Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 6
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ١ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ١ۚ وَ لَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّكْبَرُوْا١ؕ وَ مَنْ كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ١ۚ وَ مَنْ كَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
وَابْتَلُوا : اور آزماتے رہو الْيَتٰمٰى : یتیم (جمع) حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب بَلَغُوا : وہ پہنچیں النِّكَاحَ : نکاح فَاِنْ : پھر اگر اٰنَسْتُمْ : تم پاؤ مِّنْھُمْ : ان میں رُشْدًا : صلاحیت فَادْفَعُوْٓا : تو حوالے کردو اِلَيْھِمْ : ان کے اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْھَآ : وہ کھاؤ اِسْرَافًا : ضرورت سے زیادہ وَّبِدَارًا : اور جلدی جلدی اَنْ : کہ يَّكْبَرُوْا : کہ وہ بڑے ہوجائینگے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو غَنِيًّا : غنی فَلْيَسْتَعْفِفْ : بچتا رہے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو فَقِيْرًا : حاجت مند فَلْيَاْكُلْ : تو کھائے بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق فَاِذَا : پھر جب دَفَعْتُمْ : حوالے کرو اِلَيْھِمْ : ان کے اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال فَاَشْهِدُوْا : تو گواہ کرلو عَلَيْھِمْ : ان پر وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ حَسِيْبًا : حساب لینے والا
اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو۔ پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو۔ اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہیے اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔
یتیم کو مال حوالے کرنا مالی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے سمجھ بوجھ اور ہوشیاری ضروری ہے قول باری ہے (وابتلوالیتامی حتی اذا بلغوالنکاح فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم، اور یتیموں کی پرکھ کرتے رہویہاں تک کہ وہ نکاح کی عمرکوپہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں سمجھ بوجھ اور ہوشیاری دیکھ لوتوان کے اموال ان کے حوالے کردو) حسن، قتادہ اورسدی نے کہا کہ تم انکی عقلمندی اور دینداری کو پرکھتے رہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے ہم یتیموں کی پرکھ کرتے رہیں۔ اس لیے کہ فرمایا (وابتلوا الیتامی حتی اذابلغوالنکاح) اس میں ہمیں ان کی یتیمی کی حالت میں ان کو پرکھتے رہنے کا حکم ملاپھر فرمایا (حتی اذابلغوالنکاح) اس میں یہ بتادیا کہ بلوغ نکاح کامرحلہ ابتلاء یعنی پرکھتے رہنے کے مرحلے کے بعد آئے گا۔ اس لیے کہ حرف، حتی، غایت کے لیے ہے جس کا ذکرابتلاء کے بعد آیا ہے ، اس لیے آیت دوطرح سے اس پر دلالت کررہی ہے۔ کہ یہ ابتلاء بلوغ سے پہلے ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اگر ایک نابالغ لڑکے کے اندرسمجھ بوجھ اور عقلمندی پیدا ہوجائے توا سے تجارت اور کا ردبار کرنے کی اجازت دے دینا جائز ہے۔ اس لیے کہ ابتلاء یعنی پرکھ کی یہی صورت ہے کہ مال کی حفاظت اور مالی تصرنات میں اس کے علم اور سمجھ کی جانچ کی جائیا ور اس کی حالت معلوم کی جائے اور جب اسے اس طرح کے کام کے لیے کہاجائے گا تو گویا اسے تجارت کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم بچے کو تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت دینے کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنفیہ۔ ابویوسف، محمد، زفر، حسن بن زیادہ اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر نابا (رح) لغ میں خریدوفروخت کی سوجھ بوجھ ہے تو باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے تجارت کرنے کی اجازت دے دے۔ اسی طرح باپ کی طرف سے مقررکردہ وصی یا باپ کا وصی نہ ہونے کی صورت میں دادا کی طرف سے مقررکردہ وصی بھی اس قسم کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس نابالغ کی حیثیت اس غلام کی طرح ہوگی جسے آقا کی طرف سے تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت مل گئی ہو، ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ میرے خیال میں بچے کے باپ اور دصی کی طرف سے تجار ت کی اجازت مل جانا جائز نہیں ہے اور اگر اس سلسلے میں اس پر قرض چڑھ جائے تو بچے کے ذمے کسی قسم کی کوئی رقم عائد نہیں ہوگی۔ ربیع نے اپنی کتاب میں اقرار کے باب میں امام شافعی سے روایت نقل کی ہے کہ بچہ اگر اللہ یا کسی انسان کے حق یا کسی مالی یا غیر مالی حق کا اقرارکرے گا تو اس کا یہ اقرار ساقط ہوگا خواہ اسے باپ یا کسی ولی یاحاکم کی طرف سے تجارت کی اجازت ملی ہوحاکم کے لیے جائز نہیں کہ وہ بچے کو اس کی اجازت دے دے اگر اس نے ایسا کرلیا توحاکم کی طرف سے بچے کا اقرارساقط سمجھا جائے گا اسی طرح اس کی خریدوفروخت بھی منسوخ سمجھی جائے گی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت، تجارت کے لیئے اسے اجازت دے دینے کے جو ارپردلالت کررہا ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے کہ (وابتلوالیتامی) ابتلاء کا مفہوم یہی ہے کہ ان کی عقلمندی، ان کی دینداری اور تصرفات میں ان کے جزم واحتیاط کی آزمائش کی جائے۔ اس لفظ کا مفہوم ان تمام وجوہ کے لیے عام ہے اور جب لفظ میں عموم کا احتمال ہو تو اس کے خلاف چلتے ہوئے کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس آزمائش کو کسی کے لیے مخصوص کردے۔ بیع وشراء میں اس کی سوجھ بوجھ، نیز اپنے معاملات کو قابوں میں رکھنے کی صلاحیت اور اپنے مال کی حفاظت کے سلسلے میں اس کے احوال کی پرکھ۔ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اسے تجارت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اب جس شخص نے ابتلاء کے مفہوم کو صرف گفتگو کے ذریعے عقلی پرکھ تک محدودرکھا ہے اور تجارت میں اس کی کارکردگی اور مال کی حفاظت وغیرہ کا لحاظ نہیں کیا اس نے گویا دلیل کے بغیر لفظ کے عموم کو خاص کردیا۔ اگریہ کہاجائے کہ ترتیب تلاوت میں قول باری (فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ نابالغ ہونے کی حالت میں مالی تصرف کی اجازت نہیں ملنی چاہیئے۔ آیت میں یہ اذن مراد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توبالغ ہونے اور سمجھ بوجھ نیزاہلیت کے آثارظاہر ہونے کے بعد مال حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر تجارت کے سلسلے میں بالغ ہونے سے پہلے اجازت دینے کا جوازہوتاتومال بھی حوالے کردینے کا جواز ہوتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے بالغ ہونے اور اہلیت ظاہر ہونے کے بعد مال حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ تجارت کی اجازت کا مال حوالے کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ اذن کا مفہوم تو یہ ہے کہ اسے خریدوفروخت کے لیے کہاجائے اور یہ بات اسے مال حوالے کیئے بغیر بھی ممکن ہے جس طرح کہ غلام کو کوئی مال دیئے بغیر تجارت اور خریدوفروخت کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں آیت میں اسے پرکھنے اور آزمانے کا حکم ہے اور آزمائش کی ایک صورت بھی ہے کہ مال حوالے کیئے بغیر اسے تجارت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ پھر اس کے بعد جب بالغ ہوجائے اور ایلبت کے آثار ظاہرہوجائیں تو اس کا مال اس کے حوالے کردیاجائے۔ اگر آزمائش بیع وشری میں تصرف کی اجازت کے ذریعے پرکھ کا تقاضانہ کرتی اور اس سے مراد صرف اس کی عقل اور سمجھ کی پرکھ ہوتی، معاملات کے بارے میں اس کی والشمندی اور گرفت کی حالت کا صحیح اندازہ لگانانہ ہوتاتو پھر بلوغت سے قبل ابتلاء یعنی آزمائش کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ لیکن جب بلوغت سے پہلے ہی اسے آزمانے اور اس کی پرکھ کا ہمیں حکم دیا گیا تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد معاملات میں اس کے تصرفات کی آزمائش ہے نیز اس کی عقل کی صحت کی پرکھ اس بات کا پتہ نہیں دے سکتی کہ اپنے معاملات پر اس کی گرفت مضبوط ہے، اپنے مال کی حفاظت بھی کرسکتا ہے اور خرید و فروخت کے متعلق اس کا علم بھی درست ہے اور یہ بات اپنے مال کی حفاظت بھی کرسکتا ہے اور خریدوفروخت کے متعلق اس کا علم بھی درست ہے اور یہ بات تو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کی حفاظت اور تصرفات کے متعلق اس کے علم کے سلسلے میں اس کے حالات کا جائز ہ لینے کا حکم ایک احتیاطی تدبیر کے طورپر دیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ بلوغت سے قبل جس آزمائش کا حکم دیا گیا ہے وہ ان ہی باتوں کے حکم پر مشتمل ہو۔ صرف اس کی عقلی آزمائش کے حکم پر مشتمل نہ ہو۔ نیز بلوغت سے قبل اگر ا سے تجارت کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ اس پر اس کی پابندی تھی تو پھر اس پہلو سے اس کی آزمائش ساقط رہے گی۔ اب بلوغت کے بعد اس کی اہلیت اور سمجھ بوجھ کا اندازہ لگانے کے لیے ہمارا ذریعہ یہ ہوگا کہ ہم یاتوا سے تجارت کی اجازت دے کر اس کی آزمائش کریں گے یا اس کے بغیر ایسا کریں گے۔ اگرپہلی صورت اختیار کی جائے گی تو پھر معترض کے نزدیک اسے تصرف کی اجازت مل جائے گی۔ حالانکہ معترض بلوغت کے بعد بھی سمجھ بوجھ اور اہلیت کے آثارمعلوم ہونے تک اس پر پابندی کا قائل ہے۔ جب بلوغت کے بعد پابندی کی حالت میں اسے تجارت کی اجازت مل سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجازت دے کرمعترض نے اسے پابندی کی حالت سے باہرنکال لیاجب کہ حقیقت میں اس پر پابندی لگی ہوئی ہے اور بلوغت کے بعد بھی اسے اس کے مال سے دوررکھا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اسے اجازت بھی ملی ہوئی ہے تو اس صورتحال کے تحت معترض سے یہ پوچھاجا سکتا ہے کہ آپ نے بلوغت سے قبل اس کی حالت کا جائز ہ لینے کی خاطر اسے تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جس طرح بلوغت کے بعد اہلیت کے آثارنظرآنے تک پابندی کے باوجود اس کی حالت کا جائزہ لینے کی خاطر آپ نے اس کی اجازت دے دی ہے۔ اب اگر بلوغت کے بعد بھی تجارت وغیرہ کی اجازت دے کر اس کی حالت کا اندازہ لگایا جائے تو پھر اس کی اہلیت کا پتہ لگانے کا اور کیا ذریعہ ہوگا اس لیے معترض کے اعتراض کی وجہ سے دو باتوں میں سے ایک لازم آتی ہے یاتوآزمائش اور پرکھ کا ترک لازم آتا ہے یا اہلیت معلوم کرنے سے پہلے ہی مال حوالے کردینا لازم آتا ہے۔ تجارت کے لیئے نابالغ کو اجازت دینے کے جواز پر حضور ﷺ کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے۔ جس حضرت ام سلمہ ؓ کے نابالغ بیٹے عمربن ابی سلمہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کا نکاح آپ سے کرادیں۔ عبداللہ بن شدادنے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے سلمہ بن ابی سلمہ کو اس کا حکم دیا تھا۔ جبکہ ابھی وہ نابالغ تھے اس روایت میں خریدوفروخت سے متعلق اس تصرف کے اجازت کی دلیل ہے جس میں کام اگرچہ یہ کرتاہو لیکن اس کا کنڑول کسی اور کے ہاتھ میں ہو آپ نہیں دیکھتے کہ روایت اس بات کی متقاضی ہے کہ باپ اگر نابالغ بیٹے کے لیے کوئی غلام خریدنایا اپنا کوئی غلام فروخت کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے وکیل بناکریہ کام اس کے سپرد کردینا جائز ہے، تجارت کے لیے اجازت کا مفہوم بھی یہی ہے۔ جن لوگوں نے قول باری (وابتلوالیتامی) کا مفہوم یہ لیا ہے کہ ان کی عقل ومہم اور دینداری کی جانچ کی جائے تو یہ جان لینا چاہیے کہ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ مال حوالے کرنے کے سلسلے میں دینداری کا اعتبارضروری نہیں ہے اس لیے کہ یتیم اگر ایک فاسق وفاجرشخص ہو، لیکن اسے معاملات پر پوری گرفت ہو۔ اور تجارتی طریقوں میں قصرفات کا اسے علم ہو تو اس کے فسق وفجور کی بناء پر اس کا مال حوالے نہ کرنا جائز نہیں ہوگا اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس معاملے میں دینداری کا اعتبار ضروری نہیں۔ دوسری طرف اگر ایک یتیم دیند ار اورصالح ہو لیکن اپنے مال کا پوری طرح تحقط کرنے کا اہل نہ ہو اورہمیشہ لین دین میں دوسروں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتا ہوتوای سے شخص کو ان لوگوں کے نزدیک مال حوالے نہیں کیا جائے گا جو عقل کی کمی اور قلت ضبط کی بناپر پابندی لگانے کے قائل ہیں۔ اس سے ہمیں یہ چیزمعلوم ہوگئی کہ اس معاملے میں دینداری کا اعتبار ایک بےمعنی بات ہے۔ قول باری ہے (حتی اذابلغوانکاح) حضرت ابن عباس ؓ مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد حلم ہے جا کا مفہوم نکاح کی حالت کو پہنچ جانا ہے یعنی اختلام کا آجانا ہے قول باری (فان انستم منھم رشدا) کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے : اگر تمھیں ان کے اندراس چیزکاعلم ہوجائے۔ ایک قول میں ہے کہ ایناس کے اصل معنی احساس کے ہیں یعنی تم ان میں سمجھ بوجھ اور اہلیت کا احساس کرلو۔ اس معنی کی حکایت خلیل نحوی سے کی گئی ہے۔ قول باری ہے (انی انست نارا، میں نے آگ دیکھی ہے) یعنی میں نے اگ کا وجود محسوس کرلیا اور اسے دیکھ لیا ہے۔ یہاں ، رشد، کے معنی میں اختلاف رائے ہے ابن عباس ؓ اور سدی کا قول ہے کہ عقل دفہم اور حفظ مال کی اہلیت کو رشدکہتے ہیں۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے عقل وفہم اور دین کی اہلیت کا نام رشد ہے۔ ابراہیم نخعی اور مجاہدنے کہا ہے کہ اس سے مراد عقل ہے۔ سماک نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے قول باری (فان انستم منھم رشدا) کی تفسیر میں فرمایا کہ جب اس میں بردباری، عقلمندی اور وقار کی کیفیت پختہ ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب رشد کے اسم کا اطلاق ان لوگوں کی تاویل کی بناپرعقل پر ہوتا ہے۔ جنہوں نے اس کے یہی معنی لیئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفع نقصان اور برے بھلے میں امتیاز کرنے والی سمجھ بوجھ اور عقلمندی کی شرط لگائی ہے ہر قسم کی سمجھ بوجھ اور ہوشیاری کی شرطہ نہیں لگائی تو اس لفظ کا ظاہراس کا متقاضی ہے کہ عقل کے وجود کی بناپر اس صفت کا یتیم میں پیدا ہوجانا، مال اس کے حوالے کرنے کا موجب اور اس پر پابندی لگانے سے مانع ہے۔ اس سے ایک عاقل، بالغ اور آزادانسان پر پابندی لگانے کے بطلان کی وجہ بھی نکلتی ہے۔ ابراہیم نخعی، محمد بن سیرین اور امام ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔ اس کی وضاحت ہم نے سورة بقرہ میں کردی ہے۔ قول باری (فادفعوالیھم اموالھم، ان کے اموال ان کے حوالے کردو) بلوغت کے بعد سمجھ بوجھ کے آثارظاہرہونے پر ان کا مال ان کے حوالے کردینے کے وجوب کا متقاضی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اس کی نظریہ قول باری ہے (واتوا الیتامی اموالھم) رشد کی یہ شرط یہاں بھی معتب رہے۔ تقدیرکلام اس طرح ہے۔ جب یتیم بالغ ہوجائیں اور تم ان میں اہلیت کے آثار محسوس کرلوتوان کے اموال ان کے حوالے کردو۔ قول باری ہے (ولاتاکلوھا اسرافاوبدارا ان یکبروا، ایسانہ کرنا کہ حدانصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھاجاؤ کہ وہ بڑے ہوکر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے) ، سرف، کا مفہوم مباح کی حد سے تجاوزکرکے محفور یعنی غیرمباح کی حد میں داخل ہوجانا ہے بعض دفعہ ، سرف، تفریط کی صورت میں پایاجاتا ہے اور بعض دفعہ افراط کی شکل میں کیونکہ ان دونوں حالتوں میں جائز اور مباح کی حد سے تجاوزہوتا ہے۔ قول باری (وبدارا) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس، قتادہ، حسن اور سدی کا قول ہے کہ اس کے معنی مبادرت کے ہیں اور مبادرت کسی کام میں تیزی دکھانے کو کہتے ہیں اس لیے تقدیر کلام یہ ہے کہ ان کا مال اس خوف سے جلدی جلدی کھاجانے سے روکاگیا ہے کہ وہ برے ہوکر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ جب یتیم بڑے ہونے کی حدکوپہنچ جائے تو عاقل ہونے کی شرط کے ساتھ وہ اپنے مال کا حق دارہوجائے گا اور اہلیت کے پائے جائے کی کوئی شرط نہیں لگائی جائے گی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ اور اہلیت کی شرط کا تعلق بلوغت کے بعد کے زمانے سے ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (ولاتاکلوھا اسرافاوبدارا) سے یہ واضح فرمادیا کہ جب یتیم بڑا ہونے کی حدکوپہنچ جائے تو پھر اس کا مال اس سے روک رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اگر یہ مفہوم نہ لیاجائے تو پھر لفظ، کبر، یعنی بڑا ہوجانے، کا ذکریہاں بےمعنی ہوگا۔ اس لیے کہ بڑے ہونے کی حدکوپہنچنے سے پہلے اور پہنچنے کے بعد اس کا ولی ہی اس کے مال کا مستحق تھا۔ اب یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب وہ بڑے ہونے کی حدکو پہنچ جائے تو مال حوالے کردیئے جانے کا حقدارہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے بڑے ہونے کی حدپچیس برس مقرر کی ہے۔ اس لیے کہ اس عمرکوپہنچ جانے والا شخص عام طورپر سنجیدہ اور سمجھدارہوجاتا ہے اور یہ بات محال ہے کہ ایک شخص سنجیدہ اور سمجھدارہو اوربڑوں کی حد اور ان کے درجے تک نہ پہنچ پائے۔ واللہ اعلم۔ یتیم کے ولی کا اس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا یتیم ہمدردی کا مستحق ہے ارشادباری ہے (ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرافلیا کل بالمعروف، یتیم کا جو سرپرست مالدارہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی تاویل وتفسیر میں سلف کا اختلاف ہے۔ معمرنے زہری سے اور انہوں نے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ میری سرپرستی میں کچھ یتیم بچے ہیں جن کے مال مویشی بھی ہیں ۔ کیا مجھے ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے ؟ آپ نے اس سے پوچھا، کیا تم ان میں سے جو مویشی خارش زوہ ہیں ان کی خارش دور کرنے کے لیے قطران کی مالش کرتے ہو ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا پھر پوچھا کیا جوجانوربھٹک کر گم ہوجائے اس کی تم تلاش کرتے ہو ؟ اس نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ پھر فرمایا کیا تم ان کے پانی کے حوضوں کو مٹی سے لیپتے بھی ہو ؟ اس نے پھر ہاں کہا۔ آپ نے پھر سوال کیا، کیا تم پانی کی باری کے دن ان سے پہلے گھاٹ پر پہنچ جاتے ہو ؟ اس نے اس کا بھی اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا ک، پھر ان کادودھ پی لیا کروالبتہ ان کے تھنوں سے سارادودھ نہ نکالو اورتھن سے خود بخود نکلنے والے دودھ کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ شیبانی نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ وصی کو جب ضرورت پیش آئے ان یتیموں کے ہاتھ کے ساتھ اپناہاتھ بھی دڈال دے (یعنی ان کے ساتھ مل کر کھاپی لے) لیکن وہ پگڑی باندھ نہیں سکتا (یعنی ان کے ساتھ کھاپی تو سکتا ہے۔ لیکن ان کالباس اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا) پہلی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے کھاپی لینے کی اباحت کے لیے۔ یتیم کے مال مویشیوں کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت کی شرط لگائی ہے۔ لیکن عکرمہ کی روایت میں ایسی کوئی شرط بیان نہیں کی۔ ابن لھیعہ نے یزیدبن ابی حبیب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے کچھ انصار صحابہ کرام سے قول باری (ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرافلیاکل بالمعروف) کے متعلق استفسار کیا تھا، ان حضرات نے جواب میں فرمایا تھا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اگر وصی یتیم کے کھجور کے درختوں کی دیکھ بھال کرتاتو اس کا ہاتھ یتیم کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا یعنی وہ بھی ان درختوں کے پھلوں کے استعمال میں یتیم کے ساتھ شریک ہوجاتا۔ درج بالاروایت پر سند کے اعتبار سے تنقید کی گئی ہے۔ نیز یہ روایت اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ اگر کھاپی لینے کی اباحت دیکھ بھال اور خدمت کی وجہ سے ہے تو اس لحاظ سے غنی اور فقیہ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ جبکہ آیت میں ان دونوں میں فرق رکھاگیا ہے۔ ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ تاویل باطل وساقط ہے۔ نیز حضرت ابن عباس ؓ سے منقول روایت میں کھاپی لینے کی اباحت ہے، پگڑی باندھنے کی اجاز ت نہیں ہے یا اب اگر ولی یادصی کام کرے اور اپنا وقت لگانے کی بناپر اس کا حق دارقرارپاتاتو پھر ماکول اور ملبوس کے حکم میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ بہرحال آیت کی تاویل کی یہ ایک صورت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ولی جب یتیم کے مال مویشیوں کے لیے کام کاج کرے گا تو وہ صرف کھانے پینے کی حدتک ان سے فائدہ اٹھائے گا۔ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ولی یتیم سے قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرے گا اور اس کا قرض اداکرے گا۔ شریک نے ابواسحاق سے انہوں نے حارثہ ابن مضرب سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ، میں نے اللہ تعالیٰ کے مال کو اپنے لیے یتیم کے مال کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ اگر مجھے گنجائش ہوگی تو اس سے پرہیز کروں گا۔ اور اگر تنگدستی کی بناپر مجھے اس کی ضرورت ہوگی تو معروف طریقے سے اس میں سے لے کر کھاؤں گا اور پھر اس کی ادائیگی کردوں گا۔ عبیدہ سلمانی اور سعیدبن جبیرنیز ابوالعالیہ، ابو وائل اور مجاہد سے یہی بات مروی ہے۔ کہ یتیم کا ولی ضرورت کے وقت اس کے مال میں سے بطورقرض لے گا اور پھر گنجائش ہونے پر اس کی ادائیگی کردے گا۔ ایک تیسراقول بھی ہے جوحسن، عطابن ابی رباح، ابراہیم نخعی اور مکحول سے مروی ہے کہ وہ اس کے مال میں سے بس اسی قدرلے گا جس سے وہ اپنی بھوک دور کرسکے اور اپنابدن ڈھانک سکے پھر گنجائش ہونے پر وہ اس کی ادائیگی نہیں کرے گا۔ چوتھاقول جس کے قائل شعبی ہیں یہ ہے کہ ولی کے لیے اس کے مال کی حیثیت دہی ہوگی جو مردار کی ہے، یعنی ضرورت پڑنے پر ہی وہ اسے ہاتھ لگائے، پھر اگرا سے گنجائش دکشایش حاصل ہوجائے گی تو اس کی ادائیگی کردے گ اورنہ اس پر اس کی واپسی کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ پانچویں قول کی روایت مقسم نے حضرت ابن عباس ؓ سے کی ہے کہ قول باری (فلیستعفف) کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اس سے بےپرداہ رہے یعنی اس کے مال کی طرف نظرنہ کرے اور (ومن کان فقیرافلیاکل بالمعروف، کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر اپنا ہی مال خرچ کرتا رہے تاکہ یتیم کے مال کو ہاتھ لگانے کی اسے ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے، انہیں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں منجاب بن الحارث نے ، انہیں ابوعامراسدی نے، انہیں سفیان نے اعمش سے، انہوں نے حکم سے، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اسی مفہوم کی روایت کی عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ولی یتیم کے مال میں سے صرف کرے گا اور پھر بعد میں اس کی ادائیگی کردے گا، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مجاہد نے ایک اور روایت میں کہا ہے کہ ولی اپنے ذاتی مال میں سے معروف طریقے سے اپنے اوپر خرچ کرتا رہے گا۔ اور اسے یتیم کے مال کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی حکم کا بھی قول ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سلف کے اختلاف رائے کی یہ صورتیں جو اوپربیان ہوئیں۔ اس سلسلے میں چاررائتیں وار ہوئیں۔ جیسا کہ ہم ذکرکرآئے ہیں۔ پہلی روایت تو یہ ہے کہ اگر ولی یتیم کے مملوکہ اونٹوں اور موشیوں کی دیکھ بھال کرے گا اور ان کی خدمت میں اپنا وقت لگائے گا تو وہ ان کا دودھ پی سکے گا۔ دوسری روایت میں وہ یتیم کا مال اپنی ذات پر خرچ کرنے کی صورت میں اس کی ادائیگی کرے گا، تیسری روایت میں وہ یتیم کے مال میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا۔ بلکہ اپنیء مال میں سے اس طرح سنبھال سنبھال کر خرچ کرے گا کہ اسے یتیم کے مال کو ہاتھ لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ چوتھی روایت میں اس حکم کو منسوخ کہاگیا ہے۔ ہمارے اصحاب کاس سلسلے میں جو مسلک ہم تک منقول ہوا ہے اس کے مطابق ولی خواہ غنی ہو یا فقیریتیم کے مال میں سے نہ بطورقرض کچھ لے گا اور نہ ہی کسی اور طریقے سے کچھ حاصل کرے گا، نہ ہی اس کے مال میں سے کسی اور کو کوئی قرضہ وغیرہ دے گا۔ اسماعیل بن سالم نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے توہم وصی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ وہ یتیم کے مال میں سے قرض لے یا کسی اور طریقے سے کچھ کھائے ۔ اس مسئلے میں ہمارے اصحاب کا کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ امام محمد نے، کتاب الاثار میں امام ابوحنیفہ سے، انہوں نے ایک شخص سے، اس نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ وصی یتیم کے مال میں سے قرض لے کریا کوئی اور صورت اختیارکرکے کچھ نہیں کھائے گا۔ اس روایت کے ذکرکے بعد امام محمد نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ طحاوی نے امام ابوحنیفہ کا یہ مسلک بیان کیا ہے کہ ولی یاوصی کو جب ضرورت پڑجائے یتیم کے مال میں سے قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرے اور پھر یہ قرض واپس کردے جیسا کہ حضرت عمر ؓ اور آپ کے ہم خیال اصحاب سے یہی منقول ہے ۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے نقل کیا ہے کہ ولی جب تک اقامت کی حالت میں ہوگا اس وقت تک وہ اس کے مال کو ہاتھ نہیں لگائے گا، البتہ جب وہ یتیم کے دیئے ہوئے قرضوں کی وصولی یا اس کی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے نکلے گا تو اس کے لیے اس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا، اس کے جانورپر سواری کرنا ورکپڑے پہن لینا جائز ہوگا۔ پھر جب وہ واپس ہوگا تو کپڑے اوسواری یتیم کو واپس کردے گا۔ بشربن الولید نے مزید کہا کہ امام ابویوسف نے قول باری (فلیاکل بالمعروف) کے متعلق فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم قول باری (ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) کی وجہ سے منسوخ ہوچکاہو۔ ؟ یتیم کا سرپرست عادل اور امین ہونا چاہیے ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ امام ابویوسف نے وصی کو درج بالا صورتوں میں مضارب کی طرح قراردیا ہے کہ وہ بھی سفر کی حالت میں سرمایہ لگانے والی کے مال میں سے اپنی ذات پر خرچ کرسکتا ہے۔ ابن عبدالحکم نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس شخص کی سرپرستی میں کوئی یتیم ہو اور اس نے اس کے اخراجات کو اپنے مال کے ساتھ ملالیاہو، تواگریتیم کے اخراجات ولی کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو پھر اس کا مال اپنے مال کے ساتھ ملالینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یتیم کے مال میں بچت ہو یعنی اس کے اخراجات کم ہوں تو پھر وہ اسے اپنے مال کے ساتھ نہ ملائے۔ امام مالک نے غنی اور فقیر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ المعانی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ یتیم کے ولی کے لیے یتیم کے کھانے میں سے کھالینا جائز ہے تاہم ولی اس کے بدل کے طورپریتیم کو ضرور کچھ دے گا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ثوری کے نزدیک یتیم کے مال میں سے کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھائے اگرچہ اس سے یتیم کو کوئی نقصان بھی نہ پہنچتاہو، مثلا یتیم کی مملوکہ تختی پر وہ کچھ لکھنے کی مشق کرے وغیرہ حسن بن حی کا قول ہے کہ ولی کو جب ضرورت پیش آئے وہ یتیم کے مال میں سے قرض لے سکتا ہے پھر وہ اسے یہ قرض واپس کردے۔ نیز یتیم کے مال میں سے وصی کو اپنے کام اور دوڑدھوپ کی مقدار کھالینے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس سے یتیم بچے کا کوئی نقصان نہ ہو۔ ایک اہم نقطہ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واتوالیتامی اموالھم ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم انہ کان حوباکبیرا) نیز فرمایا (فان الستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالم ولا تاکلوھا اسرافاو بدا ان یکبروا) نیز فرمایا (ولاتقم بوامالالیتم الابالتیھی احسن حتی یبلغ اشدہ) نیز فرمایا (وان تقومواللیتامی بالقسط) ایکجگہ ارشادہوا (ولاتاکلواموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) یہ تمام آیات محکم ہیں یعنی ان میں سے کوئی بھی متشابہ یا منسوخ نہیں۔ ان سب کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ ولی خواہ غنی ہو یا فقیر یتیم کا مال کھانا اس کے لیے ممنوع ہے اور قول باری (ومن کا فقیرا فلیاکل بالمعروف) ایک متشابہ آیت ہے جس میں ان تمام وجوہ کا احتمال ہے جو ہم سابقہ سطور میں بیان کر آئے ہیں اس لیے اس آیت کی تاویل کا احسن طریقہ ہے کہ اسے محکم آیات کے موافق مفہوم پر محمول کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ ولی معروف طریقے سے اپناذاتی مال اپنے اوپر اس طریقے سے خرچ کرتا رہے کہ اسے یتیم کے مال کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں متشابہ آیات کو محکم آیات کی طرف لوٹا نے کا حکم دیا ہے۔ نیز ہمیں ایساکیئے بغیرمتابہ آیات کی اتباع سے منع فرمایا ہے چناچہ قول باری ہے (منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشا بھات، فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ) اب زیربحث آیت کی تاویل میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سے یتیم کے مال کو بطورقرض یابطور غیرقرض لینے کا جوازثابت ہوتا ہے۔ ان کی یہ تاویل محکم کے مخالف ہے جن لوگوں نے درج بالا تاویل کے علاوہ دوسری تاویل کی ہے انہوں نے اس متشابہ آیت کو محکم آیات کی طرف لوٹاکرا سے ان کے معانی پر محمول گیا ہے۔ اس لیے یہ تاویل اولی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ قول باری (فلیاکل بالمعروف) منسوخ ہے اس کی روایت حسن بن ابی الحسن بن عطیہ نے عطیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا اس آیت کو بعد میں آنے والی آیت (ان الذین یاکلون اموال الیتامی) نے منسوخ کردیا ہے۔ عثمان بن عطاء نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اسی طرح کی روایت کی ہے عیسیٰ بن عبید الکندی نے عبیداللہ سے، انہوں نے ضحاک بن مزاحم سے قول باری (ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف) کے متعلق روایت کی ہے کہ یہ آیت قول باری (ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما) کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک سوال کا جواب اگریہ کہاجائے کہ عمروبن شعیب نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میرے پاس کوئی مال نہیں اور سرپرستی میں ایک یتیم پرورش پارہا ہے، اس پر آپ نے فرمایا (کل من مال یتیمک غیرمسرف ولامتاثل مالک بمالہ، تمہاری سرپرستی میں جو یتیم ہے اس کے مال میں سے تم کھالوبشرطی کہ تم اسراف نہ کرو اورنہ ہی اپنامال اس کے مال کے ساتھ ملاؤ) عمروبن دینار نے حسن عوفی سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ یتیم کا ولی اس کے مال میں سے معروف طریقے سے کھائے گا اور مال یکجا نہیں کرے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں روایات کے ذریعے ہماری ان مذکورہ آیات پر اعتراض درست نہیں ہے۔ جو یتیم کے مال کے متعلق ممانعت کا تقاضا کرتی ہیں۔ اگر یہ درست بھی ہوجائے توا سے اس صورت پر محمول کیا جائے گا جو جائز ہے اور وہ یہ کہ ولی یتیم کے مال میں مضاربت کی بنیاد پر کام کرے گا اور اپنے منافع کی مقدار اس میں سے لے لے گا یہ صورت ہمارے نزدیک جائز ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ایک اور سوال کا جواب اگریہ کہاجائے کہ یتیم کے مال مضاربت کی بنیادپر کام کرکے اگر منافع لینا جائز ہے تو پھر اس کے مال میں کام کرکے کھاناکیوں جائز نہیں ہوگاجیسا کہ حضرت ابن عباس سے ایک روایت کی رو سے اگر ولی یتیم کے خارشتی اونٹوں پر قطران کی مالش کرتاہو، گمشدہ اونٹ کی تلاش میں جاتاہو اور ان کے پانی کے حوضوں کو مٹی سے لیتا ہو، تو اس کے لیے ان اونٹوں کادورھ پینا جائز ہے، بشرطیکہ ان کے تھنوں سے سارادودھ نہ نکال لے اور نہ ہی خود بخود نکلنے والے دودھ کو نقصان پہنچائے یا جس طرح حسن سے روایت ہے کہ وصی اگر یتیم کے مملوکہ کھجور کے درختوں کی دیکھ بھال میں کام کرے گا، تو اس کا ہاتھ بھی یتیم کے ہاتھ کے ساتھ ہوگا یعنی وہ بھی یتیم کے ساتھ مل کر ان درختوں کا پھل کھاسکے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ وصی جب اونٹوں کی دیکھ بھال یا درختوں کی نگرانی میں ہاتھ بٹائے گا تو دوصورتوں میں سے ایک صورت ہوگی یا تو وہ یتیم کے مال میں سے اپنے کام کی اجرت کے طورپر کچھ لے گایا اجرت اور معاوضہ کے علاوہ کسی اور وجہ کی بناپروہ ایسا کرے گا۔ اگروہ پہلی صورت اختیارکرے گا تو اس کے لیے ایسا کرنا چاروجوہ سے فاسدہوگا۔ اول یہ کہ جن لوگوں نے اجرت کے طورپر کچھ لینے کو مباح قراردیا ہے انہوں نے ولی کی غربت کی حالت میں اس کی اجازت دی ہے کیونکہ مالداری کی حالت میں اس کے عدم جواز پر سب کا اتفاق ہے۔ نص سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ قول باری ہے۔ (ومن کان غنیا فلیستعفف) اور اجرت کے استحقاق کے لحاظ سے مالدار اورفقیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بناپرا سے اجرت کا نام دیناباطل ہوگیا۔ دوم یہ کہ وصی کو یہ جائز نہیں کہ وہ یتیم کے لیے اپنی ذات کو کرایہ پرلے کر اس کا مزدوربن جائے۔ سوم یہ کہ جن حضرات نے ولی کے لیے اس چیز کو مباح قراردیا ہے انہوں نے اس کے لیے کسی معین اور معلوم چیز کی شرط نہیں لگائی ہے، جبکہ اجارہ اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس میں اجرت کا تعین نہیں کیا جاتا۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ولی کے لیے اس چیزکومباح قراردیتے ہیں انہوں نے اسے اجرت کا نام نہیں دیا ہے۔ اس لیے اس کا اجرت ہوناباطل ہوگیا۔ اگروصی یتیم کے مال میں کام کرکے کچھ لے توا سے مضاربت میں منافع کی حیثیت بھی نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کہ یتیم کے مال میں سے وہ جس منافع کا مستحق ہوگا وہ کبھی یتیم کا مال تھا ہی نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مضاربت میں رب المال یعنی سرمایہ کا رمضارب یعنی کارندہ کے لیے جس منافع کی شرط لگاتا ہے۔ وہ کبھی اس کی ملکیت میں نہیں ہوتا۔ اگر یہ رب المال کی ملکیت ہوتا اور مضارب کے تگ ودو اورکام کے بدل کے طورپر مشروط ہوتاتو پھر اس صورت میں اس کا رب المال کی ضمانت کے تحت ہوناضروری ہوتا۔ جس طرح کہ اجارہ میں اجرت کا استحقاق کرایہ پر لینے والے یعنی مستاجر کے مال میں سے مزدور کے کام کے بدل کے طورپرمستاجر کی ضمانت کے تحت ہوتا ہے اب جبکہ مضارب کے لیے شرط کیا ہوا منافع رب المال کی ضمانت کے تحت نہیں ہوتاتو اس سے ثابت ہوا کہ یہ منافع کبھی رب المال کی ملکیت میں نہیں تھا بلکہ یہ مضارب کی ملکیت کے تحت وقوع پذیرہوا ہے اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک مریض اپنا مال مضاربت پردے کر منافع کے دس میں سے نوحصے مضارب کے لیے مقررکردے جبکہ منافع کی نسبت اس جیسی مضاربت کے لحاظ سے زیادہ بھی ہو، تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا۔ اگر مریض اپنی اس بیماری میں مرجائے تومضارب کے لیے مقررکردہ منافع اس کے مال میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اگر مریض کوئی چیز اس سے زائد کرایہ پر لیتا جتنا کہ عام طورپر اس جیسی چیز کا کرایہ ہوتا ہے۔ اور پھر اس کی وفات ہوجاتی تو اس صورت میں یہ زائد رقم اس کے تہائی مال سے ادا کی جاتی۔ اس طرح مضاربت کی صورت میں مقررکردہ منافع کی حیثیت وہ نہیں ہوئی جو اجارہ میں مقررکردہ کرایہ کی تھی اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ولی مضاربت کی بنیاد پر منافع کی صورت میں یتیم کے مال میں سے کچھ لے لینا گویا یتیم کے مال میں سے لینا نہ ہوا۔ ایک اور سوال کا جواب اگریہ کہاجائے کہ ایساکیوں نہیں ہوسکتا کہ اس معاملے میں وصی کو سرکاری کارندوں اور قاضیوں کی طرح سمجھ لیا جائے جو اپنے شعبوں میں کام کرتے اور مسلمانوں کی خدمات سرانجام دینے کی بناپر اپنے اپنے وظائف یاتنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ وصی بھی اسی طرح ہے کہ جب وہ یتیم کے لیے کام کرے گا تو کام کے مطابق تنخواہ یاوظیفہ حاصل کرے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وصی کے لیے مالدار ہونے کی صورت میں یتیم کا کام کرنے کی بناپر اس کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ نص قرآنی نے اس کی ممانعت کردی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے۔ (ومن کان غنیا فلیستعفف) اس کے ساتھ یہ بھی ایک اتفاقی مسئلہ ہے کہ سرکاری کارندے اور قاضی صاحبان مالدارہونے کے باوجودبھی اپنے اپنے کاموں کے معاوضہ کے طورپر وظائف یاتنخواہیں لے سکتے ہیں۔ اگریتیم کے مال میں سے ولی کی لی ہوئی رقم یا چیز کی وہی حیثیت ہوتی جو قاضیوں اور سرکاری کارندوں کی تنخواہوں کی ہے۔ تو پھر مالداری کی حالت میں بھی ولی کو ایسا کرنا جائز ہوتا۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یتیم کا ولی، یتیم کے مال میں کسی وظیفے یاتنخواہ کا حق نہیں رکھتا۔ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قاضی کے لیے بھی یتیم کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ حالانکہ یتیموں کے معاملات کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان تمام لوگوں کے لیئے جو یتیموں کی سرپرستی کا حق رکھتے ہیں، ان کے اموال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے، نہ قرض کی صورت میں اور نہ ہی غیرقرض کی شکل میں جس طرح کہ قاضی بھی ایسا نہیں کرسکتا خواہ وہ امیرہویاغریب۔ ایک اور سوال اور اس کا جواب اگریہ کہاجائے کہ قاضی اور سرکاری کارندے اپنے اپنے کاموں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ اگر یتیم کا ولی یتیم کا کام کرکے بقدرکفایت اس کے مال میں سے کچھ لے لیتا ہے تو ان دونوں صورتوں نیزاجرت لینے کے درمیان کیا فرق ہے ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ وظیفہ یاتنخواہ کسی چیز کی اجرت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقررکردہ چیز ہے جو اس نے مسلمانوں کے امورسرانجام دینے والوں کے لیے متعین کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ فقہاء کے لیے وظائف لینا جائز ہے، حالانکہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس پر اجرت لینا جائز ہو۔ اس لیے کہ فتوی نویسی اور لوگوں کو فقہ سے آگاہ کرنے میں ان کی مشغولیت ایک فرض ہے اور کسی کے لیے فرض کام کرکے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ۔ اسی طرح میدان جنگ میں جانے والے مجاہدین اور ان کے اہل وعیال کو وظائف دیئے جاتے ہیں حالانکہ یہ اجرت نہیں ہوتی، یہی صورت حال خلفاء کے وظائف کی بھی ہے۔ حضور ﷺ مال غنیمت کے، خمس، نیز، فی، میں سے ایک ایک حصہ لیتے تھے اور غزوہ میں شریک ہونے کی صورت میں مال غنیمت میں سے بھی آپ کو ایک حصہ ملتا تھا۔ اب کسی کے لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضور ﷺ دینی امور کی انجام دہی پر اجرت لیتے تھے۔ کسی کے لیے یہ کہنا کیسے جائز ہوگا، جبکہ فرمان الٰہی ہے (قل مااسئلکم علیہ من اجر وماانامن المتکلفین، آپ کہہ دیجئے کہ میں اس معاملے میں کسی اجرت کا طلب گار نہیں ہوں۔ اور نہ ہی میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں) نیز فرمایا (قل لااسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربی، کہہ دیں کہ میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا، ہاں رشتہ داری کی محبت ہو) اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ رزق یعنی وظائف یاتنخواہیں، اجرت نہیں ہوتیں۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ فقراء، مساکین اور یتیموں کے لیے بعض دفعہ بیت المال پر حقوق واجب ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ان حقوق کو کسی چیز کے بدل کے طورپر نہیں لیتے۔ اس لیے ضی نیز دینی کام سرانجام دینے والے کسی بھی شخص کے لیے اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ قاضی کو توتحفہ اور ہدیہ وصول کرنے سے بھی روک دیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے قول باری (اکالولناللسحت، بڑے حرام خور ہیں) کے متعلق دریافت کیا گیا کہ اس کے معنی رشوت کے ہیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا : نہیں رشوت توکف رہے اس سے مراد وہ تحائف وہدایا ہیں جو سرکاری کارندے وصول کرتے ہیں حضور ﷺ سے مروی ہے کہ (ھدایا الامراء غلول، حکام کا لوگوں کے تحائف قبول کرنا غلول ہے۔ ) یعنی مال غنیمت میں ہراپھیری کرنے کے مترادف ہے اس لیے قاضی کو قضاء کے سلسلے میں کسی بھی پہلو سے اجرت لینے سے روک دیا گیا ہے۔ اور تحائف قبول کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ اور سلف نے قول باری میں مذکورلفظ، سحت، کے یہی معنی لیئے ہیں۔ اب یتیم کا دلی اس کے مال میں سے اگر کچھ کھالیتا ہے یا تو اجرت کے طورپر لے گایاقاضی اور سرکاری کاندے کے وظیفے کے طورپرلے گا۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ اجرت کسی متعین عمل پر ملتی ہے۔ جس کی مدت بھی معلوم ہو اوراجرت بھی۔ اس میں پہلے سے اجارہ کی طرح کوئی عقد یعنی معاملہ ہونا چاہیے۔ اس میں امیر اورغریب کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اب جو حضرات یتیم کے مال میں سے ولی کے لیے بطورقرض یا غیرقرض کچھ لینا جائز قراردیئے ہیں، ان کے نزدیک اس کی حیثیت اجرت کی نہیں ہے جس کے دلائل کا ہم نے پہلے تذکرہ کردیا ہے نیز اس معاملے میں ان حضرات کے نزدیک مالدار اور فقیر کے درمیان فرق ہوتا ہے اس لیے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اجرت نہیں ہے اور ولی کے لیے اسے اس بنیاد پر لینا جائز نہیں جس پر قاضی اور سرکاری کارندے اپنے اپنے وظائف لیتے ہیں۔ اس لیے کہ اس معاملے میں مالدار اورفقیر دونوں قسموں کے قاضیوں اور کارندوں کا حکم یکساں ہے جبکہ یتیم کے مال میں سے لینے والے ولی کا حکم مالدار اورفقیرہونے کی نسبت سے مختلف ہے جیسا کہ اس کے جواز کے قائلین کا مسلک ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اس قسم کے وظائف بیت المال پر واجب ہوتے ہیں کہ کسی ایک متعین شخص ک مال پر نہیں اس لیے جو شخص قاضی کے بیت المال سے وظیفہ لینے یامزدورک مزدوری وصول کرنے کو یتیم کے مال میں سے اس کے ولی کے کچھ لے لینے کے مشابہ قراردے کر اس کے لیے جواز پیداکرتا ہے۔ وہ دراصل اس تعلیل میں غفلت کا شکار ہے۔ یتیم کے مال میں سے اس کے ولی کے کچھ لینے کے عدم جو ازپرحضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ نے خیبر سے آمدہ مال غنیمت ک موقعہ پر فرمایا تھا (لایحل لی مماافاء اللہ علیکم ھذہ، میرے لیے اس مال میں سے جو اللہ تمہیں غنیمت وغیرہ کی صورت میں عطاکرتا ہے۔ اتنی سی چیز بھی حلال نہیں ہے) یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنی اونٹنی کے کچھ بال دست مبارک میں لے کر اس کی طرف اشارہ فرمایا، پھر کہا (الاالخمس والخمس مردودفیکم۔ سوائے پانچویں حصے کے اور پانچواں حصہ بھی تمہاری طرف ہی لوٹادیاجاتا ہے) اب جبکہ مسلمانوں کے اموال کی سرپرستی اور تولیت میں حضور ﷺ کی کی کیفیت وہ تھی جس کا ذکردرج بالاحدیث میں ہوا۔ توپھریتیم کے مال کی سرپرستی اور تولیت ک لحاظ سے وصی کو بھی اسی صفت اور کیفیت کا حامل ہونا زیادہ مناسب ہے۔ نیز وصیت میں وصی کی شمولیت نیکی کی بنیادپربوجہ اللہ تھی۔ جس میں اجرت کی کوئی شرط نہیں تھی اس لحاظ سے اس کی حیثیت وہی ہوگی جو رضاکارانہ طورپر کسی کا مال کہیں فروخت کرنے لے جائے اس لیے ولی یاوصی کو یتیم کے مال میں سے بطورقرض یاغیرقرض کچھ لیناجائز نہیں ہوگا۔ جس طرح رضاکارانہ طورپرمال لے جانے والے کے لیے جائز نہیں ۔ کوئی بددیانت شخص یتیم کا سرپرست نہیں ہونا چاہیے قول باری ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم، جب تم انہیں ان کے مال حوالے کروتوان پر گواہ بنالو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یتیموں کے بارے میں جو آیتیں گذرچ کی ہیں وہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے متعلق درست طریق کاریہ ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اور ان کے مفادات کے تحفظ کے وائرے میں رہتے ہوئے ان اموال کے تصرف کے سلسلے میں ان کا کوئی ولی اور سرپرست بن جائے۔ ایسا شخص یاتویتیم کے باپ کا وصی ہوگایاباپ کی عدم موجودگی میں داداکاوصی ہوگا یاعادل حاکم کا مقررکردہ کوئی امانت داراہلکار ہوگا، بشرطیکہ وہ خود بھی عادل ہو، اس طرح ہراس شخص کے لیے عادل اور امین ہونے کی شرط ہے جو یتیم کی سرپرستی کے معاملات کا ذمہ داربنایاجائے خواہ وہ باپ ہو یا دادایاوصی یا اور کوئی۔ اس بناپرجوباپ یادادافسق وفجور میں مبتلاہویا اس پر تہمت لگ چکی ہو یا حاکم راشی ہو یا وصی امین کی امانت داری مشکوک ہو تو ایسے لوگوں کو یتیم کا سرپرست بن کر اس پر تصرف کا کوئی حق نہیں ۔ اس مسئلے میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے آپ نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قاضی کا فسق اگر رشوت خوری یا ہواوہوس کی طرف میلان کی وجہ سے ظاہرہوجائے نیز فیصلوں میں عدل وانصاف چھوڑدے تو وہ معزول ہوجاتا ہے۔ اور اس کے فیصلے ناجائز ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جنہیں اس نے یتیموں ک اموال کا سرپرست بنایا ہے۔ کو اہ وہ قاضی ہو یا وصی یا امین یاحاکم۔ ان میں سے کسی کی سرپرستی اور ولایت کا ثبوت عدالت کی شرط اور امانت کی صحت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ گواہ بنانے پر کیوں زوردیاگیا ہے اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اولیاء کو ان کی بلوغت کی بعد مال حوالے کرتے وقت گواہیاں قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں کئی پہلو اوراحکام ہیں اول یہ کہ اس میں یتیم اور اس کے مال کے محافظ اور نگران دونوں کے لیے احتیاط کا پہلو ہے۔ یتیم کے لیے تو اس لیے کہ جب مال پر قبضہ کرلینے کے متعلق گواہیاں قائم ہوجائیں گی تو اس کے لیے ایسی چیز کے دعویداربننے کے امکانات معدوم ہوجائیں گے جو اس کی نہیں ہے اور وصی کے لیے اس لیے کہ پھر یتیم کا یہ دعوی باطل ہوجائے گا کہ وصی نے اللہ کے حکم کے مطابق اسے اس کا مال حوالے نہیں کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بیع وشراء کرتے وقت گواہی قائم کرنے کا حکم بھی فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے احتیاطی تدبیر کے طورپردیا ہے۔ گواہی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ امانت کی واپسی کے سلسلے میں وصی کا دامن پاک ہے اور وہ بری الذمہ ہے اب اس کے صحن میں یتیم کے مال کا کوئی حصہ موجود نہیں۔ عیاض بن حمادمجاشعی کی روایت کردہ حدیث میں حضور ﷺ نے اسی چیز کی خاطر، لقطہ، یعنی گری پڑی چیز کو اٹھالینے والے کو گواہی قائم کرنے کا حکم دیا تھا، آپ کا ارشاد ہے (من وجدلقطۃ فلیشھد ذوی عدل ولایکتم ولایعیب، جس شخص کو کوئی لقطہ مل جائے۔ تو اس پر دوعادل گواہ بنالے، کچھ نہ چھپائے اور نہ ہی اسے عیب دارکرے) آپ نے گواہی قائم کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ متعلقہ شخص کی امانت داری ظاہرہوجائے نیز تہمت کا امکان ختم ہوجائے۔ واللہ اعلم۔ یتیم کا مال اسے حوالے کرنے کے سلسلے میں ولی کے قول کی تصدیق کے متعلق فقہاء کا اختلاف امام ابوحنیفہ، ابویوسف ، محمد، زفر اورحسن بن زیادہ کا قول ہے کہ یتیم کے بالغ ہوجانے پر اگر وصی یہ دعوی کرے کہ اس نے اس کا مال اس کے حوالے کردیا ہے تو اس کے قول کو درست تسلیم کرلیاجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے کہ میں نے یتیم کی نابالغی کی مدت میں اس کا سارامال اس پر ہی صرف کردیا ہے تو اس کی بات مان لی جائے گی، بشرطیکہ اس جیسے پر اتناخرچ اٹھ سکتا ہو، اگر وہ مال کی ہلاکت کا دعوی کرے تو بھی اس کے قول کو مان لیاجائے گا۔ سفیان ثوری سے یہی منقول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ یتیم کو مال حوالے کرنے کے متعلق وصی کے قول کو درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ انہوں نے فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وصی نے مال جس کے حوالے کرنے کا دعوی ہے وہ اس شخص کے علاوہ کوئی اور ہے جس نے اس کے پاس مال بطور امانت رکھوایا تھا اس لیے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جسے کسی شخص تک مال پہنچانے کے لیئے وکیل بنایاگیا ہو وہ مال پہنچانے کا دعوی کرے تو ثبوت یعنی گواہی وغیرہ کے بغیر اس کے مال حوالہ کردینے کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم۔ یتیموں کے مال ومتاع میں انتہائی احتیاط ضروری ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ گواہی قائم کرنے کے حکم میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ وصی کو امین تسلیم نہیں کیا گیا یا اس مقابلے میں وہ قابل تصدیق نہیں ہے۔ اس لیے کہ امانتوں کے سلسلے میں گواہی قائم کرنا ایک مستحسن فعل ہے، جس طرح کہ ضمانتوں کے تحت واقع اشیاء میں یہ ایک پسندیدہ اقدام ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ودیعتوں جیسی امانتوں کی واپسی پر گواہی قائم کرنا اسی طرح درست ہوتا ہے، جس طرح کہ قابل ضمانت اشیاء مثلا دیون وغیرہ کی واپسی پر یہ درست ہوتا ہے۔ اس بناپرگواہ بنانے کے حکم میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ گواہ قائم نہ کرنے کی صورت میں اس معاملے میں اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور اس کا دعوی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اگریہ کہا جائے کہ جب مال کی واپسی کے سلسلے میں وصی کے قول کو درست تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ تو ثبوت یعنی گواہی وغیرہ کے بغیر اس کے دعوے کو قبول کرلینے کے بعد گواہی قائم کرنے کاکیامطلب اور کیا فائد ہ ہے۔ ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جس طرح ہم ذکرکرآئے ہیں۔ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے ایک طرف تو وصی کی امانت داری کا اظہارہوجائے گا اور دوسری طرف شک وشبہ اور تہمت کے امکان کا خاتمہ ہوجائے گا اور پھر کسی کو اسکے بعد وصی پر کسی قسم کے دعوے کا موقعہ نہیں ملے گا۔ اس میں یتیم کے فائدے کا بات بھی ہے کہ وہ ایسا دعوی کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کرے گا جس میں اس کی کذب بیانی ظاہر ہوجاتی ہو۔ گواہ قائم کرنے کی صورت میں وصی سے قسم کھانے کی ذمہ داری ساقط ہوجائے گی۔ گواہی قائم نہ کرنے کی صورت میں یتیم کی طرف سے مال حوالے نہ کرنے کے دعوے پر وصی کے قول کا اعتبارکیاجائے گا لیکن اسے قسم بھی اٹھانی ہوگی۔ لیکن گواہی قائم کرنے کی صورت میں اسے قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن گواہی قائم کرنے کی صورت میں اسے قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ درج بالا فوائد گواہی قائم کرنے کے ضمن میں پائے جاتے ہیں، اگرچہ یتیم کا مال وصی کے ہاتھ میں امانت کے طورپر ہوتا ہے۔ اور امانتوں کی واپسی کے وقت گواہی قائم کرنا درست تو ہوتا ہے ضروری نہیں ہوتا۔ گواہی کے بغیر ولی کی بات درست تسلیم کرلینے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وصی امانت کے طورپر یتیم کے مال کی حفاظت کرنے اور اسے اپنے پاس رکھنے کا ذمہ دا رہے، یہاں تک کہ جب یتیم استحقاق کا وقت آجائے قومال اس کے حوالے کردے۔ اس طرح اس کی حیثیت ودیعت، مضاربت اور اس قسم کی دوسری امانتوں کی طرح ہوگی۔ اس بناپرضروری ہے کہ ودیعت کی واپسی کے متعلق تصدیق کی طرح اس مال کی واپسی کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے۔ اس مال کی حیثیت وہی ہے جو امانت کی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر یتیم اس کے ضائع ہوجانے کے متعلق وصی کے قول کی تصدیق کردے تو وصی پر اس کاتادان عائد نہیں ہوگا، جس طرح اگر ودیعت رکھنے والا اس کے ضیاع کی تصدیق کردے تو پھر اس پر اس کا تاوان عائد نہیں ہوگا۔ جس کے پاس یہ ودیعت رکھی گئی تھی۔ امام شافعی کا یہ قول کی یتیم نے یہ مال ولی یاوصی کے پاس بطور امانت نہیں رکھا تھا۔ اس لیے واپسی کے متعلق وصی یاولی کے قول کو درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ظاہری طورپر نہ صرف کمزور ہے بلکہ فقہ کی روح سے بعید، فاسد اورمنتقض بھی ہے، اس لیے کہ اگر ان کی مذکورہ بالاوجہ تصدیق کی نفی کے لیے علت تسلیم کرلی جائے، تو پھر اس سے یہ لازم آئے گا کہ قاضی اگر یتیم سے کہے کہ میں نے تمھارامال تمہیں واپس کردیا ہے۔ تو اس کی بات بھی درست تسلیم نہ کی جائے۔ اس لیے کہ یتیم نے قاضی کے پاس اپنامال بطور امانت نہیں رکھوایا تھا، یہی بات باپ کے حق میں بھی لازم آتی ہے کہ اگر وہ نابالغ بیٹے کے بالغ ہونے پر اس سے کہے کہ میں نے تمھارامال تمہارے حوالے کردیا ہے، تو اس کے اس دعوے کی تصدیق نہ کی جائے اس لیے کہ اس نابا (رح) لغ نے اسے اپنے مال امین نہیں بنایا تھا۔ امام شافعی پر یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ اس صورت میں ولی پر ضمان اور تاوان کے وجوب کا بھی فتوی دیں، جبکہ بالغ ہوجانے کے بعد یتیم اور ولی مال کے ضیاع کے متعلق ایک دوسرے کی تصدیق کردیں۔ اس لیے کہ ولی نے یتیم کی طرف سے مال بطور امانت رکھے جانے کے بغیر ہی اس کا مال اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ امام شافعی نے اس صورت کو دوسرے تک مال پہنچانے والے وکیل یاکارندے کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ایک تشبیہ بعید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے باوجودوصی اور وکیل کی صورتوں میں اس وجہ کی بناپر کوئی فرق نہیں ہے جو ہم نے وصی کی تصدیق کے سلسلے میں بیان کی تھی۔ اس لیے کہ اپنی ذات کو بری الذمہ قراردینے کے متعلق وکیل کے قول کی بھی تصدیق کی جائے گی۔ تاوان واجب کرنے نیزمال دوسرے تک پہنچادینے کے سلسلے میں اس کے قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اس طرح اس کا قول صرف اس صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا، جبکہ وہ اس شخص کے قول کے برعکس ہو جس تک مال پہنچانے پرا سے مامور کیا گیا تھا۔ باقی رہی اپنی ذات کی برأت تو اس میں اس کے قول کی اسی طرح تصدیق کی جائے گی جس طرح ہم نے یتیم کے بالغ ہونے پر وصی کی طرف سیا سے مال حوالے کردینے کے دعوے کی تصدیق کی تھی۔ نیز وصی کی حیثیت اس شخص کی طرحہوتی ہے جو یتیم کی طرف سے اس کی اجازت کے ساتھ تصرف کرسکتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ خریدوفروخت وغیرہ میں یتیم کی طرف سے وصی کا تصرف اس کے باپ کے تصرف کی طرح جائز ہے۔ اب اگر وصی باپ کی طرف سے مال امانت رکھائے جانے کی بناپر اس کا مال اپنے پاس روک سکتا ہے۔ اور دوسری طرف نابالغ کی طرف سے اس کے باپ کی اجازت درست ہوتی ہے توگویایہ سمجھ لیاجائے گا کہ اس نے یتیم کا مال اس کے بالغ ہونے کے بعداس کی اجازت سے اپنے پاس روک رکھا ہے اس بناپروصی اور مودع (جس کے پاس ودیعت رکھی جائے) کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔
Top