Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : جن لوگوں نے توبہ کرلی مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ : اس کے بعد وَاَصْلَحُوْا : اور انہوں نے اصلاح کرلی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ہاں جو ان کے بعد توبہ کرلیں اور (اپنی حالت) سنوار لیں تو خدا (بھی) بخشنے والا مہربان ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص کو زنا کاری کی بنا پر حاکم کی طرف سے کوڑے لگائے گئے ہوں اور اس کے بعد سزا یافتہ شخص توبہ کرلے تو توبہ کے بعد اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ اور حاکم کا حکم توبہ کے بعد اس کی گواہی قبول کرنے میں مانع نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ زانی کی گواہی کا بطلان حاکم کے حکم کی بنا پر نہیں ہوا تھا بلکہ حاکم کی طرف سے اسے حدلگانے سے قبل ہی اس کی زناکاری کی بنا پر اس کے فسق کے ظہور کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب اس کے بطلان شہادت کا حاکم کے حکم کے ساتھ تعلق نہیں تھا بلکہ اس کے اپنے فعل کے ساتھ تھا تو اس کی طرف سے توبہ کے ظہور پر اس کی گواہی کی بحالی کا جواز ہوگیا۔ اس کے بالمقابل قاذف کی گواہی اس کے قذف کی بنا پر باطل نہیں ہوتی جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس قذف میں سچا ہوا اور اس پر جھوٹ اور فسق کا حکم صرف اسی وقت عائد ہوگاجب حاکم کی طرف سے اسے کوڑے لگائے جائیں گے لیکن اس سے پہلے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے قذف نہیں کیا ہے۔ اس پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہورہی ہے۔ قاذف کی بعداز توبہ گواہی قابل قبول ہے عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ہلال ؓ بن امیہ کے واقعہ میں روایت کی ہے کہ جب انہوں نے حضور ﷺ کے سامنے اپنی بیوی کو قذف کرتے ہوئے اس پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زنا کاری کی تہمت لگادی تو اس موقعہ پر حضور ﷺ نے فرمایا تھا (الجلد ھلال وتبطل شھادتہ عند المسلمین۔ کیا ایسا ہوجائے گا کہ ہلال کو کوڑے لگیں اور مسلمانوں کے نزدیک ان کی گواہی باطل قرار دی جائے) منصور نے باقی ماندہ حدیث کی بھی روایت کی ہے۔ اس روایت میں حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ کوڑے لگنے کے ساتھ ہی گواہی باطل ہوجاتی ہے اور اسے قبول کرنے کے لئے توبہ کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ الحجاج بن ارطاۃ نے عمروبن غیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (المسلمون عدول بعضھم علی بعض الامحدودا فی قذف۔ تمام مسلمان ایک دوسرے پر گواہی دینے کے معاملے میں عادل ہیں سوائے اس شخص کے جسے حد قذف لگ گئی ہو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضور ﷺ نے توبہ کے وجود کا استثناء میں فرمایا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حامد بن محمد نے، انہیں شریح نے، انہیں مروان نے یزید بن ابی خالد سے، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا تجوزفی الاسلام شھادۃ مجوب علیہ شھادۃ زور، ولا خائن ولا خائنۃ ولا مجلود حدا ولاذی غمرلا خیہ ولا الصانع لا ھل البیت ولا طنین ولا قرابۃ۔ اسلام میں ایسے شخص کی گواہی جائز نہیں جس کی چھوٹی گواہی کا لوگوں کا تجربہ ہو، اسی طرح خائن مرد اور رخائن عورت کی گواہی، نیز حد میں کوڑوں کے کے سزا یافتہ شخص کی گواہی، اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھنے والے کی گواہی، کسی خاندان کے ساتھ احسان کرنے والے کی اس خاندان کے حق میں گواہی تیز مہتم شخص اور رشتہ دار کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی) حضور ﷺ نے حد کے طور پر سزا یافتہ انسان کی گواہی کو باطل قرار دے دیا۔ آپ کے اس ارشاد کا ظاہری طور پر یہ اقتضاء ہے کہ تمام سزا یافتہ افراد کی گواہی باطل قرار دی جائے خواہ انہیں قذف کے سلسلے میں یا اس کے علاوہ کسی حد میں سزا ملی ہو۔ تاہم اس بات پر دلالت قائم ہوچکی ہے کہ قذف کے سوا دوسرے جرائم میں حد کے طور پر سزا یافتہ افراد کی گواہی قابل قبول ہوگی جب وہ اپنے ان جرائم سے توبہ کرلیں جن کی بنا پر انہیں حد لگی تھی۔ لیکن قذف کے سلسلے میں حد کی سزا پانے والے کی گواہی قبول کرنے کے بارے میں کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی۔ اس لئے اس کے حکم کو اس کے لفظ کے عموم پر رکھا جائے گا خواہ وہ توبہ کرلے یا نہ کرے۔ ہم نے قذف کے سوا دوسرے جرائم کے سلسلے میں حد کی سزا پانے والوں کی گواہی قابل قبول قرار دی ہے بشرطیکہ یہ تائب ہوجائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کی گواہی کا بطلان ان کے فسق کے ساتھ متعلق ہے۔ اس لئے جب ایسے افراد سے فسق کا نشان زائل ہوجائے گا ان کی گواہی قابل قبول قرار دے دی جائے گی۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ زنا، سرقہ یا شراب نوشی کا وہ فعل جس کی بنا پر ایک شخص حد کا سزاوار قرار پاتا ہے، اس پر حد جاری ہونے سے پہلے ہی اس کی تفسیق کا موجب بن جاتا ہے ۔ جب ایسے شخص کے بطلان شہادت کا حد کے ساتھ تعلق نہیں ہے تو اس کی حیثیت دوسرے تمام فساق کی طرح ہوگی کہ جب یہ توبہ کرلیں گے تو ان کی گواہی قابل قبول ہوجائے گی۔ اس کے برعکس حد قذف کا سزا یافتہ انسان جب تک حد کی سزا نہیں پالیتا اس وقت تک قذف کا یہ فعل اس کی گواہی کے بطلان کا موجب نہیں بنتا اس لئے کہ اس میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ شاید اس نے زنا کی جو تہمت لگائی ہے وہ درست ہی ہو۔ ایسے شخص کی گواہی اس وقت باطل قرار دی جاتی ہے جب اس پر حد قذف جاری ہوجاتی ہے اس لئے توبہ کی وجہ سے یہ حکم اس سے زائل نہیں ہوسکتا۔ قول باری ہے (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ایدا) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ زنا کی گواہی دینے والوں کی تعداد چار ہونی چاہیے جس طرح قول باری (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) تم اپنے مردوں میں سے دو افراد کو گواہ بنالو۔ نیز یہ ارشاد (واشھدواذوی عدل منکم۔ اور انپے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بنالو۔ ) اس امر کو واجب کردیتا ہے کہ مذکورہ تعداد یعنی دو افراد کی گواہی ضروری ہے اور اس سے کم پر انحصار کرنا ممتنع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب افک یعنی حضرت عائشہ ؓ کے خلاف بہتان طرازی کرنے والوں کے ذکر کے موقع پر سیاق تلاوت میں فرمایا : لو لا جائوا علیہ باربعۃ شھدآء فاذکم یاتوا بالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم الکاذبون۔ ) انہوں نے اس بات پر چارگواہ کیوں نہیں پیش کیے، جب انہوں نے چار گواہ نہیں پیش کیے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے گواہوں کی وہ تعداد جو قاذف کی حد کی سزا سے بری کر اسکتی ہے، چار مقرر کی۔ اور اس تعداد میں گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں اس پر جھوٹ کا حکم صادر فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کے گواہوں کی تعداد اپنے اس قول میں بھی بیان کی ہے (والاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم ۔ تمہاری وہ عورتیں جو بدچلنی کی مرتکب ہوتی ہیں ان پر اپنے میں سے چار گواہ قائم کرو) پھر قذف کا ذکر کرتے ہوئے چار گواہوں کی تعداد کا دوبارہ ذکر کیا۔ اس کے ذریعے گویا ہمیں یہ بتادیا کہ قاذف کو بھی حد قذف سے چار گواہوں کی گواہی بری کر اسکتی ہے۔ فاسق قاذفین کی شہادتوں پر آرائے ائمہ اگر قاذف چار فاسق قسم کے گواہ لے آئے اور وہ مقدوف کے خلاف زنا کی گواہی دیے دیں تو اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، عثمان البتی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ گواہوں کو حد نہ لگے گی خواہ وہ فساق ہی کیوں نہ ہوں جسن بن زیاد نے امام ابویوسف سے ایک شخص کے متعلق روایت کی ہے جس نے کسی پر زنا کی تہمت لگادی اور پھر چار فاسق قسم کے گواہ پیش کردیے جنہوں نے یہ گواہی دی کہ واقعی فلاں شخص زانی ہے تو اس صورت میں قاذف کو حد لگے گی اور گواہوں کو حد نہیں لگے گی۔ زفر کا قول ہے کہ قاذف او شہود دونوں سے حد ہٹالی جائے گی یعنی نہ قاذف کو حد لگے گی اور نہ ہی گواہوں کو۔ امام مالک اور عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ گواہوں کو بھی حد لگے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر قاذف چار کافر یا حد قذف میں سزا یافتہ یا غلام یا بینائی سے محروم گواہ پیش کرے گا تو قاذف کو نیز گواہوں کو بھی حد لگے گی۔ لیکن اگر گواہ فاسق قسم کے لوگ ہوں تو ظاہر قول باری (ثم لم یا تو بالربعۃ شھداء) انہیں بھی شامل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قاذف کو حد کی سزا سے بری قرار دینے کے لئے عادل گواہوں کی شرط نہیں لگائی ہے جس کی بنا پر فاسق گواہ بھی اس حکم میں داخل ہیں۔ اس لئے آیت کے مقتضیٰ کے بموجب چار فاسق گواہ پیش کرنے کی صورت میں بھی قاذف سے حد کی سزا موقوف ہوجائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حد کے وجوب کی شرط رکھی ہے کہ قاذف چار گواہ پیش نہ کرسکے۔ اب زیر بحث صورت میں اس نے چار گواہ پیش کردیے ہیں اس لئے کہ شہداء ان لوگوں کے لئے اس م ہے جو شہادت یعنی گواہی پیش کریں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہماری درج بالا وضاحت کی روشنی میں کافر اور حد قذف میں سزا یافتہ گواہوں کے سلسلے میں یہی بات لازم آتی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت اسی کا متقاضی ہے کہ ایسے گواہوں کی گواہی بھی قبول کرلی جائے لیکن ہم نے دلالت کی بنا پر ان کی تخصیص کردی ہے اور انہیں ظاہر آیت کے حکم میں شامل نہیں کیا ہے۔ نیز فاسق لوگوں کی گواہی صرف تہمت ، فسق کی بنا پر رد کردی جاتی ہے۔ اور یہ چیز گواہی رد کرنے کے سلسلے میں ایک شبہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ ان لوگوں پر اس شبہ کی بنا پر حد واجب کردی جائے۔ جس کی وجہ سے ان کی گواہی رد کردی گئی تھی۔ اس گواہی کی وجہ سے قاذف سے بھی حد ساقط ہونا واجب ہوجائے گی جس طرح گواہوں سے ہم نے حد ساقط کردی کیونکہ شبہ کا نتیجہ یہ ہوگا ہے کہ اس کی وجہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے اور اس کی بنا پر حد واجب نہیں ہوتی البتہ وہ شخص جسے قذف کے سلسلے میں حد لگ چکی ہو، نیز کافر، غلام اور نابینا ان سب کی گواہی کسی تہمت یا شبہ کی بنا پر رد نہیں ہوتی۔ بلکہ ہم نے ان کی گواہی ان اسباب کی بنا پر رد کی ہے جو ان افراد کی ذات میں یقینی طور پر پائے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کی گواہی باطل قرار دی جاتی ہے۔ یہ اسباب درج ذیل ہیں۔ یعنی حد۔ کفر غلامی اور نابینا پن اسی بنا پر ہم نے ایسے گواہوں کو حد لگانے کا حکم دیا۔ ان سے نیز قاذف سے حد ساقط کرنے کے سلسلے میں ان کی گواہی کا کوئی اثر اور کردار نہیں ہوتا۔ یہاں ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ فساق اہل شہادت میں سے ہیں یعنی وہ گواہی دے سکتے ہیں ہم نے ان کی گواہی بربنائے اجتہاد رد کی ہے اس لئے دوسرے حضرات کے لئے ان کی گواہی قبول کرنے کے سلسلے میں اجتہاد کرنے کی گنجائش ہے جب کہ صورت حال یہ ہو کہ جس چیز کے متعلق ہم یہ فیصلہ دیں کہ فسق ہے اور اس کی وجہ سے گواہی رد کردینا واجب ہے۔ عین ممکن ہے کہ دوسرے حضرات اسے قبول شہادت سے مانع نہ سمجھتے ہوں۔ اس صورت حال کے تحت ہمارے لئے گواہوں ، نیز قاذف پر اجتہاد کی بنا پر حد واجب کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ البتہ قذف اور کفر وغیرہ کے سلسلے میں جو حد لگتی ہے اس کے اثبات میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ حقیقت کی بنیاد پر یہ حد لگتی ہے اسی بنا پر انہیں حد لگانا جائز ہوگیا اور قاذف سے حد کے اسقاط کے سلسلے میں ان کی گواہی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے، فاسق پر اس کی گواہی کے بطلان کا حکم نہیں لگ سکتا کیونکہ فسق السباسبب نہیں ہے جس کی بنیاد پر حاکم حکم لگاتا ہے نیز اس کے بارے میں گواہوں کے بیانات سنتا ہے۔ جب حاکم نے فاسقوں کی گواہی کے بطلان کا حکم نہیں لگایا اور نہ ہی فسق کوئی ایسی چیز ہے جس کے متعلق گواہیاں پیش کی جاتی ہیں اور حاکم اس کا فیصلہ کرتا ہے ، تو فاسقوں پر حد کے ایجاب کے سلسلے میں ان کی گواہیوں کے بطلان کا حکم لگانا جائز نہیں ہوگا۔ دوسری طرف جب حد قذف، کفر، غلامی اور نبینا پن ایسے امور ہیں کہ ان کے متعلق حاکم اپنا فیصلہ دے سکتا ہے اور ان کے خلاف گواہیاں بھی پیش ہوسکتی ہیں تو ایسے افراد کی گواہیوں کے بطلان کا حکم دیا جاسکتا ہے اور اس حکم کے تحت ایسے افراد اہل شہادت کے دائرے سے خارج ہوجاتے ہیں اس لئے اس سبب کی بنا پر جو انہیں اہل شہادت سے خارج کرنے کا موجب ہے، حاکم کے حکم کے صدور کی وجہ سے ان کو حد لگانا واجب ہوگیا۔ نیز گواہی کی حالت میں گواہ کا فسق متعین نہیں ہوتا کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس حالت کے اندر ایسا شخص ، اللہ کے سامنے توبہ کر کے عادل بن چکا ہو جبکہ کفر، غلامی ، نابینا پن اور قذف کی بنا پر لگی ہوئی حد ایسے امور ہیں جن کے متعلق ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ متعلقہ اشخاص سے زائل نہیں ہوسکتے اور یہی امور ایسے لوگوں کے گواہ بننے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اور ان کے لئے مانع بن جاتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کا معاملہ فاسق کے معاملہ سے مختلف ہوگیا۔ اس مقام پر اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ اس کا بھی تو امکان ہے کہ کافر بھی اللہ کے آگے مسلمان ہوگیا ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کافر صرف اسلام کا اعتقاد کرکے مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس موقعہ پر اس کا اظہار نہ کرے جہاں اس کا اظہار اس کے لئے ممکن ہے۔ جب وہ اسلام کا اظہار نہیں کرتا تو اسے کفر پر قائم رہنے والا قرار دیاجائے گا اس لئے اس مسئلے میں امام زفر کا قول زیادہ واضح ہے اس لئے کہ اگر یہ بات جائز ہے کہ گواہوں کا فسق ان سے حد کے سقوط کے معاملے میں انہیں اہل شہادت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا تو قاذف سے حد کے سقوط کے سلسلے میں بھی ان گواہوں کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ زنا کی شہادت پر حد قذف ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زنا کاری کی گواہی دینے والے گواہ اگر متفرق صورت میں آکر اپنی اپنی گواہی پیش کریں تو ان کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام یوسف، امام محمد امام مالک، زفر اور اوزاعی کا قول ہے کہ ایسے گواہوں پر حد قذف جاری کی جائے گی۔ عثمان البتی اور امام شافعی کا قول ہے کہ انہیں حد نہیں لگائی جائے گی بلکہ ان کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ پھر امام شافعی کا یہ قول بھی ہے ” بشرطیکہ ایک زناکاری کا مقدمہ ہو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب پہلا گواہ تنہا آکر گواہی دے گا تو ظاہر قول باری (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) کی بنا پر وہ قاذف قرار پائے گا۔ کیونکہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس شخص کے سوا چار گواہ ہوں اس لئے آیت سے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ چار گواہوں میں یہ شخص بھی شامل ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ گواہی یا قذف کے بعد تم اپنے آپ کو پیش کرو۔ “ جس طرح یہ کہنا درست ہے کہ ” اپنے سوا چار گواہ پیش کرو۔ “ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب ایک شخص کسی عورت سے کہے کہ توزانیہ ہے تو اس صورت میں وہ اپنے سوا چارگواہ پیش کرنے کا مکلف ہوگا۔ جو زنا کی گواہی دیں گے اور یہ شخص خود ان میں شامل نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے گا کہ ” اشھدانک زانیۃ “ (میں گواہی دیتا ہوں کہ تو زانیہ ہے) تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ جب یہ بات اس طرح ہے تو ظاہر آیت کا اقتضاء یہ ہوگا کہ ہر قاذف پر حد واجب کردی جائے خواہ اس نے لفظ شہادت کے ساتھ قذف کیا ہو یا بغیر لفظ شہادت کے ساتھ۔ جب پہلے گواہ کا یہ حکم ہوگا تو دوسرے تیسرے اور چوتھے گواہ کا بھی یہی حکم ہوگا یعنی ان سب کو حد قذف لگے گی کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے ایک پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے حدواجب کردی ہے یہ شخص صرف اسی صورت میں حد کی سزا سے بری ہوسکتا ہے جب اس کے سوا چار دوسرے گواہ آکر گواہی پیش کریں۔ قاذف کون ہوگا ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر حدواجب کی ہے جو قاذف ہو اور گواہ بن کر نہ آیا ہو۔ لیکن جب وہ گواہ بن کر آئے اور یہ کہے کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں شخص نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ “ تو وہ قاذف قرار نہیں پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ شہادت کے ساتھ کسی کو قذف کرنا اسے قاذفین کے حکم سے خارج نہیں کرے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے شخص کے ساتھ اگر دوسرے گواہ گواہی نہ دیتے تو وہ قاذف قرار پاتا اور اس پر حد لازم ہوجاتی ۔ جب یہ بات اس طرح ہے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ لفظ شہادت کے ساتھ کسی پر تہمت لگانا اسے قاذف کے حکم سے خارج نہیں کرتا بشرطیکہ وہ تنہا ہوا اور اس کے ساتھ دوسرے گواہ نہ ہوں۔ نیز ایسے شخص کو قول باری (والذین یرمون المحصنات) کا عموم شامل ہے کیونکہ یہ رامی ہے یعنی اس نے زنا کی تہمت لگائی ہے۔ رامی اور شاید یعنی تہمت لگانے والے اور گواہی دینے والے کے حکم میں اس وقت فرق پڑتا ہے جب چار گواہ ایک ساتھ آکر گواہی دیں۔ اس صورت میں وہ رامی قرار نہیں پائیں گے۔ قبول شہادت کے لئے اسی تعداد کی شرط ہے اس لئے وہ اس تعداد سے کم یا زیادہ گواہ پیش کرنے کے مکلف نہیں ہوں گے۔ اس لئے چار سے کم گواہ جب آکر لفظ شہادت کے ساتھ یا اس کے بغیر قذف کریں گے تو وہ سب قاذف قرار پائیں گے کیونکر وہ اس امر کے مکلف تھے کہ اپنے قذف کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے وہ اپنے سوا چار گواہ پیش کرتے۔ اگر چوتھا گواہ شہادت زنا نہ دے تو باقی تین قاذف ہوں گے اگر یہ کہا جائے کہ نفع بن الحارث نے حضرت عمر ؓ کو لکھا تھا کہ چار آدمیوں نے ایک جوڑے کی زنا کاری کی گواہی دی تھی۔ ان میں سے تین نے تو یہ کہا تھا کہ انہوں نے اس جوڑے کو اس حالت میں دیکھا تھا کہ مرد کا آلہ تناسل عورت کے فرج میں اس طرح داخل تھا جس طرح سرمہ لگانے والی سلائی سرمہ دانی میں داخل ہوتی ہے لیکن چوتھے گواہ نے اس طرح گواہی نہیں دی۔ حضرت عمر ؓ نے جواب میں نافع بن الحارث کو یہ لکھا تھا کہ اگر چوتھا گواہ باقی ماندہ تین گواہوں کی طرح گواہی دے دے تو پھر اس جوڑے کو کوڑوں کی سزا دو اور اگر یہ جوڑا محصن ہو تو اسے رجم کردو، لیکن اگر چوتھا اپنی اس گواہی پر مصر رہے جو تم نے مجھے لکھ بھیجا ہے تو بقیہ تینوں گواہوں کو حد قذف میں کوڑے لگائو اور جوڑے کو رہا کردو۔ حضرت عمر ؓ کا یہ حکم اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر تین گواہوں کے ساتھ چوتھا آدمی بھی گواہی دے دیتا تو ان تینوں کو حد قذف نہ لگتی اور ان کی گواہی قبول کرلی جاتی جبکہ ابتداء میں یہ تینوں اکیلے تھے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس واقعہ سے معترض نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے واقعہ اس پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوتھا گواہ جس نے باقی ماندہ تین گواہوں جیسی گواہی نہیں دی تھی ان تینوں سے علیحدہ نہیں تھا بلکہ یہ چاروں اکٹھے گواہ بن کر آئے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان چاروں نے زنا کی گواہی دی ہو۔ لیکن جب چوتھے گواہ پر زور دیا گیا ہو کہ وہ صراحت کے ساتھ زنا کی اسی طرح گواہی دے جس طرح دوسرے تینوں نے دی ہے تو وہ اس پر رضامندنہ ہوا ہو۔ پھر حضرت عمر ؓ نے یہ حکم دیا کہ اس چوتھے گواہ کو اس امر سے آگاہ کیا جائے۔ اگر وہ زنا کی تفصیل کے ساتھ کمینیت بیان کردے جس طرح تینوں نے بیان کی ہے تو مجرم جوڑے کو سزا دے دی جائے اور اگر وہ تفصیل سے زنا کی کیفیت بیان نہ کرسکے تو اس صورت میں اس کی گواہی باطل قرار دی جائے اور بقیہ تینوں گواہوں کو تنہا قرار دے کر ان پر حد جاری کردی جائے، حضرت عمر ؓ نے اس موقعہ پر یہ حکم نہیں دیا کہ اگر کوئی چوتھا آدمی آکر ان کے ساتھ گواہی دے دے تو ان سب کی گواہی قبول کرلو جس سے یہ بات لازم آتی کہ آپ نے اکیلے تین گواہوں کی گواہی قبول کرلی جبکہ چوتھے گواہ نے ان کے بعد آکر گواہی دی۔ حضرت عمر ؓ نے ابوبکرہ ؓ اور ان کے ساتھیوں پر اس وقت حد قذف جاری کی تھی جب ایک گواہ زیاد اپنی گواہی سے پھرگئے تھے۔ آپ نے اس موقعہ پر ابوبکرہ ؓ نے ان کے ساتھیوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ ایک اور گواہ لے آئو جو تمہاری گواہی کی طرح گواہی دے دے۔ یہ واقعہ صحابہ کرام ؓ کے سامنے پیش آیا تھا اور کسی نے بھی حضرت عمر ؓ کے اس اقدام کی تردید نہیں کی تھی اور نہ ہی انہیں ٹوکا تھا۔ اگر اس موقعہ پر لوگوں میں سے کسی شخص کی گواہی کو قبول کرلینا جائز ہوتا جبکہ وہ آکر ان گواہوں کی طرح گواہی دے دیتا تو حضرت عمر ؓ مقدمے کی کاروائی کو یہیں روک دیتے، گواہوں سے مزید پوچھ گچھ کرتے اور ان سے یہ کہتے کہ اگر کوئی اور گواہ مل سکتا ہے جو تمہاری گواہی کی طرح گواہی دے سکے تو اسے لے آئو۔ جب آپ نے ان سے یہ بات نہیں کی اور ان پر حد جاری کرنے کے عزم کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر سے کام نہیں لیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زیادجب اپنی گواہی سے پھرگئے تو اس کے بعد باقی ماندہ گواہ قاذف قرار پائے جن پر حد لازم ہوگئی تھی اور انہیں اس سزا سے صرف یہی چیز بری کرسکتی تھی کہ چار دوسرے گواہ آکر زنا کی گواہی دے دیتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے یہ بھی تو نہیں کہا تھا کہ آیا تمہارے پاس چار دوسرے گواہ ہیں جو تمہاری گواہی کی طرح گواہی دے سکتے ہیں نیز آپ نے اس بات کے جواز کی بنا پر ان پر حد جاری کرنے کے معاملے میں موقوف نہیں رکھا۔ یہی صورت اس شخص کے معاملے میں بھی تھی جو چوتھا گواہ بن کر ان کی گواہی کی طرح گواہی دے دیتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی بیان کردہ صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ گواہوں سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ اگر وہ چارگواہ لے آتے جو زنا کی گواہی دے دیتے تو ان کی گواہی قبول کرلی جاتی اور خود ان سے حدزائل ہوجاتی، اس بات کا گواہوں کو علم تھا۔ اگر ان کے پاس چار دوسرے گواہ موجود ہوتے جو زنا کی گواہی دے سکتے تو وہ ضرور حضرت عمر ؓ سے حد کے معاملے کو موقوف رکھنے کی درخواست کرتے۔ ان کے اس علم کی بنا پر حضرت عمر ؓ نے انہیں یہ بات بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ رہ گیا اس شخص کا معاملہ جو چوتھا گواہ بن کر باقی تین گواہوں کے ساتھ گواہی دیتا جس کے بارے میں معترض نے اپنے اعتراض میں نکتہ اٹھایا ہے تو عین ممکن ہے کہ تینوں گواہوں سے اس چوتھے گواہ کا حکم مخفی ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ آیا ان کے ساتھ اس کی گواہی جائز ہے یا باطل۔ اگر اس چوتھے شخص کی گواہی باقی ماندہ تین گواہوں کی گواہی کے بعد قابل قبول ہوتی تو حضرت عمر ؓ ان گواہوں کو اس سے ضرور آگاہ کرتے اور یہ بات ان کے علم میں لاتے تاکہ وہ ایک گواہ ، اگر کوئی ہوتا ، پیش کردیتے اور اس طرح حدقذف کی سزا سے بچ جاتے۔ مملوک یعنی غلام اور لونڈی پر حد کون جاری کرے گا امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، زفر اور محمد کا قول ہے کہ مملوک پر امام المسلمین ہی حد جاری کرے گا۔ اس کا آقا اس پر حد جاری نہیں کرے گا۔ تمام حدود کا یہی حکم ہے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ زنا، شراب نوشی اور قذف میں آقا ہی حد جاری کرے گا۔ بشرطیکہ گواہ آکر اس کے پاس جرم کی گواہی دے دیں۔ البتہ سرقہ میں آقا ہاتھ نہیں کاٹے گا۔ امام المسلمین قطع ید کرے گا۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ آقا ہی اسے حد لگائے گا اور وہی اس کا ہاتھ کاٹے گا۔ اشجعی کی روایت کے مطابق سفیان ثوری کا قول ہے کہ زنا میں آقا حد جاری کرے گا۔ الفریابی نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ آقا جب اپنے غلام پر حد جاری کرنے کے بعد اسے آزاد کردے گا تو غلام کی گواہی جائز ہوجائے گی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ آقا اس پر حد جاری کرے گا۔ حسن سے ابن عون نے روایت کی ہے کہ حکام چار باتوں کے ذمہ دار ہیں، نماز، زکوٰۃ، حدود اور فیصلوں کے ۔ حسن سے ایک روایت کے مطابق نماز کی بجائے جمعہ کا ذکر ہے عبداللہ بن محیریز کا قول ہے کہ حدود ، فی ، جمعہ اور زکوٰۃ کی ذمہ داری سلطان وقت کی ہے۔ حماد بن سلمہ نے یحییٰ البکاء سے، انہوں نے مسلم بن یسار سے انہوں نے ابو عبداللہ سے انہوں نے حضور ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کی ہے کہ ابن عمر ؓ ہمیں یہ کہا کرتے تھے کہ ہم ان سے دین کی باتیں سیکھا کریں۔ انہیں دین کی باتوں کا علم ہے۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ زکوٰۃ ، حدود، فی اور جمعہ کی ذمہ داری سلطان پر ہے۔ ایک قول کے مطابق ابوعبداللہ نے جو درج بالا اثر کے راوی ہیں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ سند میں حضور ﷺ کے جس صحابی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہ حضرت ابوبکر ؓ کے بھائی ہیں۔ اور ان کا نام نافع ہے۔ سلف کے ان حضرات سے یہ روایتیں کی گئی ہیں اور ہمیں کسی بھی صحابی سے اس کے خلاف کسی روایت کا علم نہیں ہے۔ البتہ اعش سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے شام میں حد جاری کی تھی۔ اعمش کہا کرتے تھے کہ حضرت صحابہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ امراء ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہو کیونکہ اعمش نے یہ نہیں کہا ہے کہ جس شخص پر حضرت عبداللہ ؓ نے حد جاری کی تھی۔ وہ ان کا غلام تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ابن ابی لیلیٰ سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ میں نے انصار میں سے بقید حیات حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی مجلسوں میں اپنی کسی لونڈی کی زنا کاری پر اسے حد لگایا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ۔ کہ ممکن ہے کہ انہوں نے تعزیر کے طور پر ایسا کیا ہو۔ اقامت حد کے طور پر ایسانہ کیا ہو۔ کیونکہ ان حضرات کو یہ حکم ملا تھا کہ اس قسم کے جرم کی پردہ پوشی کریں اور امام تک اسے نہ لیجائیں۔ مملوک پر اقامت حد کی ذمہ داری امام المسلمین پر ہے، آقا پر نہیں اس کی دلیل یہ قول باری ہے : والسارق والسارقۃ فاقطوا ایدیھما جزاء بما کسبا، چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو ۔ ان کی کمائی کے بدلے کے طور پر ۔ نیز فرمایا (الزانیہ والزانی فاجلدوا کل واحدمنھما مائۃ جلدۃ، زنا کار عورت اور زنا کار مرد ان میں سے ہر ایک سو کوڑے مارو۔ ) ایک اور آیت میں ارشاد ہوا :(فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنات من العذاب، ) جب یہ صفت احصان سے متصف ہوجائیں اور پھر کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر خاندانی عورتوں (محصنات) کو ملنے والی سزا سے آدھی سزا انہیں ملے گی : جن اہل علم کے کانوں میں اس خطاب کی آواز پڑی ہے۔ انہوں نے اس سے یہی سمجھا ہے کہ اس کو مخاطب مسلمانوں کے آئمہ یعنی حکام ہیں۔ عامۃ الناس اس کے مخاطب نہیں ہیں۔ گویا مفہوم کے لحاظ سے عبارت اس طرح ہے۔” فلیقطع الائمۃ والحکام ایدیھما ولیجلدھما الائمۃ والحکام “ (ائمہ اور حکام ان دونوں کے ہاتھ کاٹیں اور ائمہ اور حکام ان دونوں کو کوڑے ماریں۔ ) جب اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ آزاد لوگوں پر ان حدود کو قائم کرنا ائمہ اور حکام کی ذمہ داری ہے اور آیت نے حدود کی سزاپانے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا کہ خواہ وہ آزاد ہوں یا غلام تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ آیت کو سب کے حکم پر محمول کرتے ہوئے ائمہ اور حکام کو اس حکم کا مخاطب قرار دیا جائے کہ آزادوں اور غلاموں دونوں پر اقامت حدود کی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوتی ہے، آقائوں پر نہیں۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر آقا کے لئے یہ بات جائز ہوتی کہ وہ اپنے غلام پر چوری کے الزام کے سلسلے میں گواہوں کے بیانات سن کر اس کا ہاتھ کاٹ دیتا اس کے بعد اگر گواہ اپنی گواہی سے پھرجاتے تو آقا کے لئے ان سے تاوان بھروالینا جائز ہوتا۔ اب یہاں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گواہوں سے تاوان بھروانے کا تعلق حاکم کے اس حکم کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جو وہ گواہی کے بارے میں دیتا ہے۔ کیونکہ اگر حاکم نے گواہی کے متعلق کوئی حکم نہ دیا ہو تو اس صورت میں گواہ کسی قسم کا تاوان بھرنے کے پابند نہیں ہوں گے اس طرح آقا پر تاوان واجب کرکے اپنی ذات کے متعلق حکم صادر کرنے والا اقرار پائے گا۔ جبکہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں کوئی حکم دے یا فیصلہ صادر کرے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ چوری کے مقدمے کے سلسلے میں آقا نہ تو گواہوں کے بیانات سننے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی غلام کے قطع یدکا۔ نیز آقا اور اجنبی شخص دونوں کی حیثیت غلام اور لونڈی کو حد لگانے کے سلسلے میں یکساں ہوتی ہے اس کے لئے یہ دلالت موجود ہے کہ اگر ایک اجنبی کسی غلام پر کسی حد کے لزوم کا اقرار کرے گا تو اس کے خلاف اجنبی کا یہ اقرار قابل قبول نہیں ہوگا لیکن اگر غلام خود اپنی ذات پر کسی حد کے لزوم کا اقرار کرے گا تو اس کا یہ اقرار قابل قبول ہوگا خواہ آقا اس سے انکار ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ جب اس بارے میں ان دونوں کی حیثیت اجنبیوں جیسی ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ غلام پر اقامت حد کے لحاظ سے آقا کی حیثیت بھی اجنبی جیسی تسلیم کی جائے۔ حاکم کے لئے گواہوں کے بیانات سننا اور حد قائم کرنا اس لئے جائز ہوگیا کہ اس بات کے ثبوت میں اس کا قول قابل قبول ہوتا ہے۔ جو اس کے ہاں حد کو واجب کرنے والی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اسے گواہوں کے بیانات سننے میں اور حد جاری کرنے کا فیصلہ دینے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان اپنی ذات کے بارے میں ایسی بات کا اقرار کرسکتا ہے جو اس پر حد کے نفاذ کی موجب بن جائے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ذات پر حد جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب بات یہ ہے کہ ایک شخص کا اپنی ذات پر اقرار تو جائز ہوتا ہے۔ لیکن اپنی ذات پر حد جاری کرنا جائز نہیں ہوتا تو پھر وہ آقا جس کا اپنے غلام پر اقرار جائز نہیں ہوتا اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ اسے اپنے غلام پر حد جاری کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ غلام کے خلاف حاکم کے قول کو اس پر حد جاری کرنے کے جواز کی علت نہیں بناتے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حاکم کا یہ کہنا کہ ” میرے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ “ اس پر حد واجب نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی طرف سے یہ اقرار کی صورت ہوتی ہے۔ اس کی حیثیت تو صرف ایک حکم اور فیصلے کی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر حاکم کے نزدیک گواہیاں قائم ہوجائیں تو وہ ازروئے فیصلہ اس پر حد جاری کرے گا۔ اس لئے ایسا شخص یعنی آقا جس کا قول، فیصلے کے سلسلے میں قابل قبول نہیں ہوتا وہ نہ تو گواہوں کے بیانات سننے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی حد جاری کرنے کا۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف دونوں حاکم کے اس قول کو قبول نہیں کرتے جو حد کے وجوب کا باعث بنتا ہو اس لئے کہ یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حاکم صرف اپنے علم اور معلومات کی بنا پر حدود کے متعلق فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں حضرات کے درج بالا قول کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حاکم اگر یہ کہے کہ ” یہ بات میرے نزدیک گواہوں یا اقرار کی بنا پر ثابت ہوچکی ہے۔ “ تو اس صورت میں اس کا قول ناقابل قبول قرار دیا جائے گا اس لئے کہ ان دونوں حضرات کا قول یہ ہے کہ حاکم کا یہ قول قابل قبول ہوگا۔ ان دونوں حضرات کے قول کہ ” حاکم اپنے علم اور معلومات کی بناء پر حدود میں فیصلے صادر نہیں کرسکتا “ کا مفہوم یہ ہے کہ مثلاً اگر حاکم اپنی آنکھوں سے کسی کو بدکاری کرتے ہوئے یا شراب پیتے ہوئے یا چوری کرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے تو وہ ان پر صرف اپنے اس علم کی بنا پر حد جاری نہیں کرے گا۔ لیکن اگر حاکم یہ کہتا ہے کہ ” میرے نزدیک اس بارے میں گواہوں نے گواہی دے دی ہے۔ “ یا یہ کہتا ہے کہ ” میرے روبرو فلاں شخص نے اس جرم کا اقرار کیا ہے۔ “ تو اس صورت میں حاکم کا یہ قول قابل قبول ہوگا اور اس بنا پر اس کے لئے یہ فیصلہ سنانے کی گنجائش ہوگی کہ مجرم کا ہاتھ کاٹ دیا جائے یا اسے سنگسار کردیا جائے۔ چار بار لونڈی زنا کرے تو فروخت کردی جائے اس مسئلے میں ہم سے اختلاف رکھنے والوں نے اپنے قول کے حق میں اس روایت سے استدلال کیا ہے جو حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اقیموا الحدود علی ماملکت ایمانکم، جو لوگ یعنی غلام اور لونڈی تمہارے ملک یمین ہیں۔ ان پر خود حدود قائم کرو۔ نیز فرمایا ” جب تمہاری کوئی لونڈی زنا کا ارتکاب کرے تو وہ اسے کوڑے لگائے، اگر وہ دوبارہ ایسا کرے تو اسے دوبارہ کوڑے لگائے۔ اگر وہ سہ بارہ یہ حرکت کرے تو اسے سہ بارہ کوڑے لگائے، اسے ملامت اور طعن وتشنیع نہ کرے اگر وہ پھر ایسی حرکت کرے تو اسے فروخت کردے خواہ گندھے ہوئے بالوں کی رسی کے بدلے کیوں نہ دینا پڑے۔ “ اس روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں ” اس پر حد جاری کرے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان روایات میں ہمارے مخالفین کے مسلک پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد : (اقیموا الحدود علی ماملکت ایدیھما) بالکل اسی طرح ہے جس طرح یہ قول باری ہے (والسارق والسارقۃ فاقطعوا اید یھما) یا یہ قول باری (الزانیۃ والزانی فاخلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ) یہاں یہ بات معلوم ہے کہ اس حکم سے مراد یہ ہے کہ اس معاملے کو حاکم تک پہنچایا جائے تاکہ وہ حد قائم کردے۔ اس لئے ائمہ اور حکام سے ہی اقامت حد کا خطاب ہے جبکہ باقی تمام لوگوں کو یہ خطاب ہے کہ وہ ایسے معاملات حکام تک پہنچا دیں تاکہ وہ مجرموں پر حدود قائم کرسکیں۔ یہی مفہوم حضور ﷺ کے ارشاد :(اقیموا الحدود علی ماملکت ایمانکم) کا بھی ہے اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کو اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ ” جب تم میں سے کسی کی لونڈی زناکا ارتکاب کرے تو وہ اس کوڑے مارے “ تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ کوڑوں کی ہر سزا حد نہیں ہوتی کیونکہ یہ سزا کبھی تعزیر کے طور پر بھی ہوتی ہے ۔ اگر ہم ایسی لونڈی کو تعزیراً سزا دے دیں تو ہم اس روایت کے حکم سے عہدہ برا ہوجائیں گے اور اس کے بعد ہمارے لئے اس کو کوڑے لگانا جائز نہیں ہوگا۔ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد سے تعزیری سزا مراد لی ہے ۔ اس پر آپ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ : (ولا یثرب علیھا) یعنی اسے عار نہ دلائے اور طعن وتشنیع نہ کرے جبکہ حد قائم کرنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی موجودگی میں قائم کی جاتی ہے۔ تاکہ یہ بات لوگوں کو برائی سے روکنے اور فحاشی سے باز رکھنے کے لئے زیادہ موثر ثابت ہوسکے۔ جب آپ نے فرمادیا کہ : ” اسے عار دلائے اور طعن وتشنیع نہ کرے۔ “ تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آپ نے اس سے حد مراد نہیں لی ہے بلکہ تعزیر مراد لی ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشادبھی دلالت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ” اگر چوتھی مرتبہ وہ یہ حرکت کرے تو اسے فروخت کردے خواہ گندھے ہوئے بالوں کی ایک رسی کے بدلے کیوں نہ دینا پڑے۔ “ آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا۔ اگر یہ حد ہوتی تو آپ ضرور اس کا ذکر کرتے بلکہ آپ نے آقا کو چوتھی مرتبہ لونڈی کی بدکاری کی صورت میں وہی قدم اٹھانے کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ جو شخص حد قائم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے ثبوت کے بعد اسے معطل رکھنا اور قائم نہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس تعزیر کو ترک کرنا جائز ہوتا ہے۔ اگر امام تعزیر نہ کرنے میں مصلحت سمجھتا ہو تو وہ اسے ترک کرسکتا ہے۔ بعض اوقات حد اور تعزیر اکٹھے بھی دیئے جاسکتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کی مراد اگر یہ ہوتی کہ آقا اپنی لونڈی کو تعزیر کرے گا حد نہیں لگائے گا تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ آقا اسے تعزیر کرنے کے بعد اگر اس کا معاملہ امام کے پاس لے جاتا تو امام اس پر حد قائم کردیتا کیونکہ تعزیر کی وجہ سے حد ساقط نہیں ہوتی اس صورت میں لونڈی پر حد اور تعزیر دونوں سزائیں جمع ہوجاتیں جو درست نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالا صورت میں آقا کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ لونڈی کی تعزیر کرنے کے بعد اس کا معاملہ امام کے پاس لے جاتا بلکہ اسے اس کی پردہ پوشی کا حکم تھا۔ کیونکہ حضور ﷺ نے ہزال ؓ سے جب انہوں نے ماعز ؓ کو زنا کے اقرار کا مشورہ دیا تھا یہ فرمایا تھا : (لو سترتہ بثوبک کان خیراً لک) اگر تم اس پر اپنا کپڑا ڈال کر اس کی پردہ پوشی کرلیتے تو تمہارے لئے یہ بہتر ہوتا اس سلسلے میں آپ کا یہ ارشاد بھی ہے : (من اتی شیئا من ھذہ القاڈورات فلیستتر بستر اللہ فان ھن ابدی لنا صفحتہ اقمتا علیہ کتاب اللہ جو شخص ان گندے کاموں میں سے کسی فعل کا مرتکب ہوجائے تو اسے چاہیے کہ اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپ جائے جس شخص نے ہمارے سامنے اپنا سینہ برہنہ کردیا یعنی اپنے فعل بد کی ہمیں اطلاع دے دی ہم اس پر اللہ کی کتاب قائم کردیں گے یعنی اس پر حد جاری کردیں گے) نیز اگر کسی مجرم پر حد اور تعزیر دونوں سزائیں جمع ہوجائیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک تو کوڑوں کی سزا دینے کے بعد تعزیراً جلا وطن کردینا بھی بعض دفعہ واجب ہوتا ہے۔ رمضان میں شراب نوشی پر حد اور تعزیر ایک روایت کے مطابق نجاشی نے رمضان کے مہینے میں شراب نوشی کرلی۔ حضرت علی کرم الہل وجہہ نے اسے اسی کوڑے لگائے اور فرمایا ” یہ تمہاری شراب نوشی کی سزا ہے۔ “ پھر بیس کوڑے لگائے اور فرمایا،” یہ رمضان میں روزے نہ رکھنے کی سزا ہے۔ “ اس طرح آپ نے اس پر حد اور تعزیر دونوں سزائوں کو اکٹھا کردیا۔ جب ایسا کرنا جائز ہے تو زنا کار لونڈی کو آقا تعزیری سزا دینے کے بعد اگر اس کا معاملہ امام کے پاس لے جائے تو امام کے لئے اس پر حد زنا جاری کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔
Top