرنا اور جادو قبول کرنا کفر ہے۔ قول باری : ولبئس ماشروابہ انفسھم (کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ) ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو فروخت کردیا۔ جس طرح شاعر کا یہ شعر ہے۔ وشریت برداً لیتنی من بعد بردکنت ھامہ (میں نے چادر فروخت کردی، کاش کہ چادر کے بعد میں اس کا خواہشمند ہوجاتا) یہاں ” شریت “ بمعنی بعتہ ہے، یعنی میں نے اسے فروخت کردیا۔ آیت سے بھی اس بات کی تاکید ہوتی ہے کہ جادو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا کفر ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : ولوانھم امنوا وتقوا (اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے) یہ قول باری بھی مذکورہ بالا بات کا مقتضی ہے۔
Top