Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 54
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ١ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ١ۚ وَ لَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّكْبَرُوْا١ؕ وَ مَنْ كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ١ۚ وَ مَنْ كَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
وَابْتَلُوا : اور آزماتے رہو الْيَتٰمٰى : یتیم (جمع) حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب بَلَغُوا : وہ پہنچیں النِّكَاحَ : نکاح فَاِنْ : پھر اگر اٰنَسْتُمْ : تم پاؤ مِّنْھُمْ : ان میں رُشْدًا : صلاحیت فَادْفَعُوْٓا : تو حوالے کردو اِلَيْھِمْ : ان کے اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْھَآ : وہ کھاؤ اِسْرَافًا : ضرورت سے زیادہ وَّبِدَارًا : اور جلدی جلدی اَنْ : کہ يَّكْبَرُوْا : کہ وہ بڑے ہوجائینگے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو غَنِيًّا : غنی فَلْيَسْتَعْفِفْ : بچتا رہے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو فَقِيْرًا : حاجت مند فَلْيَاْكُلْ : تو کھائے بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق فَاِذَا : پھر جب دَفَعْتُمْ : حوالے کرو اِلَيْھِمْ : ان کے اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال فَاَشْهِدُوْا : تو گواہ کرلو عَلَيْھِمْ : ان پر وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ حَسِيْبًا : حساب لینے والا
(اہل جنت) ایسے بچھونوں پر جن کے استرا طلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ اور دونوں باغوں کے میوے قریب (جھک رہے) ہیں
متکئین علی فرش بطائنھا من استبرق وجنا الجنتین دان وہ لوگ تکیے لگائے ایسے فرشوں پر بیٹھے ہوں گے جن کے استر دبیزریشم کے ہوں گے اور ان دونوں باغوں کا پھل بہت نزدیک ہوگا۔ اَسْتَبْرَقٍ : دبیز ریشمی کپڑا ‘ ابون جریر ‘ ابن ابی حاتم اور بیہقی کا بیان ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : تم کو کپڑے کے استر کی اطلاع دی گئی ہے (جب استر ایسا ہوگا) تو ابرے کی کیا کیفیت ہوگی۔ بغوی نے بھی یہ اثر حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے اسی طرح نقل کیا ہے ‘ ابو نعیم نے سعید بن جبیر کا قول بیان کیا ہے کہ ابرہ نور جامد کا ہوگا (یعنی مجسم نور کا) بغوی نے سعید بن جبیر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ استبرق کا جب استر ہوگا تو ابرے کی کیا کیفیت ہوگی (ابرے کی کیفیت نہ معلوم ہونا ایسا ہی ہے) جس طرح اللہ نے فرمایا ہے : فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : استر کا ذکر کیا گیا ابرے کا تذکرہ نہیں کیا گیا کیونکہ رُوئے زمین پر کوئی اس کے ابرے سے واقف نہیں۔ جَنَا : اسم ہے بمعنی اسم مفعول یعنی درختوں سے چنے جانے اور توڑے جانے والے پھل یعنی جنت کے درختوں سے پھلوں کا توڑنا دشوار نہ ہوگا (کہ اوپر چڑھنا پڑے بلکہ) آسان ہوگا۔ پھل ہاتھ کی رسائی سے اونچے نہ ہوں گے۔ سعید بن منصور اور ہناد نے بیان کیا کہ آیت : وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُھَا تَذْلِیْلاً کی تشریح میں حضرت براء بن عازب نے فرمایا : اہل جنت ‘ جنت کے پھل کھڑے ‘ بیٹھے ‘ لیٹے (ہر حال میں توڑ ‘ توڑ کر) کھائیں گے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول بیان کیا ہے کہ درخت جنتی کے اتنا قریب آجائے گا کہ اللہ کا دوست جس طرح چاہے گا اس کے پھل توڑ لے گا ‘ کھڑے بیٹھے (جس طرح چاہے گا) ۔
Top