Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ پوچھتے ہیں آپ سے
عَنِ
: سے
الْخَمْرِ
: شراب
وَالْمَيْسِرِ
: اور جوا
قُلْ
: آپ کہ دیں
فِيْهِمَآ
: ان دونوں میں
اِثْمٌ
: گناہ
كَبِيْرٌ
: بڑا
وَّمَنَافِعُ
: اور فائدے
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَاِثْمُهُمَآ
: اور ان دونوں کا گناہ
اَكْبَرُ
: بہت بڑا
مِنْ
: سے
نَّفْعِهِمَا
: ان کا فائدہ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے
مَاذَا
: کیا کچھ
يُنْفِقُوْنَ
: وہ خرچ کریں
قُلِ
: آپ کہ دیں
الْعَفْوَ
: زائد از ضرورت
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاٰيٰتِ
: احکام
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَفَكَّرُوْنَ
: غور وفکر کرو
(اے پیغمبر ﷺ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
شراب کی حرمت ارشاد باری ہے یسئلونک عن الخمروالمسر قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس و اثمھما اکبر من نفعھما۔ آپ سے پوچھتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ آیت تحریم خم کا تقاضا کرتی ہے اگر اس کی تحریم کے لئے کوئی اور آیت نازل نہ بھی ہوتی پھر بھی یہی آیت اس مقصد کے لئے کافی ہوتی۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے قل فیھما اثم کبیر اور گناہ سارے کا سارا حرام ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ قول باری ہے قل انما حرم ربی الفواحش ماظھرمنھما وما بطن والاثم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جو چیزیں میرے رب نے حرام کی ہیں وہ یہ ہیں بےشرمی کے کام، خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کردیا کہ گناہ حرام ہے۔ پھر شراب کے متعلق صرف اتنی بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اس میں گناہ ہے بلکہ فرمایا گناہ کبیر ہے تاکہ اس کی ممانعت کی اور تاکید ہوجائے اور و منافع للناس میں اس کی اباحت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے مراد دنیاوی فوائد ہیں اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ دنیاوی لحاظ سے محرمات کے مرتکبین کو کوئی نہ کوئی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن یہ فوائد انہیں اس عذاب سے نہیں بچا سکتے جو انہیں ملنے والا ہے۔ شراب کے فوائد کا ذکر اس کی اباحت کی دلیل نہیں ہے۔۔ اس بنا پر شراب کے فوائد کا ذکر اس کی اباحت کی دلیل نہیں ہے۔ خاص طور پر جب کہ آیت کے سیاق میں اس کے منافع کے ذکر کے ساتھ اس کی ممانعت کی بھی تاکید کردی ہے چناچہ فرمایا واثمھما اکبر من نفعھما یعنی شراب کے استعمال پر ملنے والے اس فوری فائدے کے مقابلہ میں بہت بڑھ کر ہے جو اسے حاصل ہوسکتی ہے۔ شراب کے متعلق جو دوسری آیتیں نازل ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے یایھا الذین امنوا لاتقرلوا الصلوۃ وانتم سگاری حتی تعلموا ماتقولون۔ اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جائو یہاں تک کہ تمہیں یہ معلوم ہونے لگے کہ تم کیا کہہ ہو۔ اس آیت میں شراب کی اتنی مقدار کی تحریم پر دلالت نہیں ہے جس سے نشہ آجائے۔ اس میں نشہ آور مقدار کی حرمت پر دلالت ہے۔ اس لئے کہ نماز ایک فرض عبادت ہے جس کی ادائیگی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جو چیز نماز کی وقت پر ادائیگی میں رکاوٹ ہو وہ ممنوع ہوگی۔ اب جبکہ نماز حالت سکر میں ممنوع ہے اور شرب خم سے ترک صلوۃ لازم آتی ہے اس بنا پر اس کے پینے کی ممانعت ہوگی اس لئے کہ ایسا کام جو فرض کے لئے رکاوٹ بن جائے وہ ممنوع ہوتا ہے۔ شراب کے متعلق ایک اور آیت ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے انما الفمووا المیسروالانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ یہ شراب، یہ جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو تاقول باری فھل انتم منتھون کیا تم باز آجائو گے۔ اس آیت میں شراب کی حرمت کا کئی وجوہ سے ذکر ہے۔ اول یہ قول باری ہے رجس من عمل الشیطان۔ رجس کا اطلاق صرف اسی چیز پر کرنا درست ہوتا ہے جو ممنوع اور حرام ہو پھر اس کی تاکید اپنے اس ارشاد فاحتنبوہ سے کی۔ یہ امر ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس کے اجتناب کو اپنے اوپر لازم کرلیا جائے۔ پھر یہ فرمایا فھل انتم منتھون جس کا مفہوم یہ ہے کہ فانتھوا یعنی باز آجائو۔ کیا شراب کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ؟۔۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری فیھما اثم کبیر۔ میں شراب کی قلیل مقدار کی تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ وہ مقدار جسے استعمال کر کے سکر، ترک صلوۃ غیر انسانی حرکات اور جنگ و جدل کی وجہ سے پینے والا گنہگار ٹھہرے۔ جب ان باتوں کی وجہ سے اس پر گناہ میں ملوث ہونے کا حکم لگا دیا جائے گا تو اس صورت میں ہم ظاہر آیت کا متقضیٰ یعنی حکم تحریم کو پورا کریں گے اور ظاہر ہے کہ قلیل مقدار میں شراب کے استعمال سے یہ باتیں پیدا نہیں ہوتیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت میں قلیل مقدار کی تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فیھما اثم کبیر میں ایک لفظ پوشیدہ ہے وہ ہے شوبھا اس لئے عبارت یوں ہوگی۔ فی شربھا اثم کبیر، شراب پینے میں بڑا گناہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس شراب میں کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ یہ اللہ کا فعل ہے۔ گناہ میں ملوث ہونے کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہمارا بھی اس شراب میں کوئی کردار پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے ہم سزا اور عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ جب لفظ شرب کو پوشیدہ مان لیا جائے تو عبارت یوں ہوگی فی شربھا فعل المیسراثم شراب پینے اور جوا کھیلنے میں بہت بڑا گناہ ہے۔ عبارت کی یہ صورت شراب کی قلیل اور کثیر دونوں مقداروں کو شامل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا کہ حرمت الخمد (شراب حرام ہوگئی) تو یہی بات سمجھ میں آتی کہ اس سے مراد شراب نوشی اور اس سے نفع اندوزی ہے۔ یہ مفہوم اس کی قلیل اور کثیر دونوں مقدار کی تحریم کا تقاضا کرتا ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث بھی مروی ہے ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے، انہیں جعفر بن محمد الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا قول باری یسئلونک عن الخمر والمیسد قل فیھما اثم کبیر۔ میں المیسر سے مراد جوا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص جوا کھیلتے ہوئے اہل و عیال اور اپنے مال کو دائو پر لگا دیتا تھا۔ پھر فرمایا قول باری لاتقوبوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون کی صورت یہ ہے کہ ابتداء میں مسلمان نماز کے قریب شراب نہیں پیتے تھے جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو پی کر سو جاتے، پھر ایسا ہوا کہ کچھ مسلمانوں نے شراب پی کر دنگا فساد کیا اور زبان سے ایسے کلمات کہے جو اللہ کو پسند نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی انما الخمدوالمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ آپ نے فرمایا المیسر جوا ہے، انصاب بت ہیں اور الازلام وہ پانسے ہیں جن کے ذریعے وہ آپس میں کسی چیز کے حصوں کی تقسیم کا عمل کرتے تھے۔ جعفر بن محمد نے کہا کہ ہمیں ابوعبید نے، انہیں عبدالرحمن بنمہدی نے سفیان سے، انہوں نے ابواسحاق سے، انہوں نے ابومیسرہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ یہ دعا مانگی کہ اے اللہ ہمارے لئے شراب کا حکم واضح کر دے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لاتقربوا الصلوۃ و انتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون۔ حضرت عمر ؓ نے دوبارہ یہی دعا مانگی جس پر یہ آیت اتری قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس پھر آپ نے دعا مانگی تو یہ آیت اتری انما الخمروالمیسر تا قول باری فھل انتم متتھون۔ حضرت عمر ؓ نے یہ آیت سن کر فرمایا :” ہم باز آئے، یہ شراب تو ہمارا مال بھی ضائع کردیتی ہے اور ہماری عقل بھی مار دیتی ہے۔ جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے، انہیں ہشیم نے، انہیں مغیرہ نے ابورزین سے، بیان کیا کہ سورة بقرہ اور سورة نساء کی آیتوں کے نزول کے بعد بھی شراب خوری جاری رہی۔ لوگ شراب پیتے رہتے حتی کہ نمازکا وقت ہوجاتا، اس وقت ہاتھ روک لیتے پھر سورة المائدہ کی آیت کے ذریعے اس کی تحریم ہوگئی جس میں قول باری ہے فھل انتم منتھون۔ لوگ اس سے باز آگئے اور پھر کبھی انہوں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قول باری قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس۔ تحریم پر دلالت نہیں کرتی۔ اگر تحریم پر اس کی دلالت ہوتی تو لوگ پھر پیتے کیوں۔ اور حضور ﷺ تمہیں کیوں ایسا کرنے دیتے اور حضرت عمر ؓ اس کی وضاحت کے لئے کیوں سوال کرتے ! ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ لوگوں نے و منافع للناس کا مطلب یہ لیا ہو کہ اس کے منافع کو مباح سمجھنا جائز ہے۔ اس لئے کہ گناہ کو بعض خاص حالتوں میں محصور کردیا گیا تھا۔ اس طرح جو لوگ اس آیت کے نزول کے بعد بھی شراب پیتے رہے انہوں نے آیت سے تاویل کی بنا پر روگردانی کی تھی۔ رہ گیا یہ کہنا کہ حضور ﷺ انہیں ایسا کیوں کرنے دیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی روایت میں یہ بات نہیں بیان کی گئی کہ حضور ﷺ کو اس کا علم تھا یا یہ کہ علم ہوجانے کے بعد آپ نے انہیں ایسا کرنے دیا ہو۔ اس آیت کے نزول کے بعد جہاں تک حضرت عمر ؓ کی طرف سے وضاحت حاصل کرنے کی غرض سے سوال کرنے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے چونکہ اس کے حکم میں تاویل کی گنجائش تھی حضرت عمر ؓ کو اس آیت کی تحریم پر دلالت کی وجہ کا بھی شعور تھا لیکن آپ نے وضاحت اس لئے چاہی تاکہ اس کے ذریعے تاویل کا احتمال ختم ہوجائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انما الخمروالمیسر تا قول باری فھل انتم منتھون نازل فرمائی۔ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شراب ابتداء اسلام میں مباح تھی اور مسلمان مدینے آنے کے بعد بھی پیتے تھے اور اس کی خرید و فروخت بھی کرتے تھے۔ حضور ﷺ کو اس کا علم تھا اور آپ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا نہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت کا حکم صادر فرما دیا بعض لوگوں کا خیال ہے کہا س کی علی الاطلاق تحریم آیت انما الخمروالمیسر تا قول باری فھل انتم منتھون میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے یہ صرف بعض حالات میں حرام تھی مثلاً اوقات صلوۃ میں جس کے لئے اس آیت میں ممانعت کا حکم تھا لاتقربوا الصلواۃ وانتم سکاری۔ اس وقت اس کے بعض منافع مباح تھے اور بعض ممنوع جس کے لئے یہ آیت تھی قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس۔ یہاں تک کہ اس کی تحریم کی تکمیل فھل انتم منتھون کے ذریعے ہوگئی ہم نے سابقہ سطور میں حکم تحریم کے متعلق ہر ایک آیت کے ظاہر کے متقضیٰ کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ خمر کسے کہتے ہیں ؟ اسم خمر کن کن مشروبات کو شامل ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ فقہاء کی اکثریت نے کہا ہے کہ حقیقت میں اسم خمرکا اطلاق انگور کے کچے رس پر ہوتا ہے جس میں جوش یا جھاگ پیدا ہوگئی ہو۔ اہل مدینہ کے ایک گروہ، امام مالک اور امام شافعی کا یہ خیال ہے کہ ہر ایسا مشروب جس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کر دے وہ خمر ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ خمر نام ہے انگور کے کچے رس کا جس میں جھاگ پیدا ہوجائے کسی اور چیز کو خمر نہیں کہتے۔ اگر کسی اور چیز پر خمر کے نام کا اطلاق ہوا ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہوگا کہ اس چیز کو انگور کے رس پر محمول کیا گیا ہے اور مجازا اسے اس کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک شخص لایا گیا جو نشہ کی حالت میں تھا۔ آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ آیا تو نے شراب تو نہیں پی ؟ اس نے کہا میں نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا جب سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔ اس پر آپ نے پوچھا، پھر تم نے کیا پی رکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا ” خلیطین “ دو چیزوں کو ملا کر بنایا جانے والا مشروب۔ اس کی کئی شکلیں ہوتی تھیں جن میں سے بعض نشہ آور تھیں۔ حضور ﷺ نے خلیطین کو حرام قرار دیدیا۔ اس شخص نے حضور ﷺ کے سامنے اس مشروب سے اسم خمر کی نفی کردی لیکن حضور ﷺ نے اسے کچھ نہیں کہا۔ اگر نعت یا شریعت کے لحاظ سے اس پر خمر کا اطلاق ہوسکتا تو حضور ﷺ اس شخص کو ایسا کہنے کی ہرگز اجازت نہ دیتے اس لئے کہ جس نام کے ساتھ حکم کا تعلق ہو اس کی نفی گویا حکم کی نفی ہوتی ہے۔ اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے کسی مباح چیز کی ممانعت یا کسی ممنوع چیز کی اباحت کو کبھی باقی رہنے نہیں دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ تمام مشروبات سے اسم خمر کی نفی ہوگئی ہے صرف انگور کے کچے، تیز اور جھاگ دینے والے رس پر یہ بولا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب خلیطین پر خمر کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا حالانکہ اس میں سکرپیدا کرنے کی قوت ہوتی ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسم خمر صرف اسی چیز کے لئے ہے جو ہم نے بیان کیا۔ اس پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی روایت ہمیں عبدالباقی بن قانع نے، انہیں محمد بن زکریا العلائی نے، انہیں العباس بن بکارنے، انہیں عبدالرحمن بن بشیرالغطفانی نے حارث سے، انہوں نے حضرت علی ؓ سے، آپ نے فرمایا حرام الخمر بعینھا والسکرمن کل شراب خمر بعینہ حرام ہے اور ہر مشروب سے پیدا ہونے والا نشہ بھی حرام ہے۔ عبدالباتی نے کہا ہمیں محمد بن زکریا العلائی نے روایت کی، انہیں شعیب بن واقد نے، انہیں قیس بن قطن سے، انہوں نے منذر سے، انہوں نے محمد بن الحنفیہ سے، انہوں نے حضرت علی ؓ سے اور آپ نے حضور ﷺ سے اسی قسم کی روایت کی۔ ایک اور روایت ہمیں عبدالباتی نے کی۔ انہیں حسین بن اسحاق نے، انہیں عیاش بن ابوالولید نے، انہیں علی بن عباس نے، انہیں سعید بن عمار نے، انہیں الحارث بن النعمان نے کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو حضور ﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ الخمر بعینھا حرام والسکرمن کل شواب خمر بعینہ حرام ہے اور ہر مشروب سے پیدا ہونے والا نشہ بھی حرام ہے۔ عبداللہ بن شداد نے حضرت ابن عباس ؓ سے اسی قسم کی روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے یہ حدیث مرفوعاً بھی روایت کی ہے۔ یہ روایت بہت سے معانی پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ اسم خمر شراب کے ساتھ مخصوص ہے کسی اور مشروب کو شراب کا نام نہیں دیا جاتا۔ خمرانگور کے رس کو کہتے ہیں۔ انگور کے رس پر خمر کے اطلاق پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیگر مشروبات پر اس اسم کا اطلاق نہیں ہوتا اس لئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا والسکومن کل شواب، ہر مشروب سے پیدا ہونے والا نشہ حرام ہے۔ اس حدیث کی اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ بقیہ تمام مشروبات میں وہ مقدار حرام ہے جو سکر یعنی نشہ پیدا کرے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ان مشروبات میں سکر پیدا کرنے والی صورت پر حرمت کا حکم محدود نہ دیا جاتا اور تحریم کے لحاظ سے ان میں اور خمر میں فرق نہ رکھا جاتا۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ تحریم خمر کا حکم خمر تک محدود ہے۔ دوسرے مشروبات تک یہ حکم متعدی نہیں ہے۔ نہ ازروئے قیاس اور نہ ازروئے استدلال اس لئے کہ تحریم کے حکم کو عین خمر کے ساتھ متعلق کیا گیا ہے اور اس کی کسی صفت کا خیال نہیں کیا گیا ہے۔ یہ چیز قیاس کے جواز کی نفی کرتی ہے کیونکہ ہر وہ اصل جس میں قیاس کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس منصوص حکم کا تعلق بعینہ اس اصل کی ذات سے نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے اندر محدود ہوتا ہے بلکہ اس کے کسی وصف سے ہوتا ہے جو اس اصل کے فروغ میں پایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پر وہ حکم اس وصف کے تابع ہو کر اس کے موضوعات یا معلومات میں جاری ہوجاتا ہے۔ اس بات پر کہ تمام نشہ آور مشروبات کو اسم خمر شامل نہیں ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث دلیل ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا الخمر من ھاتین الشجرتین لعنبۃ والخلۃ ۔ شراب ان دو درختوں یعنی انگور کی بیلوں اور کھجور کے درخت سے پیدا ہوتی ہے۔ اب حضور ﷺ کے اس ارشاد میں لفظ الخمر اسم جنس ہے کیونکہ اس پر الف لام داخل ہے اس لئے یہ لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے جس پر اسم کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اب کوئی ایسا مشروب باقی نہیں رہا جس پر اس نام کا اطلاق ہوتا ہو اور جو اس کے مدلول سے باہر ہو۔ اس کلیے سے اس کی نفی ہوگئی کہ ان دو درختوں سے حاصل ہونے والے مشروب کے سوا کسی اور مشروب کو خمر کے نام سے پکاراجائے۔ پھر ہم نے اس پر غور کیا کہ آیا ان دونوں درختوں سے نکلنے والی ہر شے کو خمر کہا جاتا ہے یا نہیں ؟ جب سب کو اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں سے نکلنے والی ہر شے کو خمر نہیں کہا جاتا، کیونکہ شیرہ، سرکہ اور پکا ہوا گاڑھا شیرہ وغیرہ بھی ان ہی دو درختوں کے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی خمر نہیں کہا جاتا۔ تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے مراد ان درختوں سے نکلنے والی بعض اشیاء ہیں لیکن حدیث میں ان بعض اشیاء کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات کی ضرورت پیش آگئی کہ اس حدیث کے معنی مراد پر استدلال کے لئے کسی اور حدیث کا سہارا لیں تاکہ ان دونوں درختوں میں سے نکلنے والی بعض اشیاء پر اسم خمر کے اطلاق کو ثابت کیا جاسکے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ان دونوں درختوں سے نکلنے والی تمام اشیاء کی تحریم اور ان پر اسم خمر کے اطلاق کے لئے اس حدیث سے استدلال ساقط ہوگیا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ ان دونوں میں سے ایک درخت میں شراب ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے یخرج منھما اللولووالمرجان۔ ان دونوں میں سے موتی اور مرجان یعنی مونگے نکلتے ہیں) یا جس طرح کہ یہ قول باری ہے یا معشوالجن والانس الم یا تکم رسل منکم۔ اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے ؟ ) دونوں آیتوں میں مراد احدھما یعنی مذکورہ دو چیزوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح یہاں بھی یہ جائز ہے کہ حضور ﷺ کے قول میں دونوں درختوں میں سے ایک مراد ہو۔ اگر دونوں ہی مراد ہوں تو ظاہر لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو چیز خمر کا مسمی ہے وہ پہلا مشروب ہے جو ان دونوں سے تیار کیا جائے اس لئے کہ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضور ﷺ نے من ھاتین الشجرتین فرما کر ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعض مشروبات مراد نہیں لئے کیونکہ ان میں سے بعض کا خمر ہونا محال ہے۔ یہ تو اس بات کی دلیل ہوگئی کہ اس سے مراد ان دونوں سے نکلنے والا پہلا مشروب ہے اس لئے کہ حرف من لغت میں کئی معانی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ تبعیض کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابتداء کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلا آپ کہتے ہیں خرجت من الکوفہ (میں کوفہ سے نکلا) یا ھذا کتاب من فلان، (یہ فلاں کی طرف سے خط ہے) یا اسی طرح کے اور جملے۔ اس لئے حدیث میں آنے والا لفظ من۔ ان دونوں درختوں سے ابتدائی طور پر نکلنے والی اشیاء کا معنی دے گا اور یہ صرف جھاگ والے شیرے، اور کھجور کے بہنے والے شیرے کو جب اس میں جھاگ آجائے پر محمول ہوگا۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص نے یہ قسم کھائی کہ میں اس کھجور کے درخت سے نہیں کھائوں گا تو اس کی قسم کو اس سے پیدا ہونے والی تر کھجور، خرما اور شیرے پر محمول کیا جائے گا اس لئے کہ انہوں نے من کو ابتداء کے معنوں میں لیا ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ درج بالا سطور میں جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مشروب کے سوا جس کی خاصیت ہم نے بیان کردی ہے یعنی انگور کا تیز کچا جھاگ دار رس، بقیہ تمام مشروبات سے اسم خمر کا انتفاء ہوگیا ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ جس دن شراب حرام ہوئی اس دن مدینے میں شراب نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ کی مادری زبان عربی تھی اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ تحریم خمر کے نزول کے وقت مدینے میں نشہ آور مشروبات اور خرما سے بنائی جانے والی دیگر مشروبات بھی تھیں، اس لئے کہ اہل مدینہ کی مشروبات اسی طرح کی تھیں۔ اسی بنا پر حضرت جابر بن عبداللہ نے فرمایا ” تحریم خمر کا حکم جب نازل ہوا تو اس وقت لوگ خشک کھجور اور بشر یعنی گدر کھجور سے بنی ہوئی مشروبات کے سوا اور کوئی مشروب استعمال نہیں کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں : جب تحریم خمر کی آیت اتری تو اس وقت میں اپنے ماموں کے خاندان کے افراد کو مشروب پلانے کا کام میرے ذمہ تھا، اس وقت وہ لوگ فضیح یعنی سرخ یا زرد کھجور سے بنی ہوئی مشروبات استعمال کرتے تھے۔ جب انہوں نے تحریم خمر کا اعلان بنا تو جس قدر بھی مشروبات تھیں انہوں نے سب کو بہا دیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے جب تمام مشروبات سے اسم خمر کی نفی کردی تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے نزدیک شراب صرف انگور کا تیز جھاگ دار کچا رس تھی اور اس کے سوا کوئی مشروب بھی شراب نہیں کہلاتا تھا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ عرب کے لوگ شراب کو سبیئۃ (پینے کے لئے خریدی ہوئی شراب بھی کہتے تھے لیکن کھجور سے بنی ہوئی تمام مشروبات پر اس نام کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ غیر ممالک سے اسے درآمد کیا جاتا تھا۔ اعشیٰ کا شعر ہے) وسبیئۃ مما یعتق ببابل کدم المذبیح سلب تھا جریالھا۔۔۔ ایسی شراب جو بابل میں تیار ہوئی تھی جس کا رنگ اس ذبح شدہ جانور کے خون کی طرح تھا۔ جس کی کھال تم نے اتار لی ہو۔ جب آپ شراب پئیں تو آپ کہیں گے سبئات الخمر (میں نے شراب پی) اس اسم کا اطلاق تو پہلے خمر پر اس لئے ہوتا تھا کہ اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا پھر کلام میں اتساع کی بنیاد پر جو عربوں کی عادت تھی اس اسم کا اطلاق خریدی ہوئی شراب پر ہونے لگا۔ ابوالاسودالدولی کے یہ دو شعر بھی ہمارے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں : دع الخموتشربھا الغواۃ فاننی رایت اخاھا مغنیب المکانھا۔۔ فان لاتکنہ اویکنھا فانہ ۔ اخوبھا غذتہ امہ بلبانھا۔۔ الف۔ شراب کو بےراہ رو لوگوں کے لئے رہنے دو کہ وہی اسے پیتے پلاتے رہیں کیونکہ میں نے اس کے بھائی (دوسری مشروبات) کو اس کی ضرورت سے بےپروا کردینے والا پایا ہے۔ ب۔ اگر شراب ہوبہو اپنے بھائی جیسی نہیں یا بھائی ہوبہو شراب جیسا نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ اس کا بھائی ہے جسے اس کی ماں نے اپنا دودھ پلا کر اس کی پرورش کی ہے۔ شاعر نے دوسری مشروبات کو شراب کا بھائی قرار دیا اور ظاہر ہے کہ دوسری مشروبات پر اگر خمر کا اطلاق ہوتا تو شاعر انہیں اس کا بھائی قرار نہ دیتا۔ پھر شاعر نے اپنے قول کی یہ کہہ کر تاکید کردی کہ چاہے شراب اور دیگر مشروبات ہو بہو ایک جیسی نہیں ہیں تاہم دیگر مشروبات بہرصورت اس کے بھائی ہیں جنہیں اس کی ماں نے اپنا دودھ پلا کر پالا ہے۔ اس طرح شاعر نے یہ بتادیا کہ شراب یعنی خمر علیحدہ چیز ہے اور دیگر مشروبات علیحدہ چیز ہیں۔ اس طرح حضور ﷺ سے مروی احادیث، اقوال صحابہ اور اہل لغت کی توضیحات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خمر کے اسم کا اطلاق صرف اس مشروب پر ہوتا ہے جو ہم نے بیان کیا یعنی انگور کا جھاگ دار کچا رس کسی اور مشروب پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ خشک اور گدر کھجور سے بنی ہوئی مشروبات کا استعمال اہل مدینہ میں شراب کے استعمال سے زیادہ عام تھا چونکہ اہل مدینہ کے ہاں شراب کی قلت تھی اس لئے اس کا استعمال بھی بہت کم تھا۔ اب جبکہ تمام صحابہ کرام انگور کے کچے جھاگ دار رس کی تحریم پر متفق تھے لیکن دوسرے مشروبات کے متعلق وہ مختلف الرائے تھے اور جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت عمر ؓ حضرت عبداللہ ؓ ، حضرت ابوذر ؓ وغیرہ ہم سے گاڑھے نبیذ کا استعمال منقول ہے۔ اسی طرح تمام تابعین اور ان کی جگہ لینے والے فقہائے اہل عراق بھی ان مشروبات کی حرمت کے قائل نہیں اور نہ ہی ان پر خمر کے اسم کا اطلاق کرتے ہیں بلکہ اس کی نفی کرتے ہیں تو اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ دیگر مشروبات پر لفظ خمر کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس کے ذیل میں آتی ہیں اس لئے کہ تمام لوگ شراب پینے والے کی مذمت پر متفق ہیں اور شراب ممنوع اور حرام ہے۔ دوم یہ کہ نبیذ حرام نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سب لوگ اس کی حرمت سے اسی طرح واقف ہوتے جس طرح وہ شراب یعنی خمر کی حرمت سے واقف تھے کیونکہ اہل مدینہ میں شراب کے مقابلے میں دوسری مشروبات کا زیادہ رواج تھا اس بنا پر شراب کی حرمت کے مقابلے میں دوسری مشروبات کی حرمت سے باخبر ہونے کی انہیں زیادہ ضرورت تھی۔ اور قاعدہ ہے کہ عموم بلویٰ (ایسی بات جس میں عامۃ الناس مبتلا ہوں) کی ذیل میں آنے والے احکام کے ثبوت کیا یک ہی صورت ہوتی ہے کہ تواتر کے ساتھ وہ منقول ہوں کہ اس تواتر کی وجہ سے علم بھی حاصل ہوجائے اور عمل بھی واجب ہوجائے۔ اس بنا پر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں نے تحریم خمر کے حکم سے ان مشروبات کی تحریم نہیں سمجھی اور نہ ہی ان مشروبات کو خمر کا نام دیا گیا۔ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایسی مشروبات جن کی کثیر مقدار نشہ آور ہو وہ سب کی سب خمر ہیں۔ ان کی دلیل ذیل کی روایات ہیں۔ اول حضرت ابن عمر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا (کل مسکوخمر ہر نشہ آور چیز خمر ہے) شراب کن اشیاء سے بنتی ہے ؟۔۔۔۔ دوم شعبی نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے اور آپ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ الخ مومن خمسۃ اشیاء التمروالغب و الشعیروالحنطۃ والعل۔ شراب پانچ چیزوں سے کشید ہوتی ہے، کھجور، انگور، گندم، جو اور شہد سے) حضرت عمر ؓ سے بھی اسی طرح کا قول مروی ہے۔ سوم حضرت عمر ؓ سے منقول ہے آپ نے فرمایا : خمر اسے کہتے ہیں جو عقل میں خمار پیدا کر دے “ یعنی عقل کام کرنے سے عاجز رہ جائے۔ چہارم طائوس نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کل مخمرخمروکل مسکوحرام۔ ہر وہ چیز جو عقل پر پردہ ڈال دے خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ پنجم حضرت انس ؓ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : جب شراب کی حرمت کا اعلان ہوا تو میں اس وقت ابوطلحہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ اس زمانے میں ہماری شراب سرخ اور زردرنگ کی کھجوروں کی کشید ہوتی تھی۔ جیسے ہی شراب کی حرمت کی آواز کان میں پڑی ان سب نے برتنوں سے شراب انڈیل دی اور برتن توڑ دیئے ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ حضور ﷺ نے ان تمام مشروبات کو شراب کا نام دیا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ ، حضرت انس ؓ اور حضرات انصار ؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تحریم خمر سے فضیح یعنی گدر کھجور سے کشید کی ہوئی شراب کی تحریم بھی سمجھ لی چناچہ انہوں نے اسے بہا دیا اور برتن توڑ ڈالے، ان مشروبات پر شراب کے نام کا اطلاق یا تو لغت کے لحاظ سے ہوا ہوگا یا شریعت کی طرف سے۔ تاہم جس طرف سے بھی یہ اطلاق ہوجائے اس سے دلیل کا ثبوت ہوجائے گا اور ان مشروبات کو شراب کا نام دینا درست ہوگا غرض اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسی تمام مشروبات جن کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو وہ خمر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انکی حرمت کا ثبوت لفظ خمر کی بنا پر موجود ہے۔ اس اعتراض کا اللہ کی توفیق سے جواب درج ذیل ہے۔ جتنے اسم ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم تو وہ ہے جس میں ایک اسم کا اطلاق اپنے مسمی پر حقیقی طور پر ہوتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں ایک اسم کا اطلاق اپنے مسمی پر مجازی طور پر ہوتا ہے۔ پہلی قسم کا حکم ہے کہ وہ جہاں بھی ملے اسے اس کے حقیقی معنی میں استعمال کرنا واجب ہوتا ہے دوسری قسم کا حکم یہ ہے کہ اس کا استعمال اسی وقت واجب ہوتا ہے جب کوئی دلیل موجود ہو۔ پہلی قسم کی مثال یہ قول باری ہے یرید اللہ لیبین لکم اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم پر واضح کر دے) نیز واللہ یریدان یتوب علیکم اور اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے) یہاں لفظ ارادہ کا اطلاق اس کے حقیقی معنی پر ہوا ہے۔ دوسری قسم کی مثال یہ قول باری ہے فوجدافیھا جداًرایرید ان ینقض ان دونوں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے بستی میں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی) اس مقام پر لفظ ارادہ کا اطلاق مجازاً ہوا ہے، حقیقتاً نہیں۔ قول باری انما الخمروالمیسو۔ میں لفظ خمر کا اطلاق حقیقی طور پر ہوا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے انی ارانی اعصر خمراً ۔ میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے ہوئے پا رہا ہوں) یہاں لفظ خمر کا اطلاق مجازاً ہوا ہے اس لئے کہ انگور نچوڑے جاتے ہیں شراب نہیں نچوڑی جاتی۔ اسی طرح قول باری ہے ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں اس گائوں سے نکال جس کے رہنے والے بڑے ظالم ہیں) یہاں قریہ کا نام اپنے حقیقی معنیوں میں استعمال ہو رہا ہے اور اس سے مراد گائوں کی عمارات ہیں۔ پھر قول باری ہے واسئل القریۃ التی کنا فیھا۔ جس گائوں میں ہم لوگ ٹھہرے ہوئے تھے اس سے پوچھ لو) یہاں قریہ کا لفظ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے اور مجاز مرسل کے طور پر مراد اہل قریہ ہیں۔ حقیقت مجاز سے اس لحاظ سے جدا ہوتی ہے کہ جو معنی اس کے مسمی کو لازم ہوجائے اور وہ کسی حالت میں بھی اس سے منتفی نہ ہو۔ وہ معنی اس مسمی کے لئے حقیقت ہوتا ہے اور اگر اس معنی کا اس مسمی سے منتفی ہونا جائز ہو تو وہ اس کے لئے مجاز ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آپ یہ کہیں کہ دیوار کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا تو آپ کی بات سچی ہوگی لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ نہیں کرتا “ یا ” انسان عاقل کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا “ تو اس کی یہ بات غلط ہوگی۔ اسی طرح آپ کا یہ کہنا تو درست ہوگا کہ ” شیرہ شراب نہیں ہے “ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ” انگور کا کچا رس جس میں تیزی اور جھاگ آجائے وہ خمر نہیں ہے۔ لغت اور شریعت میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ایسے اسمائے شرعیہ جو معنی میں اسمائے مجاز ہوں ان کے استعمال کے سلسلے میں ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ جن مواقع پر ان کا اطلاق ہوا ہے ان سے آگے بڑھ کر کسی اور موضع میں بھی ہم انہیں استعمال کرلیں۔ جب ہم نے یہ دیکھا کہ لفظ خمر کا اطلاق دیگر تمام مشروبات سے منتفی ہے تو یہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ مشروبات شراب کے ذیل میں نہیں آتی ہیں، لفظ خمر کا اطلاق صرف انگور کے اس کچے رس پر ہوتا ہے جس میں تیزی اور جھاگ پیدا ہوجائے۔ حضرت ابوسعید ؓ خدری کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اس وقت وہ نشے میں مست تھا۔ آپ نے پوچھا کہ تونے شراب پی رکھی ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ بخدا میں نے اس دن سے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا جس دن سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ حضور نے پھر اس سے پوچھا کہ آخرتم نے کیا چیز پی ہے جس سے تم کو نشہ ہوگیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے خلیطین پی رکھی ہے (اس سے مراد وہ مشروب ہے جو دو چیزوں کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے) یہ سن کر حضور ﷺ نے خلیطین کو بھی حرام قرار دیدیا۔ یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس شخص نے حضور ﷺ کے سامنے خلیطین سے اسم خمر کا انتفاء کردیا لیکن حضور ﷺ نے اسے کچھ نہیں کہا۔ اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ خلیطین شراب نہیں ہے۔ نیز حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ جس وقت شراب حرام ہوئی ہے اس وقت مدینہ منورہ میں شراب نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کھجور سے بنی ہوئی تمام مشروبات سے شراب کے نام کی نفی کردی جبکہ یہ مشروبات تحریم خمر کے وقت ان کے پاس موجود تھیں۔ نیز اس پر حضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ الخ مومن ھاتین الشجرتین شراب ان دودرختوں سے بنتی ہے) اس روایت کی سند اس روایت کی سند سے زیادہ صحیح ہے جس میں حضور ﷺ کا یہ قول مندرج ہے کہ الخمرمن خمسۃ اشیاء شراب پانچ چیزوں سے تیار ہوتی ہے) ۔ حضور ﷺ نے اس حدیث کے ذریعہ ان دونوں درختوں کے سوا کسی اور چیز سے نکلنے والے مشروب سے شراب ہونے کی نفی کردی) اس لئے کہ آپ کا یہ قول الخ مومن ھاتین الشجرتین) اسم جنس سے ہے جو اس اسم یعنی خمر کے ذیل میں آنے والی تمام مسمیات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ روایت اس روایت کی معارض ہے جس میں یہ مذکورہ ہے کہ شراب پانچ اشیاء سے بنتی ہے یہ روایت سند کے لحاظ سے اس روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اتفاق ہے کہ خمر کو حلال سمجھنے والا کافر ہے جبکہ ان مشروبات کو حلال سمجھنے والے پر فسق کا دھبہ بھی نہیں لگ سکتا چہ جائیکہ اسے کافر کہا جائے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ مشروبات حقیقت میں خمر نہیں ہیں۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ ان مشروبات سے بنا ہوا سرکہ خمر کا سرکہ نہیں کہلاتا ہے بلکہ خمر کا سرکہ وہ ہوتا ہے جو انگور کے کچے اور تیز رس سے بنایا جاتا ہے جو جھاگ دار ہوتا ہے۔ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے جب ان مشروبات پر خمر کے اسم کے اطلاق کی نفی ہوگئی تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حقیقت میں خمر ان مشروبات کے لئے اسم ہی نہیں ہے اور اگر کسی وجہ سے ان مشروبات کو خمر کا نام دیا بھی جاتا ہے تو وہ تشبیہ کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ ان مشروبات میں سکر بھی پایا جائے۔ اس لئے ان مشروبات پر تحریم خمر کا اطلاق جائز نہیں ہوگا کیونکہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ حقیقی معنوں میں استعمال ہونے والے اسماء کے تحت اسمائے مجاز کا دخول درست نہیں ہوتا۔ اس بنا پر حضور ﷺ کے قول الخمرمن خمسۃ اشیاء) کو اس حال پر محمول کرنا چاہیے جس میں سکر یعنی نشہ پیدا ہوجائے اسے خمر کا نام اس لئے دیا گیا کہ اس میں وہی عمل ہوا جو خمر کا ہے یعنی نشہ پیدا کرنا اور سزا میں حد کے اجرا کا مستحق ہونا۔ اگر دیگر مشروبات نشہ پیدا کردیں تو اس حالت میں وہ خمر کہلانے کی مستحق ہوجاتی ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ ” خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے “۔ نبیذ کی قلیل مقدار عقل پر پردہ نہیں ڈالتی ہے۔ اس لئے کہ ماخا مدالعقل کے معنی ہیں وہ چیز جو عقل کو پوری طرح ڈھانپ لے، یہ بات ان مشروبات کی قلیل مقدار میں موجود نہیں بلکہ کثیر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ جب ہمارے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان مشروبات پر اسم خمر کا اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے تو اب اس اسم کا استعمال صرف اسی مقام میں ہوگا جہاں اس کے استعمال کے لئے دلالت موجود ہوگی۔ اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ تحریم خمر کے اطلاق کے تحت ان مشروبات کو بھی مندرج کردیا جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک دفعہ جب مدینہ منورہ میں ایک ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی تو اس وقت حضور ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر صورت حال معلوم کرنے کے لئے شہر کا چکر لگایا۔ واپس آکر آپ نے فرمایا کہ وجدناہ بحرا۔ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا) آپ ﷺ نے گھوڑے کی تیز رفتاری اور لمبے لمبے ڈگ بھرنے کی وجہ سے اسے سمندر کا نام دیا لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ سمندر کے لفظ کے اطلاق سے تیز رفتار گھوڑے کا معنی سمجھ میں آئے۔ نابغہ ذبیانی نے نعمان بن المنذر کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے۔ فانک شمس والملوک کواکب۔۔ اذا طلعت لم یبد منھن کوکب۔ اے نعمان ! تو سورج ہے اور تیرے مقابلے میں باقی تمام بادشاہ ستارے ہیں جب سورج طلوع ہوجاتا ہے تو کوئی ستارہ نظر نہیں آتا۔ نہ تو نعمان کا نام سورج تھا اور نہ ہی دوسرے بادشاہوں کے نام ستارے تھے۔ غرض ہمارے بیان سے یہ بات درست ہوگئی کہ خمر کا اسم ان مشروبات کے لئے نہیں بولا جاتا۔ اس کا حقیقی استعمال انگور کے تیز اور جھاگ دار کچے رس کے لئے مخصوص ہے۔ دوسری مشروبات پر اس کا اطلاق مجازاً ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ جوئے کی حرمت ارشاد باری ہے یسئلونک عن الخمروالمیسر قل فیھما اثم کبیر۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس ارشاد باری کی جوئے کی حرمت پر دلالت خمر کی حرمت پر دلالت کی طرح ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ لغت کے لحاظ سے میسر کا اسم تجزیہ یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے معنی ادا کرتا ہے۔ محاورے میں جس چیز کے آپ ٹکڑے ٹکڑے کریں اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ یسرتہ (میں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے) ۔ اسی طرح اونٹ کو ذبح کر کے اس کے ٹکڑے کرنے والے (جازر) کو یا سو کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اونٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے خود اونٹ کو بھی میسر کہا جاتا ہے جب کہ اس کے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ اونٹ ذبح کر کے اس کے ٹکڑے کردیتے اور ان ٹکڑوں پر جوئے کے تیروں کے ذریعے پانسے ڈالتے جس کا پانسہ نکلتا اس پر لگے ہوئے نشان کو دیکھتے۔ پھر اسی نشان کے حساب سے انہیں حصے ملتے۔ اس بنا پر جوئے کی تمام شکلوں پر لفظ میسر کا اطلاق کیا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ ، قتادہ، معاویہ بن صالح، عطاء، طائوس اور مجاہد کا قول ہے کہ المیسر سے مراد قمار یعنی جوا ہے۔ عطاء، طائوس، اور مجاہد کا یہ بھی قول ہے کہ اس کا اطلاق اس کھیل پر بھی ہوگا جو بچے اخروٹ اور نرد کے مہروں کے ذریعے کھیلتے ہیں۔ علی بن زید سے یہ روایت ہے جو انہوں نے قاسم سے، انہوں نے ابوامامہ سے انہوں نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا اجتنبواھذہ الکعاب الموسومۃ التی یزجربھا زجراً فانھا من المیسر نرد کے ان نشان زدہ مہروں سے بچو جن سے شگون لیا جاتا ہے کیونکہ یہ بھی جوئے کی ایک صورت ہے) ۔ سعید بن ابی ہند نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : لعب بالنردفقد عصی اللہ ورسولہ۔ جو شخص نرد کے مہروں سے کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی) ۔ حماد بن سلمہ نے قتادہ سے، انہوں نے کلاس سے یہ روایت کی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم اتنے انڈے کھالو گے تو تمہیں فلاں چیز دے دوں گا۔ جب یہ معاملہ حضرت علی ؓ کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے قمار قرار دے کر اس سے روک دیا۔ اہل علم کے درمیان جوئے کی حرمت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے نیز یہ کہ شرط لگانا بھی جوا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ شرط لگانا جوا ہے۔ پہلے شرط لگانا جائز تھا پھر حرام ٹھہرا۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنا مال اور اپنی یبوی تک کی شرط لگا دیتے تھے۔ یہ بات ان کے ہاں درست تھی حتی کہ اس کی حرمت نازل ہوگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے مشرکین سے شرط لگائی تھی جب یہ آیت نازل ہوئی الم غلبت الروم۔ رومی مغلوب ہوگئے) اس وقت حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا تھا کہ شرط میں اضافہ کر دو اور مدت بڑھا دو ۔ پھر آپ نے شرط لگانے کی ممانعت کردی اور جوئے کی حرمت کے ساتھ شرط لگانے کی اباحت منسوخ ہوگئی۔ اس کی ممانعت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یکطرفہ شرط جائز ہے۔۔۔ البتہ اونٹوں، گھوڑوں کی دوڑ اور تیراندازی کے مقابلے میں شرط لگانے کی اجازت ہے۔ جب اس کی صورت یہ ہو کہ جیتنے کی صورت میں لینے والا ایک ہو لیکن اگر دوسرا جیت جائے تو وہ کچھ بھی نہ لے۔ اگر دونوں نے یہ شرط لگائی کہ جو جیت جائے گا وہ لے لے گا اور جو ہار جائے گا وہ دے دے گا تو یہ شرط باطل ہوگی۔ اگر ان دونوں نے اپنے درمیان ایک تیسرے شخص کو اس شرط پر داخل کرلیا کہ اگر وہ جیت جائے گا تو مستحق ہوجائے گا اور اگر نہیں جیتے گا تو اسے کچھ نہیں ملے گا تو یہ شرط جائز ہوگی۔ اس تیسرے شخص کا نام حضور ﷺ نے محلل یعنی حلال کردینے والا رکھا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا لاسبق الافی خف اوحافراونصل مسابقت صرف اونٹوں یا گھوڑوں یا تیروں میں ہوسکتی ہے) ۔ حضرت ابن عمر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے گھوڑوں میں مسابقت کرائی تھی۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ذریعے گھوڑوں کو دوڑنے کی مشق ہوتی ہے اور انہیں دوڑ کی عادت ہوجاتی ہے۔ نیز اس کے ذریعے دشمن کے خلاف اپنی قوت اور طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ قول باری ہے واعدوالھم مااستعطعتم من قوۃ دشمنوں کے مقابلے کے لئے جہاں تک تم سے وہ سکے طاقت اور قوت تیار کرو) روایت میں ہے کہ اس سے مراد تیراندازی ہے نیز ومن رباط الخیل۔ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے) اس قول باری کا اقتضا یہ ہے کہ گھڑ دوڑ کے مقابلے جائز ہوں کیونکہ دشمن کے خلاف اس کے ذریعے طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے۔ یہی کیفیت تیراندازی کی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جوئے کی حرمت کا جو ذکر فرمایا ہے وہ غلاموں میں قرعہ اندازی کی تحریم کا بھی موجب ہے جبکہ انہیں آزاد کرنے والا شخص بیمار ہو اور پھر وہ مرجائے۔ اس لئے کہ اس میں جوئے کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی کسی کو کامیاب بنادینا اور کسی کو ناکام۔ البتہ تقسیم میں قرعہ اندازی جائز ہے کیونکہ اس صورت میں ہر شخص کو اس کا پورا پورا حصہ مل جاتا ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے صرف اس کی تعیین ہوتی ہے۔ اس میں کسی ایک کے غالب آجانے کا امکان نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔
Top