Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں، اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمہ ہو کی جائے گی) اور جو مال تم مرد چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے بعد تقسیم کیے جائیں گے اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ۔ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی) ادائے وصیت و قرض بعد کے بشرطیکہ انسے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کیے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے۔
قول باری ہے (ولھن الربع مماترکتم ان لم یکن لکم ولدفان کان لکم ولدفلھن الثمن مماترکتم، اگر تم صاحب اولاد نہیں ہوتوتمھاری بیویوں کو تمھارے ترکے کا چوتھائی ملے گا۔ اور اگر تم صاحب اولاد ہوتوا نہیں تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ) یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک شخص کی چارہویاں ہوگی تو وہ آٹھویں حصے میں شریک ہوں گی۔ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر ماں باپ ہوں توشوہر اور بیوی کے ہوتے ہوئے انہیں کتنا حصہ ملے گا۔ حضرت علی ؓ حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عثمان ؓ اور حضرت زیدبن ثابت ؓ کا قول ہے کہ بیوی کو چوتھائی حصہ ماں کو باقی ماندہ کا تہائی اور باقی ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ شوہر کی صورت میں اسے نصف، ماں کو باقی ماندہ کا تہائی اور بقیہ ترکہ باپ کو مل جائے گا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ ان صورتوں میں بیوی اور شوہرکوان کا مقررہ حصہ ملے گا۔ ماں کو مکمل ایک تہائی حصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو جائے گا۔ آپ کا قول ہے کہ مجھے کتاب اللہ میں باقی ماندہ کا ثلث یعنی تہائی کہیں نظر نہیں آتا۔ ابن سیرین سے بھی حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی طرحروایت منقول ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابن سیرین کے ساتھ والدین کی صورت میں حضرت ابن عباس ؓ کے ہم مسلک ہیں۔ لیکن شوہر کے ساتھ والدین کی صورت میں ان کے ہم مسلک نہیں ہیں۔ اس لیے کہ وہ ماں کو باپ پر فضیلت دیتے ہیں۔ تاہم صحابہ کرام ان کے بعد آنے والے تابعین عظام اور فقہائے امصارپہلے قول کے قائل ہیں۔ ان سے اختلاف رکھنے والے حضرت ابن عباس اور ابن سیرین کا قول ہم نے نقل کردیا ہے۔ ظاہر قرآن کی دلالت بھی اسی پر ہورہی ہے۔ اس لیے کہ ارشادباری ہے (فان لم یکن لہ ولدو ورثہ ابواہ فلامہ الثلث) اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں ماں اور باپ کے درمیان میراث کے تین حصے کردیئے، ایک حصہ ماں کا اور دوحصے باپ کے جس طرح کہ بیٹے اور بیٹی کے درمیان اس کے تین حصے کردیئے چناچہ ارشاد باری ہے (للذذکرمثل حظ الانثیین) یہی صورت بھائی اور بہن کے درمیان میراث کی تقسیم کی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا (وان کانوا اخوۃ رجالاونساء فللذکرمثل حظ الانثیین) جب شوہر اوربیوی کے حصوں کا تعین ہوگیا اور انہوں نے اپنے اپنے حصے لے لیئے اور پھر باقی ماندہ کہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے درمیان اسی نسبت سے تقسیم ہوگیا جس نسبت سے شوہر اوربیوی کے دخول سے پہلے ہوتا نیز اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہوتی تو بھی ان کے درمیان ترکے کی تقسیم اسی نسبت سے عمل میں آتی تو ان تمام باتوں سے یہ ضروری ہوگیا، کہ شوہر اور بیوی کا اپنا اپنا مقررہ حصہ حاصل کرلیناباقی ماندہ ترکے کو ماں باپ کے درمیان اسی نسبت سے تقسیم کرنے کا موجب بن گیا، جس کے یہ دونوں شوہر اوربیوی کے دخول سے پہلے مستحق تھے۔ یعنی باقی ماندہ ترکے کے تین حصے کرکے ایک حصہ ماں کو اوردوحصے باپ کو دیئے جائیں، ایک اور پہلو سے دیکھیں تو ماں باپ دونوں کی حیثیت ان دو شخصوں کی طرح ہے۔ جو کسی مال میں شراکت رکھتے ہوں۔ اگر اس مال کا کوئی استحقاق کی بناپر کسی تیسیرے کو مل جائے گا تو باقی ماندہ مال ان دونوں شریکوں کے درمیان اسی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا جس کا وہ شروع سے استحقاق رکھتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بیٹے کی اولاد کی میراث شریعت اسلامی ذاتی ملکیت کے انکار کی نفی کرتی ہے ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) سے صلبی اولاد مراد ہے اور اگر صلبی اولادنہ ہوتوپھربیٹے کی اولاد مراد ہوگی۔ اس لیے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص پوتے پوتیاں چھوڑکروفات پاجائے گا تو اس کا ترکہ آیت کے حکم مطابق ان میں ہر پوتے کو دو اورہرپوتی کو ایک کی نسبت سے تقسیم کردیاجائے گا۔ اسی طرح اگر میت کی ایک پوتی ہوگی توا سے نصف ترکہ اور ایک سے زائد ہوں گی توا نہیں دوتہائی ملے گا۔ صلبی اولاد کی موجودگی میں جو تقسیم ہوتی ہے یہ تقسیم بھی اسی طرح کی ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ آیت میں اپنی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹوں کی اولاد مراد ہے۔ ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (یابنی ادم، اسے اولادآدم) اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ حضور ﷺ ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ صلبی اولادپر اس کا اطلاق حقیقت کے طورپر اوربیٹے کی اولاد پر مجازی طورپر ہوتا ہے۔ اس بناپرصلبی اولاد کی موجودگی میں بیٹے کی اولاد نظرانداز ہوجاتی ہے اور ترکے میں انکے ساتھ شامل نہیں ہوتی۔ بیٹے کی اولاد دوصورتوں میں سے ایک کے اندرترکے کی حق دارہوتی ہے یاتوصلبی اولاد موجونہ ہو۔ اس صورت میں پوتے پوتیاں صلبی اولاد کی قائم مقام ہوجاتی ہیں یاصلبی اولاد پورے ترکے کی حق وارنہ بن رہی ہو، مثلا ایک یا اس سے زائد بیٹیاں ہوں۔ اس صورت میں بیٹے کی اولاد باقی ماندہ یا بعض صورتوں میں پورے ترکے کی وارث ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ بات کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے پوتیاں ان کے ساتھ میراث میں اس طرح شریک ہوجائیں جس طرح صلبی اولاد کی آپس میں شراکت ہوتی ہے توا نہیں اس کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اگریہ کہاجائے کہ جب ولدکا اسم ، صبلی اولاد کے لیے حقیقت اور بیٹے کی اولاد کے لیے مجاز ہے تو پھر ایک ہی لفظ سے دونوں مراد لینادرست نہیں۔ اس لیے کہ ایک لفظ کا بیک وقت حقیقت اور مجاز ہوناممتنع ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ صلبی اولاد اورپوتے پوتیاں ایک لفظ سے ایک ہی صورت میں مراد نہیں ہوتے کیونکہ صلبی اولاد کی موجودگی کی صورت میں وہ مرادہوں اور عدم موجوگی کی صورت میں بیٹے کی اولاد مرادہو۔ اس طرح یہ لفظ اپنے حقیقی اور مجازی معنوں میں دوالگ الگ حالتوں میں محمول ہورہا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپناتہائی مال فلاں فلاں اشخاص کی اولاد کے نام وصیت کرتاہوں۔ اگر ان میں سے ایک شخص کی صلبی اولاد اور دوسرے کے بیٹے کی اولاد ہو تو وصیت دونوں کے حق میں جاری ہوجائے گی اور ایک کے بیٹے کی اولاد کا دوسرے کی صلبی اولاد کے ساتھ وصیت میں شامل ہوناممتنع نہیں ہوگا۔ امتناع کی صورت وہ ہوتی ہے جب ایک شخص کی صلبی اولاد کے ساتھ اس کے بیٹے کی اولاد بھی شامل ہوجائے۔ اور اگر اس کی صلبی اولاد کے ساتھ دوسرے کے بیٹے کی اولاد شامل ہوجائے تو اس میں کوئی امتنا ع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) آیت میں مذکورہ لوگوں میں سے ہر ایک کی صلبی اولاد کے دخول کا مقتضی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹے کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں اگر کسی شخص کی صلبی اولاد موجودنہ ہو اورپوتے پوتیاں ہوں تو وہ اس لفظ کے تحت آجائیں گے۔ اس کی وجہ جواز یہ ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) میں ہر انسان کو خطاب ہے اس لیے ہر شخص اپنے دائرے میں اس حکم مخاطب ہے۔ اب جس شخص کی صلبی اولاد ہوگی تو یہ لفظ انہیں بطورحقیقت شامل ہوگا۔ اور پھر بیٹے کی اولاد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کی حقیقی اولادنہ ہوبل کہ پوتے پوتیاں ہوں وہ اپنے دائرے میں اس حکم کا مخاطب ہوگا۔ اس لیے یہ لفظ اس کے پوتے، پوتیوں کو شامل ہوجائے گا۔ اگریہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔ جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائدشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔ آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم، اور تمھارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔ ایک شخص اگر ایک بیٹی اور ایک پوتی چھوڑجائے توبیٹی کو ذوی الفروض ہونے کی حیثیت سے نصف ترکہ اور پوتی کو چھٹاحصہ اور باقی ماندہ ترکہ عصبات کو مل جائے گا۔ اگر کسی کی دوبیٹیاں چند پوتیاں اور ایک پڑپوتا ہوجوظاہ رہے نسب کی درجہ بندی میں ان پوتیوں سے نچلے درجے پر ہوگا، عورتوں اکہرا اور مردوں کادوہراحصہ، کے اصول پر تقسیم کردیاجائے گا۔ اگر کسی کی دوبیٹیاں ایک پوتا اور ایک پوتی رہ جائے تو دونوں بیٹیوں کو دوتہائی اور باقی ماندہ ترکہ پوتے اور پوتی کے درمیان درج بالااصول کے مطابق تقسیم ہوجائے گا صحابہ اور تابعین کے تمام اہل علم کا یہی قول ہے۔ البتہ عبداللہ بن مسعو ؓ د سے مروی ہے کہ آپ بیٹیوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ پوتے یاپڑپوتے کودے دیتے تھے اور پوتیوں کو محروم رکھتے تھے کیونکہ دو بیٹیوں نے دوتہائی حصے کی تکمیل کرلی اور اب پوتیوں کے لیے کچھ نہیں رہا البتہ اگر دوتہائی میں سے کچھ بچ جاتاتو اس صورت میں آپ پوتیوں کو وہی باقی ماندہ حصے دے دیتے، تاکہ دوتہائی کی تکمیل ہوجائے ۔ مثلاکسی کی ایک بیٹی اور چندپوتیاں ہوں تو اس صورت میں بیٹی کو نصف اور پوتیوں کو چھٹاحصہ مل جائے گا، تاکہ دوتہائی کی حد کی تکمیل ہوجائے۔ اگر ان کے ساتھ پوتابھی ہوتا تو آپ پوتیوں کو چھٹے حصے سے زائد نہ نہ دیتے۔ حقیقی اور علاتی بہنوں کی صورت میں بھی آپ کا یہی مسلک ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر پوتیاں تنہا ہوتیں تو اس صورت میں بیٹیوں کو دوتہائی حصہ دینے کے بعد ان کے لیے کچھ نہ پچتا۔ اسی طرح اگر ان کا بھائی بھی موجودہوتو انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ان میں سے کسی کے ساتھ چچازادبھائی ہوتاتو بھی انہیں کچھ نہ ملتا۔ اسلامی نظام معیشت میں ہر فرد کئی حیثیتوں سے جائیداد کا مالک بنتا ہے تاہم دوسرے تمام اہل علم کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اس لیے کہ پوتیاں بعض دفعہ ذوی الفروض کی حیثیت سے اپناحصہ لیتی ہیں اور بعض دفعہ عصبہ ہونے کی بناپرا نہیں حصہ ملتا ہے۔ ان کا بھائی بلکہان سے نچلے درجے کا مذکرا نہیں عصبہ بنادیتا ہے۔ جس طرح صلبی بیٹیوں کا معاملہ ہے۔ کبھی تو وہ ذوی الفروض کی حیثیت سے اپناحصہ لیتی ہیں اور کبھی عصبہ ہونے کی بنیادپر۔ اب اگر بیٹیاں تنہاہوں تو وہ دوتہائی ترکے سے زائد کی حق دار نہیں ہوتی ہیں خواہ ان کی تعداد کتنی زیادہ کیوں نہ ہواگران کے ساتھ ان کا بھائی بھی موجودہو اورفرض کریں کہ ان کی اپنی تعداددس ہو تو اس صورت میں ترکے کے چھ حصے ہوکرپانچ حصے انہیں مل جائیں گے اور اس طرح انہیں تنہا ہونے کی بہ نسبت بھائی کے ساتھ ہونے کی صورت میں زیادہ حصہ ہاتھ آئے گا۔ اس طرح پوتیوں کا بھی حکم ہے کہ جب صلبی بیٹیاں دوتہائی لے لیں گی تو ان کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں بچے گا لیکن اگر ان کے ساتھ ان کا بھائی ہوگا تو یہ عصبہ بن جائیں گی اور پھر باقی ماندہ تہائی مال ان کے درمیان (للذکرمثل حظ الانثیین) کے اصول کے تحت تقسیم ہوجائے گا۔ ان حضرات کے قول کے مطابق یہی صورت اس وقت اختیار کی جائے گی جب دوبیٹیاں، ایک پوتی اور ایک بہن ہوگی۔ دونوں بیٹیوں کو دوتہائی ترکہ مل جائے گا اور باقی ایک تہائی بہن کے حصے میں آئے گا پوتی محروم رہے گی کیونکہ اس صورت میں اگر پوتے کی عدم موجودگی میں پوتی کوئی حصہ لیتی توا سے حصہ بیٹیوں کے ذوی الفروض ہونے کی بناپرملتا۔ مگر بیٹیوں نے اپنا دوتہائی حصہ مکمل کرلیا ہے۔ اس لیے ان کے حصے میں سے اس کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں بچا۔ اس صورت میں بہن باقی ماندہ ترکے کی زیادہ حق دارہوگی کیونکہ وہ بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ ہوجاتی ہے اور وہ کچھ لیتی ہے عصبہ ہونے کی بناپرلیتی ہے۔ لیکن اگر پوتی کے ساتھ اس کا بھائی بھی ہوگاتو باقی ماندہ ترکہ ان دونوں کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوگا اور بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انہیں ابوداؤدنے، انہیں عبداللہ بن عامربن زرارہ نے، انہیں علی بن مسہرنے اعمش سے، انہوں نے ابوقیس اودی سے، انہوں نے ہزیل بن شرحبیل اودی سے کہ ایک شخص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اور سلمان بن ربیعہ کی خدمت میں آکرسوال کیا کہ مرنے والے کی ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن زندہ ہیں ان کے درمیان ترکے کی تقسیم کس طرح ہوگی ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف مل جائے گا اور پوتی کو کچھ نہیں ملے ۔ ساتھ ہی انہوں نے سائل سے کہا کہ ابن مسعو ؓ د سے بھی جاکرپوچھ لووہ بھی اس مسئلے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ جب سائل حضرت ابن مسعو ؓ د کی خدمت میں گیا تو آپ نے فرمایا : اگر میں بھی یہی کہوں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں کی صف سے نکل جاؤں گا، البتہ میں اس کا وہی فیصلہ کروں گا جو حضور ﷺ نے کیا تھا، بیٹی کو نصف ترکہ اور پوتی کو چھٹاحصہ ملے گا اور اس طرح دوتہائی حصوں کی تکمیل ہوجائے گی۔ باقی ماندہ ترکہ بہن کو مل جائے گا۔ پوتی یہ چھٹاحصہ ذوالفروض کی حیثیت سے حاصل کرے گی عصبہ ہونے کی بناپر نہیں ۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صرف ایک قول ہے جس کا ہم اوپر ذکرکرآئے ہیں اور جو حضرت ابوموسیٰ اشعر ؓ ی اور سلمان بن ربیعہ کی طرف منسوب ہے۔ اس طرح یہ ایک اتفاق مسئلہ بن گیا۔ اگر پوتی کے ساتھ اس کا بھائی بھی ہوتاتو اس صورت میں دوسرے اہل علم کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ دکا کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ اس صورت میں بیٹی کو نصف ترکہ مل جاتا اور باقی ماندہ ترکہ پوتے اور پوتی کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجاتا۔ اس صورت میں پوتی کو چھٹاحصہ نہیں ملتا۔ جس طرح کہ پوتے کی عدم موجودگی میں اسے مل جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوتی کبھی توذوی الفروض کی حیثیت سے حق دارہوتی ہے۔ اور کبھی اپنے بھائیوں کی موجودگی میں عصبہ ہونے کی بناپر حصہ لیتی ہے جیسا کہ صلبی بیٹیوں کے حصوں کی کیفیت ہے۔ ایک بیٹی چندپوتیوں اور ایک پوتے کی صورت میں حضرت ابن مسعو ؓ دکاقول ہے کہ بیٹی کو نصف ترکہ ملے گا اور باقی نصف ترکہ پوتے اور پوتیوں میں دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجائے۔ کیونکہ حضرت ابن مسعو ؓ دا نہیں چھٹے حصے سے زائددینے کے قائل نہیں ہیں۔ اس صورت میں آپ نے ذوی الفروض اور عصبہ کو الگ الگ اعتبار نہیں کیا بل کہ چھٹے سے زائدنہ دینے میں مقررہ دوتہائی حصے کا اعتبار کیا۔ اور حصہ کم ہوجانے کی صورت میں مقاسمہ، کا اعتبار کیا۔ یہ بات خلاف قیاس ہے۔ واللہ اعلم۔ کلالہ کا بیان دین اسلام ذہنی جمودکاقائل نہیں بلکہ تحقیق وجستجوپرزوردیتا ہے قول باری ہے (فان کان رجل یورث کلالۃ اؤامرء ۃولہ اخ او اخت فلکل واحد منھمااسدس، اور اگر وہ مردیا عورت بےاولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ زندہ نہ ہوں مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجودہوتوبھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹاحصہ ملے گا) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ نفس میت کو بھی کلالہ کہتے ہیں اور اس کے بعض ورثاء کو بھی کلالہ کانامدیتے ہیں قول باری (وان کان رجل یورث کلالۃ) اس پر دلالت کررہا ہے کہ یہاں کلالہ میت کا نام ہے۔ اور یہ اس کی حالت اور صفت ہے۔ اسی بناپریہ منصوب ہے۔ سحیط بن عمیرنے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ فرمایا : ایک زمانہ گذر گیا اور میں کلالہ کے معنی سے بیخبر رہا۔ دراصل کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ عاصم احول نے شعبی سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ن فرمایا : کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ حضرت عمر ؓ جب ابوئوئو مجوسی کے ہاتھوں نیزے سے زخمی ہوگئے تو اس دوران یعنی موت کے قریب فرمایا کہ میرے خیال میں کلالہ وہ شخص ہے جس کی نہ اولاد ہو اورنہ ہی والدین ہوں لیکن مجھے اللہ سے اس بات پر شرم آتی ہے کہ میں اس بارے میں ابوبکر سے اختلاف کروں۔ اس لیے کہتا ہوں کہ کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ طاؤس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے آپ نے کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ، صحیح بات وہی ہے جو میں نے کہی ہے۔ میں نے عرض کیا، آپ نے کیا کہا ہے۔ فرمانے لگے۔ میں نے یہ کہا ہے کہ کلالہ وہ شخص ہے جو بے اولاد ہو اور اس کے والدین بھی نہ ہوں، سفیان بن عیینہ نے عمروبن دینار سے، انہوں نے حسن بن محمد سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عباس سے کلالہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایاــــــ: وہ شخص جس کی نہ اولاد اور نہ ہی والدین ہوں ۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (ان امرؤھلک لیس لہ ولد ولہ اخت، اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور اس کی کوئی اولادنہ ہو اور ایک بہن ہو) یہ سن کر آپ ناراض ہوگئے اور مجھے ڈانٹ دیا۔ ظاہر آیت اور صحابہ کے اقوال جو ہم نے اوپر نقل کیے ہیں اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خودمیت کو کلالہ کہاجاتا ہے، اس لیے کہ ان حضرات کا قول ہے کہ کلالہ وہ شخص ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یہ اس میت کی صفت ہوسکتی ہے جس کے ترکے کی وارثت کا معاملہ ہو۔ اس لیے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ ان حضرات نے کلالہ سے وہ وارث مراد نہیں لیئے جن کو اولاد نہ ہو اور نہ ہی اس کے والدین ہوں ۔ کیونکہ وارث کی اولاد اور والدین کی موجودگی مرنے والے کے ترکے میں اس کی میراث کے حکم میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتی، بلکہ میت کے اندراس صفت کی موجودگی کی بناپر اس کی میراث کے حکم میں تغیر وتبدل پیدا ہوتا ہے۔ ایسی روایتیں موجود ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کلالہ کا اسم بعض ورثاء پر بھی محمول ہوتا ہے شعبہ نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابربن عبد ؓ اللہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ، میری میراث کا کیا بنے گا۔ ؟ میراوارث کلالہ ہے۔ اس پر فرائض یعنی میراث کی آیت نازل ہوئی۔ محمد بن المنکدر سے ان الفاظ کی روایت میں شعبہ تنہاء ہیں یعنی کسی اور راوی نے ان سے یہ الفاظ روایت نہیں کیئے۔ اس روایت میں حضرت جابر ؓ نے یہ بتایا کہ ان کے ورثاء کلالہ ہیں اور حضور ﷺ نے حضرت جابر ؓ کی اس بات کی تردید نہیں فرمائی۔ ابن عون نے عمروبن سعید روایت کی، انہوں نے حمیدبن عبدالرحمن سے، انہوں نے فرمایا کہ ہمیں بنی سعد کے ایک شخص نے بتایا کہ حضرت سعد ؓ مکہ میں بیمارپڑگئے، انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ کلالہ کے سوامیرا کوئی وارث نہیں ہے۔ اس روایت میں بھی یہ بات بتائی گئی ہے کہ ورثاء کلالہ ہوتے ہیں۔ حضرت سعد ؓ کی حدیث حضرت جابر ؓ کی حدیث سے پہلے کی ہے۔ اس لیے کہ حضرت سعد ؓ کی بیماری کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا۔ اس میں آیت کا ذکر نہیں ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ الوداع پیش آیا تھا تھا جبکہ کچھ دوسروں کے خیال میں یہ فتح مکہ کے سال کی بات ہے۔ ایک قول ہے کہ درست بات فتح مکہ کے سال کی ہے۔ حضرت جابر ؓ کی حدیث کا تعلق حضور ﷺ کی زندگی کے آخری ایام سے ہے۔ اس لیئے یہ بات مدینہ منورہ میں پیش آئی۔ شعبہ نے ابواسحق سے روایت کی ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی وہ (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ، آپ سے لوگ کلالہ کے معاملہ میں فتوی پوچھتے ہیں کہہ دیجیئے اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے) اور آخری نازل ہونے والی سورت سورة براء ۃ ہے۔ یحییٰ بن آدم نے کہا کہ، ہمیں حضور ﷺ سے روایت پہنچی ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کلالہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اس سے فرمایا (یکفیک آیۃ الصیف اس کے جواب کے لیے گرمیوں میں نازل ہونے والی آیت کو کافی سمجھو) آپ کا اشارہ قول باری (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) کی طرف تھا۔ اس لیے کہ یہ آیت گرمیوں میں نازل ہوئی تھی جبکہ حضور ﷺ مکہ تشریف لے جانے کی تیاریوں میں تھے اس دوران آپ پر آیت حج (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا، لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھرتک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو وہ اس کا حج کرے) نازل ہوئی۔ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی یہ آخری آیت تھی پھر آپ مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے اور عرفات کے مقام پر عرفہ کے دن آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی، میں نے آج تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل کردی اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی) تاآخر آیت۔ پھر اگلے دن یعنی یوم النحرکو (واتقوایوما ترجعون فیہ الی اللہ، اس دن سے ڈروجب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤگے) تاآخریہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد حضور ﷺ کی وفات تک کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ ہم نے اسی طرح سنا ہے۔ یحییٰ نے مزید فرمایا : ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے کلالہ کا مفہوم دریافت کیا آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔ جو شخص وفات پاجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والد ہو۔ ایسے شخص کے ورثاء کلالہ ہیں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان روایات اور آیات کی تاریخ کا کہیں ذکر نہیں ہے اس لیے کہ تاریخ کے علم کی بناپرکلالہ کا حکم بدل سکتا ہے۔ لیکن جب آیات اور روایات کا ذکر شروع ہوگیا تو اس کے ضمن میں اس کا بھی ذکرآ گیا اس سے ہمارا مقصدصرف یہ ہے کہ ان آیات وردایات سے یہ بھی واضح ہوجائے کہ کلالہ کے اسم کا مصداق کبھی تومرنے والاہوتا ہے اور کبھی اس کے ورثاء ہوتے ہیں۔ کلالہ کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ جریر نے ابواسحق الشیبانی سے انہوں نے عمروبن مرثد، انہوں نے سعیدبن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے کلالہ کی وراثت کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ، کیا اللہ تعالیٰ نے اسے بیان نہیں فرمادیا ہے ؟ پھر آپ نے آت (وان کان رجل یورث کلالۃ) کی تلاوت فرمائی تھی اللہ تعالیٰ نے پھر یہ آیت نازل فرمائی (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) تاآخر آیت۔ حضرت عمر ؓ پوری طرح مفہوم سمجھ نہ سکے، آپ نے اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ سے اس لفظ کا مفہوم دریافت کرنا، چناچہ ایک دن حضرت حفصہ ؓ نے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر اس لفظ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے سن کرفرمایاتمھارے والدنے تمہارے ذمے یہ کام لگایا ہے۔ سیراخیال ہے کہ وہ اس لفظ کے معنی کبھی بھی نہیں جان سکیں گے۔ چناچہ حضرت عمر ؓ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ میں شاید اس کے مفہوم سے کبھی بھی آگاہ نہ ہوسکوں، جبکہ اس کے بارے میں میرے متعلق حضور ﷺ اپنی یہ رائے دے چکے ہیں۔ سفیان نے عمروبن مرہ سے، انہوں نے اپنے والدمرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا۔ تین باتیں ایسی ہیں کہ حضور ﷺ ہم سے ان کی وضاحت فرماجاتے تو یہ بات مجھے دنیا ومافیھا سے زیادہ پسندیدہ ہوتی، اول کلالہ ، دوم خلافت اور سوم ربوا، قتادہ نے سالم بن ابی الجعد سے انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں حضور ﷺ سے کسی چیز کے متعلق اس قدر سوالات نہیں کیئے جس قدرکلالہ کے متعلق کیئے۔ حتی کہ ایک دفعہ آپ نے میرے سینے میں انہی انگشت مبارک چھبوتے ہوئے فرمایا : اس بارے میں گرمیوں میں نازل ہونے والی آیت تمہارے لیے کافی ہوگی۔ حضرت عمر ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا : لوگو ! آگاہ رہو، میں لے کلالہ کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا ہے۔ کلالہ کی مزید تشریح ہماری نقل کردہ مذکورہ روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت عمر ؓ کلالہ کے متعلق قطعیت کے ساتھ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے اور اس لفظ کے معنی اور مراد کے متعلق آپ کو ہمیشہ التباس ہی رہا۔ سعیدبن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے کلالہ کے مفہوم پر ایک تحریر لکھی تھی جب آپ کی وفات قریب ہوئی تو آپ نے اسے ضائع کردیا اور فرمایا کہ اس بارے میں تم لوگ اپنی اپنی رائے پر عمل کرنا یہ توکلالہ کے متعلق آپ سے ایک روایت ہوئی۔ تاہم اس کے متعلق آپ سے مروی یہ ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو اور نہ ہی والدین ہوں یہ بھی مروی ہے کہ کلالہ وہ فرد ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ حضرت ابوبکر ؓ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت کے مطابق کلالہ وہ وارث ہے جو ولد اوروالد کے علاوہ ہو۔ محمد بن سالم نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعو ؓ د سے یہ روایت کی ہے کہ کلالہ وہ ہے جو والد اور ولد کے ماسواہو۔ حضرت زیدبن ثابت ؓ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ کلالہ وہ ہے جو ولد کے علاوہ ہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ صحابہ کرام اس پر متفق ہیں کہ ولد کلالہ نہیں ہے۔ اختلاف صرف والد کے متعلق ہے۔ جمہورکاقول یہ ہے والدکلالہ سے خارج ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت یہی ہے۔ دوسری روایت میں ان کے نزدیک کلالہ وہ ہے جو ولد کے ماسواہو۔ اس لفظ کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے کی درج بالا صورتیں رہیں، ادھرحضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق جب دریافت کیا تو آپ نے انہیں آیت کے مضمون ومفہوم کی طرف رجوع کرنے کے لیئے فرمایا۔ وہ آیت یہ تھی (یستفتونک ، قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) حضرت عمر ؓ اہل زبان تھے اور آپ سے لغت کی معرفت کا طریقہ پوشیدہ نہیں تھا۔ ان سب باتوں کی روشنی میں یہ چیزثابت ہوگئی کہ کلالہ کے اسم کی معرفت دراصل لغت کے ذریعے حاصل ہونے والی نہیں تھی بلکہ یہ ان متشابہ آیات میں سے ہے جن کے معانی پر اللہ نے ہمیں محکم آیات سے استدلال کرنے اور انہیں ان کی طرف لوٹا نے کا حکم دیا ہے۔ اسی بناپرحضور ﷺ نے کلالہ کے متعلق حضرت عمر ؓ کے سوال کا جواب نہیں دیابل کہ اس کے معنی کے امتنباط اور اس پر استدلال کا مشورہ دیا۔ حضور ﷺ کے اس ارشاد میں کئی معانی پر دلالت موجود ہے۔ ایک تو یہ کہ جب آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ پر بطورنص اس کے معنی سے مطلع کرنا لازم نہیں آیا۔ اس لیے کہ اگر یہ بات آپ پر لازم ہوتی تو آپ اسے بیان کیئے بغیرنہ رہتے۔ وہ اس طرح کہ جس صورت حال کے تحت آپ سے کلالہ کے متعلق پوچھا گیا تھا وہ ایسی نہیں تھی کہ کلالہ کے حکم کانفاذفوری طورپرعمل میں آنالازم ہوجاتا۔ اگر صورت حال ایسی ہوتی تو آپ اس کا مفہوم بیان کیئے بغیر نہ رہتے۔ آپ سے حضرت عمر ؓ کا سوال نص کے واسطے سے اس لفظ کے معنی کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے والے مستفسرکاسوال تھا۔ اورحضور ﷺ کے ذمے یہ بات لازم نہیں تھی کہ آپ لوگوں کو جلی وخفی نیزدقیق احکام کی اطلاع دیتے رہیں۔ اس لیے کہ بعض احکام تو اپنے اسم اور صفت کے ساتھ مذکورہوتے ہیں اور بعض پر دلالت موجودہوتی ہے جوان کے متعلق ایسے قطعی علم تک پہنچانے والی ہوتی ہے۔ جس کے بعد کوئی احتمال باقی نہیں رہتا اور بعض کو اجتہادرائے کے حوالے کردیاجاتا ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو اس سلسلے میں اجتہادرائے کی طرف راجع کردیا تھا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ ﷺ حضرت عمر ؓ کو اجتہاد کا اہل سمجھتے تھے اور انہیں ان لوگوں میں شمار کرتے تھے جن کے متعلق ارشادباری ہے (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، تو یہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جوان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ اس میں احکام کے متعلق اجتہادرائے کی گنجائش پر دلالت بھی موجود ہے نیز یہ کہ اجتہادرائے ایک ایسی اصل اور بنیاد ہے جس کی طرف نئے پیداشدہ مسائل کے احکام معلوم کرنے اور متشابہ آیات کے معانی پر استدلال کرنے اور محکم آیات پر ان معانی کی بنیادرکھنے کے سلسلے میں رجوع کیا جاسکتا ہے۔ کلالہ کے معنی کے استخراج کے سلسلے میں اجتہاد کی گنجائش پر صحابہ کرام کا اتفاق کرلینا بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ صحابہ کرام میں سے بعض کا قول ہے کہ کلالہ وہ شخص ہے جس کی اولاد نہ ہو اورنہ ہی والدین ہوں جبکہ بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ جس کی اولادنہ ہو وہ کلالہ ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اس کے متعلق مختلف جوابات دیئے اور بعض مواقع پرسکوت اختیار فرمایا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن حضرات نے اپنے اپنے اجتہادرائے سے کام لے کر اس لفظ کے متعلق جو کچھ فرمایا دوسرے حضرات کی طرف سے ان کی تردید نہیں ہوئی جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ احکام کے متعلق اجتہاد رائے سے کام لینے کی گنجائش پر سب کا اتفاق تھا۔ اس سے ایک اور بات پر دلالت ہوتی ہے وہ یہ کہ ابوعمران الجونی نے حضرت جندب ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من قال فی القرآن برایہ فاصاب فقداخطا، جو شخص قرآن کی تاویل وتفسیر میں اپنی رائے سے کوئی بات کہے گا تو بات درست ہونے کے باوجود وہ خطاکار ہوگا۔ ) اس سے مرادوہ شخص ہے جو علم تفسیر و تاویل کے مسلمہ اصول وقواعد کو نظر انداز کرکے اور ان کے ذریعے استدلال کیئے بغیر اپنے خیال ودہم میں پیدا ہونے والی بات کو تفسیر و تاویل کا درجہ دید سے۔ اس کے برعکس جو شخص قرآن سے استنباط واستدلال کرے گا اور اپنے استدلال واستنباط کی بنیادآیات محکمات پر رکھے گا جن پر سب کا اتفاق ہے۔ ایسا شخص قابل ستائش ہے اور ارشاد باری (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) کی روشنی میں وہ عنداللہ ماجور بھی ہوگا۔ اہل لغت نے بھی لفظ کلالہ کے مفہوم کے متعلق لب کشائی کی ہے۔ ابوعبیدہ معمربن المثنی کا قول ہے کہ کلالہ ہراس شخص کو کہتے ہیں جس کانہ باپ وارث ہورہاہو اورنہ بیٹا۔ ایسے شخص کو عرب کلالہ کہتے ہیں یہ لفظ فعل تکلل بمعنی تعطف، کا مصد رہے چناچہ محاورہ ہے، تکللہ النسب، یعنی نسب نے اسے گھیرلیا۔ ابوعبیدہ نے مزید کہا ہے کہ جن حضرات نے آیت میں لفظ (یورث) کی حرف راء کی کسرہ کے ساتھ قرأت کی ہے انہوں نے اس سے وہ شخص مراد لیا ہے جو میت کانہ ولدہو اور نہ والد ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حسن اور ابورجاء العطاردی نے بھی کسرہ یعنی زیر کے ساتھ اس لفظ کی قرأت کی ہے۔ ایک قول ہے کہ لغت میں کلالہ کے اصل معنی احاطہ یعنی گھیرلینے کے ہیں۔ اس سے لفظ اکلیل (تاج) بنا ہے اس لیئے کہ یہ پورے سرکوگھیرلیتا ہے۔ اسی سے ایک اور لفظ کل (سارا) بنا ہے۔ اس لیے کہ یہ لفظ ان تمام افراد کا احاطہ کرلیتا ہے جو اس کے تحت آتے ہیں نسب کے لحاظ سے کلالہ وہ بھائی بہن ہیں جو ولد اوروالدکوگھیرلیتے ہیں اور ان کی طرف پلٹتے ہیں۔ ولد اوروالدکلالہ نہیں ہوسکتے اس لیے کہ نسب کی بنیاد اورستون جس پر نسب کی انتہاء ہوتی ہے۔ وہ ولد اوروالد ہیں۔ ان کے ماسوابقیہ تمام رشتہ دار اس سے خارج ہیں۔ ان دونوں کو یہ صرف اس لیے احاطہ کیئے ہوتے ہیں کہ جس شخص کی طرف یہ منسوب ہوتے ہیں اس کی طرف ان کا انتساب ولادت کے علاوہ کسی اور جہت سے ہوتا ہے اور ان کی حیثیت اس تاج کی سی ہوتی ہے جو سرکوگھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ تشریح ان حضرات کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے جنہوں نے کلالہ سے ولد اوروالد کے علاوہ دوسرے ورثاء مراد لیے ہیں۔ جب ولدکلالہ نہیں ہوسکتا تو والد بھی کلالہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی میت کی طرف نسبت ولادت کی بنیادپرہوتی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں کی نسبت یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ان میں کسی کی بھی میت کی طرف نسبت ولادت کی جہت سے نہیں ہوتی جن حضرات نے کلالہ کی تاویل میں یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ولد کے ماسو اورثاء ہیں اور صرف ولد کو اس سے باہررکھا ہے تاشاید ان کے نزدیک اس کا سبب یہ ہو کہ ولد کا جودوالد سے ہوتا ہے گویا ولدوالد کے وجود کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ جبکہ والدولد کے وجود کا حصہ نہیں ہوتا۔ جس طرح بھائی بہن اس شخص کے وجود کا حصہ نہیں ہوتے جس کی طرف یہ اخوت یعنی بھائی بہن کے رشتے سے منسوب ہوتے ہیں۔ اس طرح ان حضرات نے ایسے ورثاء کو کلالہ قراردیاجومیت کی طرف اس حیثیت سے منسوب نہیں ہوتے کہ یہ اس کے وجود کا حصہ ہوں۔ اس کے برعکس میت کی طرف جس وارث کی اس حیثیت سے نسبت ہورہی ہے کہ وہ اس کے وجود کا حصہ ہے وہ ان کے نزدیک کلالہ نہیں ہوتا۔ کلالہ کا لفظ زمانہ جاہلیت میں معروف تھا۔ عامربن الطفیل کا شع رہے۔ ؎ فانی وان کنت ابن فارس عامر وفی السرمنھاوالصریح المھذب فماسودتنی عامرعن کلالۃ ابی اللہ ان اسموابامرولااب میں اگرچہ قبیلہ عامر کے شہسوارکابیٹا، اس قبیلے کا ایک خالص فرد، صحیح النسب اور مہذب ہوں۔ تاہم اتنی بات ضرورکہوں گا کہ مجھے قبیلہ عامرنے دادا کی نسبت سے اپنا سردار نہیں بنایا۔ اللہ کو ہرگز یہ بات پسند نہیں کہ میں ماں کے ذریعے بلندی کے زینے طے کروں یا باپ کے ذریعے۔ شاعرکایہ قول اس پر دلالت کررہا ہے کہ اس نے اپنے جداعلی کو جس کی طرف اس کے قبیلے کا انتساب ہوتا ہے۔ کلالہ قراردیا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی بتادیا کہ اسے سیادت کا یہ مرتبہ نسب اور کلالہ یعنی جداعلی کی بناپر نہیں ملابل کہ اس نے یہ سیادت وقیادت اپنی ذاتی خوبیوں کی بناپرحاصل کی ہے۔ بعض کا قول ہے کہ جب دورشتہ داروں میں دوری پیدا ہوجائے تو اس وقت یہ فقرہ کہاجاتا ہے۔ کلت الرحم بین فلان وفلان، یعنی دونوں کی رشتہ داری میں دوری ہوگئی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی شخص کا بوجھ برداشت کرتا رہے اور پھر اس سے دورہوجائے توکہاجاتا ہے۔ حمل فلان علی فلان ثم کل عنہ، یعنی بوجھ برداشت کرتارہا پھر اس سے دورہوگیا۔ عاجزہوکربیٹھ رہنے کو کلال کہتے ہیں کیونکہ اس کیفیت کی بناپر اسے اپنے مقصد اورمنزل کا حصول اور زیادہ بعید نظرآتا ہے۔ فرزوق کا شع رہے۔ ؎ ورثتم قناۃ الملک غیرکلالۃ عن ابنی مناف عبدشمس وھاشم اے میرے محمد وحین ! تم مناف کے دو بیٹوں عبدشمس اور ہاشم سے سلطنت کے نیز سے یعنی عصائے شاہی کے وارث ہوئے، کلالہ سے نہیں۔ یعنی تم اپنے آباؤ اجداد کی بناپر اس سلطنت کے وارث ہوئے، بھائیوں اور چچاؤں کی وجہ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوجگہ اپنی کتاب میں کلالہ کا ذکرکیا ہے۔ ایک تو یہ ہے (قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ ان امرء ھلک لیس لہ ولدولہ امحت فلھا نصف ماترک) تاآخر آیت۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی عدم موجودگی میں بھائیوں اور بہنوں کی میراث کا ذکرفرماتے ہوئے انہیں کلالہ کا نام دیا ہے۔ تاہم اس میں والد کی غیر موجودگی شرط ہے۔ اگر اس کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ اس لیے کہ سورت کی ابتداء میں ارشادالٰہی ہے (وورثہ ابواہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس۔ یعنی باپ کی موجودگی میں بھائی بہنوں کے لیے کوئی میراث نہیں۔ اس طرح والد بھی ولد کی طرح کلالہ سے خارج ہوگیا۔ اس لیے کہ الہ تعالیٰ نے بھائی بہنوں کو جس طرح باپ کی موجود گی میں وارث قرار نہیں دیا اسی طرح بیٹے کی موجودگی میں بھی انہیں وارث نہیں بنایا۔ بیٹی بھی کلالہ نہیں ہوتی۔ اگر کسی کی ایک یادوبٹیاں اور حقیقی یاعلاقی بھائی بہنیں ہوں تو بیٹیاں کلالہ نہیں ہوں گی۔ بلکہ ان کے ساتھ وارث ہونے والے بھائی بہن کلالہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت کی ابتداء میں بھی کلالہ کا ذکرکیا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے (وان کان رجل یورث کلالۃ اوامراۃ ولہ اخ اؤاخت فلکل واحد منھماالسدس فان کانوا اکثرمن ذلک فھم شرکاء فی الثلث) یہاں آیت میں مذکورکلالہ سے مراد اخیافی بھائی بہن ہیں یہ والد اور اولاد یعنی بیٹے بیٹی کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ نے اس آیت کی قرأت اس طرح کی ہے۔ (وان کان رجل یورث کلالۃ اوامرا ہولہ اخ اواخت لام) تاہم اس کے باوجود اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہاں اخیانی بھائی بہن مراد ہیں، حقیقی یاعلاقی مراد نہیں ہیں۔ طاؤس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ کلالہ وہ وارث ہے جو ولد کے ماسواہو۔ آپ نے والدین کی موجودگی میں اخیافی بھائی بہنوں کو چھٹے حصے کا وارث قراردیا۔ یہ وہ چھٹاحصہ ہے جس سے ماں کو محجوب کردیا گیا تھا۔ تاہم حضرت ابن عباس کا یہ قول شاذ ہے۔ ہم نے حضرت ابن عباس ؓ سے منقول وہ روایت بیان کردی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ کلالہ ولد اور والد کے ماسو اورثاء کو کہاجاتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اخیافی بہن بھائی تہائی حصے میں مساوی طورپرشریک ہوں گے بھائی کو بہن پر کوئی فضیلت نہیں ہوگی۔ دادا کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔ کہ آیاوہ بطورکلالہ دارث ہوتا ہے یا نہیں کچھ لوگوں کا قول ہے کہ اس کی میراث کلالہ کے طورپر نہیں ہوتی۔ جبکہ کچھ دوسرے حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ وہ کلالہ ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو دادا کی موجودگی میں بھائیوں اور بہنوں کو وارث قراردیتے ہیں لیکن بہترقول یہ ہے کہ داداکلالہ سے خارج ہے۔ اس کے تین وجود بیان کیئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ اہل علم کا اس میں اختلاف نہیں کہ پوتاکلالہ نہیں ہوتا اس لیے کہ میت کی طرف اس کی نسبت ولادت کی بنیادپرہوتی ہے۔ اس بناپردادا کا کلالہ سے نکل جانا واجب ہوگیا۔ اس لیے کہ میت اور دادا کے درمیان نسبت بھی ولادت کی بنیادپرہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ باپ کی طرح دادا بھی سلسلہ نسب میں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے خارج نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ کلالہ سے باہر رہے اس لیئے کہ کلالہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہ رشتہ داری ہے جو نسب کو گھیرے ہوئے ہو اور اس کی طرف پلٹ رہی ہو یعنی ایسے رشتہ دارجونسب میں اصل کی حیثیت نہ کر رکھتے ہوں لیکن سلسلہ نسب کے ساتھ ان کا تعلق ضرورہو۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ اہل علم کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (وان کان رجل یورث کلالۃ) تاآخر آیت میں داداداخل نہیں ہے بلکہ اس سے خارج ہے۔ اس کی موجودگی میں اخیافی بہن بھائی وارث نہیں ہوں گے جس طرح کہ بیٹے اور بیٹی کی موجود گی میں یہ وارث نہیں ہوتے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کلالہ سے باہر ہونے میں دادا کی حیثیت باپ کی طرح ہے۔ یہ چیز اس دلالت کررہی ہے کہ میراث میں دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کی مشارکت کی کی نفی میں بھی اس کی حیثیت باپ کی طرح ہے۔ اگریہ سوال اٹھایاجائے کہ آپ نے اس سے پہلے جو یہ بیان کیا تھا کہ بیٹی کلالہ سے خارج ہے اور اس کی موجود گی میں اخیافی بھائی بہنیں وارث نہیں ہوں گی، البتہ حقیقی بھائی بہنیں وارث ہوں گی، اس پر آپ کی درج بالا وضاحت کی دلالت نہیں ہورہی ہے۔ اس لیے داداکامعاملہ بھی یہی ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے اپنی درج بالا وضاحت کو مسئلے کی علت قرار نہیں دیا تھا کہ معترض کا اعتراض ہم پر لازم آجائے۔ ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ بیٹے اور باپ کی طرح داداکو بھی لفظ کلالہ شامل نہیں ہے۔ اس لیے ظاہر آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ دادا کی غیرموجود گی میں بھائی بہن حق دارہوں۔ الایہ کہ دادا کے ساتھ انہیں وارث قراردینے کے لیے کوئی اور دلالت قائم ہوجائے۔ رہ گیا بیٹی کا معاملہ تو وہ اگرچہ کلالہ سے خارج ہے لیکن اس کی موجود گی میں حقیقی اور علاتی بھائی بہنوں کو وارث قراردینے کے لیے دلالت قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے ہم نے ظاہر آیت کے حکم سے اس صورت کی تخصیص کردی۔ اب بیٹی کے ماسوا ان تمام وارثوں کے لیے لفظ کا حکم باقی رہ گیا جنہیں کلالہ کا لفظ احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ عول کا بیان زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے فرائض میں عول کا عمل جاری کیا تھا۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی خاص صورت میں ورثاء کے متعین حصے ترکے کے حصوں سے بڑھ جائیں تو اس وقت تمام حصہ واروں کے حصوں میں اسی نسبت سے کمی کرکے سب کے حصے پورے کردیئے جاتے ہیں۔ اس عمل کو علم الفرائض میں عول کہتے ہیں۔ جب وراثت کے مسئلوں میں ورثاء کے حصص کی تقسیم دشوارہوگئی اور ان میں الجھاؤپیدا ہوگیا تو حضرت عمرنے زچ ہوکرورثاء سے فرمایا : بخدا مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کن لوگوں کو اللہ نے مقدم کیا ہے۔ اور کن لوگوں کو مؤخرکیا ہے۔ حضرت عمر ؓ بڑے پرہیزگار اور خدا ترس انسان تھے۔ فرمایا : میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی گنجائش والی بات نہیں ہے کہ میں تمہارے درمیاحصوں کی نسبت سے ترکہ تقسیم کردوں اور ترکے کے حصوں میں کمی وجہ سے تمہارے حصص میں جو کمی آئے گی وہ تم تمام کے حصوں میں اسی نسبت سے داخل کردوں ۔ ابواسحق نے حارث سے، انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ دو بیٹیوں، والدین اور بیوی کی وراثت کے مسئلے میں آپ نے فرمایا کہ بیوی کا آٹھواں حصہ نواں حصہ بن جائے گا یعنی تقسیم ترکہ میں عول کا عمل جاری کیا جائے گا۔ حکم بن عتیبہ نے حضرت علی ؓ سے یہی روایت کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د اور حضرت زیدبن ثابت ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس بن المطلب پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت عمر ؓ کو فرائض میں عول کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : سب سے پہلے حضرت عمر ؓ نے فرائض میں عول کیا، بخدا، اگر حضرت عمر ؓ ان ورثاء کو مقدم کردیتے جنہیں اللہ نے مقدم رکھا ہے۔ تو کسی مسئلے میں عول کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کن ورثاء کو مقدم رکھا ہے اور کن ورثاء کو مؤخرکیا ہے۔ ؟ اپ نے جواب میں فرمایا، ہرایساوارث جسے اگر اپنے مقررہ حصے سے ہٹناپڑے توہٹ کر کسی اور حصے کی طرف ہی منتقل ہوجائے۔ ایسے وارث کو اللہ نے مقدم کیا ہے اور جو وارث اپنے حصے سے منتقل ہوجانے کے بعد باقی ماندہ ترکہ میں ہی کچھ حاصل کرسکے ایسے وارث کو اللہ نے مؤخرکردیا ہے۔ اس اصول کے تحت شوہر، بیوی اور ماں ایسے وارث ہیں جنہیں اللہ نے مقدم رکھا ہے۔ اس لیے کہ ان بینوں میں سے ہر ایک اپنے حصے سے ہٹ کر کسی اور حصے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس بیٹیاں اور بہنیں ذوی الفروض کے درجے سے گرکردوبیٹیوں اور بہنوں کی موجود گی میں عصبات کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔ انہیں مردوں کی موجود گی میں باقی ماندہ ترکہ ملتا ہے۔ اس لیے ترکہ کے حصے کم ہوجانے کی صورت میں ہمیں ذوی الفروض کو ان کے حصے دے دینے چاہئیں اور ترکوں کے حصوں کی کمی کے نقصان کو ان کے علاوہ دوسرے وارثوں پر ڈالنا چاہیئے یہ وہ ورثاء ہیں جو عصبات ہونے کی بناپرباقی ماندہ ترکے کے حق دارہوتے ہیں۔ عبداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس ؓ سے مزید پوچھا کہ آپ نے اس معاملے میں حضرت عمر ؓ سے گفتگو کی تھی تو جواب دیا : حضرت عمر ؓ کی شخصیت بڑی بارعب تھی اور آپ متقی وپرہیزگار تھے۔ پھر آپ نے فرمایا : اگر مجھے اس معاملے میں حضرت عمر ؓ سے تبادلہ خیال کا موقع مل جاتاتو آپ ضرور اپنے قول سے رجوع کرلیتے، زہری کا قول ہے کہ اگر حضرت ابن عباس ؓ کے قول سے پہلے ایک عادل امام یعنی حضرت عمر ؓ اس مسئلے میں اپنے بات نہ کرچکے ہوتے اور اس کے متعلق آپ کا طریق کار یعنی عول جاری نہ ہوچکا ہوتاتو ابن عباس ؓ ہی کا قول قابل قبول ہوتا۔ حضرت عمر ؓ واقعی بڑے متقی اور پرہیزگار تھے۔ اس رائے میں کسی بھی اہل علم کو حضرت ابن عباس ؓ سے اختلاف نہیں ہے۔ محمد بن اسحاق نے ابن ابی نجیع سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرائض کا ذکر کیا اور اس میں عول کے طریق کارکا بھی تذکرہ کیا۔ پھر فرمایا : تمھاراکیاخیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جس کا علم ریگستان عالج کی ریت کے تمام ذرات کی تعدادکا احاطہ کیے ہوئے ہے اس نے ایک ترکے میں نصف، نصف اور تہائی کے حصے مقرر کردیئے نصف اور نصف توٹھیک ہیں ان کے بعداب تہائی کے لیے گنجائش باقی رہ گئی۔ عطاء کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : حضرت آپ اس بات کانہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ مجھے۔ جب آپ کی یا میری موت واقع ہوجائے گی توہماراتر کہ میری اور آپ کی رائے کے خلاف لوگوں کے معمول بہ طریقے کے مطابق تقسیم ہوجائے گا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : اگر لوگ چاہیں تو اس مسئلے پر میں ان سے مبابلہ کرنے کے لیے تیارہوں۔ ہم اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو بلالیں اور پھر مبابلہ کرکے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کا بار ڈالیں یادرکھواللہ تعالیٰ نے کسی مال یعنی ترکہ میں نصف نصف اور تہائی کے حصے مقرر نہیں کیے۔ قول اول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لیے نصف حقیقی بہن کے لیے نصف اور اخیافی بھائی بہنوں نے کے لیے تہائی ترکہ مقرر کردیا۔ اور اس تعین میں اس نے ان تینوں ورثاء کی اکھٹے موجودگی اور الگ الگ موجودگی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، اس لیے امکان کی حدتک ہرمسئلے میں نص قرآنی پر عمل کرنا واجب ہوگیا۔ جب یہ ورثاء الگ الگ آئیں اور ترکے میں ان کے حصوں کی گنجائش ہوتوتر کہ ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کردیاجائے گا لیکن جب یہ سب موجودہوں جس کی وجہ سے ترکے کے حصے یعنی مخرج ان کے مقررہ حصوں سے کم پر جائیں تو اس صورت میں ان کے حصوں میں ایک خاص نسبت سے ضرب کرکے آیت کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ اب جو کوئی یہ طریقہ اختیارکرے گا کہ ترکے کی تقسیم کے سلسلے میں بعض ورثاء پر اقتصارکرکے بعض دوسروں کو ساقط کردے گایابعض کو ان کا پوراپوراحصہ دے کر بعض کے حصوں میں کمی کردے گا تو وہ کمی اور نقصان کو بعض ورثاء کے حصوں پر ڈالنے کا مرتکب ہوگا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سب کے مقررہ حصوں کا تعین یکساں طورپرہوا ہے۔ رہ گیا حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول کہ اللہ تعالیٰ نے جن ورثاء کو مقدم کیا ہے انہیں ترکے کے حصوں کی کمی کی صورتوں میں مقدم رکھاجائے اور جنہیں مؤخرکردیا ہے انہیں مؤخرکیاجائے تو اس میں درحقیقت آپ نے بعض کو مقدم کردیا ہے اور بعض کو مؤخر اورعصبہ ہونے کی صورت میں اسے باقی ماندہ ترکہ کا حق دار سمجھا ہے۔ لیکن جہاں تمام ورثاء ذوی الفروض ہوں اور عصبہ کی صورت نہ ہوتوایسی حالت میں کوئی وارث دوسرے کے مقابلے میں تقدیم کا زیادہ حق دار نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بہن کا حصہ قول باری (ولہ خت فلھا نصف ماترک) کے ذریعے منصوص ہے۔ جس طرح کہ شوہر، بیوی ، ماں اور اخیافی بھائی بہنوں کے حصے منصوص ہیں، اب اس حالت میں بہن کے حصے پر ان ورثاء کے حصے کیسے مقدم ہوگئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں اس کا حصہ بھی منصوص کردیا ہے۔ جس طرح کہ اس کے ساتھ موجوددوسرے ورثاء کے حصے منصوص ہیں۔ اب اس بناپر کہ اللہ تعالیٰ نے بہن کو ایک موقع پر ذوی الفروض سے نکال کر عصبہ بنادیا ہے یہ لازم نہیں آتا کہ اس صورت میں بھی اسے ذوی الفروض سے نکال دیاجائے جس میں اس کا ذوی الفروض ہونامنصوص ہے۔ جن آیات میں میراث کے حصے بیان کیئے گئے ہیں ان کی مخالفت میں یہ قول دراصل اس قول سے بھی بدت رہے جس میں ورثاء کے حصوں میں ضرب دے کر ان کے لیے نصف نصف اور تہائی کا اثبات کیا گیا ہے۔ مواریث میں اصولی طورپر اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں۔ قول باری ہے۔ (من بعد وصیۃ یوصی بھا اؤدین) اب اگر مرنے والاہزادرہم چھوڑجاتا ہے اور دوسری طرف اس پر ایک شخص کے ہزاردرہم اور دوسرے کے ہزاررہم اور تیسرے کے پانچ سودرہم قرض ہوں تو اس صورت میں اس کے چھوڑے ہوئے ہزاردرہم ان تینوں قرضنحواہوں کے درمیان ان کے قرضوں کی نسبت سے تقسیم ہوجائیں گے۔ اس صورت میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ چونکہ ہزار کی رقم سے اڑھائی ہزار کی وصولی ممکن نہیں ہے اس لیے ان میں ایک خاص نسبت سے ضرب دینامحال ہے۔ اسی طرح اگر مرنے والا ایک شخص کے لیے اپنے تہائی مال کی اور دوسرے کے لیے چھٹے حصے کی وصیت کرجاتا ہے۔ لیکن ورثاء اس کی اجازت نہیں دیتے تو اس صورت میں تہائی مال کے اندریہ دونوں شخص اپنے متعلق کی جانے والی وصیتوں کی نسبت سے ضرب دیں گے ایک کے حصے کو سدس یعنی 1۔ 6 سے اور دوسرے کے حصے کو ثلث یعنی ۔ 1۔ 3 سے، یعنی اس تہائی مال کے چھ حصے کرکے چارحصے ایک کو اوردوحصے دوسرے کودے کردو اور ایک کی نسبت سے تقسیم کردیں گے حالانکہ تہائی سے نصف حصہ وصول کرنا محال ہوتا ہے۔ اسی طرح بیٹا اگر تنہاء ہوتوسارے مال کا حق دارہوتا ہے اور بیٹی تنہاء ہونے کی صورت میں نصف مال کی حق وارہوتی ہے۔ لیکن جب دونوں ایک ساتھ آجائیں تو بیٹے اور بیٹی کے حصوں کو ایک اور نصف سے ضرب دیں گے اور اس طرح ترکہ دونوں کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا۔ ترکے میں حصوں یعنی مخرج کی کمی اور ذوی الفروض کے حصوں میں زیادتی کے وقت اسی طرھ کا عمل ہوتا ہے جسے عول کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مشرکہ کا بیان مشرکہ کے مسئلے میں صحابہ کر امرضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف رائے ہے۔ مشرکہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی وفات کے بعداس کا شوہر، اس کی ماں، اس کے اخیافی اور حقیقی بھائی بہن موجودہوں ۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت موسیٰ اشعری کا قول ہے کہ شوہرکونصف ترکہ، ماں کو چھٹاحصہ اور بھائی بہنوں کو تہائی حصہ ملے گا۔ حقیقی بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ سفیان ثوری نے عمروبن مرہ سے، انہوں نے عبداللہ بن سلمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ سے اخیافی بھائی بہنوں نے کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ نے جواب میں فرمایا : تمہاراکیاخیال ہے کہ اگر ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہوتوآیاتم انہیں تہائی حصے سے زائد دے دوگے۔ لوگوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا : اسی لیے ہم کسی صورت میں ان کے حصے میں کمی نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں آپ نے حقیقی بھائی بہنوں کو عصبہ قراردیا اور چونکہ کوئی حصہ باقی نہیں رہا تھا۔ اس لیے وہ محروم قراردیئے گئے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د اور حضرت زیدبن ثابت ؓ کا قول ہے کہ شوہر کو نصف ترکہ، ماں کو چھٹاحصہ، اخیانی بھائی بہنوں کو تہائی مل چائے گا اس کے بعدحقیقی بھائی بہن اخیافی بھائی بہنوں کی طرف رجوع کرکے ان کے ساتھ اس طرح شریک ہوجائیں گے کہ انہیں حاصل شدہ تہائی حصہ ان سب کے درمیان مساوی طورپر تقسیم ہوجائے گا۔ معمرنے سماک بن فضل سے، انہوں نے دہب بن منبہ سے، انہوں نے حکم بن مسعود ثقفی سے روایت کی ہے کہ میں حضرت عمر ؓ کو کوددیکھا ہے کہ آپ نے حقیقی بھائی بہنوں کو اخیانی بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی مال میں شریک کردیا تھا۔ آیک آدمی نے آپ سے پوچھا کہ خلافت کے پہلے سال آپ کا فیصلہ اس کے برعکس تھا۔ آپ نے سائل سے کہا کہ میرا کیا فیصلہ تھا ؟ اس نے جواب دیا کہ آپ نے اخیانی بھائی بہنوں کو ترکے میں حق داربنایا تھا اور حقیقی بھائی بہنوں کو محروم رکھا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا : وہ صورت ہمارے اس فیصلے کے مطابق تھی اور یہ صورت ہمارے اس فیصلے کے مطابق ہے۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ انہیں شریک نہیں کرتے تھے۔ حتی کہ انہوں نے آپ کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ ہمارے اور میت کے درمیان باپ میں اشتراک ہے جبکہ اخیانی بھائی بہنوں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہ۔ رہ گئی ماں تو جس طرح وہ ان اخیانی بھائیوں کی ہے اسی طرح ہماری بھی ہے۔ اگر آپ ہمیں باپ کی وجہ سے محروم رکھتے ہیں تو ماں کی وجہ سے ہمیں وارث قراردیں جس طرح کہ ان اخیافی بھائی بہنوں کو ماں کی وجہ سے وارث قراردیتے ہیں۔ فرض کرلیں کہ ہمارا باپ گدھاتھا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم سب کی جو لانگاہ ایک ہی رحم ماد رہے۔ حضرت عمر ؓ نے ان کی اس دلیل کو سن کر فرمایا : تم ہی کہتے ہو۔ اور اس کے بعد آپ نے حقیقی بھائی بہنوں کو بھی اخیانی بھائی بہنوں کے ساتھ تہائی ترکے میں شریک کردیا۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف ، امام محمد، زفر اورحسن بن زیادہ نے حضرت علی ؓ بن ابی طالب ؓ کا قول اختیارکیا ہے۔ کہ انہیں اخیانی بھائی بہنوں کے ساتھ شریک نہیں کیا جائے گا۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل قول باری (وان کان رجل یورث کلالۃ اوامراء ۃ ولہ اخ اؤاخت فلکل واحد منھماالسدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث) آیت میں یہ حکم منصوص ہے کہ اخیانی بھائی بہنوں کے لیے تہائی ترکہ ہے رہ گئے حقیقی بھائی بہن تو ان کا حکم اپنے قول (یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ) تاقول باری (وان کانوا اخوۃ رجالاونساء فلذکرمثل حظ الانثیین) میں بیان کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں کیا بلکہ عصبہ ہونے کی بناپر ترکہ میں انہیں حق دارقرار دیا اور اصول یہ مقرر کردیا کہ مردوں اور عورتوں میں دو اور ایک کی نسبت ہوگی۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر مرنے والی شوہرماں ایک اخیانی بھائی اور حقیقی بھائی بہن چھوڑجائے توشوہر کو نصف ترکہ، ماں کو چھٹاحصہ، اخیافی بھائی کو چھٹاحصہ اور باقی ماندہ چھٹاحصہ حقیقی بھائی بہنوں کے درمیان دو اور ایک کی نسبت سے تقسیم ہوجائے گا اور یہ حقیقی بھائی بہن اخیافی بھائی کے حصے میں داخل نہیں ہونگے۔ جب حقیقی بھائی بہن ذوالفروض کے ساتھ عصبہ ہونے کی ہناپرباقی ترکہ کے حقدارہوتے ہیں ذوی الفروض ہونے کی بناء پر نہیں تو پھر ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم انہیں اخیافی بھائی بہنوں کے متعین اور مقررحصے میں داخل کرکے ان کے ساتھ شریک کردیں۔ کیونکہ ظاہر آیت اس کی نفی کرتا ہے۔ اس لیے کہ آیت نے ان کے لیے دو اور ایک کی نسبت میں جو مال واجب کیا وہ عصبہ ہونے کی بناء پر ہے۔ فرض یعنی متعین حصے کی بناپر نہیں۔ اب جو کوئی انہیں فرض کی بناپر کوئی حصہ دے گا تو اس کا یہ اقدام آیت کے دائرے سے خارج ہوگا۔ یعنی وہ آیت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ اس پر حضو ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے۔ (الحق الفرائض باھلھافماابقت الفرائض فلاولی عصبۃ ذکر، فرائض یعنی متعین حصے ان کے حق داروں کو دلاؤ۔ متعین حصوں کے بعد باقی رہ جانے والامال سب سے قریبی مذکرعصبہ کو مل جائے گا۔ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد باقی رہ جانے والے مال کا عصبہ کو حق دارقراردیا۔ اب جو کوئی انہیں ذوی الفروض کے ساتھ شریک کرے گا جب کہ وہ عصبہ ہیں تو اس کا قدم اس حدیث کے خلاف ہوگا۔ اگریہ سوال اٹھایاجائے کہ جب ماں کے نسب میں یہ شریک ہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگا کہ باپ کی وجہ سے انہیں محروم نہ رکھاجائے۔ اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اگر مرنے والی شوہر، ماں، ایک اخیافی بھائی اور چندحقیقی بھائی بہن چھوڑجائے تو اس صورت میں اخیافی بھائی پوراچھٹاحصہ لے لے گا اور حقیقی بھائی بہنوں کو باقی چھٹاحصہ ملے گا اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو دسویں حصے سے بھی کم ترکہ ملے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ مجھے باپ کی وجہ سے محروم رکھاگیا جب کہ ماں میں ہم سب شریک ہیں بلکہ اخیانی بھائی کا حصہان میں سے ہر ایک کے حصے سے زیادہ ہوگا۔ اس وضاحت کی روشنی میں دو باتیں سامنے آئیں اول یہ کہ ماں میں شریک ہونے کی علت اس صورت میں قائم نہیں رہ سکی بلکہ منتقض ہوگئی دوم یہ کہ حقیقی بھائی بہنوں نے ترکہ میں جو کچھ لیاوہ فرض یعنی متعین حصے کی بناپر نہیں لیا۔ بلکہ عصبہ ہونے کی بناپرلیا۔ درج بالا اعتراض کے فسادیہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مرنے والی شوہر، ایک حقیقی بہن اور ایک علاتی بھائی اور بہن چھوڑجاتی توشوہرکونصف ترکہ اور حقیقی بہن کو نصف ترکہ مل جاتا اور علاتی بھائی بہن کو کچھ نہیں ملتا اس لیے کہ اس صورت میں وہ عصبہ تھے اور اس بناء پر وہ ذوی الفروض کے ساتھ ان کے حصوں میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ اوریہ بات بھی درست نہیں تھی کہ علاتی بھائی کو کان لم یکن فرض کرلیا جاتاتا کہ علاتی بہن اپنے حصے کی حق داربن جاتی جوا سے بھائی کی غیرموجودگی میں تنہاء ہونے کی صورت میں مل سکتا تھا۔ لیکن عصبہ بن جانے کی وجہ سے وہ اس چھٹے حصے سے محروم رہ گئی جس کی وہ حق داربن سکتی تھی۔ ٹھیک اسی طرح عصبہ بن جانے کی بناپرحقیقی بھائی بہن اس تہائی حصے سے باہرہوکرمحروم ہوجاتے ہیں جس کی اخیافی بھائی بہنیں حق دارپاتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ بیٹی کے ساتھ بہن کی میراث میں سلف کے اختلاف کا بیان حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د، حضرت زیدبن ثابت ؓ اور حضرت معاذبن حیل ؓ سے اس شخص کے بارے میں کسی اختلاف رائے کی روایت نہیں ہے جس کی ایک بیٹی۔ ایک حقیقی بہن اور عصبہ پیچھے رہ گئے ہوں اس صورت میں بیٹی کو نصف ترکہ اور باقی ماندہ نز کہ بہن کو مل جائے گا۔ ان حضرات نے بہن کو بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ قراردیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ کا قول ہے کہ بیٹی کو نصف نز کہ مل جانے گا اور باقی ماندہ ترکہ عصبہ کو چلاجائے گا خواہ میت سے عصبہ کی رشتہ داری کتنی بعید ہی کیوں نہ ۔ بیٹی کی موجودگی میں بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ پہلے یہ فیصلہ کرتے تھے لیکن بعد میں آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ کہا گیا کہ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعو ؓ د اور حضرت زیدبن ثابت ؓ بیٹیوں کی موجودگی میں بہنوں کو عصبہ قراردے کر انہیں میراث کا بچاہواحصہ دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا تھا : تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ ؟ اس کا تو ارشاد ہے (ان امرؤ ھلک لیس لہ ولدولہ اخت فلھا نصف ماترک) اور تم بہن کو ولد کی موجودگی میں نصف ترکہ دیتے ہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول اول کے لیے دلیل کے طورپریہ قول باری پیش کیا جاسکتا ہے۔ (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والاقربون مماقل منہ اوکثرنصیبامفروضا۔ اس آیت کے ظاہر کا تقاضایہ ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن کو بھی وارث قراردیاجائے۔ اس لیے کہ اس کامرنے والا بھائی اس کے قریب ترین رشتہ داروں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نیاقرباء کی میراث مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مقرر کی ہے۔ اس سلسلے میں ابوقیس الاودی کی روایت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جو انہوں ہزیل بن سرخبیل سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مسئلے میں جس کیا ندرورثاء میں ایک بیٹی اور ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن تھی فیصلہ دیا تھا کہ بیٹی کو نصف نز کہ اور پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا اور اس طرح دوتہائی حصوں کی تکمیل ہوجائے گی اور باقی ماندہ ترکہ بہن کے حصے میں آئے گا۔ اس طرح آپ نے بہن کو بیٹی کے ساتھ عصبہ قراردے کر باقی ماندہ اسے عطاکردیاتھاجن حضرات کا اس بارے میں یہ استدلال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہن کو نصف ترکہ کا حق دار اس صورت میں قراردیا ہے جبکہ ولدموجودنہ اور ولد کی موجودگی میں اسے نصف ترکہ دیناجائز نہیں ہے تو یہ بات لازم نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولد کی عدم موجودگی میں بہن کے حصے کا ذکربطورنص کیا ہے۔ لیکن ولد کی موجودگی میں بہن کی میراث کی نفی نہیں کی ہے۔ نیز ولد کی عدم موجودگی میں بہن کے لیے نصف ترکہ متعین کردینا ولد کی موجودگی میں اس کے حق کے سقوط پر دلالت نہیں کرتا۔ کیونکہ اس صورت میں بہن کے لیے میراث کانہ نفیاتذکرہ ہے اور نہ ہی ایجابا۔ اس لیے اس صورت کا حکم اس کے متعلق پائی جانے والی دلیل پر موقوف۔ ہا۔ اس کے ساتھ ساتھ آیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو۔ اس کی دلیل سلسلہ تلاوت میں یہ قول باری ہے (وھویرثھا) یعنی بھائی بہن کا وارث ہورہاہو۔ (ان لم یکن لہ ولد) سب کے ہاں اس کے معنی ہیں کہ اگر نرینہ اولاد نہ ہو۔ کیونکہ صحابہ کرام کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مرنے والی عورت اگر مونث ولد یعنی بیٹی اور ایک بھائی چھوڑ جائے توبیٹی کو نصف ترکہ اور بھائی کو باقی ماندہ ترکہ مل جائے گا۔ یہاں جس ولد کا ذکرہوا ہے آیت کے شروع میں ابتدائی طورپر بھی اس کا ذکرہوا ہے۔ نیز قول باری ہے۔ (ولابویھ لکل واحد منھماالسدس مماترک ان کان لہ ولد) سب کے ہاں اس کے معنی ہیں کہ اگر نرینہ ولدہوکیون کہ صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے درمیاناس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور ماں باپ چھوڑکرماجائے توبیٹی کو نصف ترکہ اور ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹاحصہ اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ اس مسئلے کی صورت میں مؤنث ولد یعنی بیٹی کے ساتھ باپ کو چھٹے حصے سے زائدمل جائے گا۔ اوریہ کہ قول باری (ولابویہ لکل واحد منھما السدس مماترک ان کان لہ ولد) کو مذکرولدپر محمول کیا جائے گا۔ اس طرح اگر کوئی شخص باپ اور ایک بیٹی چھوڑکر انتقال کرجائے تو باپ اور بیٹی کے درمیان ترکہ نصف ، نصف تقسیم ہوجائے گا۔ اس طرح درج بالادونوں صورتوں میں باپ کو ولد کے ساتھ چھٹے حصے سے زائد ترکہ ہاتھ آئے گا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ایک گروہ کا جس نے امت کے اجتماعی قول کو ترک کرکے علیحدہ قول اختیاکیا ہے، خیال ہے کہ اگر ایک بیٹی اور ایک بہن ہوتوسارامال بیٹی کو مل جائے گا۔ اس طرح اگر بیٹی اور بھائی ہو تو بھی ساراتر کہ بیٹی کا ہوگایہ قول ظاہر آیت اور اتفاق امت کے دائرے سے خارج ہے۔ ارشاد باری ہے۔ (یوصیکم اللہ فی اؤلاد کم للذکرمثل حظ الانثیین فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک وان کانت واحدۃ فلھا النصف) آیت میں بیٹی کا حصہ نیز دوتہائی سے زائد کا حصہ منصوص طورپر مذکور ہے یعنی تنہا ہونے کی صورت میں اس کے لیے نصف ترکہ مقرر کیا اور اس کے ساتھ اور بیٹیاں ہونے کی صورت میں تمام کے لیے دو تہائی ترکہ مقرر کیا اب انہیں بغیر کسی دلالت کے اس سے زائد دینا جائز نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ گذشتہ سطور میں آپ کی وضاحت کے مطابق نصف اور دوثلث کا ذکر اس سے زائد کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے ظاہری طورپر اس سے زائد کی نفی موجود نہیں ہے۔ آپ کو تو صرف یہ چاہیئے کہ درج بالاقول کے قائل سے دوتہائی سے زائد کے استحقاق کے سلسلے میں دلیل طلب کریں اور بس۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) اس میں مذکورہ حصوں کے اعتبار سے امر اورحکم کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ وصیت کا مفہوم بھی دراصل امر اورحکم ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ آیت میں متعین حصوں میں سے ہر ایک کا اس کے تناظر میں اعتبارکرنا ضروری ہے نیزان میں کمی بیشی کی کسی طرح بھی گنجائش نہیں ۔ اس لیے یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ آیت میں مذکورہ متعین حصوں کے سلسلے میں صرف ان ہی ورثاء پر اقتصارکیاجائے جن کے لیے ان حصوں کا تعین ہوا ہے نہ ان میں کمی کی جائے اور نہ زدیادتی اللہ تعالیٰ نے اس بات کا خصوصیت کے ساتھ ذکر نہیں فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائے خطاب میں ان حصوں کے اعتبار کے متعلق اس کی طرف سے حکم دیاجاچکا تھا۔ اس لیے ہمیں ان مقررہ حصول پر کوئی اضافہ کرنے سے روک دیا گیا البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی دلالت پیش کی جائے تو وہ اور بات ہوگی۔ قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان لاقربون) بیٹی کی موجودگی میں بھائی کو وارث قراردینے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ سے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کردہ حدیث (الحقوا الفرائض باھلھا فماابقت فلاولی عصبۃ ذکر) بھی دلالت کرتی ہے۔ آیت اور حدیث کے مجموعی مفہوم کی بناپراب یہ واجب ہے کہ ہم جب بیٹی کو نصف ترکہ دیدیں تو باقی ماندہ ترکہ بھائی کے حوالے کردیں اس لیی کہ وہی سب سے قریبی مذکرعصبہ ہے۔ دوچچازاد بھائیوں کی وراثت کے متعلق جن میں سے ایک اخیافی بھائی بھی ہوسلت میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت زیدبن ثابت ؓ کا قول ہے اخیافی بھائی کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی ماندہ پانچ حصے دونوں میں مساوی طورپر تقسیم ہوجائیں گے۔ فقہاء احصارکا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعو ؓ دکاقول ہے کہ سارامال اخیافی بھائی کو مل جائے گا۔ ان دونوں حضرات کا قول ہے کہ ذوی الفروض غیرذوی الفروض کے مقابلے میں زیادہ حق دارہوتا ہے۔ شریح اور حسن کا بھی یہی مسلک تھا اگر دواخیافی بھائیوں میں سے ایک چچاز ادبھی ہوتوان کے متعلق اختلاف رائے نہیں ہے۔ دونوں ماں کی نسبت سے ایک تہائی ترکہ کے حق دارہوں گے اور باقی ماندہ دوتہائی ترکہ اس بھائی کو مل جائے گا جو چچازادبھی ہے۔ اس مسئلے میں ان حضرات نے چچازاد میں ذوی الفروض اور عصبہ دونوں خصوصیتوں کے اجتماع کی بناپرا سے پورے ترکے کا حقدارقرار نہیں دیا۔ یہی حکم ان دوچچاز ادبھائیوں کا ہے کہ ایک ان میں اخیافی ہو اس اخیافی کو ذوی الفروض عصبہ ہونے کی بناپرساراتر کہ دے دینا جائز نہیں ہے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعو ؓ دنے اسے حقیقی اور علاتی بھائی کے مشابہ قراردے کرا سے پورے ترکہ کا حق دارٹھہرادیا۔ لیکن دوسرے حضرات کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اور درج بالامسئلے کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میت کے ساتھ ان دونوں بھائیوں کی نسبت صرف ایک جہت یعنی اخوت کی بناپر ہورہی ہے۔ اس لیے اس صورت میں اس بھائی کا اعتبارکیاجائے گاجومیت سے زیادہ قریب ہوگا اور یہ وہ بھائی ہوگاجس میں میت کے ساتھ ماں اور باپ دونوں کی قرابت میں اشتراک ہوگا۔ وہ ماں کے واسطے سے میت کے ساتھ قرابت کی بناپر اخیافی بھائی کے حصے کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ یہ قرابت صرف اخوت کے حکم کی مزیدتا کہ کید کردے گی۔ اس کے برعکس دوچچابھائیوں کے ساتھ یہ بات نہیں ہے جبکہ ان میں سے ایک اخیافی بھائی بھی ہو۔ کیونکہ اس صورت میں آپ ماں کی نسبت سے اخوت کے ذریعے ایسی رشتہ داری کی تاکید کرنا چاہیں گے جو درحقیقت اخوت کے ضمن نہیں آتی ہے۔ بلکہ یہاں اخوت کے سواتعلق کی بنیاد کسی اور سبب پر ہے۔ اس لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ اخوت کے ذریعے اس نسبت کی تاکید کی جائے۔ اس بات پر مزید روشنی اس طرح ڈالی جاسکتی ہے کہ میت کے ساتھ اس شخص کے چچازاد ہونے کی نسبت اس کی اس حصے کو ساقط نہیں کرتی جوا سے اخیافی بھائی ہونے کی جہت سے مل رہا ہوبل کہ وہ اخیافی بھائی ہونے کے ناطے اخیافی بھائی والے حصے کا وارث ہوگا اگرچہ وہ چچازادبھی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر مرنے والی دو بہنیں حقیقی ، شوہر اور ایک اخیافی بھائی چھوڑجائے جو اس کا عم زادبھی ہو تو اس صورت میں بہنوں کو دوتہائی ، شوہر کو نصف اور اخیافی بھائی کو چھٹا حصہ ملے گا اور چچازاد ہونے کی بناپر اس کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔ اگر مرنے والی شوہر، ماں اور ایک اخیافی بہن اور چندحقیقی بھائی چھوڑجائے توشوہرکونصف ترکہ، ماں کو چھٹا حصہ اخیافی بہن کو چھٹا حصہ اور باقی ماندہ ترکہ حقیقی بھائیوں کو مل جائے گا۔ یہاں حقیقی بھائی ماں کی بناپر اخوت والے تعلق سے پیدا ہونے والے حصے کے حق دار نہیں ہوئے کہ ماں کی نسبت میں وہ اخیافی بہن کے ساتھ شریک ہیں بلکہ انہیں عصبہ ہونے کی بناپرحصہ ملا ہے۔ اس لیے ماں باپ کے ذریعے میت کے ساتھ ان کی قرابت صرف ان کے عصبہ ہونے کی تاکید کررہی ہے۔ اس لیے اس قرابت کی بنیادپر وہ ذوی الفروض بننے کے مستحق نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف چچازاد کی میت کے ساتھ ماں کے واسطے سے قرابت اسے اخیافی بھائی کی حیثیت سے ذوی الفروض بن کر اپنے حصے کے استحقاق سے خارج نہیں کرسکتی۔ نیز یہ صورت عصبہ ہونے کی جہت کی تاکیدپر کسی طرح اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ اگر یہ بات ہوتی تو یہ ضروری ہوجاتا کہ وہ یعنی اخیافی بھائی صرف عصبہ بن کر ہی ترکے میں کسی حصے کا حق دارہوسکتا جس طرح کہ حقیقی بھائی بہن عصبہ بن کر ہی ترکے میں حصہ پاتے ہیں اور ماں کے واسطے سے میت کے ساتھ اپنی قرابت کی بنیا دپراخیافی بھائی بہنوں کا حصہ نہیں پاتے۔ مرنے والے پر قرض ہو اور اس نے وصیت بھی کی ہو اس کے حکم کا بیان ارشادباری ہے (من بعد وصیۃ یوصی بھا اؤدین) حارث نے حضرت علی سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ، تم قرآن میں دین یعنی قرض سے پہلے وصیت کا ذکر پڑھتے ہو اور حضور ﷺ نے وصیت کیا جراء سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ دیا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اسلام کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے وہ اس لیے کہ مذکورہ بالا ارشادباری کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں یعنی دین اور وصیت کے بعد میراث کی تقسیم عمل میں آئے گی۔ اس مقام پر حرف اومذکورہ دونوں باتوں میں سے ایک کا فائدہ نہیں دے رہا ہے بلکہ دونوں کو شامل ہے۔ اس لیے کہ یہ ارشاد باری اس جملے سے مستثنیٰ ہے جس کا میراث کی تقسیم کے سلسلے میں ذکرہوا ہے۔ اوریہ قاعدہ ہے کہ جب حرف اونفی پر داخل ہوتا ہے تو وہ حرف واؤ کے معنی میں ہوجاتا ہے۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے۔ (ولاتطع منھم اثمااؤکفورا، ان میں سے کسی گنہگار اورناشکرے کی بات نہ مانیئے۔ ) اسی طرح قول باری ہے (حرمنا علیھم شحومھما الاماحملت ظھورھما اوالحوایا اؤمااختلط بعظم، اور گائے اور بکری کی چربی بھی ہم نے ان پر حرام کردی تھی بحز اس کے جوان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے) ان مواقع میں حرف اؤحرف واؤ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح قول باری (من بعدوصیۃ یوصی بھا اؤدین) چونکہ استثناء کے معنی میں ہے اس لیے گویا یوں فرمایا گیا، مگر یہ کہ میت کی کوئی وصیت یا اس پر کوئی قرض ہو اس صورت میں میراث کی تقسیم ان دونوں چیزوں کی ادائیگی کے بعدعمل میں آئے گی۔ قرض پر وصیت کے ذکر کی تقدیم سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرض ادا کرنے سے پہلے وصیت کے اجراء سے ابتداء کی جائے اس لیے کہ حرف اؤ ترتیب کو واجب نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کے ذکرکے بعد ان دونوں چیزوں کا ذکر ہمیں یہ بتانے کے لیے کیا کہ قرض کی ادائیگی اور وصیت کے بموجب حصہ الگ کرنے کے بعد ورثاء کے حصے اداکیے جائیں گے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر مرنے والا اپنے تہائی مال کی وصیت کرجائے توترکے سے تہائی حصہ الگ کرنے کے بعد ورثاء کے حصوں کا بقیہ مال میں اعتبار کیا جائے گا یعنی باقی ماندہ دوتہائی میں سے میت کی بیوہ کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ دیاجائے گا۔ اسی طرح بقیہ ورثاء کے حصے بھی بقیہ دوتہائی مال میں سے دیئے جائیں گے ان حصوں کا تہائی مال سے کوئی تعلق نہیں ہوگاجس کی مرنے والا وصیت کرگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتانے کے لیے دین اور وصیت کا ایک ساتھ ذکر فرمایا کہ ورثا کے حصوں کا اعتبار وصیت کے اجراء کے بعد وہوگاجس طرح کہ ان کا اعتبارقرض کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اگرچہ وصولی کے لحاظ سے وصیت کا حکم دین کے حکم سے مختلف ہے اس لیے کہ ترکے میں سے اگر کوئی حصہ ضائع ہوجائے تو اس ضیاع کی بناپرہونے والے نقصان کو ورثاء پر نیزان لوگوں پر ڈالا جائے گا جن کے حق میں میت نے وصیت کی ہے۔ لیکن قرض کا حکم ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر میت کے متروکہ مال کا کوئی حصہ ہلاک بھی ہوجائے توبقیہ مال میں سے اس پر عائد شدہ قرض کی پوری رقوم ادا کی جائے گی خواہ باقی ماندہ سارامال اس قرض کی ادائیگی میں صرف کیوں نہ ہوجائے۔ ایسی صورت میں ورثاء اور وصیت پانے والوں کا حق باطل ہوجائے گا۔ اس لیے وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ اس جہت سے ورثاء کی طرح ہوگا اور ایک جہت سے قرضخواہ کے مشابہ ہوگاوہ جہت یہ ہے کہ اہل میراث کے حصوں کا اعتباروصیت کے اجراء کے بعد کیا جاتاہ۔ جس طرح ان کا اعتبارقرض کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے۔ قول باری (من بعدوصیۃ یوصی بھا اؤدین) سے یہ مراد نہیں ہے کہ موصی لہ، (جس کے لیے وصیت کی گئی ہو) وصیت کے تحت آنے والااپناحصہ ورثاء کو ان کے حصے دیئے جانے سے پہلے ہی حاصل کرلے گا بل کہ ان سب کو ان کے حصے ایک ساتھ اداکیئے جائیں گے۔ گویا موصی لہ اس لحاظہ سے ایک وارث کی طرح ہوگا اور تقسیم سے پہلے مال کا جو حصہ ضائع ہوجائے گا اس کے نقصان کو سب کے حصوں پر ڈالاجائے گا۔ جائزوصیت کی مقدارکابیان قول باری ہے (من بعد وصیتۃ یوصی بھا اؤدین) اس کا ظاہرقلیل وکثیر مال کی وصیت کے جواز کا مقتضی ہے۔ اس لیے کہ لفظ وصیت کا ذکرنکرہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مال کے کسی خاص حصے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ البتہ اس آیت کے سوا ایسی دلالت موجود ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد مال کے بعض حصے کی وصیت ہے کل مال کی وصیت نہیں۔ یہ دلالت قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والقربون مماقل منہ اؤکثر، میں موجود ہے۔ اس میں وصیت کا ذکرکیئے بغیر میراث کے ایجاب کو مطلق رکھاگیا ہے اگر قول باری (من بعد وصیۃ یوصی بھا) پورے مال کی وصیت کا مقتضی ہوتاتو اس صورت میں قول باری (للرجال نصیب مماترک الولدان والاقربون) پورے مال کی وصیت کے جواز کی بناپر منسوخ ہوجاتا۔ اب جبکہ میراث کے ایجاب کے سلسلے میں اس آیت کا حکم ثابت اور غیر منسوخ ہے تو ضروری ہوگیا کہ اس آیت پر آیت میراث کو ساتھ ملاکرعمل کیا جائے۔ جس کی بناپریہ واجب ہوگیا کہ وصیت کو مال کے بعض حصے کے ساتھ محدود کردیاجائے اور باقی مال ورثاء کے حوالے کردیاجائے تاکہ دونوں آیتوں کے حکم پر عملدرآمدہوجائے اس پر قول باری (ولیخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافاخافوا علیھم فلیتقوا اللہ ولیقولواقولاسدیدا، لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خوداپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑتے تومرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے پس چاہیئے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں) یعنی راستی کی بات یہ ہے کہ اپنے سارے مال کی وصیت کرنے والے کو ایسا کرنے سے روکیں جیسا کہ اس آیت کی تاویل کے سلسلے میں بیان کیا جاچکا ہے اس لیے مال کے بعض حصے کی وصیت کے جواز پر اس کی دلالت ہورہی ہے۔ کیونکہ زیربحث آیت میں مذکورلفظ وصیت میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے یعنی پورے مال کی وصیت کا بھی اور بعض حصے کی وصیت کا بھی۔ حضور ﷺ سے اس سلسلے میں ایسی روایات منقول ہیں جنہیں امت نے قبول کیا اور تہائی مال کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں ان پر عمل بھی کیا۔ ایک روایت ہمیں محمد بن ب کرنے بیان کی، انہیں ابوداؤدنے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ اور ابن ابی خلف نے، ان دونوں کو سفیان نے زہری سے انہوں نے عامربن سعید سے، اور انہوں نے اپنے والد سے کہ، میرے والدسخت بیمارہوگئے۔ رادی ابی ابن خلف نے جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مکہ میں بیمارہوگئے۔ حضور ﷺ ان کی عیادت کے لیئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس ڈھیرسامال ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، میں دوتہای مال صدقہ میں نہ دے دوں ؟ آپ نے نفی میں جواب دیا، پھر میں نے عرض کیا، آدھادے دوں ؟ آپ نے پھر نفی میں جواب دیا اور فرمایا کہ تہائی مال صدقہ کردو، اور تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ اپنے ورثاء کو فراخی کی حالت میں چھوڑجانا اس کی بہ نسبت بہت رہے کہ انہیں تنگدست چھوڑکرجاؤ اور وہ تمہارے بعد لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یادرکھو اس سلسلے میں تم جو بھی نفقہ کروگے اس کا تمھیں اجرملے گا حتی کہ اگر ازراہ محبت اپنے ہاتھ سے بیوی کو ایک لقمہ کھلادوگے تو بھی تم ماجورہوگے۔ میں نے عرض کیا : حضور میں اپنے دار ہجرت یعنی مدینہ منورہ سے پیچھے پ ہیں مکہ میں رہ جاؤں گا۔ (یعنی اس بیماری سے صحت یابی کی امید نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ سے اب مدینہ منورہ جا بھی نہیں سکتا) یہ سن کر آپ نے فرمایا : اگر تم میرے بعدزندہ رہے اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر کوئی نیکی کی تو اللہ کے نزدیک اس سے تمھارامرتبہ اور درجہ اور زیادہ بلند ہوجائے گا۔ پھر فرمایا : شاید تم میرے بعدزندہ رہوحتی کہ بہت سے لوگوں کو تمھاری ذات سے فائدہ پہنچے اور بہت سوں کو نقصان ۔ پھر آپ نے یہ دعافرمائی : اے میرے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو جاری رکھ اور انہیں واپس نہ لوٹا۔ البتہ بےچارہ سعدبن خولہ !۔ حضور ﷺ یہ فرماکر دراصل سعدبن خولہ کے لیے افسوس کا اظہارکر رہے تھے کیونکہ ان کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی اور وہ دوبارہ مدینہ منورہ جا نہیں سکے تھے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں بہت سے احکام و فوائد ہیں۔ اول : یہ کہ تہائی مال سے زائد میں وصیت جائز نہیں ہے۔ دومـ: یہ کہ تہائی سے کم میں وصیت کرنا مستحب ہے، اسی بناپربعض فقہاء کا قول ہے تہائی سے کم مال کی وصیت مستحب ہے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (والثلث کثیر) تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ ) سوم : یہ کہ اگر مرنے والا مال قلیل کا مالک ہو اور اس کے ورثاء فقیروتنگ دست ہوں تو ایسی صورت میں کسی قسم کی وصیت نہ کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (ان تدع ورثتک غنیبء خیرمن ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس۔ اپنے ورثاء کو فراخی کی حالت میں چھوڑکرجانا اس کی بہ نسبت بہت رہے کہ انہیں تنگدست چھوڑکرجاؤ اور وہ تمہارے بعدلوگوں کے سامنے اپنے معاش کے لیئے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ ) اس روایت میں وارث نہ ہونے کی صورت میں پورے مال کی وصیت کے جواز کی بھی دلیل موجود ہے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے یہ بتایا ہے کہ تہائی سے زائد کی وصیت کی ممانعت ورثاء کی خاطر کی گئی ہے اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مرض کی حالت میں صدقہ وصیت کی طرح ہے۔ اس لیے تہائی سے زائد جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ حضرت سعد ؓ نے حضور ﷺ سے سارامال صدقہ کردینے کے متعلق دریافت کیا تھا۔ حضور ﷺ نے اس میں کمی کرتے کرتے اسے تہائی تک پہنچادیا تھا۔ یہی روایت جریر نے عطاء بن السائب سے کی ہے، انہوں نے عبدالرحمن بن سلمی سے اور انہوں نے حضرت سعد ؓ سے کہ، میری بیماری کے دوران حضور ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے اور پوچھا کہ تم نے وصیت کی ہے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیاتو فرمایا، کس قدرمال ؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی راہ میں سارامال۔ فرمایا، اولاد کے لیے کیا چھوڑوگے ؟ میں نے عرض کیا، میری اولاد مال دا رہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : وسویں حصے کی وصیت کرجاؤ۔ اس کے بعد وصیت کے لیے میرے مال کے حصوں کی کمی بیشی کے سلسلے میں ہم دونوں میں سلسلہ کلام جاری رہاحتی کہ آپ نے : تہائی مال کی وصیت کو جائز اور تہائی بھی بہت زیادہ ہے کہا ابوعبدالرحمن کہتے ہیں حضور ﷺ کے اس ارشاد کی بناپرہم تہائی سے کم کی وصیت کو مستحب سمجھتے تھے۔ اس روایت میں حضرت سعد ؓ نے ذکر کیا ہے کہ میں نے عرض کیا تھا کہ سارامال اللہ کی راہ میں وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ الفاظ پہلی روایت میں بیماری کے دوران صدقہ کے الفاظ کے منافی نہی ہیں۔ کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ جب حضور ﷺ نے انہیں تہائی سے زائد کی وصیت سے منع فرمایا تو حضرت سعد ؓ نے یہ خیال کیا ہو کہ بیماری کے دوران صدقہ کرنا جائز ہے، اس لیے صدقہ کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا ج سے سن کر آپ نے انہیں فرمایا کہ تہائی مال تک محدودرکھنے کے سلسلے میں صدقہ کا حکم بھی وہی ہے جو وصیت کا ہے۔ یہ روایت حضرت عمران بن حصین کی اس روایت کی طرح ہے جس میں انہیں نے اپنی موت کے قریب اپنے چھ غلام ازاد کردیئے تھے۔ زیز بحث روایت کی ایک اور بات یہ ہے کہ انسان اپنے اہل وعیال پر جو کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کا بھی اجرملتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ہبہ کے طورپر کوئی چیزدے دے تو اسے واپس لے لیناجائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس ہبہ کی حیثیت صدقہ کی طرح ہے اس لیے کہ وہ اس ہبہ کی بناپرعنداللہ اجروثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس کی نظیروہ روایت ہے حضور ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا اعطی الرجل امرأتہ عطیۃ فھی لہ صدقۃ، جب کوئی شخص اپنی بیوی کو کوئی عطیہ دے دے تو یہ اس شخص کے لیے صدقہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت سعد ؓ کا یہ کہنا کہ، میں اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی موت مکہ مکرمہ میں واقع ہوگی جہاں سے انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تھی، (چونکہ انہیں بیماری سے صحت یاب ہونے کی امید نہیں تھی اس لیے انہوں نے یہ کہا تھا، بیماری کی وجہ سے وہ مدینہ منورہ کا سفر بھی نہیں کرسکتے تھے) اور حضور ﷺ نے مہاجرین حضرات کو ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ کے بعد مکہ مکرمہ میں تین دن سے زائد قیام کرنے سے منع فرمادیا تھا۔ آپ نے حضرت سعد ؓ کو یہ اطلاع دی تھی کہ وہ آپ کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ ان کی ذات سے بہت سوں کو فائدہ پہنچائے گا اور بہت سوں کو نقصان چناچہ ایساہی ہوا۔ حضرت سعد ؓ حضور ﷺ کے بعد بھی زندہ رہے اور بلادعجم یعنی ایران وعراق کا علاقہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوا اور کسری کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ وہ غیب کی باتیں تھیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابوعبداللہ عبیداللہ بن حاتم عجلی نے، انہیں عبدالاعلی بن واصل نے، انہیں اسماعیل بن صبیح نے، انہیں مبارک بن حسان نے، انہیں نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (یا ابن آدم ! اثنتان نیست لک واحدۃ منھما جعلت لک نصیبا فی مالک حین اخذت بکظہک لاطھرک وازکیک وصلاۃ عبادی علیک بعد انقضاء اجلک۔ (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top