Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 220
فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰى١ؕ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَیْرٌ١ؕ وَ اِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
فِى الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے (بارہ) میں الْيَتٰمٰي : یتیم (جمع) قُلْ : آپ کہ دیں اِصْلَاحٌ : اصلاح لَّھُمْ : ان کی خَيْرٌ : بہتر وَاِنْ : اور اگر تُخَالِطُوْھُمْ : ملالو ان کو فَاِخْوَانُكُمْ : تو بھائی تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے الْمُفْسِدَ : خرابی کرنے والا مِنَ : سے (کو) الْمُصْلِحِ : اصلاح کرنے والا وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَاَعْنَتَكُمْ : ضرور مشقت میں ڈالتا تم کو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
(یعنی دنیا اور آخرت کی باتوں) میں (غور کرو) اور تم سے یتیموں کے بارے میں بھی دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا (یعنی خرچ اکٹھا رکھنا) چاہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا بیشک خدا غالب (اور) حکمت والا ہے
یتیم کے مال میں تصرف قول باری ہے ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم۔ اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے کہہ دیجئے جس طرز عمل میں ان کے لئے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے اور اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یتیم وہ ہوتا ہے جو اپنے ماں باپ میں سے ایک سے تنہا رہ جائے چناچہ باپ کے رہتے ہوئے ماں کی وفات کی وجہ سے وہ یتیم ہوتا ہے اس کے برعکس صورت میں بھی وہ یتیم ہوتا ہے البتہ یتیم کا اطلاق زیادہ تر اس صورت میں ہوتا ہے جب باپ نہ ہو خواہ ماں زندہ ہی کیوں نہ ہو۔ باپ زندہ ہونے کی صورت میں ماں کی وفات کی وجہ سے بہت ہی کم یتیم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے سلسلے میں جتنے احکام بیان کئے ہیں ان میں وہ یتیم مراد ہیں جن کے باپ موجود نہ ہوں اور وہ نابالغ ہوں۔ بالغ ہونے کے بعد ایسے شخص پر یتیم کا اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے کیونکہ یتیمی سے ان کا زمانہ بہت قریب ہوتا ہے۔ اس بات کی دلیل کہ تنہا رہ جانے والے کو یتیم کہا جاتا ہے۔ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک تنہا رہ جانے والی بیوی کو بھی یتیمہ کا نام دیا جاتا ہے خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی۔ شاعر کا شعر ہے۔ ان القبور تنکح الایسامی۔۔ النسوۃ الاراصل الیتامی۔۔ بے شک قبریں بیوہ عورتوں سے نکاح کرلیتی ہیں وہ عورتیں جو بیوہ اور شوہر کی وفات کے بعد تنہا رہ جاتی ہیں۔ ٹیلے کو بھی یتیمہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اپنے گرد کے ماحول میں تنہا ہوتا ہے۔ ایک شاعر نے اپنی اونٹنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔۔ قوداء یملک وحلھا مثل الیتیم من الامانب۔۔ یہ اونٹنی ایسی سدھائی ہوئی ہے کہ ایک تنہا ٹیلے کی طرح خرگو ش بھی اس کے کجا وے کو اپنے قابو میں کرسکتا ہے۔ اگر سیپ میں ایک ہی موتی ہو تو اسے ” درۃ یتیمۃ “ کہا جاتا ہے کیونکہ سیپ میں وہ تنہا ہوتا ہے اور اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی خلیفہ ابوالعباس سفاح کی مدح اور خوارج کے مختلف مذاہب کے متعلق ابن المقفع نے کتاب لکھی ہے جس کا نام اس نے یتیمیۃ الدہر رکھا ہے۔ ابوتمام نے اس کے متعلق یہ شعر کہا ہے۔۔ وکثیر عزۃ یوم مبین ینسب وابن المقفع فی الیتیمۃ یسھب۔ مشہور شاعر اور غزہ کا عاشق کثیر جس دن تشبیب بیان کرتا ہے تو عورتوں کے حسن و خوبصورتی کی خوب شرح کرتا ہے اور ابن المقفع اپنی کتاب یتیمہ الدہر میں بھی ایک چیز کے بیان میں بہت طاولت اختیار کرتا ہے۔ اب جبکہ یتیم کا اسم تنہا رہ جانے والے کے لئے ہے تو یہ ہر اس فرد کو شامل ہوگا جس کی ماں یا باپ گزر گیا ہو خواہ وہ خود نابالغ ہو یا بالغ۔ تاہم اس کا اطلاق اس بچے پر ہوتا ہے جو نابالغ ہو اور اس کا باپ دنیا میں موجود نہ ہو۔ ہمیں جعفر بن محمد نے، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابوعبید نے انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیر) کی تفسیر میں بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ان الذین یا کلون اموال الیتامی ظلماً انمایاکلون فی بطونھم ناراً وسیصلون سعیراً ۔ وہ لوگ جو ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ جہنم کی آگ سے بھرتے ہیں انہیں جلد ہی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا) ۔ تو مسلمان یتیموں کو اپنے ساتھ رکھنے کو ناپسند کرنے لگے اور اپنے ساتھ ان کے مشترک رہن سہن اور خرچ وغیرہ کو گناہ کی بات سمجھنے لگے۔ مسلمانوں نے اس کے متعلق حضور ﷺ سے استفسار بھی کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ویسئلونک عن الیتامی لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق پوچھتے ہیں) تا قول باری ولوشاء اللہ لاعنتکم۔ اگر اللہ چاہتا تو لئے تنگی پیدا کردیتا) یعنی اگر اللہ چاہتا تو تمہیں حرج اور تنگی میں ڈال دیتا لیکن اس نے تمہارے لئے وسعت اور آسانی پیدا کردی۔ اس لئے فرمایا ومن کان غنیاً فلیستعفف ومن کان فقیراً فلیاکل بالمعروف۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو فقیر ہو وہ معروف طریقے سے کھائے) حضور ﷺ سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا ابتغواب اموال الیتامی لاتاکلھا الصدقۃ، یتیموں کے مال میں خرید و فروخت کرو یعنی تجارت میں لگائو انہیں اس طرح پڑا نہ رہنے دو کہ زکواۃ انہیں کھاجائے یعنی زکواۃ ادا کرتے کرتے ان کا مال ختم ہوجائے۔ حضرت عمر ؓ سے یہ روایت موقوفاً بھی مروی ہے ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ ، قاضی شریح اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ یتیم کا مال مضاربت اور تجارت کے لئے دیا جاسکتا ہے یہ آیت بہت سے احکام پر مشتمل ہے۔ قول باری قل اصلاح لھم خیر۔ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا لینا اور اس میں خرید و فروخت کے ذریعے تصرف کرنا بشرطیکہ اس میں یتیم کا فائدہ ہو۔ مضاربت کے طور پر کسی دوسرے کے حوالے کردینا اور یتیم کے سرپرست کا خود مضاربت کرنا سب جائز ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ پیش آنے والے نئے واقعات کے احکام کے متعلق اجتہاد کرنا جائز ہے۔ اس لئے کہ آیت میں جس اصلاح یعنی بھلائی کے طرز عمل کا ذکر ہے وہ صرف اجتہاد اور غالب گمان کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ یتیم کا سرپرست یتیم کے مال میں سے اپنے لئے خرید سکتا ہے بشرطیکہ اس میں یتیم کی بہتری مقصود ہو۔ وہ اس طرح کہ یتیم کو جو کچھ ہاتھ آئے اس کی قیمت اس سے زیادہ ہو جو اس کی ملکیت سے نکل جائے۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے نیز سرپرست اپنے مال میں سے یتیم کے ہاتھوں فروخت بھی کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس میں بھی اس کی بھلائی پیش نظر ہوتی ہے۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو کہ سرپرست کو اگر اس میں بھلائی نظر آئے تو وہ یتیم کا نکاح بھی کرا سکتا ہے۔ نزدیک یہ صورت اس وقت درست ہے جبکہ ولی اور یتیم کے درمیان قرابت داری نہیں کرا سکتا جس کے ساتھ یتیم کی رشتہ داری نہ ہو اس لئے کہ نفس وصیت سے حاصل نہیں ہوتی لیکن ظاہر آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ قاضی لاح اور بھلائی کو پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس کا نکاح کرا دے اور ولی اسے ایسی تعلیم دلوائے جس میں دینی لحاظ سے اور سے بھی آراستہ کرے اس کے لئے گنجائش صنعت و تجارت کی تعلیم کی خاطر اسے اس کی بھلائی پیش نظر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص کی سرپرستی میں اس کا کوئی یتیم رشتہ دار پرورش پا رہا ہو تو اسے اس بات کی اجازت ہے کہ صنعت و حرفت کی تعلیم کی غرض سے اسے کسی کے پاس بٹھا دے، امام محمد کا قول ہے کہ اسے اجازت ہے کہ اس پر اس کے مال سے خرچ کرے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر یتیم کو ہبہ کے طور پر کوئی مال دیا جائے تو اس کا سرپرست اس مال کو اپنے قبضے میں لے لے اس لئے کہ اسی میں یتیم کی بہتری ہے غرض ظاہر آیت ان تمام صورتوں کے جواز کا تقاضا کرتا ہے۔ قول باری ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیر۔ میں مراد یہ ہے کہ ویسئلونک القوام علی الایتام الکافلین لھم۔ (آپ سے یتیموں کے سرپرستوں کے متعلق پوچھتے ہیں جو ان کی کفالت کریں) اس میں یتیم کا ہر محرم رشتہ دار داخل ہے۔ اس لئے کہ وہی یتیم کو سنبھال سکتا ہے۔ اس کی حفاظت نگہداشت اور پرورش کرسکتا ہے اور قول باری قل اصلاح لھم خیر میں اصلاح کی خاطر وہ تمام صورتیں آجاتی ہیں جن کا ذکر ہم پچھلی سطور میں کر آئے ہیں جن میں یتیم کے مال میں تصرف اس کا نکاح، اس کی تعلیم اور تادیب سب شامل ہیں۔ قول باری خیر کئی معانی پر دلالت کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ یتیموں پر ان طریقوں سے تصرف کی اباحت جو ہم ذکر کر آئے ہیں۔ دوم یہ کہ یتیم کی سرپرستی حصول ثواب کا ذریعہ ہے کیونکہ خیر کہا ہے اور جو چیز خیر ہوتی ہے اس کے کرنے سے ثواب کا استحقاق ہوجاتا ہے ۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے واجب نہیں کیا بلکہ اس پر ثواب کا وعدہ دلالت کرتا ہے یتیم کے ولی پر تجارت وغیرہ کے ذریعے اس کے مال میں تصرف نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی شادی کرانے پر مجبور ہے۔ اس لئے کہ ظاہر لفظ ہے کہ اس سے مراد ترغیب اور ارشاد ہے۔ قول باری وان تغالطوھم فاخوانکم۔ میں اس بات کی اباحت ہے کہ ولی ساتھ یتیم کے مال کو ملا سکتا ہے، اس میں تجارت وغیرہ کے ذریعے تصرف بھی کرسکتا یہ بھی اجازت ہے کہ ولی نکاح وغیرہ کے ذریعے یتیم کو اپنے خاندان میں داخل کرسکتا اسے اپنا واماد بنالے یا یتیم لڑکی کو اپنی بہو بنالے وغیرہ۔ اس طریقے سے وہ یتیم شامل کرے گا اور خود بھی اس کے خاندان میں شامل ہوجائے گا۔ قول باری وان تخالطوھم۔ میں اپنے مال کے ساتھ یتیم کے مال کو ملا لینے اس کرنے کی اباحت اور اپنی اولاد میں سے کسی کے ساتھ اس کا نکاح پڑھانے کا جواز ہے۔ اسی طرح اگر وہ اس کا نکاح کسی ایسے فرد کے ساتھ پڑھا دے جو اس کے زیر کفالت ہو اس کا بھی اس آیت سے جواز معلوم ہوتا ہے۔ اس طریقے سے آیت پر عمل ہوگا اور اس کے ساتھ یتیم کی مخالفت ہوجائے گی۔ اس بات کی دلیل کہ مخالطت کا لفظ ان تمام صورتوں کو شامل ہے اگر کوئی کسی کا شریک یعنی حصہ دار ہو تو اس وقت یہ کہا جاتا ہے۔” خلان خلیط فلان “ اسی طرح یہ فقرہ اس وقت بھی بولا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ لین دینی یا خرید و فروخت کرتا ہو یا ایک ساتھ اٹھنا، بیٹھنا اور کھانا پینا ہو اگرچہ وہ اس کا شریک نہ بھی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کے ساتھ شادی بیاہ کے ذریعے رشتہ داری کرے تو اس وقت یہ کہا جاتا ہے ” قداختلط فلان بفلان “ (فلاں فلاں کے ساتھ مل گیا ہے) یہ تمام معانی لفظ خلطۃ سے ماخود ہیں جس کا معنی ہے۔ حقوق میں کسی تمیز کے بغیر اشتراک۔ اس مخالطت کی صحت کے لئے اصلاح کی شرط ہے جو آیت میں دو طریقوں سے بیان ہوئی ہے۔ اول یہ کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں یتیموں کا معاملہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کے ذکر کو مقدم کیا ہے دوم یہ کہ مخالطت کے ذکر کے فوراً بعد یہ ارشاد فرمایا واللہ یعلم المفسدین من المصلح، اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فساد کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون) ۔ اوپر کے بیان سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت اس امر کے جواز پر مشتمل ہے کہ ولی اپنے مال کے ساتھ یتیم کے مال کی وہ مقدار ملا سکتا ہے جس کے متعلق اسے غالب گمان ہو کہیتیم کو اپنے ساتھ رکھنے کی صورت میں مال کی یہ مقدار یتیم پر خرچ ہوجائے گی جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ اسی طرح آیت کی دلالت مناھدہ کے جواز پر بھی ہو رہی ہے جو عام طور پر لوگ سفر کے دوران کرتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک ساتھ سفر کرنے والے اپنے اپنے اخراجات کا ایک متعین حصہ نکال کر اکٹھا کر کے ملا لیتے ہیں اور پھر اسے سے سب کا خرچ چلاتے ہیں۔ اس میں بعض لوگ بعض کے مقابلہ میں بسیار خور ہوتے ہیں اور بعض کم خور لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال میں اس صورت کو جائز کردیا ہے تو پھر یہ صورت ان بالغوں کے مال میں جو بطیب خاطر اپنا اپنا مال ملا لیتے ہیں بطریق اولی جائز ہونی چاہیے۔ مناھدہ کے جواز کے لئے اصحاب کہف کے واقعہ میں نظیر موجود ہے۔ ارشاد باری ہے فابعثوا احدکم بودقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظوایھا اذ کی طعاماً ، اپنے میں سے کسی کو یہ چاندی کا سکہ دے کر شہر بھیجو پھر وہ وہاں جا کر دیکھے کہ اچھا کھانا کہاں ملتا ہے) آیت میں مذکورہ چاندی کا سکہ سب کا تھا اس لئے کہ قول باری ہے بورقکم۔ اس سکے کی نسبت پوری جماعت کی طرف کی گئی ہے اور پھر اس سے کھانے کی چیز خرید کر لانے کو کہا گیا ہے تاکہ سب مل کر اسے کھائیں۔ قول باری وان تخالطوھم فاخوانکم مشارکت اور مخالطت کے جواز پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں وہ ثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس لئے کہ قول باری فاخوانکم اس پر دلالت کر رہا ہے کیونکہ بھائی کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہو کر اس کی مدد کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ قول باری ہے انما المومنون اخوۃ فاصلحوابین اخویکم، تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لئے تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو ) اسی طرح قول رسول ﷺ ہے ۔ واللہ فی عون العبد مادام العبدفی عون اخیہ۔ جب تک ایک شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد میں لگا رہتا ہے) ۔ اس بنا پر قول باری فاخوانکم اس نیکی کی طرف ترغیب اور ارشاد پر دلالت کر رہا ہے نیز اس سلسلے میں جتنا کچھ کیا جائے اس پر ثواب کے استحقاق پر بھی دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے ولوشاء اللہ لاعنتکم۔ اور اگر اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا) اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں اس حکم کا مکلف بنانے کے سلسلے میں تمہارے لئے تنگی پیدا کردیتا اور تمہیں وہ یتیموں کو اپنے ساتھ شامل کرلینے اور ان کے مال میں تصرف کرنے سے تمہیں روک دیتا اور تمہیں اپنے مال کو ان کے مال سے جدا رکھنے کا حکم دے دیتا یا یہ کہ تم پر ان کے مال میں تصرف واجب کردیتا اور ان کا مال تجارت میں لگا کر ان کے لئے نفع حاصل کرنا ضروری قرار دے دیتا لیکن اللہ تعالیٰ نے وسعت پیدا کردی اور آسانی مہیا کردی نیز تمہیں اصلاح کی خاطر ان کے مال میں تصرف کی اجازت دے دی اور پھر اس پر تمام سے ثواب کا بھی وعدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ تمام واجب نہیں کیں کہ پھر تم ان کی وجہ سے تنگ ہوتے، اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے کیا کہ تمہیں اپنی نعمتیں یاد دلائے، بندوں کے لئے آسانی اور وسعت کا اعلان کرے اور یہ بتادے کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ قول باری فاخوانکم۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے بھی احکام کے لحاظ سے مومن ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ نے انہیں ” تمہارے بھائی “ کہہ کر پکارا ہے نیز اللہ کا یہ بھی فرمان ہے انما المومنون اخوۃ۔ واللہ اعلم !
Top