Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کردوں
حضور ﷺ نے اپنی ازواج کو اختیار دے دیا کہ چاہیں نکاح ہی میں رہیں یا طلاق لے لیں قول باری ہے (یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا و زینتھا۔ اے نبی ﷺ ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار کو مقصود رکھتی ہو) تاآخر آیت۔ ہمیں عبداللہ بن محمد المروزی نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع الجر جانی نے ، انہیں معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے، وہ فرماتی ہیں کہ جب آیت (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو مقصود رکھتی ہو) نازل ہوئی تو حضور ﷺ سب سے پہلے میرے پاس آئے اور فرمایا : عائشہ ؓ ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ اپنے والدین سے مشوروہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ ﷺ سے جدا ہوجانے کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ بہرحال حضور ﷺ نے اپنی بات مکمل کرکے (یایھا النبی قل لازواجک) تا اخر آیت مجھے سنائی۔ میں نے عرض کیا : میں کیوں اپنے والدین سے مشورہ لوں، میں تو اللہ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ حسن بن ابی الربیع جرجانی کے علاوہ دوسرے راوی نے عبدالرزاق سے روایت کی ہے کہ معمر نے کہا مجھے ایوب نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا۔” اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اپنی بیویوں کو اختیار دیں گے تو میں آپ کی رفاقت اختیار کروں گی۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تکلیف پہنچانے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اختیار دینے کا جو حکم مذکور ہے اس کے مفہوم کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا کیونکہ قول باری ہے (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا) تا قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والداء الاخرۃ) ۔ دوسرا حضرات کا قول ہے کہ یہ بات نہیں بلکہ انہیں طلاق کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تھا اور شرط یہ تھی کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زیب وزینت کو پسند کرلیں تو گویا انہوں نے طلاق کا انتخاب کرلیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسر حکن سراحا جمیلا) اگر تم دنیوی زندگی اور اس کو بہار کو مقصود رکھتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ متاع دنیوی دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے دنیا اختیار کرنے کا طلاق اختیار کرنا قرار دیا۔ یہ حضرات اس پر اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو مسروق نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے کہ جب ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا تھا تو انہوں نے فرمایا : ہمیں بھی حضور ﷺ نے اختیار دیا تھا ، کیا یہ اختیار طلاق کی صورت میں تبدیل ہوگیا تھا ؟ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں ” ہم نے حضور ﷺ کو اختیار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے طلاق شمار نہیں کیا تھا۔ “ ان حضرات نے مزید کہا ہے کہ یہ بات ثابت نہیں کہ حضور ﷺ نے انہیں اس اختیار کے سوا اور کوئی اختیار دیا ہو جس کا آیت میں حکم دیا گیا تھا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب زیر بحث آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے ان سے فرمایا : عائشہ ؓ ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اس کے متعلق جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے اس بارے میں مشورہ کرلینا۔ “ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اللہ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی کا کبھی مشورہ نہیں دیں گے۔ حضور ﷺ نے اپنی بات ختم کرکے آیت تلاوت کی۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے کہا : ” میں تو اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس روایت میں بھی کئی وجوہ سے اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ آپ نے انہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا نیز طلاق لینے اور حضور ﷺ کے عقد میں باقی رہنے میں سے ایک کو پسند کرلینے کا اختیار دیا تھا۔ کیونکہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا : اس معاملہ میں جلد بازی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔ “ اور یہ بات تو واضح ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلینے کے لئے باہمی مشورے نہیں ہوتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مشورہ طلب کرنے کے معاملہ طلاق لے لینے یا عقد نکاح میں باقی رہنے میں سے ایک کے انتخاب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول کہ ” اللہ کو علم تھا کہ میرے ماں باپ مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا کبھی مشورہو نہیں دیں گے۔ “ نیز یہ قول کہ ” میں اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دار آخرت کو مقصود رکھتی ہوں۔ “ یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آیت طلاق اور نکاح کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے جن حضرات کے نزدیک آیت میں طلاق کی تخییر نہیں ہے وہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا) سے استدلال کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی کو صرف انہیں طلاق دینے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ دنیا کا انتخاب کرلیں۔ لیکن یہ بات دنیا کے انتخاب کی صورت میں ان پر وقوع طلاق کی موجب نہیں ہے جس طرح مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے ” اگر تو فلاں چیز کا انتخاب کرلے تو تجھے طلاق “ اس کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ بیوی جب اس چیز کا انتخاب کرلے گی تو وہ نئے سرے سے اسے طلاق دے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت لامحالہ حضور ﷺ سے علیحدگی اور آپ کے عقد میں رہنے کے درمیان تخییر کی مقتضی ہے کیونکہ قول باری (وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ) اس پر دلالت کررہا ہے کہ قول باری (ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) میں ان کے لئے حضور ﷺ سے علیحدگی اختیار کرنے کی بات بھی پوشیدہ تھی۔ کیونکہ مذکورہ بالا پہلی آیت میں جس اختیار کر ذکر ہے اس سے حضور ﷺ کی رفاقت اور دارآخرت کو اختیار کرنا مراد ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سلسلہ تلاوت میں پہلی دفعہ جس اختیار کا ذکر ہے وہ حضور ﷺ سے علیحدگی کا اختیار تھا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (فتعالین امتعکن) اور ظاہر ہے کہ بیوی کو متعہ کی صورت میں نقد وجنس اسی صورت میں دی جاتی ہے جب وہ طلاق کا انتخاب کرلے اور مطلقہ بن جائے۔ قول باری (واسرحکن) سے طلاق کے بعد انہیں ان کے گھروں سے رخصت کردینا مراد ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن۔ جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر انہیں طلاق دے دو ) تاقول باری (سراجاً جمیلا۔ اچھی طرح رخصت کردو) یہاں طلاق کے بعد متعہ دینے کا ذکر ہوا اور تشریح کے لفظ سے انہیں اچھی طرح گھر سے رخصت کرنا مرا د لیا گیا ہے۔ کوئی شخص اپنی بیوی کو اختیار دے کر میرے نکاح میں رہنا ہے یا نہیں، تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟ ایک شخص اگر اپنی بیوی کو اختیار دے دیتا ہے تو اس مسئلے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ اگر عورت نے شوہر کا انتخاب کرلیا یعنی اس کے عقد میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر شوہر کے مقابلہ میں اپنی ذات کا انتخاب کرلیا تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت علی ؓ سے زادان نے یہی روایت کی ہے۔ ابوجعفر نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ پہلی صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور دوسری صورت میں ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی کو اختیار دے دے اور اس سے کہے کہ ” امرک بیدک “ (اب تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک رجعی طلاق واقع ہوگی اور اگر شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے خیار کے مسئلے میں فرمایا کہ اگر وہ شوہر کا انتخاب کرے گی تو اس پر کوئی طلاق نہیں ہوگی لیکن اگر وہ اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر شوہر نے اسے ” امرک بیدک “ کہا ہو اور اس نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہو تو اس صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ اگر وہ شوہر کو اختیار کرلے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی بشرطیکہ شوہر نے تخییر کے اندر طلاق کا ارادہ کیا ہو۔ تاہم تین طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ شوہر اس تعداد کا ارادہ کیوں نہ کرچکا ہو۔ ان حضرات نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں بھی یہی کہا ہے البتہ اس صورت میں اگر شوہر تین طلاق کا ارادہ کرے گا تو بیوی پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اوزاعی کا قول ہے کہ خیار کی صورت ہیں اگر وہ اپنے شوہر کو اختیار کرے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرے گی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی اور شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ خیار کی صورت میں اگر عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلیتی ہے تو اس پر تین طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر وہ اپنی ذات کو ایک طلاق دے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ امام مالک نے ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اگر عورت یہ کہے کہ میرا ارادہ ایک طلاق کا ہے تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی تاہم شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار باقی رہے گا لیکن خیار کی صورت میں اگر شوہر کہے کہ اس نے صرف، ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس کے اس قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اگر شوہر نے یہ کہا ہو۔ ” اختاری تطلیقۃ “ (ایک طلاق کا انتخاب کرلو) پھر عورت نے طلاق دے دی ہو تو یہ ایک طلاق رجعی ہوگی۔ لیث بن سعد نے خیار کی صورت کے متعلق کہا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اختیار کرے تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ امام شافعی نے ” اختادی “ نیز ” امرک بیدک “ کی صورت میں کہا ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی الا یہ کہ شوہر اس سے طلاق کا ارادہ کرچکا ہو۔ اگر شوہر نے طلاق کا ارادہ کیا ہو اور بیوی کہے کہ میں نے اپنی ذات کا انتخاب کرلیا ہے یہ کہتے ہوئے بیوی بھی اگر طلاق کا ارادہ کرے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر بیوی طلاق کا ارادہ نہیں کرے گی تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ تخییر فی نفسہٖ طلاق نہیں ہے نہ صریحاً نہ کنایۃً ۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ تخییر کی صورت میں تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں خواہ شوہر نے ان کا ارادہ کیوں نہ کیا ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا سب نے آپ کی ذات کو اختیار کرلیا لیکن یہ اختیار طلاق نہیں کہلایا۔ نیز خیار صرف طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہوتا اس میں دوسری باتیں بھی شامل ہوتی ہیں اس لئے خیار طلاق پر دلالت نہیں کرتی۔ مخالفین کے نزدیک اس کی حیثیت اس فقرے جیسی نہیں ہے جو شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے یعنی ” اعتدی “ (تو عدت گزار) اس فقرے سے اگر شوہر طلاق کا ارادہ کرتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ عدت طلاق کی بنا پر واجب ہوتی ہے اس لئے اس لفظ میں طلاق پر دلالت موجود ہے۔ فقہاء نے خیار کو بالاتفاق اس وقت طلاق قرار دیا ہے جب عورت اپنی ذات کا انتخاب کرے ۔ فقہاء کے اتفاق کے علاوہ اس کی یہ دلیل بھی ہے کہ حضور ﷺ نے جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا تو سب جانتے ہیں کہ یہ اختیار علیحدگی اختیار کرنے اور عقد نکاح میں باقی رہنے کے درمیان تھا۔ اگر اس صورت میں ازواج مطہرات اپنی ذات کا انتخاب کرلیتیں تو علیحدگی واقع ہوجاتی۔ اگر اپنی ذات کا انتخاب کرلینے کے بعد بھی علیحدگی واقع نہ ہوتی تو تخییر بےمعنی ہوتی۔ نکاح کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی تمام صورتوں مثلاً نامرد اور محبوب (مقطوع الذکر) کی بیویوں کے خیار کے ساتھ درج بالا خیار کو تشبیہ دے کر یہ مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر اس خیار میں عورت اپنی ذات کا انتخاب کرلے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ اسی بنا پر اس خیار کے نتیجے میں فقہاء کے نزدیک تین طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اصول کے اندر پیدا ہونے والے خیار کی صورتوں میں تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فصل نا ونفقہ مہیا نہ کر سکنا اس زمرے میں نہیں آتا ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات اس آیت سے ایجاب خیار اور اس عورت کی علیحدگی پر استدلال کرتے ہیں جس کا شوہر نان ونفقہ دینے سے عاجز ہوگیا ہو کیونکہ حضور ﷺ کو جب دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا گیا اور آپ نے آخرت اور فقر کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی بیویوں کی تخییر کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (یایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا) تا آخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے آیت سے جو استدلال کیا ہے اس پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ازواج مطہرات سے علیحدگی کا جو اختیار دیا تھا وہ اس شرط پر معلق رکھا گیا تھا کہ ازواج مطہرات دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلیں۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہماری عورتوں میں اگر کوئی دنیاوی زندگی اور اس کی بہار کا انتخاب کرلے تو یہ بات اس کے شوہر سے اس کی علیحدگی کی موجب نہیں بنتی۔ جب وہ سبب جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور تخییر کو واجب کردیا تھا۔ حضور ﷺ کے سوا دوسرے شوہروں کی بیویوں میں تخییر کا موجب نہیں ہے تو اس صورت میں یہ سبب ایک عورت اور اس کے نان ونفقہ دینے سے عاجز شوہر کے درمیان تفریق پر دلالت نہیں کرے گا۔ نیزحضور ﷺ کا دنیا کی بجائے آخرت اور دولتمندی کی بجائے فقر کو اختیار کرلینے سے یہ بات واجب نہیں ہوتی کہ آپ زاواج مطہرات کے نان ونفقہ سے عاجز تھے کیونکہ ایک شخص فقیر ہونے کے باوجود اپنی بیویوں کے نان ونفقہ پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی اہل علم نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے کہ حضور ﷺ ازواج مطہرات کوئی نان ونفقہ مہیا کرنے سے عاجز تھے۔ اس کے برعکس یہ روایات موجود ہیں کہ آپ ازواج مطہرات کے لئے سال بھر کی خوراک کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس لئے جس شخص نے بھی اپنے مذکورہ قول پر اس آیت سے استدلال کیا ہے وہ دراصل آیت کے حکم سے ہی ناواقف ہے۔
Top