Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (نہیں) وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں
قول باری ہے : وقال اتخذ اللہ ولداً سبحانہ بل لہ ما فی السموت والارض (ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے۔ ان باتوں سے، اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ انسان کی اپنے بیٹے پر ملکیت باقی نہیں رہتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول : بل لہ ما فی السموت والارض سے ملکیت کے اثبات کے ذریعے ولد کی نفی کردی، یعنی بیٹا اللہ کی ملکیت ہوتا ہے اللہ کا بیٹا نہیں ہوتا۔ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے : وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمٰن عبداً (رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں) یہ بات اس امر کی مقتضی ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کا مالک بن جائے تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا۔ حضور ﷺ نے بھی اس جیسا حکم والد کے بارے میں جاری کیا ہے جب بیٹا اس کا مالک بن جائے۔ چناچہ آپ نے فرمایا :” کوئی بیٹا اپنے باپ کو اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ الا یہ کہ وہ اسے مملوک پائے اور پھر اسے خرید کر آزاد کردے۔ “ اس طرح آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کا مالک بنے تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا اور حضور ﷺ کا ارشاد اس امر کا مقتضی ہے کہ بیٹا جب اپنے باپ کا مالک بنے تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا۔ بعض بےعلم لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اگر بیٹا اپنے باپ کا مالک بن جائے تو وہ اس وقت تک اس پر آزاد نہیں ہوگا جب تک بیٹا اسے آزاد نہ کرے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” وہ اسے خرید لے اور پھر آزاد کر دے۔ “ یہ بات ملکیت کے بعد ایک نئے عتق کی مقتضی ہے جو لغت اور عرف کے اعتبار سے لفظ کے حکم سے جہالت پر مبنی ہے۔ کیونکہ مذکورہ الفاظ سے یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ :” بیٹا اسے خریدے اور آزاد کر دے۔ “ اس لئے کہ آپ نے یہ بتادیا کہ اس کی خریداری اس کے عتق کی موجب ہے۔ یہ بات حضور ﷺ کے اس ارشاد کی طرح ہے : لوگ دو ٹولیوں میں اپنے گھروں سے صبح کے وقت نکلتے ہیں۔ ایک وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات فروخت کر کے اسے ہلاک کردیتا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات خرید کر کے اسے آزاد کردیتا ہے۔ “ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ خریداری کے ذریعے اسے آزاد کردیتا ہے۔ نہ کہ اس کے بعد نئے سرے سے آزادی دے کر اسے آزاد 1 ؎ غلام بیٹے کا مالک بن جانا مراد ہے۔ اسی طرح باپ کا مالک بن جانے سے غلام باپ کا مالک بن جانا مراد ہے (ادارہ) کرتا 1 ؎ ہے۔
Top