Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
اسلام میں کسی حقیقی وارث کو نظرانداز نہیں کیا جاتا قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) میں اس مقررومتعین حصے کا بیان ہے جو قول باری (للرجال نصیب) تاقول باری (نصیبامفروضا) میں مذکور ہے۔ نصیب مفروض، وہ حصہ ہے جس کی مقدارقول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) میں بیان ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے آیت (کتب علیکم اذا حضراحدکم الموت ان ترک خیرن الوصیۃ للوالدین والاقربین، تم پر والدین اوراقرباء کے لیے وصیت کرنا فرض کردیا گیا جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے اگر وہ مال چھوڑکرجارہاہو) تلاوت کی اور فرمایا کہ اس حکم کو قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون) مجاہد کا قول ہے کہ میراث ولد کو ملتی تھی اور والدین اوراقرباء کے لیے وصیت ہوتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں جو چاہا منسوخ کردیا اور بیٹے کے لیے دو بیٹیوں کے حصوں کے برابر حصہ مقرر کردیا۔ اور بیٹا بیٹی کی موجودگی میں والدین میں سے ہر ایک کا چھٹاحصہ مقرر کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ دستوریہ تھا کہ جب کوئی شخص وفات پاجاتا تو اس کی بیوہ اسی گھر میں پورے ایک سال مدت گذارتی اس دوران اسے مرحوم شوہر کے ترکے میں سے نان ونفقہ دیاجاتا۔ قول باری (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم عا الی الحول غیراخراج، تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور ان کے پیچھے ان کی بیویاں رہ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے لیے ایک سال تک فائدہ اٹھانے کی وصیت کرجائیں اور انہیں وہاں سے نکالانہ جائے) کا یہی مفہوم ہے۔ پھر بیویوں کے لیے ترکہ میں چوتھا یا آٹھواں حصہ مقررکرکے یہ حکم منسوخ کردیا گیا اوقول باری (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض) کے ذریعے دوستی کے معاہدے، منہ بولا بیٹا بنانے اور ہجرت کرنے کی بناپر ایک دوسرے لے وارث ہونے کا حکم منسوخ ہوگیا جس کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔ اس طرح قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) غیہ منسوخ محکم آیت ہے۔ یہ آیت میراث کے درج بالا اسباب کے حکم کے نسخ کی موجب ہے۔ اس لیے کہ اس نے میراث کا حق داران اقرباء کو قراردیا۔ جن کا ذکر اس میں آیا ہے۔ اس کے بعدان اسباب کی وجہ سے وارث قرارپانے والوں کے لیے کچھ نہیں بچا اور یہی بات ان کے حقوق کو ساقط کرنے کی موجب ہے۔ محمد بن عبداللہ بن عقیل نے حضرت جابربن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری عورت اپنی دوبیٹیاں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا یہ ثابت بن قیس کی بیٹیاں ہیں جو آپ کی ہمراہی میں معرکہ احد میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے چچانے ان کے لیے کوئی مال رہنے نہیں دیا اور سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیا۔ حضور، اب آپ ان کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ ان دونوں کے ہاتھ پیلے اس وقت ہوسکیں گے جب کہ ان کے پاس مال ہوگا۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا، اللہ ان کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نساء نازل فرمائی جس کا ایک جز (یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظا الانثیین) کی آیت ہے۔ آپ نے اس عورت اور اس کے ویورکوبلانے کا حکم دیا۔ آپ نے بچیوں کے چچاکوحکم دیا کہ اپنے مرحوم بھائی کے نز کہ میں سے دوتہائی بچیوں کو اورآٹھواں حصہ ان کی ماں کودے دے اور باقی ماندہ مال خودرکھ لے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہ روایت کئی معانی پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق چچا میراث کا مستحق ہوگیا تھا اور بیٹیاں محروم رہ گئی تھیں، کیونکہ اہل جاہلیت جنگ کرنے کے قابل، مردوں کو وراثت کا مستحق سمجھتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کو اس کا اہل قرار نہیں دیتے تھے۔ عورت نے جب حضور ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے اس طریق کارپرنکیر نہیں کی بلکہ اسے بحالہ باقی رکھتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ پھر جب آیت کا نزول ہوگیا تو آپ نے چچاکوحکم دیا کہ وہ بچیوں اور ان کی ماں کو ان کا حصہ دے دے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہ کہ چچانے شروع میں میراث اپنے قبضے میں شریعت کی رہنمائی کی روشنی میں نہیں تھی بلکہ اہل ہلیت کے دستور کے مطابق اس نے یہ اقدام کیا تھا۔ اس لیے کہ اگر صورت حال یہ ہوتی تو پھر آیت کے نزدل کے بعد نئے سرے سی کوئی قدم اٹھایاجاتا اور نزول سے پہلے منصوص حکم پر حملدرآمدہوچکا تھا اس پر نسخ کے سلسلے میں اس آیت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ چیز اس پر دلالت کوتی ہے کہ اس نے یہ قدم اہل جاہلیت کے اس دستور کی روشنی میں اٹھایا تھا جس سے اس وقت تک شرعی حکم کی طرف منتقلی عمل میں نہیں آئی تھی۔ سفیان بن عیینہ سے محمد بن المنکدر سے انہوں نے حضرت جابربن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بیمارپڑگیا۔ حضور ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے اس وقت مجھ پر بےہوشی کی کیفیت طاری تھی۔ آپ نے وضو فرمایا اور اپنے وضوکاپانی مجھ پرچھڑکاجس سے مجھے ہوش آگیا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ، میرے مال کے بارے میں آپ کیا فیصلہ دیتے ہیں آپ یہ سن کر خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیاحتی کہ آیت میراث (یوصیکم اللہ) نازل ہوئی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ پہلی حدیث میں عورت اور اس کی دو بیٹیوں کا واقعہ بیان ہوا۔ اور اس حدیث میں یہ ذکرہوا کہ حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا یہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ دونوں صورتیں پیش آئی ہوں عورت نے آپ سے پوچھاہو اور آپ نے وحی کے انتظار میں اسے کوئی جواب نہ دیا ہوپھرحضرت جابر ؓ نے اپنی بیماری کی حالت میں یہی سوال کیا ہو اور پھر آیت نازل ہوئی ہو۔ اب اس آیت کے تحت دیئے جانے والے احکامات غیر منسوخ ہیں اور قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون) میں بیان شدہ نصیب یعنی حصے کی بات کو اورپختہ کرتے ہیں۔ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) میں صلبی اولاد مراد ہیں۔ نیزصلبی اولاد کے ساتھ کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں ہے اور اگر صلبی اولاد موجودنہ ہو تو آیت سے بیٹیوں کی اولادمراد ہوگی۔ بیٹیوں کی نہیں۔ اس لیے لفظ (اولادکم) صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹیوں کی اولاد کو شامل ہے۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کے ولد یعنی بیٹا بیٹی کے لیے وصیت کرجائے فو اس کی وصیت اس شخص کی صلبی اولاد کے لیے ہوگی اور اگر صلبی اولادنہ ہو تو پھر اس کے بیٹے کی اولاد کے لیے ہوگی۔ قول باری (للذکرمثل حظ الانثیین) یہ بتارہا ہے کہ اگر ایک مذکر اور ایک مونث ہوتومذکرکودوحصے ملیں گے اور مونث کو ایک حصہ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ان کی تعدادزیادہ ہو تو ہر مذکرکودوحصے اور ہر مونث کو ایک حصہ ملے گا۔ نیز اس کا بھی پتہ چلاکر کہ اگر اولاد کے ساتھ ذویالفروض مثلا والدین، شوہریابیوی وغیرہ ہوں توذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو بچ رہے گا وہ الادکودرج بالانسبت سے دے دیاجائے گا۔ اس لیے کہ قول باری (للذکرمثل حظ الثیین) اسم جنس ہے جوان کو قلیل اور کثیرتعدادسب کو شامل ہے۔ اس لیے جب ذوالفروض اپنے اپنے حصے حاصل کرلیں گے تو باقی ماندہ ترکہ ان کے درمیان اسی استحقاق کی بناپر تقسیم ہوجائے گاجوا نہیں ذوی الفروض کی عدم موجود گی میں حاصل ہوتا۔ قول باری ہے (فان کن نساء فوق الثنتین فلھن ثلثاترک وان کانت واحدۃ ثلھا النصف، اگر یہ سب عورتیں ہوں جن کی تعداددو سے زائد ہوتوان کے لیے ترکے کا دو تہائی ہے اور اگر ایک ہو تو اس کے لیے نصف ترکہ ہے) اللہ تعالیٰ نے دو سے زائد اور ایک کے حصوں کو منصوص طریقے پر بیان کردیا لیکن دو کے حصوں کو بیان نہیں کیا اس لیے کہ آیت کے ضمن میں دو کے حصوں پر دلالت موجود ہے وہ اس طرح کہ ایک بیٹی کے لیے تہائی حصہ مقررکردیاجب کہ ساتھ ایک بیٹا بھی ہو۔ اب جب وہ مذکر یعنی بیٹے کے ساتھ ایک تہائی لیتی ہے تو پھر ایک بیٹی کے ساتھ تہائی حصہ لینا اولی اوراقرب ہے۔ اس کے بعدہ میں دو سے زائد کے حکم کے لیے نص کی ضرورت تھی اس لیے دو سے زائد کا حکم منصوص طریقے پر بیان فرمادیا۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے (للذکرمثل حظ الانثیین) فرمادیا، تومرنے والے کے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو ترکے کادوتہائی ملتا جو دو بیٹیوں کے حصوں کا مجموعہ ہے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو بیٹیوں کا حصہ دوتہائی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے حصے کے برابرقراردیا ہے۔ دو بیٹیوں کے لیے دوتہائی حصے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھائیوں اور بہنوں کا معاملہ کی بیٹیوں کی طرح رکھا ہے اور ایک بہن کا معاملہ ایک بیٹی کی طرح رکھا ہے۔ چناچہ ارشادباری ہے (ان امرؤھلک لیس لہ ولدو لہ اخت فلھا۔ نصف ماترک، اگر کوئی شخص وفات یا جائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو، اس کی ایک بہن ہو۔ توا سے نز کے کا نصف ملے گا) پھر فرمایا (وان کانتا اثنتین فلھماالثلثان مماترک وان کانواخوۃ ورجالاؤنساء فللذکرمثل حظ الانثین، اگر دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے ترکے کا و وتہائی ہے اور اگر بھائی بہنیں ہوں تو مرد کے لیے ددعورتوں کے برابرحصہ ہے) اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کا حصہ دو سے زائد کی طرح مقرر کیا یعنی دوتہائی جس طرح کہ ایک بہن کے لیے ایک بیٹی جتناحصہ مقرر کیا اور بھائیوں بہنوں کی صورت میں مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصوں کے برابر واجب کردیا۔ اس سے یہ چیزضروری ہوگئی کہ دوتہائی کے استحقاق میں دوبیٹیاں دو بہنوں کی طرح ہوجائیں، اس لیے کہ ایک مرد کے لیے دوعورتوں کے برابرحصے کے اصول میں ان کے درمیان مال کی تقسیم واجب کرنے کے لحاظ سے دو بیٹیوں اور دو بہنوں کی حیثیت یکساں ہے۔ بشرطیکہ ان کے ساتھ اور کوئی وارث موجونہ ہو جس طرح کہ کسی اور وارث کی عدم موجودگی کی صورت میں نصف ترکہ کے استحقاق میں ایک بیٹی اور ایک بہن کی حیثیت یکساں ہے۔ نیز دوبیٹیاں دو بہنوں کی بہ نسبت دوتہائی ترکہ کی زیادہ حقدار ہیں کیونکہ بیٹیاں بہنوں کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہیں۔ اور جب ایک بہن ایک بیٹی کی طرح ہے تو دوتہائی کے استحقاق میں دوبیٹیاں بھی ایسی ہی ہوں گی۔ اس پر حضرت جابر ؓ کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں حضور ﷺ نے دو بیٹیوں کو دوتہائی حصہ دیا تھا۔ بیوی کو آٹھواں اور باقی ماندہ ترکہ چچاکودیا تھا۔ اس سلسلے کوئی اختلاف مروی نہیں ۔ صرف حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے دو بیٹیوں کو بھی ایک بیٹی کی طرح نصف ترکہ دیا تھا۔ ان کا استدلال اس قول باری سے ہے (فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثاماترک، اگر دو سے زائد بیٹیاں ہوں توا نہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا) لیکن اس میں یہ دلیل نہیں ہے کہ دو بیٹیوں کو نصف ملے گا۔ اس میں جو منصوصبات ہے وہ یہ ہے کہ دو سے زائد کے لیے دوتہائی ہے۔ اگر دو بیٹیوں کے لیے دوتہائی کا قائل آیت کی مخالفت کا مرتکب ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی کے لیے نصف مقرر کیا ہے جبکہ معترض دو بیٹیوں کے لیے نصف مقررکررہا ہے۔ اور یہ بات آیت کے خلاف ہے کہ اگر دو بیٹیوں کے لیے نصف ترکہ مقرر کرنے پر آیت کی مخالفت نہیں ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی کے لیے یہ حصہ مقرر کیا ہے تو دو بیٹیوں کے لیے دوتہائی مقررکرکے بھی آیت کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثاماترک) میں اس کی نفی نہیں کی کہ دو بیٹیوں کو دوتہائی حصہ دے دیاجائے۔ بلکہ صرف دو سے زائدکاحکم نص کے طورپربیان فرمایا ہے۔ آیت کے ضمن میں دو کے حکم پر بھی دلالت ہوگئی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ نیز ہماری وضاحت کے مطابق دو بیٹیوں کے حکم پر دو بہنوں کا حکم بھی دلالت کررہا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (فان کن نساء فوق اثنتین) میں لفظ فوق اسی طرح صلہ کلام واقع ہوا ہے جس طرح کہ قول باری (فاضربوافوق الاعناق، گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ) میں صلہ واقع ہوا ہے۔ قول باری ہے (ولابویہ لکل واحدمنھماالسدس ان کان لہ ولد، اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹاحصہ ملے گا) آیت کا ظاہراس بات کو واجب قراردیتا ہے کہ ولد کے ساتھ ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹاحصہ ملے گا خواہ ولدبیٹاہویابیٹی ہو تو وہ نصف سے زائد کی مستحق نہیں ہوگی اس لیے کہ قول باری ہے (وان کانت واحدۃ خلھا النصف) اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ حکم نص کے مطابق بیٹی کو نصف حصہ دیاجائے اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹاحصہ دیاجائے اور باقی ماندہ چھٹے حصے کا حق دارعصبہ ہونے کی بناپرباپ کو قراردیاجائے۔ اس صورت میں دوحیثیتوں سے ترکے کا مستحق ہوگا ایک توذوی الفروض کی حیثیت سے اور دوسراعصبہ ہونے کی حیثیت سے۔ اگر میت کا ولدبیٹا ہوتوحکم نص کے مطابق والدین کے لیے دوسدی اور باقی ماندہ ترکہ بیٹے کا ہوگا۔ اس لیے کہ عصبہ ہونے کی حیثیت سے وہ باپ کے مقابلہ میں میت سے زیادہ قریب ہے۔ قول باری ہے (فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث، اگر میت صاحب اولادنہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسراحصہ دیاجائے گا) عموم لفظہ سے پہلے ماں باپ دونوں کے لیے میراث ثابت کردی گئی، اور پھر ماں کا حصہ الگ سے بیان کردیا گیا، اور اس کی مقدار بھی متعین کردی گئی ہے فرمایا گیا (فلامہ الثلث) یہاں باپ کا حصہ بیان نہیں کیا گیا، لیکن ظاہرلفظ کا تقاضایہ ہے کہ باپ کو ودتہائی مل جائے کیونکہ اس کے سوا اور کوئی وارث موجود نہیں۔ اور فقرے کے شروع میں ماں باپ دونوں کے لیے میراث ثابت کردی گئی تھی اگر صرف (وورثہ ابواہ) ہوتا اور آگے ماں کے حصہ کی تفصیل نہ ہوتی تو ظاہر لفظ کا یہ تقاضا ہوتا کہ ماں باپ دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے۔ اب جبکہ ماں کے حصے کی تفصیل پر اقتصار کیا گیا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ باپ کے لیے دوتہائی ہے۔ قول باری ہے (فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس، اگر اس کے بھائی بھائی ہوں تو ماں کا چھٹاحصہ ہوگا) حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعو ؓ د، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت زیدبن ثابت ؓ اور تمام اہل علم کا قول ہے کہ اگر دوبھائی اور والدین ہوں تو بھی ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو ملے گا۔ ان حضرات نے اس صورت میں ماں کا حصہ تہائی سے گھٹاکر ایک سدس کردیا ہے جس طرح کہ تین بھائیوں کی صورت میں مان کا حصہ گھٹ کر سدس رہ جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ دوبھائیوں کی صورت میں ماں کو تہائی حسہ ملے گا اور اس کا حصہ صرف اسی صورت میں گھٹ سکتا ہے، جب تین بھائی بہن ہوں۔ معمرنے طاؤس سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ مرنے والااگر اپنے پیچھے والدین اور تین بھائی بہن چھوڑجائے تو ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور بھائی بہنوں کو وہی چھٹاحصہ مل جائے گا جو انہوں نے ماں کے حصے سے گھٹادیا تھا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت کے مطابق اگر بھائی بہن ماں کی طرف سے ہوں جنہیں اخیافی کہا جاتا ہے تو اس صورت میں انہیں چھٹاحسہ ملے گا۔ لیکن اگر وہ حقیقی یاعلاتی (باپ میں شریک) بھائی بہن ہوں تو انہیں کچھ نہیں ملے گا اور ماں کو چھٹاحصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ ، اخوۃ، کا اسم کبھی دوپر بھی واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادباری ہے (ان تتوبا الی اللہ فقدصغت قلوبکما، (اے دونوں بیویو ! ) اگر تم اللہ کے آگے توبہ کرلو، تو تمھارے دل (اسی طرف) مائل ہورہے ہیں) حالانکہ یہاں مراد، دودل ہیں لیکن اس کے اس کے لیے جمع کا اسم استعمال ہوا ہے، اسی طرح ارشاد باری ہے (وھل اتاک نباالخصم اذتسوروالمحراب، بھلاآپ کو ان اہل مقدمہ کی خبرپہنچی ہے۔ جب وہ دیوارپھاندگئے) پھر فرمایا (خصمن بغی بعضنا علی بعض، ہم دواہل مقدمہ ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ ) یہاں جمع کے لفظ کادوپر اطلاق کیا گیا ہے۔ قول باری ہے۔ (وان کانوا اخوۃ رجالاونساء فللذکرمثل حظ الانثیین، اب اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو بھی آیت کا حکم ان کے حق میں جاری ہوگا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (اثنان فمافوقھماجھاعۃ، دو اوردو سے زائد افراد جماعت کہلاتے ہیں نیز وکاعددجمع کے معنی میں ایک سے قریب ہونے کے مقابلے میں تین سے زیادہ قریب ہے اس لیے کہ دو کے اندرجمع کا مفہوم بھی موجودہوتا ہے۔ مثلا دوافرادہوں یاتین آپ دونوں صورتوں میں، فاماوقعدا، اور، قامواوقاعدوا، کہہ سکتے ہیں (یعنی یہاں تثنیہ کا صیغہ بھی استعمال ہیں اور جمع کا بھی) لیکن ایک فرد کی صورت میں یہ کہنادرست نہیں ہوگا۔ اب جب اثنان یعنی دوکالفظ جمع کے معنی میں ایک سے قریب ہونے کے مقابلے میں تین سے زیادہ قریب ہے تو پھر اس لفظ کو ایک کی بجائے تین کے عدد کے ساتھ ملانا واجب ہوگیا۔ عبدالرحمن بن ابی الزنادنے اپنے والد سے، انہوں نے خارجہ بن زید سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ دوبھائیوں کی موجودگی میں ماں کا حصہ گھٹادیا کرتے تھے۔ یعنی تہائی کے مقابلہ میں چھٹاحصہ دیتے تھے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا : ابوسعید، اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے (فان کا لہ اخوۃ) اور آپ دوبھائیوں کی وجہ سے ماں کا حصہ گھٹادیتے ہیں۔ اس پر زیدنے فرمایا : عرب کے لوگ دوبھائیوں پر بھی، اخوۃ، کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ اب جبکہ حضرت زیدبن ثابت ؓ یہ نقل کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ دوبھائیوں پر بھی، اخم ۃ، کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ لفظ دو اورتین دونوں کے لیے اسم ہے اور یہ اسم دونوں کو شامل ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ نص تنزیل یعنی قول باری (وان کانتا اثنتین فلھما الثلثان مماترک) سے ثابت ہوگیا ہے کہ دوتہائی ترکہ استحقاق میں ، دو بہنوں کا حکم تین بہنوں جیسا ہے، اس طرح تہائی ترکہ کے استحقاق میں دواخیافی بہنوں نے کا حکم تین بہنوں جیسا ہے ایک بہن جیسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماں کا تہائی سے کھٹاکرسدس تک پہنچانے کے لحاظ سے دوبھائیوں کا حکم تین بھائیوں جیسا ہوجائے اس لیے کہ ان دونوں صورتوں میں ہر ایک کا حکم جمع سے متعلق ہے اس بناپردو اورتین دونوں کا حکم یکساں ہوگیا۔ قتادہ سے مروی ہے کہ بھائی بہن ماں کا حصہ گھٹادیتے ہیں جبکہ باپ کے ہوتے ہوئے خودوارث نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بھائی بہنوں کے اخراجات اور شادی بیاہ کی ذمہ داری باپ پر ہوتی ہے ماں پر نہیں ہوتی۔ لیکن یہ علت صرف اس صورت تک محدود ہے جبکہ بھائی بہن حقیقی یاعلاتی ہوں۔ اخیافی ہونے کی صورت میں ان کا معاملہ باپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتاکیون کہ وہ ان کا باپ نہیں ہوتا، تاہم اس صورت میں بھی وہ ماں کا حصہ گھٹادیتے ہیں جس طرح حقیقی بھائی بہن ماں کا حصہ کم ہوجانے کا سبب بنتے ہیں۔ صحابہ کرام کے درمیان اس صورت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر تین بھائی بہن ہوں اور ان کے ساتھ والدین بھی ہوں تو ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کے حصے میں آئے گا۔ البتہ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے اور عبدالرزاق نے بھی معمر سے روایت کی ہے، انہوں نے طاؤس کے بیٹے سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ درج بالاصورت میں ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور بھائی بہنوں کو وہ چھٹاحصہ مل جائے گا جس سے انہوں نے ماں کو محروم کردیا تھا اور پھر باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ غیروارث کی موجودگی کی بناپر کسی وارث کے حصے میں کمی کرنے کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے جب ماں بھائی بہنوں کی وجہ سے صرف چھٹے حصے کی حق دارنبی تو حضرت ابن عباس ؓ نے اس کے باقی چھٹے حصے کا حق داربھائی بہنوں کو بنادیا۔ ان کا یہ قول نہ صرف شاذ ہے یعنی وہ اس میں تنہا ہیں بلکہ خلاف قرآن بھی ہے اس لیے کہ قول باری ہے (وورتہ ابواہ فلامہ الثلث) اور (وورثہ ابواہ) پر عطف کرکے فرمایا (فان کان لہ اخوۃ فلامہ الس اس) اس طرح عبارت کی ترتیب یوں ہوئی، وورثہ ابواہ ولہ اخوۃ، اس کے والدین وارث ہورہے ہوں اور اس کے بھای بہن بھی ہوں یہ بات اس صورت میں بھائی بہنوں کو ترکہ میں سے کوئی حسہ پانے سے مانع ہے۔ قول باری ہے (من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین۔ وصیت پوری کرنے کے بعد جو مرنے والے نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد) دین یعنی قرض اگر لفظاموخ رہے لیکن معنی وصیت سے پہلے اس کی ابتداء کی گئی ہے۔ اس لیے کہ حرف، او، ترتیب کو واجب نہیں کرتاوہ تو صرف دومذکورہ باتوں میں ایک کے لیے ہوتا ہے گویا کہ یوں کہا گیا کہ، ان دونوں باتوں میں سے ایک کے بعد۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا ذکردین سے پہلے کیا ہے جبکہ اصل میں یہ اس کے بعد ہے یعنی وصیت کا ذکر لفظامقدم، لیکن معنی موخ رہے۔ قول باری ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولدفان کان لھن ولدفلکم الربع مماترکن، تمہارے لیے اس ترک کا نصف ہے جو تمہارے لیے اس ترکے کا نصف ہے جو تمھاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ وہ صاحب اولادنہ ہوں۔ اگر وہ صاحب اولادہوں تو تمھارے لیے ان کے چھوڑے ہوئے ترکے کا چوتھائی ہے۔ ) یہ وہ نص ہے جس کی تاویل میں اسی طرح کا اتفاق ہے۔ جس طرح اتنزیل میں۔ اس مسئلے میں مذکر اورمونث اولاد ، دونوں کا حکم یکساں ہے۔ بیٹایابیٹی شوہر کا حصہ نصف سے گھٹاکرچوتھائی اور بیوی کا حصہ چوتھائی سے گھٹاکرآٹھویں حصے تک پہنچادیتے ہیں بشرطیکہ اولاد میراث کی اہل ہو۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بیٹے کی اولاد اس کی عدم موجودگی میں میاں یا بیوی کے حصوں کو کم کرنے میں بیٹے کی طرح ہے۔ قول باری ہے (آباؤکم وابناؤکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضۃ من اللہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں) ایک قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون دینی اور دنیاوی نفع کے لحاظ سے تم سے قریب تر ہے۔ یہ بات اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے اس کے بیان کردہ حکم کی روشنی میں ترکہ تقسیم کردوکیون کہ مصالح کا علم صرف اس کو ہی ہے۔ ایک قول یہ کہ تمہارے ماں باپ اور تمھاری اولادنفع رسانی میں تقریبا یکساں درجے پر ہیں کہ تمہیں پتہ نہیں چل سکتا کہ بلحاظ نفع رسانی تم سے کون زیادہ قریب ہے۔ اس لیے کہ تم بچپن میں اپنے والدین سے فوائد حاصل کرتے رہے اور اب بڑھاپے میں اپنی اولاد سے فوائد حاصل کروگے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اموال میں والدین اور اولاد کے لیے حصے مقرر کردیئے کیونکہ اسے تمام لوگوں کے مفادات اور مصالح کا علم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ، تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کی وفات پہلے ہوجائے گی اور اس کی اولاد اس کے مال سے فائدہ حاصل کرے گی یا اولاد کی وفات پہلے ہوجائے گی اور ماں باپ اس کے مال سے مستفیدہوں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور اپنی حکمت کی بنیادپرتمھاری میراث میں یہ حصے مقررکیئے ہیں۔ سلف کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ایساشخص جو خود تو وارث نہیں بن سکتا کسی دوسرے وارث کے حصے کو گھٹاسکتا ہے یا نہیں ؟ مثلا ایک آزادمسلمان اپنے پیچھے آزاد اور مسلمان والدین اور دوکافریاغلام یاقاتل بھائی چھوڑجائے۔ حضرت علی ؓ حضرت عمر ؓ اور زیدبن ثابت ؓ کا قول ہے کہ اس صورت میں ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور باقی ماندہ دوتہائی ترکہ باپ کو مل جائے گا اسی طرح اگر کوئی مسلمان عورت اپنے پیچھے شوہر اور ایک کافریاغلام یاقاتل بیٹا چھوڑجائے یا کوئی مرد مرجائے اور اپنے پیچھے بیوی اور اسی قسم کا ایک بیٹا چھوڑجائے تو ان صورتوں میں بیٹاشوہریابیوی کے حصوں کو گھٹا نہیں سکتا۔ امام ابوحنیفہ امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک امام شافعی اور سفیان ثوری کا یہی قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ ایسابیٹا شوہریابیوی کے حصوں کو گھٹانے کا سبب بن جائے گا اگر وہ خودوارث نہیں ہوگا۔ اوزاعی اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ غلام اور کافراولاد نہ توخودوارث ہوگی اور نہ ہی حصہ گھٹائے گی البتہ وہ وارث نہیں ہوگا۔ لیکن گھٹادے گا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ کافرباپ اپنے بیٹے کو دادا کی میراث سے محجوب یعنی محروم نہیں کرسکتا بلکہ اسے مردہ فرض کرلیاجاتا ہے۔ اس لیے ماں، شوہر اوربیوی کے محجوب ہونے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ جو لوگ حجت یعنی گھٹانے یا محروم رکھنے کے قائل ہیں انہوں نے قول باری (ولایویہ لکل واحد منھماالسدس مماترک ان کان لہ ولد) کے ظاہر سے استدلال کیا ہے کیونکہ یہاں مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ جواب میں ان سے کہاجائے گا کہ آپ نے ماں کا حصہ توگھٹادیا لیکن باپ کا نہیں گھٹایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی بناپردونوں کو محجوب قراردیا تھا۔ اب اگر باپ کا محجوب قرارنہ دیاجانادرست ہے ؟ اور آپ نے قول باری (ان کان لہ ولد) کو اس ولدپرمحمول کیا جومیراث کا اہل بن سکتا ہو ؟ توپھرماں کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔
Top