Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ
: اور جب
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الْبَيْتَ
: خانہ کعبہ
مَثَابَةً
: اجتماع کی جگہ
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لئے
وَاَمْنًا
: اور امن کی جگہ
وَاتَّخِذُوْا
: اور تم بناؤ
مِنْ
: سے
مَقَامِ
: مقام
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
مُصَلًّى
: نماز کی جگہ
وَعَهِدْنَا
: اور ہم نے حکم دیا
اِلٰى
: کو
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
وَاِسْمَاعِيلَ
: اور اسماعیل
اَنْ طَهِّرَا
: کہ پاک رکھیں
بَيْتِيَ
: وہ میرا گھر
لِلطَّائِفِينَ
: طواف کرنے والوں کیلئے
وَالْعَاكِفِينَ
: اور اعتکاف کرنے والے
وَالرُّکَعِ
: اور رکوع کرنے والے
السُّجُوْدِ
: اور سجدہ کرنے والے
اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے کی اور امن پانے کی جگہ مقرر کرلیا۔ اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو۔ اور ابراہیم اور اسماعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔
قول باری ہے : واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا (اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا) بیت سے بیت اللہ، یعنی کعبہ مراد ہے صرف بیت کے علی الاطلاق ذکر پر اس لئے اکتفا کرلیا گیا کہ اس پر الف لام داخل ہے کیونکہ الف لام کا دخول ایک معہود چیز کو معرف بنانے یا جنس کا مفہوم ادا کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس کلام کے مخاطبین کو علم تھا کہ یہاں جنس مراد نہیں ہے اس لئے اس کا انصراف اس چیز یعنی کعبہ کی طرف ہوگیا جو مخاطبین کے نزدیک معہود تھی۔ قول باری : مثابۃ للناس کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ اس کی طرف ہر سال لوٹ لوٹ کر آتے ہیں۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بیت اللہ جو شخص بھی واپس جاتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ابھی اس کی مراد پوری نہیں ہوئی ہے، اس لئے وہ پھر اس کی طرف واپس ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ بیت اللہ کا حج کرنے جاتے ہیں اور انہیں اس کا ثواب ملتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اہل لغت کے قول کے مطابق اس لفظ کی اصل تعلق (ثاب، یثوب مثابۃ و ثواباً ) سے ہے جس کے معنی واپس آنے کے ہیں۔ بعض کے قول اس پر حرف ھاء (گول تاء) کا دخول مبالغے کے لئے ہے ۔ جسے طرح مبالغے کے طور پر کہا جاتا ہے۔ نسابۃ علامۃ سیارۃ (نساب کا بڑا ماہر، بہت بڑا عالم، بہت چلنے والا) فراء نحوی کے قول کے مطابق یہ لفظ اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے : المقامۃ ، المقامہ (ٹھہرنا) حضرات سلف سے سطور بالا میں جو تین تاویلیں نقل کی گئی ہیں، یعنی ہر سال لوگوں کا بیت اللہ کی طرف رجوع کرنا، لوگوں کا بیت اللہ کے حج کو جانا اور اس پر ثواب پانا اور بیت اللہ سے واپس آنے والے شخص کے دل میں اس کی طرف واپس جانے کی امنگ کا موجزن ہونا، آیت کے لفظ میں چونکہ ان تینوں کا احتمال ہے اس لئے تمام معانی مراد لینا جائز ہے، جو حضرات اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ بیت اللہ سے واپس آنے والے کے دل میں دوبارہ جانے کی امنگ ہوتی ہے، ان کی تاویل کی گواہی اس قول سے باری سے ظاہر ہے : فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم (پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا دے) اس لفظ : مثابۃ نے طواف کے عمل پر نص کردی ہے کیونکہ بیت اللہ طواف کے ملئے مقصود اور طواف کا ٹھکانا ہے۔ اس میں طواف کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ یہ تو صرف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کرنے والا ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ عمرہ کو واجب قرار دینے والے حضرات بعض دفعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو ایسا مرکز بنادیا ہے جس طرف لوگ بار بار لوٹ کر آتے ہیں تو اس کی طرف لوٹ لوٹ کر آناحج کے بعد عمرہ کرنے کا مقتضی ہے۔ لیکن اس استدلال میں کوئی جان نہیں ہے کیونکہ لفظ کے اندر ایجاب کی دلیل موجود نہیں ہے۔ لفظ کے اندر صرف اتنی بات ہے کہ اللہ نے لوگوں کے لئے بیت اللہ کی طرف واپس آنا مقرر کردیا ہے اور سا پر ان سے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ یہ بات استحباب کی مقتضی ہے ایجاب کی نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ :” تم چاہو تو عمرہ کرلو اور چاہو تو نمازپڑھ لو۔ “ تو اس میں آپ پر وجوب کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں آیت میں بیت اللہ کی طرف عمرہ کے لئے واپس آنے کی تخصیص نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حج کے اندر طواف قدوم، طواف زیارت اور طواف صدر ہے۔ ان طوافوں کی وجہ سے بیت اللہ کی طرف بار بار واپس آنا حاصل ہوجاتا ہے۔ جب ایک شخص یہ تمام طواف کرے گا تو آیت میں مذکورہ لفظ سے عہدہ برا ہوجائے گا۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس لفظ کے اندر عمرہ کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ قول باری اوامناً میں بیت اللہ کو امن کے وصف سے موصوف کیا گیا ہے اور اس سے پورا حرم مراد ہے۔ جس طرح یہ قول باری : ھدیاً بالغ الکعبۃ (کعبہ کو پہنچنے والا ہدی یعنی قربانی کا جانور) اس سے مراد حرم ہے ، نفس کعبہ مراد نہیں ہے، کیونکہ قربانی کے جانور کو نہ تو کعبہ کے اندر ذبح کیا جاتا ہے اور نہ مسجد حرام ہی میں۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (والمسجد الحرام الذی جعلنا ہ للناس سواء العاکف فیہ والباد (اور مسجد حرام سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے کہ اس میں رہنے والا اور باہر سے آنے والا سب برابر ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ اس لئے کہ سارا حرم مسجد ہے۔ اسی طرح قول باری ہے : انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عا مھم ھذا (مشرکین تو محض ناپاک ہیں۔ اب وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہیں آئیں) اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں حج کرنے اور مقامات نسک پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ حضور ﷺ کے اس ارشاد کو دیکھیے کہ جب آپ نے حضرت علی ؓ کو اعلان برأت دے کر بھیجا تو فرمایا کہ : اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ آپ ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے آیت کی مراد واضح فرما دی۔ ایک اور آیت میں ارشاد باری ہے : اولم یروا انا جعلنا حرماً امنا (کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے امن و الا ایک حرم بنادیا) اللہ سبحانہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں فرمایا : رب اجعل ھذا یلداً امنا (اے میرے رب ! اسے امن والا شہر بنا دے) یہ تمام آیات اس امر پر دلال ہیں کہ بیت اللہ کو امن کی صفت کے ساتھ موصوف کرنا پورے حرم کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ حرم کی حرمت کا تعلق جب بیت اللہ کے ساتھ ہے تو یہ بات جائز ہے کہ بیت کے اسم کے ذریعے پورے حرم کی تعبیر کی جائے اس لئے کہ حدود حرم میں امن حاص ہوتا ہے اور اس میں قتل و قتال کی ممانعت ہے۔ اس طرح اشہر حرم کی حرمت کا تعلق بھی بیت اللہ کے ساتھ ہے کیونکہ ان مہینوں میں لوگوں کو امن حاصل ہونا حج کی وجہ سے ہے اور حج کا مرکز بیت اللہ ہے۔ قول باری : واذ جعلنا البیت مثابۃ للنسا وامنا اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ خبر نہیں ہے۔ اسی طرح قول باری : رب اجعل ھذا بلداً امنا اور قول باری : ومن دخلہ کان امنا ۔ حکم کے طور پر ہے۔ یہ قول باری اس بات کی خبر نہیں ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے گا اسے کوئی تکلیف لاحق نہیں ہوگی، اس لئے کہ اگر یہ خبر کی صورت میں ہوتا تو خارجی اعتبار سے صورت حال وہی ہوتی جس کی خبر دی گئی ہے، کیونکہ اللہ کی دی ہوئی خبروں کے لئے ضروری ہے کہ خارجی اعتبار سے بھی صورت حال اسی طرح ہو جس کی خبر دی گئی ہے جبکہ اللہ سبحانہ نے خود دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : ولا تقاتلواھم عند المسجد الحرام حتی یق تلوکم فیہ فان قاتلوکم فافتلوھم (اور ان کے ساتھ مسجد حرام کے پاس اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک یہ تمہارے ساتھ وہاں جنگ نہ کریں۔ اگر یہ تمہارے ساتھ جنگ کریں تو پھر انہیں قتل کرو) اس آیت کے ذریعے اللہ نے مسجد حرام کے پاس قتل کے وقوع کی خبر دی۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں مذکورہ امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرم میں امن قائم رکھنے کے حکم کے قبیل سے ہے، نیز یہ کہ وہاں پناہ لینے والے کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے لے کر آج تک حرم کا یہی حکم ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب کے لوگ حرم کے سلسلے میں اسی بات کا اعتقاد رکھتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کی بچی کھچی صورت کے تحت حرم کے اندر قتل کا ارتکاب کرنا عظیم گناہ سمجھتے تھے۔ محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو دائود نے، ان سے احمد بن حنبل نے، ان سے الولید بن مسلم نے، ان سے اوزاعی نے، ان یے یحییٰ نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ انہوں نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو آپ کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا اور مکہ پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو غالب کردیا۔ میرے لئے بھی اسے صرف دن کی ایک گھڑی کیلئے حلال کردیا گیا تھا اور پھر اب یہ قیامت تک کے لئے جرم ہے۔ اس کے درخت نہیں کاٹے جائیں گے نہ اس کے شکار ہی کو بھگا یا جائے گا اور نہ یہاں پڑا ہوا لقطہ ہی کسی کے لئے حلال ہوگا، سوائے اس شخص کے جو اسے اٹھا کر اس کے مالک تک پہنچانا چاہے۔ یہ سن کر حضرت عباس نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول، سوائے اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے کیونکہ اسے ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا :” سوائے اذخر کے۔ “ محمد بن بکر نے ا ن سے ابو دائود نے، ان سے عثمان بن ابی شیبہ نے ، ان سے جریر نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے بیان کیا، اور اس کی تر گھاس نہیں کاٹی جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن ہی حرام قرار دیا تھا جس دن اس نے زمین اور آسمانوں کی تخلیق کی ، مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی اسے حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی اسے صرف دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کردیا گیا تھا۔ ابن ابی زویب نے سعید المقبری سے، انہوں نے ابو شریح الکعبی سے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے، لوگوں نے اسے حرم قرار نہیں دیا۔ اب یہاں کسی کا خون ہرگز نہ بہایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے میرے لئے دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کردیا تھا اور لوگوں کے لئے اسے حلال قرار نہیں دیا۔ حضور ﷺ نے ہمیں بتادیا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن ہی حرام قرار دیا تھا جس دن اس نے زمین آسمان کی تخلیق کی تھی، اس نے یہاں خونریزی کی ممانعت کردی ہے اور اس کی حرمت اب قیامت تک باقی رہے گی، آپ ﷺ نے یہ بھی بتادیا کہ مکہ کی تحریم میں یہاں کے شکار کی بھی تحریم شامل ہے، نیز یہاں کے درخت کاٹنا اور تر گھاس اکھاڑنا بھی حرام ہے۔ اگر کوئی شخص یہاں یہ کہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عباس کی درخواست پر اذخر گھاس کو ممانعت کے حکم سے مستثنیٰ کردیا، حلاان کہ اس سے پہلے آپ ﷺ نے علی الاطلاق تمام چیزوں کی ممانعت کر دیھی اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ فعل پر تمکین سے پہلے نسخ جائز نہیں ہوتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اذخر کی اباحت کی اس وقت خبر دے دی ہو جب حضرت عباس نے آپ ﷺ سے اس کی اباحت کی درخواست کی جس طرح یہ قول باری ہے : فاذا استاذ نوک ببعض شانھم فاذن لمن شئت منھم (اگر یہ لوگ آپ سے اپنے بعض کاموں کے سلسلے میں جانے کی اجازت مانگیں تو آپ ﷺ ان میں سے جسے چاہیں جانے کی اجازت دے دیں) اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو لوگوں کی طرف سے درخواست پر اجازت دینے کا اختیار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ نص اور توفیق کے ذریعے مکہ کی حرمت بتادی تھی، تاہم مکہ میں موجود اللہ کی نشانیاں اور سا کی توحید پر ان کی دلالت نیز مکہ کے ساتھ توحید باری کا اختصاص ایسی باتیں ہیں جو مکہ مکرمہ کی عظمت اور اس کی تعظیم کی موجب ہیں اور اس کا مشاہدہ شکار کے ان جانوروں میں کیا جاسکتا ہے جنہیں یہاں مکمل امن حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ حرم کا سارا حصہ زمین کے تمام دوسرے حصوں کے مشابہ ہے اور اس حصے میں ہرن اور کتے کا اجتماع ہوتا ہے، لیکن کیا مجال کہ کوئی کتا کسی ہرن کا پیچھا کرے اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دے، البتہ جب یہ دونوں حدود حرم سے باہر نکل جاتے ہیں تو کتا ہرن پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور ہرن اس سے بچنے کے لئے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ یہ صورت درحقیقت توحید باری تیز حضرات اسماعیل کی تفصیل اور ان کی شان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے حرم کے شکار نیز وہاں کے درخت کاٹنے کی ممانعت مروی ہے، نیز یہ بھی مروی ہے کہ اگر حرم میں کسی شکار کو ہلاک کردیا جائے یا کوئی درخت کاٹ لیا جائے تو اس کا بدلہ (کفارہ) ادا کرنا واجب ہے۔ قول باری ہے : واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی (اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم جہاں عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو) یہ آیت طواف کی دو رکعتوں کے لزوم پر دلالت کرتی ہے۔ قول باری : مثابۃ للناس۔ طواف کے عمل کا مقتضی ہے اور پھر اس پر زیر بحث آیت کو عطف کیا گیا۔ اس آیت میں مذکورہ امر کا صیغہ ظاہراً ایجاب پر مبنی ہے جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طواف نماز کا موجب ہے۔ حضور ﷺ سے بھی ایسی روایت منقول ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے طواف کی نماز مراد لی ہے، یہ وہ روایت ہے جسے محمد بن بکر نے بیان کیا ہے، ان سے ابو دائود نے ، ان سے عبد اللہ بن محمد النفیلی نے، ان سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر سے، حضرت جابر نے حضور ﷺ کے حج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺ نے رکن کا استلام کیا اور طواف کے تین اشواط میں رمل کیا اور چار اشواط میں اپنے قدموں پر چلے، پھر آپ ﷺ مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت تلاوت کی : واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی۔ آپ ﷺ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دو رکعتیں ادا کیں۔ جب آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کرنے کے وقت درج بالا آیت تلاوت کی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آیت میں طواف کے بعد نماز مراد ہے۔ اور چونکہ آیت کا صیغہ امر کا ہے اس لئے اسے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دو رکعتیں بیت اللہ کے پاس ادا کیں۔ یہ روایت محمد بن بکر نے بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے عبداللہ بن عمر القواریری نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے السائب نے اپنے والد سے کہ وہ حضرت ابن عباس کو لا کر حجر اسود سے متصل رکن کے ساتھ ملے ہوئے تیسرے کنارے پر کھڑا کردیتے جو باب کعبہ کے متصل ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ حضور ﷺ یہیں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ پھر حضرت ابن عباس وہیں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے۔ اسی طرح زیر بحث آیت کی طواف کی نماز پر دلالت ہوگئی اور حضور ﷺ کا کبھی مقام ابراہیمکے پاس اور کبھی اس کے سوا کسی اور مقام پر نماز ادا کرنا اس بات کی دلیل بن گیا کہ مقام ابراہیم کے پاس اس نماز کی ادائیگی واجب نہیں ہے۔ عبدالرحمٰن القاری نے حضرت عمر سے روابیت بیان کی ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز کے بعد طواف کعبہ کیا اور پھر سوار ہو کر مقام ذی طوی پہنچ گئے اور وہاں طواف کی دو رکعتیں ادا کیں۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے طواف کی نماز حطیم کے اندر ادا کی۔ حسن بصری اور عطا سے مروی ہے کہ انہوں نے مقام ابراہیم کے پیچھے طواف کی نماز نہیں پڑھی۔ قول باری : مقام ابراہیم کی مراد کے بارے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ سارا حج مقام ابراہیم ہے۔ عطا نے کہا ہے کہ : مقام ابراہیم عرفات مزدلفہ اور جمرات ہے۔ مجاہد کے قول کے مطابق سارا حرم مقام ابراہیم ہے۔ السدی نے کہا ہے کہ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ نے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے پائوں تلے رکھا تھا جب انہوں نے ان کا سردھویا تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سواری پر تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بیوی نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سرکا ایک حصہ دھویا اور پتھ رپتھر کو نیچے سے اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قدم اندر تک چلا گیا تھا۔ پھر اسے دوسری طرف نیچے رکھ کر سرکا دوسری طرف کا حصہ دھویا اور دیکھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قدم پتھر میں پھر اندر تک چلا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو اپنے شعائر کا حصہ قرار دے دیا اور فرمایا : واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی ایسی ہی روایت حسن بصری، قتادہ اور الربیع بن انس سیبھی منقول ہے اور زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ مقام ابراہیم سے یہی مراد ہے۔ کیونکہ حرم کو علی الاطلاق مقام ابراہیم کا نام نہیں دیا جاتا۔ یہی بات ان تمام مواضع کے متعلق کہی جائے گی جن کا ذکر ہم نے دوسرے حضرات کی تاویلات کے سلسلے میں کیا ہے کہ مقام ابراہیم سے مذکورہ پتھر ہی مراد ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے حمید نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : اللہ کے رسول، اگر آپ ﷺ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لیتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر اللہ سبحانہ نے زیر بحث آیت نازل فرمائی اور پھر حضور ﷺ نے وہاں نماز ادا کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا وہ حکم بھی دلالت کرتا ہے جو ہمیں نماز ادا کرنے کے سلسلے میں اس نے دیا ہے کیونکہ حرم سے نماز کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ان تمام مقامات ہی سے جن کا ذکر حضرات سلف نے مقام ابراہیم کی تاویل کے سلسلے میں کیا ہے۔ یہ مقام ابراہیم اللہ کی وحدانیت اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ نے اس پتھر میں مٹی کی نرمی پیدا کردی جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پائوں اس میں اندر تک چلا گیا اور یوں یہ پتھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک معجزہ بھی ہے۔ قول باری : مصلی سے کیا معنی مراد ہے ؟ اس بارے میں بھی اختلاف رائے ہے۔ مجاہد کے قول کے مطابق یہ جائے دعا ہے۔ اس کا تعلق نماز سے اس لئے قائم کیا گیا کہ نما زبھی دعا ہے جیسا کہ قول باری ہے : یا یھا الذین امنوا صلوا علیہ (اے ایمان والو ! تم بھی آپ پر رحمت بھیجو) یعنی دعا کرو، حسن بصری نے کہا ہے کہ اس سے مراد قبلہ ہے، قتادہ اور السدی نے کہا ہے کہ لوگوں کو اس جگہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لفظ کا ظاہر بھی اسی مفہم کا مققتضی ہے۔ اس لئے کہ جب لفظ صلوۃ عل الاطلاق ہو تو اس سے وہ صلوۃ مفہوم ہوتی ہے جسے رکوع اور سجود کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نہیں دیکھتے کہ شہر کا مصلی وہ مقام ہے جس میں عید کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید سے فرمایا تھا۔ مصلی تمہارے آگے ہے۔ اس سے آپ ﷺ کی مراد وہ مقام تھا جہاں نماز ادا کی جاتی تھی۔ اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضور ﷺ نے زیر بحث آیت تلاوت کرنے کے بعد نماز ادا کی تھی۔ جو حضرات مصلی سے قبلہ مراد لیتے ہیں ان کی مراد بھی نماز کے معنی کی طرف راجع ہے، اس لئے کہ نمازی مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھتا ہے اور اس طرح مقام ابراہیم اس کے لئے قبلہ بن جاتا ہے نیز نماز کے اندر چونکہ دعا ہوتی ہے اس لئے مذکورہ لفظ، یعنی مصلی کو صلوۃ کے معنوں پر محمول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ نماز ہی ان تمام معانی پر مشتمل ہے جن کی نشاندہی سلف نے زیر بحث آیت کی تاویل میں کی ہے۔ قول باری ہے : وعھدنا الی ابراہیم و اسمعیل ان طھوابیتی للظائفین و العاکفین والرکع السجود (اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو) قتادہ، عبید بن عمیر، مجاہد اور سعید بن جبیر نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ ” تم دونوں اسے شرک اور بتوں کی پرستش سے پاک رکھو۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ مشرکین نے وہاں بت نصب کر رکھے ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں توڑ ڈالنے کا حکم دیا اور اپنے دست مبارک میں ایک چھڑی لے کر ان بتوں کو ٹھوکے لگاتے اور پڑھتے جاتے : جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً (حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے) ایک قول کے مطابق زیر بحث آیت کا مفہوم ہے : تم دونوں اسے گوبر اور خون سے پاک کر دو جسے مشرکین یہاں پھینک جاتے تھے، السدی کے قول کے مطابق یہ مفہوم ہے : میرے گھر کی تعمیر طہارت پر کرو۔ جس طرح یہ قول جاری ہے (افمن اسس بنیانہ علی تقویٰ من اللہ ورضوان خیر (پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کے طلب پر رکھی) تا آخر آیت ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام معانی اور الفاظ کے اندر گنجائش ہے اور یہ معافی ایک دوسرے کے منافی بھی نہیں ہیں، اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میرے گھر کی تعمیر طہارت پر کرو اور اسے گوبر اور خون وغیرہ سے بھی پاک رکھو اور بتوں کو اس میں رکھنے کی کسی کو اجازت نہ دو ۔ قول باری : للطائفین سے کیا معنی مراد ہے ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ جو یر نے ضحاک سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو حج کرنے کے لئے آئیں اور قول باری : والعاکفین سے اہل مکہ مراد ہیں۔ یہی لوگ یہاں قیام کرنے الے تھے۔ عبدالملک نے عطاء سے نقل کیا ہے کہ عاکفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیگر شہروں سے آگے پیچھے بیت اللہ میں آتے ہیں، نیز وہ لوگ جو بیت اللہ کے قرب و جوار میں آباد ہیں۔ ابوبکر الہذلی نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص طواف کر رہا ہو تو وہ طائفین میں شمار ہوگا اور اگر بیٹھا ہوا ہو تو وہ عاکفین میں شمار ہوگا اور اگر وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے رکوع سجدہ کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا۔ ابن فضیل نے ابن عطاء سے، انہوں نے سعید سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ انہوںں نے زیر بحث آیت کی تفسیر میں فرمایا : نماز سے پہلے طواف کرنا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ضحاک کا قول (جو لوگ حج کرنے کے لئے آئیں ان کا شمار طائفین میں ہوگا) بھی بیت اللہ کے طواف کے معنی کی طرف راجع ہے، اس لئے کہ جو شخص بیت اللہ کا قصد کرے گا وہ طواف کی خاطر ہی اس کا قصد کرے گا۔ تاہم ضحاک نے آیت کے مذکورہ لفظ کو باہر سے آنے والوں کے ساتھ خاص کردیا ہے حالانکہ آیت کے اندر تخصیص کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ طواف کے عمل میں اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگ دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ضحاک نے اس لفظ کی تاویل اس طائف کے معنوں میں کی ہے جو طاری یعنی اجنبی ہوتا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : فطاف علیھا طائف من ربک واپس اس (باغ) پر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک پھرنے والا (عذاب) پھر گیا) نیز یہ قول باری : اذا مسھو طائف من ا لشیطان (جب شیطان کے اثر سے کوئی برا خیلا انہیں چھو بھی جاتا ہے۔ ) اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر ضحاک نے مذکورہ بالا معنی کا ارادہ بھی کیا ہو تو بھی لا محالہ طواف ہی مراد ہوگا اس لئے کہ طاری، یعنی اجنبی شخص بیت اللہ کا قصد صرف اس کے طواف کی خاطر کرے گا۔ ضحاک نے مذکورہ بالا معنی مراد لے کر لفظ طائف کو ان میں سے بعض کے ساتھ خاص کردیا اور بعض کو چھوڑ دیا اور اس بات پر لفظ کے اندر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس لفظ کو طواف کے عمل پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں قول باری : والعاکفین سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو بیت اللہ میں اعتکاف کرتے ہیں۔ اس میں بھی دو صورتوں کا احتمال ہے۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ مذکورہ اعتکاف سے وہ اعتکاف مراد ہے جسکا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے : وانتم عاکفون فی المساجد ( اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو) اس صورت میں آیت کے اندربیت اللہ کی تخصیص ہوجائے گی۔ دوسری صورت میں وہ لوگ مراد ہوں گے جو مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں، بشرطیکہ اعتکاف کو بعث (ٹھہرنے) کے معنوں میں لیا جائے۔ ایک قول کے مطابق عاکفین سے مراد بیت اللہ کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے اہل مکہ مراد ہیں۔ یہ تمام صورتیں ایک مقام پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے معنی کی طرف راجع ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے قول باری : للطائفین کی تاویل غربا یعنی مسافروں اور وطن سے دور لوگوں سے کی ہے ان کی یہ تاویل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ غبرا کے لئے طواف نماز سے افضل ہے کیونکہ اس صورت میں یہ قول باری لا محالہ غربا کے لئے طواف کے معنی کا افادہ کرے گا اگر بیت اللہ کے لئے ان کا قصد طواف کے لئے ہو تو قول باری : والعاکفین بیت اللہ میں اعتکاف کے جواز کا معنی ادا کرے گا، نیز اس میں اور اس کے سامنے نماز پڑھنے کے معنی بھی دے گا، تاہم غربا کو طواف کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس سے یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ غربا کے لئے طواف کرنا نماز پڑھنے، نیز اس اعتکاف سے افضل ہے جو طواف کے بغیر صرف ٹھہرنے کے معنوں میں ہے۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے کہ دیگر شہروں کے باشندوں کیلئے طواف کرنا اور اہل مکہ کے لئے نماز پڑھنا افضل ہے۔ اس طرح زیر بحث آیت کئی معانی کو متضمن ہے ایک تو یہ کہ بیت اللہ کا طواف کیا جائے اور یہ اللہ کی ایسی عبادت ہے جس کا فاعل ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ غرباء، یعنی مسافروں کے لئے طواف کرنا نماز پڑھنے اور بیت اللہ میں یا اس کے سامنے اعتکاف کرنے سے افضل ہے۔ یہ بات قول باری : والعاکفین سے مفہوم ہوتی ہے اس میں بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے خواہ یہ فرض نماز ہو یا نفل کیونکہ آیت نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ یہ بات امام مالک کے قول کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیت اللہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی کے جواز کے قائل نہیں ہیں، حالانکہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے موقعہ پر بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی تھی اور چونکہ یہ نماز چاشت کے وقت پڑھی گئی تھی اس لئے لا محالہ نماز نفل تھی۔ آیت میں مکہ کے پڑوس میں رہائش میں رہائش کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے۔ قول باری : والعاکفین میں اس معنی کا احتمال موجود ہے اگر اسے لبث (ٹھہرنے) کا اسم قرار دیا جائے۔ ایسا بطور مجاز ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں عطا اور یدگر حضرات نے اس لفظ کی تاویل بیت اللہ کے قرب و جوار میں بسنے والے لوگوں سے کی ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ طواف نماز سے پہلے ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس نے اس کی تاویل کی ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ الفاظ کے اعتبار سے طواف کو نماز پر مقدم کرنے میں ترتیب پر کوئی دلالت نہیں ہے، اس لئے کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ طواف کرنے اور نماز پڑھنے دونوں افعال کا مقتضی ہے اور جب نماز کے ساتھ طواف کا ثبوت ہوجائے تو اس صورت میں دو وجوہ کی بنا پر طواف لا محالہ نماز پر مقدم ہوگا۔ ایک وجہ تو حضور ﷺ کا عمل اور دوسری وجہ اہل علم کا اتفاق کہ طواف نماز پر مقدم ہے۔ اگر یہاں کوئی معترض بیت اللہ کے اندر نماز کے جواز کے سلسلے میں ہماری مذکورہ بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہے کہ آیت کے الفاظ میں بیت اللہ کے اندر جو از صلوۃ پر کوئی دلالت نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن کے الفاظ میں یہ تہیں ہیں : والرکع السجود فی المبیت (بیت اللہ کے اندر رکوع اور سجدہ کرنے والے) نیز زیر بحث آیت میں جوف کعبہ میں طواف کرنے کی دلالت موجود نہیں، بلکہ خارج کعبہ طواف کرنے پر دلالت ہے۔ اسی طرح آیت کی دلالت بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے کی صورت تک محدود ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ زیر بحث آیت کا ظاہر تو بیت اللہ کے اندر مذکورہ افعال کی ادائیگی کے جواز کا مقتضی ہے جس طرح یہ بیت اللہ کے اندر اعتکاف کرنے کے جواز کا تقاضا کرتا ہے۔ اس اقتضاء کے دائرے سے طواف کا عمل بایں طور پر خارج ہوگیا ہے کہ یہ بیت اللہ سے باہر سر انجام پاتا ہے اور اس کی دلیل اجماع امت ہے، نیز یہ کہ بیت اللہ کے طواف کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے گرد چکر لگایا جائے۔ جوف کعبہ کے اندر چکر لگانے والا شخص طواف کرنے والا نہیں کہلاتا۔ اللہ سبحانہ نے تو ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا ہے۔ بیت اللہ کے اندر طواف کرنے کا حکم نہیں دیا، چناچہ ارشاد باری ہے۔ ولیطوفوا بالبیت العتیق (اور قدیم گھر کا خوب خوب طواف کریں) جو شخص بیت اللہ کے اندر نماز ادا کرے اسے آیت کے الفاظ کا علی الاطلاق ذکر شامل ہوجائے گا، نیز اگر آیت میں صرف بیت اللہ کی طرف رخ کرنا مراد ہوتا تو پھر رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے بیت اللہ کو پاک رکھنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، اس لئے کہ رخ کرنے کے معاملے میں بیت اللہ کو پاک رکھنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، اس لئے کہ رخ کرنے کے معاملے میں بیت اللہ میں موجود اور بیت اللہ دور تمام لوگ یکساں ہیں، جبکہ یہ بات واضح ہے کہ بیت کو پاک رکھنے کا حکم صرف ان لوگوں کو دیا جا رہا ہے جو وہاں موجود ہوں۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ بیت اللہ کی طرف رخ کیا جائے اور بیت اللہ کے اندر نماز ادا نہ کی جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ سبحانہ نے رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے بیت اللہ کی تطہیر کا حکم فرمایا۔ اگر آپ اس حکم کو بیت اللہ سے باہر نماز کی ادائیگی پر محمول کریں تو بیت کے اردگرد کی تطہیر بھی ہوگی اور جب آیت کے الفاظ دنوں باتوں کا احتمال رکھتے ہیں تو پھر مذکورہ حکم کو دونوں پر محمول کرنا واجب ہ گا اور اس طرح دونوں باتیں مراد ہوں گی جس کے نتیجے میں بیت اللہ کے اندر اور بیت اللہ سے باہر دونوں مقامات پر نماز کی ادائیگی کا جواز ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری : ولیطوفوا بالبیت العتیق کی طرح یہ قول باری بھی ہے : فول جھک شطرالمسجد الحرام و حیث ما کنتم فوتوا وجوھکم شطرہ (اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیرا کرو اور جہاں بھی تم ہو اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو) اور یہ حکم بیت اللہ سے باہر نماز کی ادائیگی کا مقتضی ہے۔ اس کے جواب میں کہ اجائے گا کہ اگر آپ آیت کے الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں پر محمول کریں تو مسجد حرام کے اندر بھی نماز کا جواز نہیں ہوگا کیونکہ ارشاد باری ہے : قول وجھک شطرالمسجد الحرام اس بنا پر ایک نمازی جب تک مسجد حرام کے اندر ہوگا اس وقت تک مسجد حرام کی طرف رخ کرنے والا قرار نہیں پائے گا۔ اگر آپ کہیں کہ آیت میں مسجد حرام سے خود بیت اللہ مراد ہے، اس لئے کہ سب کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے نماز کی ادائیگی نہیں ہوتی اگر رخ بیت اللہ کی طرف نہ ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو شخص جوف بیت اللہ میں نماز ادا کرے گا وہ بھی بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنے والا ہوگا۔ اس لئے بیت اللہ کا منظر اس کے ایک گوشے اور سمت کا نام ہے اور جو شخص بیت اللہ کے اندر ہوگا اس کا رخ لا محالہ بیت اللہ کے کسی نہ کسی شطر کی طرف ہوگا۔ اس بن اپر بیت اللہ کے اندر نمازی کا نماز ادا کرنا مذکورہ بالا دونوں کے ظاہر کے عین مطابق ہوگا۔ کیونکہ جو شخص بیت اللہ کے اندر ہوگا وہ بیت اللہ نیز مسجد حرام دونوں کے گوشوں اور سمتوں کی طرف رخ کرنے والا قرار پائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت جس طواف کو متضمن ہے وہ فرض ، واجب اور مستحب ہر قسم کے طواف کو عام ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک طواف کی یہی تین صورتیں ہیں۔ طواف زیارت فرض طواف ہے جس پر یہ قول باری دال ہے : ولیطوفوا بالبیت العتیق طواف صدور واجب طواف ہے اور اس کے وجوب کا حکم سنت سے ماخوذ ہے، حضور ﷺ کا ارشاد ہے : جو شخص بیت اللہ کا حج کرے تو اس کا آخری عمل طواف ہونا چاہیے۔ طواف قدوم مسنون اور مستحب ہے۔ واجب نہیں ہے حضور ﷺ جب حج کے لئے مکہ تشریف لائے تھے تو آپ ﷺ نے طواف قدوم کیا تھا جہاں تک طواف زیارت کا تعلق ہے تو کوئی چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی اور حاجی کو اس وقت تک اپنی بیوی سے قربت کی اجازت نہیں ہوتی جب تک وہ اس طواکی ادائیگی نہ کرے۔ رہ گیا طواف صدور تو اگر حاجی اس کی ادائیگی کے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے تو اس پر دم (جانور کی قربانی) واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ طواف قدوم کے ترک سے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم بالصواب طریقہ طواف ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہر ایسا طواف جس کے بعد سعی ہو اس کے پہلیت ین پھیروں میں رمل کیا جائے گا (رمل کندھے ہلا ہلا کر تیز تیز قدموں سے چلنے کو کہتے ہیں) اور جس طواف کے بعید صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا نہ ہو اس میں رمل نہیں ہوگا۔ پہلے طواف کی مثال طواف قدوم ہے۔ اگر طواف کرنے والا طواف کے بعد سعی کرنا چاہے، نیز طواف زیارت بشرطیکہ طواف کرنے والے نے طواف قدوم میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی ہو۔ اگر اس نے طواف قدوم کے بعد سعی کرلی ہو، تو پھر طواف زیارت میں رمل نہیں ہوگا۔ عمرہ کے طواف میں رمل ہے اس لئے کہ مذکورہ طواف کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جائے گی۔ حضور ﷺ جب حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے رمل کیا تھا۔ اس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ نیز عطاء نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر نے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے پہلے تین پھیروں میں حجر اسود سے لے کر رمل کیا تھا۔ اسی طرح کی روایت حضرت عمر، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عمر سے بھی منقول ہے۔ ابوالطفیل نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے رکن یمانی سے رلم شروع کیا اور پھر حجر اسود تک چلے گئے۔ حضرت انس نے بھی حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ سلف کی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ طواف کے آخری چار پھیروں میں قدموں پر چلنے کے اعتبار سے ان چاروں پھیروں کی یکسانیت پر ان حضرات کا اتفاق ہے۔ اسی طرح نظر اور قیاس اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ پہلے تین پھیروں میں بیت اللہ کے تمام اطراف میں رمل کرنے کے اعتبار سے ان پھیروں کا یکساں ہونا واجب ہے اس لئے کہ طواف کے تمام احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے رلم اور مشی (قدموں پر چلنے) کے اعتبار سے کعبہ کے تمام جواب کے حکم میں کوئی اختلاف اصولی طور پر نظر نہیں آتا۔ رمل کی سنت باقی رہنے کے بارے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ رمل کی سنت اس وقت تھی جب حضور ﷺ نے عمرۃ القضاء کے اندر مشرکین کی یہ بات سن کر کہ یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے مسلمانوں کو کمزور کردیا ہے، ان کے سامنے قوت اور جسمانی طاقت کے اظہار کے لئے رمل کیا تھا اور مسلمانوں کو رمل کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ مشرکین مسلمانوں کی کسی کمزوری کو دیکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ نہ بنائیں۔ زین بن اسلم نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اب رمل کرنے اور کندھوں سے کپڑے ہٹانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا کردیا ہے اور کفر اور کافروں کا صفایا کردیا ہے، تاہم اس کے باوجود ہم اس عمل کو ترک نہیں کریں گے جسے ہم حضور ﷺ کی ہمرایہ میں کیا کرتے تھے۔ ابو الطفیل کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ آپ کی قوم کہتی ہے کہ حضور ﷺ نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا تھا، نیز یہ کہ رمل سنت ہے ؟ حضرت ابن عباس نے جواب میں فرمایا : انہوں نے سچ بھی کہا اور جھوٹ بھی حضور ﷺ نے رمل کیا تھا لیکن یہ سنت نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ رمل ایک ثابت سنت ہے جسے ترک کرنا نہیں چاہیے اور حضور ﷺ نے ابتدا میں اس کا حکم مشرکین کے سامنے اپنی جسمانی قوت و طاقت کے اظہار کے لئے دیا تھا، کیونکہ روایت موجود ہے کہ حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر رمل کیا تھا، حالانکہ اس وقت مشرکین کا کوئی وجود نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن مسعود وغیرہم نے بھی رمل کیا تھا۔ اس سے رمل کرنے کے حکم کی بقا کا ثبوت ملتا ہے۔ ابتدائی طور پر مذکورہ بالا سبب کے ساتھ اس حکم کا تعلق اس امر کا موجب نہیں ہے کہ سبب زائل ہونے کی بنا پر یہ حکم بھی زائل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ روایت کے مطابق رمی جمار کا سبب یہ تھا کہ جمار کے مقام پر ابلیس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے آیا تھا اور آپ ﷺ نے اسے کنکریاں ماری تھیں اور اس کے بعد اس سبب کی عدم موجودگی کے باوجود رمی کی سنت باقی رہی۔ یہ بھی روایت ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا سبب یہ ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ پانی کی تلاش میں صفا پر چڑھیں اور پھر وہاں سے اتر کر وادی سے تیز تیز قدموں کے ساتھ گزر گئیں کیونکہ ان کا بچہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ پھر جب وادی سے اوپر آ کر اپنے بچے کو دیکھ لیا تھا تو قدموں پر چلتی گئیں اور پانی کی تلاش میں مردہ پر چڑھ گئیں۔ انہوں نے سات مرتبہ پر عمل کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نیز وادی میں تیز قدموں سے چلنا سنت قرار پایا، حالانکہ وہ سب زائل ہوچکا تھا جس کی بنا پر یہ عمل ہوا تھا۔ یہی کیفیت طواف کے اندر رمل ک عمل کی ہے۔ ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ طواف کرنے والا صرف رکن اسود اور رکن یمانی کا استلام کرے گا۔ یہ بات حضرت ابن عمر نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی آپ سے اس کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت ابن عمر نے جب حضرت عائشہ کا یہ قول سنا کر حجر یعنی حطیم کا بعض حصہ بیت اللہ میں سے ہے۔ “ تو فرمایا کہ : میں نہیں خیال کرتا کہ حضور ﷺ نے ان دونوں (رکن یمانی اور حجر اسود) کا استلالم ترک نہیں کیا تھا، مگر صرف اس لئے کہ یہ دونوں بیت اللہ کی بنیادوں پر نہیں تھے، اور لوگوں نے صرف اسی سبب کی بنا پر کہ حطیم بیت اللہ میں داخل ہے اس کے پیچھے سے طواف کیا تھا۔ حضرت یعلی بن امیہ نے فرمایا : میں نے حضر ت عمر کے ساتھ طواف کیا۔ جب میں اس رکن کے پاس پہنچا جو حجر کے متصل ہے تو میں اس کا استلام کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے حضور ﷺ کے ساتھ طواف نہیں کیا ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت عمر نے فرمایا : کیا تم نے آپ ﷺ کو اسلام کا استلام کرتے ہوئے دیکھا تھا ؟ میں نے اس کا جواب نفی میں دیا جسے سن کر حضرت عمر نے یہ آیت تلاوت کی : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زنگدی میں بہترین نمونہ موجود ہے)
Top