Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی
قُلْ
: فرمادیں
لِّاَزْوَاجِكَ
: اپنی بیبیوں سے
اِنْ
: اگر
كُنْتُنَّ
: تم ہو
تُرِدْنَ
: چاہتی ہو
الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی
وَزِيْنَتَهَا
: اور اس کی زینت
فَتَعَالَيْنَ
: تو آؤ
اُمَتِّعْكُنَّ
: میں تمہیں کچھ دے دوں
وَاُسَرِّحْكُنَّ
: اور تمہیں رخصت کردوں
سَرَاحًا
: رخصت کرنا
جَمِيْلًا
: اچھی
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کردوں
حضور ﷺ نے اپنی ازواج کو اختیار دے دیا کہ چاہیں نکاح ہی میں رہیں یا طلاق لے لیں قول باری ہے (یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا و زینتھا۔ اے نبی ﷺ ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار کو مقصود رکھتی ہو) تاآخر آیت۔ ہمیں عبداللہ بن محمد المروزی نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع الجر جانی نے ، انہیں معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے، وہ فرماتی ہیں کہ جب آیت (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو مقصود رکھتی ہو) نازل ہوئی تو حضور ﷺ سب سے پہلے میرے پاس آئے اور فرمایا : عائشہ ؓ ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ اپنے والدین سے مشوروہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ ﷺ سے جدا ہوجانے کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ بہرحال حضور ﷺ نے اپنی بات مکمل کرکے (یایھا النبی قل لازواجک) تا اخر آیت مجھے سنائی۔ میں نے عرض کیا : میں کیوں اپنے والدین سے مشورہ لوں، میں تو اللہ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ حسن بن ابی الربیع جرجانی کے علاوہ دوسرے راوی نے عبدالرزاق سے روایت کی ہے کہ معمر نے کہا مجھے ایوب نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اپنی بیویوں کو اختیار دیں گے تو میں آپ کی رفاقت اختیار کروں گی۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تکلیف پہنچانے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اختیار دینے کا جو حکم مذکور ہے اس کے مفہوم کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا کیونکہ قول باری ہے (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا) تا قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والداء الاخرۃ) ۔ دوسرا حضرات کا قول ہے کہ یہ بات نہیں بلکہ انہیں طلاق کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تھا اور شرط یہ تھی کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زیب وزینت کو پسند کرلیں تو گویا انہوں نے طلاق کا انتخاب کرلیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسر حکن سراحا جمیلا) اگر تم دنیوی زندگی اور اس کو بہار کو مقصود رکھتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ متاع دنیوی دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے دنیا اختیار کرنے کا طلاق اختیار کرنا قرار دیا۔ یہ حضرات اس پر اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو مسروق نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے کہ جب ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا تھا تو انہوں نے فرمایا : ہمیں بھی حضور ﷺ نے اختیار دیا تھا ، کیا یہ اختیار طلاق کی صورت میں تبدیل ہوگیا تھا ؟ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں ” ہم نے حضور ﷺ کو اختیار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے طلاق شمار نہیں کیا تھا۔ “ ان حضرات نے مزید کہا ہے کہ یہ بات ثابت نہیں کہ حضور ﷺ نے انہیں اس اختیار کے سوا اور کوئی اختیار دیا ہو جس کا آیت میں حکم دیا گیا تھا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب زیر بحث آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے ان سے فرمایا : عائشہ ؓ ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے اس بارے میں مشورہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ حضور ﷺ نے اپنی بات ختم کرکے آیت تلاوت کی۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے کہا : ” میں تو اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس روایت میں بھی کئی وجوہ سے اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ آپ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا نیز طلاق لینے اور حضور ﷺ کے عقد میں باقی رہنے میں سے ایک کو پسند کرلینے کا اختیار دیا تھا۔ کیونکہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا : اس معاملہ میں جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔ “ اور یہ بات تو واضح ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلینے کے لئے باہمی مشورے نہیں ہوتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مشورہ طلب کرنے کے معاملہ طلاق لے لینے یا عقد نکاح میں باقی رہنے میں سے ایک کے انتخاب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول کہ ” اللہ کو علم تھا کہ میرے ماں باپ مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا کبھی مشورہو نہیں دیں گے۔ “ نیز یہ قول کہ ” میں اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آیت طلاق اور نکاح کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے جن حضرات کے نزدیک آیت میں طلاق کی تخییر نہیں ہے وہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا) سے استدلال کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی کو صرف انہیں طلاق دینے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ دنیا کا انتخاب کرلیں۔ لیکن یہ بات دنیا کے انتخاب کی صورت میں ان پر وقوع طلاق کی موجب نہیں ہے جس طرح مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے ” اگر تو فلاں چیز کا انتخاب کرلے تو تجھے طلاق “ اس کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ بیوی جب اس چیز کا انتخاب کرلے گی تو وہ نئے سرے سے اسے طلاق دے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت لامحالہ حضور ﷺ سے علیحدگی اور آپ کے عقد میں رہنے کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے کیونکہ قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ) اس پر دلالت کررہا ہے کہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) میں ان کے لئے حضور ﷺ سے علیحدگی اختیار کرنے کی بات بھی پوشیدہ تھی۔ کیونکہ مذکورہ بالا پہلی آیت میں جس اختیار کر ذکر ہے اس سے حضور ﷺ کی رفاقت اور دارآخرت کو اختیار کرنا مراد ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سلسلہ تلاوت میں پہلی دفعہ جس اختیار کا ذکر ہے وہ حضور ﷺ سے علیحدگی کا اختیار تھا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (فتعالین امتعکن) اور ظاہر ہے کہ بیوی کو متعہ کی صورت میں نقد وجنس اسی صورت میں دی جاتی ہے جب وہ طلاق کا انتخاب کرلے اور مطلقہ بن جائے۔ قول باری (واسرحکن) سے طلاق کے بعد انہیں ان کے گھروں سے رخصت کردینا مراد ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن۔ جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر انہیں طلاق دے دو ) تاقول باری (سراجاً جمیلا۔ اچھی طرح رخصت کردو) یہاں طلاق کے بعد متعہ دینے کا ذکر ہوا اور تشریح کے لفظ سے انہیں اچھی طرح گھر سے رخصت کرنا مرا د لیا گیا ہے۔ کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے کر میرے نکاح میں رہنا ہے یا نہیں، تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟ ایک شخص اگر اپنی بیوی کو اختیار دے دیتا ہے تو اس مسئلے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ اگر عورت نے شوہر کا انتخاب کرلیا یعنی اس کے عقد میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر شوہر کے مقابلہ میں اپنی ذات کا انتخاب کرلیا تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت علی ؓ سے زادان نے یہی روایت کی ہے۔ ابوجعفر نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ پہلی صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور دوسری صورت میں ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اختیار دے دے اور اس سے کہے کہ ” امرک بیدک “ (اب تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوگی اور اگر شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے خیار کے مسئلے میں فرمایا کہ اگر وہ شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق نہیں ہوگی لیکن اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر شوہر نے اسے ” امرک بیدک “ کہا ہو اور اس نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہو تو اس صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ اگر وہ شوہر کو اختیار کرلے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی بشرطیکہ شوہر نے تخییر کے اندر طلاق کا ارادہ کیا ہو۔ تاہم تین طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ شوہر اس تعداد کا ارادہ کیوں نہ کرچکا ہو۔ ان حضرات نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں بھی یہی کہا ہے البتہ اس صورت میں اگر شوہر تین طلاق کا ارادہ کرے گا تو بیوی پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اوزاعی کا قول ہے کہ خیار کی صورت ہیں اگر وہ اپنے شوہر کو اختیار کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی اور شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ خیار کی صورت میں اگر عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلیتی ہے تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر وہ اپنی ذات کو ایک طلاق دے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ امام مالک نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اگر عورت یہ کہے کہ میرا ارادہ ایک طلاق کا ہے تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی تاہم شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار باقی رہے گا لیکن خیار کی صورت میں اگر شوہر کہے کہ اس نے صرف، ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس کے اس قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اگر شوہر نے یہ کہا ہو۔ ” اختاری تطلیقۃ “ (ایک طلاق کا انتخاب کرلو) پھر عورت نے طلاق دے دی ہو تو یہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔ لیث بن سعد نے خیار کی صورت کے متعلق کہا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اختیار کرے تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ امام شافعی نے ” اختادی “ نیز ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی الا یہ کہ شوہر اس سے طلاق کا ارادہ کرچکا ہو۔ اگر شوہر نے طلاق کا ارادہ کیا ہو اور بیوی کہے کہ میں نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہے یہ کہتے ہوئے بیوی بھی اگر طلاق کا ارادہ کرے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر بیوی طلاق کا ارادہ نہیں کرے گی تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ تخییر فی نفسہٖ طلاق نہیں ہے نہ صریحاً نہ کنایۃً ۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ تخییر کی صورت میں تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں خواہ شوہر نے ان کا ارادہ کیوں نہ کیا ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا سب نے آپ کی ذات کو اختیار کرلیا لیکن یہ اختیار طلاق نہیں کہلایا۔ نیز خیار صرف طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہوتا اس میں دوسری باتیں بھی شامل ہوتی ہیں اس لئے خیار طلاق پر دلالت نہیں کرتی۔ مخالفین کے نزدیک اس کی حیثیت اس فقرے جیسی نہیں ہے جو شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے یعنی ” اعتدی “ (تو عدت گزار) اس فقرے سے اگر شوہر طلاق کا ارادہ کرتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ عدت طلاق کی بنا پر واجب ہوتی ہے اس لئے اس لفظ میں طلاق پر دلالت موجود ہے۔ فقہاء نے خیار کو بالاتفاق اس وقت طلاق قرار دیا ہے جب عورت اپنی ذات کا انتخاب کرے ۔ فقہاء کے اتفاق کے علاوہ اس کی یہ دلیل بھی ہے کہ حضور ﷺ نے جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا تو سب جانتے ہیں کہ یہ اختیار علیحدگی اختیار کرنے اور عقد نکاح میں باقی رہنے کے درمیان تھا۔ اگر اس صورت میں ازواج مطہرات اپنی ذات کا انتخاب کرلیتیں تو علیحدگی واقع ہوجاتی۔ اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلینے کے بعد بھی علیحدگی واقع نہ ہوتی تو تخییر بےمعنی ہوتی۔ نکاح کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی تمام صورتوں مثلاً نامرد اور محبوب (مقطوع الذکر) کی بیویوں کے خیار کے ساتھ درج بالا خیار کو تشبیہ دے کر یہ مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر اس خیار میں عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ اسی بنا پر اس خیار کے نتیجے میں فقہاء کے نزدیک تین طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اصول کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی صورتوں میں تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فصل نا ونفقہ مہیا نہ کر سکنا اس زمرے میں نہیں آتا ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات اس آیت سے ایجاب خیار اور اس عورت کی علیحدگی پر استدلال کرتے ہیں جس کا شوہر نان ونفقہ دینے سے عاجز ہوگیا ہو کیونکہ حضور ﷺ کو جب دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا گیا اور آپ نے آخرت اور فقر کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی بیویوں کی تخییر کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (یایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) تا آخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے آیت سے جو استدلال کیا ہے اس پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ازواج مطہرات سے علیحدگی کا جو اختیار دیا تھا وہ اس شرط پر معلق رکھا گیا تھا کہ ازواج مطہرات دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلیں۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہماری عورتوں میں اگر کوئی دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلے تو یہ بات اس کے شوہر سے اس کی علیحدگی کی موجب نہیں بنتی۔ جب وہ سبب جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور تخییر کو واجب کردیا تھا۔ حضور ﷺ کے سوا دوسرے شوہروں کی بیویوں میں تخییر کا موجب نہیں ہے تو اس صورت میں یہ سبب ایک عورت اور اس کے نان ونفقہ دینے سے عاجز شوہر کے درمیان تفریق پر دلالت نہیں کرے گا۔ نیزحضور ﷺ کا دنیا کی بجائے آخرت اور دولتمندی کی بجائے فقر کو اختیار کرلینے سے یہ بات واجب نہیں ہوتی کہ آپ زاواج مطہرات کے نان ونفقہ سے عاجز تھے کیونکہ ایک شخص فقیر ہونے کے باوجود اپنی بیویوں کے نان ونفقہ پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی اہل علم نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے کہ حضور ﷺ ازواج مطہرات کوئی نان ونفقہ مہیا کرنے سے عاجز تھے۔ اس کے برعکس یہ روایات موجود ہیں کہ آپ ازواج مطہرات کے لئے سال بھر کی خوراک کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس لئے جس شخص نے بھی اپنے مذکورہ قول پر اس آیت سے استدلال کیا ہے وہ دراصل آیت کے حکم سے ہی ناواقف ہے۔
Top