Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 27
وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِیَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا۠   ۧ
وَاَوْرَثَكُمْ : اور تمہیں وارث بنادیا اَرْضَهُمْ : ان کی زمین وَدِيَارَهُمْ : اور ان کے گھر (جمع) وَاَمْوَالَهُمْ : اور ان کے مال (جمع) وَاَرْضًا : اور وہ زمین لَّمْ تَطَئُوْهَا ۭ : تم نے وہاں قدم نہیں رکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور انکی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنادیا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
مفتوحہ زمینوں کے بارے میں فیصلہ قول باری ہے (واورثکم ارضھم ودیارھم واموالھم وارضالم تطوھا اور تمہیں ان کی زین کا، ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اور اس زمین کا بھی مالک بنادیا جس پر تم نے اب تک قدیم نہیں رکھتا تھا) یعنی بنو قریظہ کی سرزمین کا یا بنو نضیر کی سر زمین کا جیسا کہ بعض حضرات نے آیت سے بنو نضیر مراد لیا ہے۔ قول باری (وارضنا لم تطوھا) کی تفسیر میں حسن کا قول ہے کہ اس سے ارض فارس وروم مراد ہیں۔ قتادہ کے اقوال کے مطابق اس سے مراد ارض مکہ ہے۔ یزید بن رومان نے کہا ہے کہ یہ ارض خیبر ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ کافروں کی جس سرزمین پر مسلمانوں کا غلبہ ہوجائے اور مسلمان بزور شمشیر اسے فتح کرلیں امام المسلمین اس سر زمین کو فاتحین کی ملکیت میں دے دے گا۔ امام کے لئے وہاں کے باشندوں کو اس سرزمین پر مالکانہ طور پر برقرار رہنے کی اجازت دینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ ارشاد باری ہے (واورثکم ارضھم) حالانکہ ظاہر آیت اس سرزمین کے اصل باشندوں کی ملکیت کے ایجاب کا مقتضی ہے اس میں ان حضرات کے قول پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (واورثکم) ط اوراً ملکیت کے ایجاب کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اس میں غالب آجانے فتحیاب ہوجانے اور قبضہ کرلینے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی مفہوم اگر وجود میں آجائے گا لفظ کا استعمال درست ہوجائے گا۔ قول باری ہے (ثم اور ثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا ۔ پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث بنادیا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کرلیا تھا) یہاں ملکیت مراد نہیں ہے اگر یہ بات درست بھی ہوتی کہ اس سے ملکیت مراد لی جائے تو یہ بنو قریظہ کی سرزمین کے بارے میں ہوتی۔ اور اس کا تعلق قول باری (واورثکم ارضھم) سے ہوتا۔ لیکن قول باری (وارضا لم تغثوھا) صرف ایک سر زمین کا مقتضی ہے تمام سر زمینوں کا مقتضی نہیں ہے۔ اگر اس سے خیبر مراد ہے تو مسلمان اس کے مالک بن گئے تھے۔ اگر ارض فارس وروم مراد ہے تو مسلمان ان سر زمینوں کے بعض حصوں کے مالک ہوگئے تھے۔ اس طرح آیت کا مقتضیٰ وجود میں آگیا تھا اور اس میں یہ دلالت نہیں تھی کہ مسلمان تمام زمینوں کے مالک ہوجاتے۔ کیونکہ قول باری (و ارضا لم تطوھا) صرف ایک سر زمین کو شامل تھا اس لئے مخالف کے قول پر اس میں کوئی دلالت نہیں ہے۔
Top